Jump to content

تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا

From Wikisource
تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا
by بیخود دہلوی
318844تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیابیخود دہلوی

تمہیں ہم چاہتے تو ہیں مگر کیا
محبت کیا محبت کا اثر کیا

وفا کا نام تو پیچھے لیا ہے
کہا تھا تم نے اس سے پیشتر کیا

ہزاروں بار بگڑے رات بھر میں
نبھے گی تم سے اپنی عمر بھر کیا

نظر ملتی نہیں اٹھتی نہیں آنکھ
کوئی پوچھے کہ ہے مد نظر کیا

شکایت سن کے وہ بیخودؔ سے بولے
تجھے اے بے خبر میری خبر کیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.