تمہیں شب وعدہ درد سر تھا یہ سب ہیں بے اعتبار باتیں
Appearance
تمہیں شب وعدہ درد سر تھا یہ سب ہیں بے اعتبار باتیں
یقیں نہ آئے گا ہم کو ہرگز بناؤ گو تم ہزار باتیں
نہیں جو منظور تم کو ملنا تو کیوں نہیں صاف صاف کہتے
سمجھ میں آتی نہیں ہمارے کرو نہ تم پیچ دار باتیں
اٹھی ہے کالی گھٹا فلک پر ہے ساقیٔ ماہ وش بغل میں
بہک بہک کر ہیں کیا مزے سے بنا رہے بادہ خوار باتیں
ہوئیں ہیں جس دن سے چار آنکھیں تمہاری اے یار مشرقیؔ سے
یہی تمنا ہے بیٹھ کر تم سنو ہماری دو چار باتیں
ہے آئی مشکل سے وصل کی شب کہ جس کی مدت سے تھی تمنا
جو میں نے شکوے کیے تھے اس کی کرو نہ تم بار بار باتیں
یہ کیا محل ہے کہ آج کرتے ہو شیخ جی ذکر زہد و تقویٰ
یہی ہے واجب کہ ہوں گل و مل کی وقت فصل بہار باتیں
جو آج آئے ہو میرے گھر پر تو ہے یہ ذکر رقیب کیسا
نہ کیجیے مشرقیؔ سے صاحب کہ ہیں یہ سب ناگوار باتیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |