تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
Appearance
تمہارے گھر سے پس مرگ کس کے گھر جاتا
بتاؤ آپ سے جاتا تو میں کدھر جاتا
نہیں ہے کوئی بھی ساتھی تمہارے مجرم کا
پکار اٹھتے سب اعضا جو میں مکر جاتا
اجل کے بھیس میں میری تلاش کر لیتے
وہ آپ ڈھونڈ کے خود لاتے میں جدھر جاتا
تکلفات محبت نے قید کر رکھا
ہر ایک سمت تھی دیوار میں کدھر جاتا
کبھی نہ سامنے آتا ذلیل کہلا کر
جو وہ بلاتے تو میں اپنے نام پر جاتا
بھلا چھپائے سے چھپتا لہو شہیدوں کا
یہ خون بول ہی اٹھتا جو تو مکر جاتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |