تمدن عرب پر ایک کھلی چٹھی
میرے پیارے ریاض! گورکھپور کے ایک دوست کے خط میں میں نے افسوس کے ساتھ دیکھا کہ ریاض الاخبار میں ’’تمدن عرب‘‘ کی نسبت جو نوٹ لکھا گیا تھا، اس سے وہاں کے لوگ بدظن ہو گئے ہیں ۔ وہ استصواباً مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ’’ریاض کا ریمارک کہاں تک درست ہے؟‘‘
مجھ کو نہایت افسوس ہے کہ آپ کا نوٹ اس وقت میرے پیش نظر نہیں ہے لیکن جہاں تک یاد آتا ہے آپ نے کسی اخبار کے حوالہ سے جو لکھا تھا، اس کی تفصیل غالباً یہ ہے۔
(۱) شمس العلماء مسٹر سید علی بلگرامی نے تمدن عرب میں حیدرآباد کی پالی ٹیکس پر حملہ کیا ہے اور یہ امر اس تعلق کے لحاظ سے جو ممدوح کو ریاست سے ہے، کسی قدر ناموزوں تھا۔
(۲) اسی ضمن میں ترجمہ یا ترجمہ کی زبان کی بھی شکایت تھی جو آپ نے کسی ہم عصر کے حوالہ سے لکھی تھی۔
تمدن عرب کے صفحے میرے سامنے ہیں اور میں حیرت میں ہوں کہ باوصف کوشش، الزام اول کا کوئی ماخذ اس وقت تک نہ مل سکا، مجھے خوف ہے آپ نے جو کچھ لکھا، محض ایمان بالغیب کی حیثیت سے تھا، کیونکہ باوصف اس اعزاز کے جس کے آپ مستحق ہیں، میں مجبوراً اس خیال کی طرف مائل ہوں کہ آپ نے بہ نفس نفیس کتاب کے کسی حصہ کے دیکھنے کی تکلیف نہ اٹھائی ہوگی۔ اس لئے آپ کی طرف سے کسی رائے کا اظہار محض کسی غیروقیع ہم عصر کی لغزش خیال کی پیروی تھی جو آپ کے لئے ’’ہوئے بس است‘‘ سے زیادہ گئی گذری ثابت ہوئی۔
جس امر کا الزامی حیثیت سے ابتداً کسی پرچہ نے نوٹس لیا اور بہ اتباع سنت آٖ پ نے بھی اظہار خیال کی ٹھہرادی، وہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ مترجم نے دیباچہ میں جہاں ترجمہ کی مشکلات کا ذکر کیا ہے، کسی فروگذاشت کے لئے اس بناء پر چشم پوشی کی خواہش کی ہے کہ ایک دیسی ریاست کے ملازوں کے لئے جہاں آئے دن کی دربار داریوں اور انقلابات سے فرصت نہیں ملتی، اپنے فرائض منصبی کے علاوہ بہت مشکل ہے کہ وہ اتنی بڑی ضخیم تالیف کے بار سے تھوڑی سی مدت میں بوجہ احسن سبکدوش ہو سکے، یہ ہے اصلیت اس الزام کی جس کو میں زیادہ سے زیادہ ’’مؤلفانہ گریز‘‘ کہوں گا۔
زبان کی نسبت آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ اردو اس ابتدائی حالت میں نہیں ہے جب شعراء کا ایک خاص فرقہ (جن کو میں نہیں جانتا ناظم کہہ سکتا ہوں یا نہیں) جس کے دل و دماغ کے نتائج انتہائی پرواز فکر کے ساتھ بھی صرف دو مصرعوں کی صنعت تک محدود ہوتے تھے، خود کو اردو کا مربی سمجھتا تھا۔ ایک شکمی زبان کے لئے جو کوئی مستقل حیثیت نہ رکھتی ہو، جس کا رسم خط آج تک ٹھیک نہ ہو، بدنصیبی سے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ زبان کے ساتھ خط کو کوئی مناسبت طبعی نہیں ہے، یعنی زبان میں فطرتاً جو اصوات ہیں، ان کو بہ بخوبی ادا نہیں کر سکتا۔
بہ الفاظ دیگر ہر لکھا ہوا لفظ ایک خاص خیال کی تصویر ہے جس کی آواز کو اس کے اجزائے ترکیبی سے چنداں تعلق نہیں ہے۔ یعنی حرکات بالحروف کی جگہ صرف چند اختراعی علامات کی وجہ سے جو سمیاطبقی زبان کے خصائص میں سے ہے، ہم اردو کو جوآرین خاندان سے ہے، صحیح نہیں پڑھ سکتے اور اس لئے لازم سا ہے کہ کسی لفظ کے پڑھنے سے پہلے ہم اس کے مفہوم سے واقف ہوں ورنہ بے علمی میں صحیح تلفظ ناممکن ہوگا۔ غرض یہ کہ ایسی زبان کے لئے جس کا املا تک صحیح نہ ہو، متقدمین کی کوششیں کسی حیثیت سے ہوں، ہر طرح لائق ادب ہیں، لیکن زمانہ کا ہر قدم آگے ہے، ہم کو نری تک بندیوں کے سوا کچھ اور بھی کرنا ہوگا۔
میرا خیال ہے کسی مفتوح قوم کے لئے اپنی قومی زبان کو ترقی دینا صرف اس اصول پر ممکن ہے کہ زمانہ کی روز افرزوں ترقی کے لحاظ سے اس میں وہ وسعت پیدا کی جائے جو قوم فاتح کے لٹریچر اور اس کی مختلف النوع شاخوں سے مل سکتی ہے، یعنی زبان کو علوم نظری اور فلسفہ کے اکثر نہیں تو بعض اجزاء سے مانوس کیا جائے، اور گویہ ممکن نہیں کہ ابتداً علم کی اکثر شاخ میں متوازی ترقی ممکن ہو تاہم بعض اجزاء جن سے قوم کے اکثر افراد کو فطرتاً یا اکتساباً مناسبت ہو، اس قابل ہیں کہ وہ ہمارے ملکی لٹریچر میں جذب کرلئے جائیں، جس سے اردو زبان بھی علمی حیثیت سے یورپ کی زبانوں سے ہم ردیف ہو۔
اس لئے ہماری کوششوں کا رجحان طبعی جہاں ہم علوم جدیدہ کو اصلی زبانوں سے حاصل کر سکتے ہیں، ملک کے عام فوائد کے لحاظ سے یہ بھی ہونا چاہئے کہ یورپ کے فلسفہ کی کسی شاخ کو جو ترتیباً ہمارے لئے موزوں اور مفید ہو، اپنی زبان میں وقتاً فوقتاً منتقل کرتے رہیں لیکن میں پہلے دیکھوں گا آیا ہم میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ ترجمہ کی حیثیت سے ہماری پیش دستیاں طفلانہ کوششوں سے کچھ زیادہ وقیع ہوں۔
ترجمہ، اگر میں غلطی نہیں کرتا تو بعض حالتوں میں کسی مستقل تصنیف سے زیادہ مشکل ہے، جس کی غایت اصلی یہ ہوتی ہے کہ مصنف نے اپنی زبان میں جس طرح اظہار خیال کیا ہے، مترجم بجنسہ ان خیالات کے سایہ میں اپنے الفاظ سے کام لے لیکن زور بیان ہاتھ سے نہ جائے۔ اس پابندی اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ آپ دیکھیں گے کہ ہر زبان کے خصائص نوعی مختلف ہیں، جس طرح ایک روزمرہ یا محاورہ، استعارہ یا تلمیح میں ایک خیال کو ادا کر سکتے ہیں، یہ ضرور نہیں کہ دوسری زبان میں بھی اسی قبیل کے الفاظ موجود ہوں ۔ اس سے بھی زیادہ مشکل اصطلاحات کی ہے۔
صرف ایشیائی یا یوروپین زبانوں سے اگر ایک کا ترجمہ دوسری زبان میں ہو تو بہتیری اصطلاحات بجنسہ یا کسی قدر تصرف کے ساتھ کارآمد ہوسکتی ہیں اور اکثر ایسی مشترک خصوصیات ملیں گی، جن سے ترجمہ میں نہایت آسانی ہوگی، لیکن یورپ کے فلسفہ کو اگر ہم ایشیائی زبان میں لینا چاہتے ہیں تو ہماری دشواریوں کی کوئی حد نہیں رہتی۔ خاص کر اردو جو بجائے خود مستقل زبان نہیں ہے، تاوقتیکہ عربی مصطلحات سے مدد نہ لی جائے، علمی حیثیت سے کسی ترجمہ کی کفیل نہیں ہو سکتی، یعنی ایک مترجم کی لئے اس کی ضرورت ہوگی کہ جہاں وہ مغربی زبانوں اور علوم جدیدہ میں کافی دستگاہ رکھتا ہے، صرف اردو کا ادیب نہ ہو، بلکہ اس کے اصلی ماخذ یعنی مشرقی علوم بالتخصیص سنسکرت اور عربی کا پورا علم ہو۔ اس کے ساتھ ہی علم اللسان کی موشگافیوں سے پورا مذاق رکھتا ہو۔ مختلف زبانوں میں اصطلاحات یا الفاظ مرادف کے اشتقاق، ان کے استخراج اور خواص طبعی سے واقف ہو۔ اس جامعیت کے ساتھ میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں، ملک کے علم دوست حضرات کے لئے کسی علمی ترجمہ کاکفیل ہندوستان میں یہ استحقاق سید علی بلگرامی کے سوا کون ہوسکتا ہے جو یورپ وایشیا کی متعدد السنہ کے اکثر خاندانوں کا زبردست فاضل ہے۔
ان مسلمات کے بعد جو تمہیداً بیان کئے گئے ہیں، میں تمدن عرب کو پیش کرنا چاہتا ہوں جو میرے خیال میں تاریخی فلسفہ کا بہترین نمونہ ہے اور میں اپنی اس رائے میں غالباً منفرد نہیں ہوں کہ ترجمہ کے لحاظ سے لائق سے لائق شخص کا انتہائی تخیل جو کچھ ہو سکتا ہے، کتاب اس کی پوری تصویر مرئی ہے۔ افسوس ہے کہ میں اپنی مصروفیت سے اس قدر وقت نہیں پاتا کہ اپنے دعویٰ کی دلیل میں اقتباسات کو پیش کر سکوں، یہ فرض ریویو نگار کا ہے جس کو غالباً مولوی وحید الدین سلیم معارف میں تفصیل کے ساتھ ادا کر چکے ہیں۔ میری غایت صرف یہ ہوگی کہ واقعی اوصاف کے ساتھ اس تالیف کی تقریب پبلک میں اس حیثیت سے کی جائے جس سے کسی غلط فہمی کا، اگر قبل از وقت پیدا ہو تو استیصال ممکن ہو۔
بہرحال میرا دعویٰ یہ ہے کہ ترجمہ شستہ رفتہ، صاف اور اس قدر لطیف ہے کہ مستقل کتاب کا دھوکا ہوتا ہے یعنی اصل مصنف کے خیالات یا مسائل تاریخی اس طرح مترجم کے دماغ میں پیوست معلوم ہوتے ہیں کہ وہ مجدداً اپنی زبان اور اپنے الفاظ میں ان کو بے ساختہ ادا کرتا ہے اور یہی وہ امتیازی حیثیت ہے جو لائق مترجم کو مؤلفین کی عام رفتار سے بہت آگے ڈال دیتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ ساری کتاب میں کہیں سے پیچیدگی نہیں، تعقید نہیں۔ نازک سے نازک فلسفیانہ بحثیں، معمولی روزمرہ جہاں تک ساتھ دے سکتا تھا، اس برجستگی کے ساتھ اردو قالب میں ڈھالی گئی ہیں کہ دماغ پر زور ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے والے کو کچھ اہتمام کرنا پڑا۔
غرض دقیق سے دقیق مطالب بھی اجنبیت یا غربت الفاظ کے تابع نہیں ہیں ۔ مختصر یہ کہ تاریخی لٹریچر کے لئے جس اسٹائل یعنی خاص طرز تحریر کی ضرورت ہے، وہ ضرورت کامل احتیاط کے ساتھ پوری کی گئی ہے اور سخت چھان بین کے بعد بھی کوئی رکیک امر ایسا نہیں ملتا جو متانت تالیف سے گرا ہوا ہو۔ میں نہیں جانتا اس سے زیادہ ہماری توقعات کیا ہو سکتی ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ میرے مخاطب صحیح وہ لوگ نہیں ہیں جو تمدن عرب میں وہ زبان ڈھونڈتے ہیں جو شوقؔ یا قلقؔ کی مثنویوں میں لکھی گئی ہے۔ یہ جاہلانہ گروہ سرے سے لائق التفات ہی نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ تاریخی فلسفہ کے لئے جس طرز تحریر کی ضرورت ہے وہ خود ایک مستقل اسٹائل ہے جس کی اولیت کا فخر شبلیؔ اور سیدؔ علی کے حصہ میں رہےگا۔ جو حضرات اپنی لکیر پٹیے جاتے ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ’’عمارت کی ترمیم ہوگی یا عمارت خود نہ ہوگی۔‘‘
مختصر یہ کہ میری رائے کا میلان طبعی یہ ہے کہ اردو زبان میں ایک قیمتی اضافہ کی حیثیت سے یہ کتاب مفروضہ نقائص کے ساتھ بھی اس لائق ہے کہ انیسویں صدی کے معظمات الامور میں محسوب ہو، بالتخصیص نفس مضمون کے لحاظ سے جو نہایت اہم اور قابل غور ہے لیکن کم سے کم نصف صدی کے بعد شاید یہ مذاق پیدا ہوگا کہ ہم اس قسم کی تالیف سے مانوس ہو سکیں، جو میرے خیال میں بہ ہیئت مجموعی اس قدر دقت نظر چاہتی ہے کہ میں مایوس ہوں، آیا ایک کم سواد شخص جس کا سرمایۂ ناز صرف اردو کی زبان دانی ہو، اس کی نگاہ ان فلسفیانہ نکات تک پہونچ سکتی ہے جو ترجمہ کے اجزائے کیمیائی ہیں۔
ان جزئیات کی تفصیل کے سلسلہ میں غالباً اس لائق ہوگیا ہوں کہ اختلافی مسئلہ میں ایک کافی حد تک آپ ہم سے اتفاق رائے کے لئے آمادہ ہوجائیں یعنی جس طرح ترجمہ کی ذمہ داریاں نہایت سخت ہیں، آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف سیدؔعلی ہی اپنے عالمانہ اوصاف کے ساتھ ایسے ضخیم ترجمہ کا کفیل ہو سکتا تھا اور اس لئے یہ سخت ناشکری ہوگی کہ اس کی قابل قدر کوششوں کا فیاضانہ اعتراف نہ کیا جائے۔
میرا خیال ہے کہ آپ نے نہایت بے پروائی سے ایک غلط رائے کی پیروی، لائق مترجم کی حق تلفی کے سوا یہ ایک شرمناک لغزش تھی کہ ایک ذمہ دار ایڈیٹر کا قلم ذاتی تحقیق سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتا، جس سے پبلک کو غالباً اخلاقی نقصان پہونچنے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ میں نے آپ کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے کسی قدر سختی سے آپ کو ٹوکا ہے، مگر یہ پیرایہ خود کے اعزاز کی تائید میں ہے جس کے لئے میں امید کرتا ہوں کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔
میں نے قصداً ایسے امور نظر انداز کر دیے ہیں جن سے انسانی تصنیف خالی نہیں ہوسکتی، کسی آئندہ موقع پر ’’تصویر کا رخ تیرگوں‘‘ بھی دکھلاؤں گا۔ سردست میں نے صرف کتاب کی تقریب پر قناعت کی ہے کیونکہ میرا خیال ہے، بہ ہیئت مجموعی یہ ترجمہ ایک نہایت عظیم الشان کوشش ہے۔
اگر آپ پسند فرمائیں گے تو میں اپنی دوسری چٹھی میں تاریخی فلسفہ، اس کے موضوع اور اس کی ضرورت سے بحث کروں گا اور دکھاؤں گا کہ یورپ کے تمام سرمایۂ تاریخی میں جو اقوام دنیا سے متعلق ہیں، اصل تصنیف (یعنی ماخذ تمدن عرب) کس پایہ کی ہے جس سے میرے احباب اندازہ کرسکیں گے کہ تاریخ عالم کے سلسلہ میں مسلمان فلسفیانہ اور تمدنی حیثیت سے نسبتاً کس درجہ پر ہیں ۔ ایشیا کے لئے یہ بالکل ایک جدید بحث ہے، جس کے لئے ہم کو یورپ کا بہت ممنون ہونا چاہئے۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |