Jump to content

تلمیحات

From Wikisource
319494تلمیحاتوحید الدین سلیم

الفاظ کیا ہیں؟

وہ آوازیں ہیں جن سے ہم اپنے خیالات ظاہر کرتے ہیں، یا ان کے ذریعہ سے اشیا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ دنیا کی جن وحشی قوموں میں الفاظ نہیں ہیں وہ اپنے خیالات یا اشیا کے بتانے کے لیے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے اشارہ کرتے ہیں۔ اگر اظہار خیالات کے وقت تم ان کو دیکھو، تو سخت حیرت ہوگی کہ وہ کیسی کیسی عجیب حرکتیں کرتے ہیں اور ان کو اپنے دل کی بات بتانے میں کتنی دقتوں کا سامنا ہوتا ہے۔ جب عقل انسانی نے ترقی کی اور الفاظ ایجاد ہوئے، تو یہ دقتیں دور ہو گئیں۔ ایک خاص آواز ایک خاص خیال یا چیز یا کام کی طرف اشارہ ہونے لگا اور ہر شخص اس اشارہ کو سمجھنے لگا۔ ترقی انسانی کا یہ دور نہایت اہم تھا، جس میں زبان کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

تلمیح اور اصطلاح سے کیا مراد ہے؟

زبان کے ابتدائی دور میں چھوٹے چھوٹے سادہ خیالات اور معمولی چیزوں کے بتانے کے لیے الفاظ بنائے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ انسان نے ترقی کا قدم اور آگے بڑھایا۔ لمبے لمبے قصوں اور واقعات و حالات کی طرف خاص خاص لفظوں کے ذریعہ سے اشارے ہونے لگے۔ جہاں وہ الفاظ زبان پر آئے فوراً قصے یا واقعے آنکھوں کے سامنے آ گئے جن کی طرف وہ اشارہ کرتے تھے۔ ایسا ہر اشارہ تلمیح کہلاتا ہے۔ پھر علمی مسئلوں یا اصولوں کے بتانے کے لیے بھی خاص خاص الفاظ معین کیے گئے۔ ان میں سے ہر لفظ اصطلاح کہلاتا ہے۔دنیا کی جو زبانیں ترقی یافتہ ہیں، ان میں تلمیحیں اور اصطلاحیں کثرت سے ہیں۔ تلمیحوں اور اصطلاحوں کی فرہنگیں الگ الگ تیار کی گئی ہیں، جن میں ہر تلمیح اور ہر اصطلاح کی تشریح کی گئی ہے۔ طویل قصوں اور کہانیوں اور علمی مسئلوں اور اصولوں کے بار بار بیان کرنے میں جو وقت ضائع کرنا پڑتا ہے، اس سے ان تلمیحوں اور اصطلاحوں نے بچادیا ہے۔جو حضرات اصطلاحیں وضع کرنے کے وقت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر اصطلاحی لفظ سے پورا مفہوم ادا ہونا چاہئے، وہ سخت غلطی پر ہیں۔ دنیا میں کوئی اصطلاح ایسی نہیں ہے جس سے پورا مفہوم ادا ہوتا ہو اور وہ پورا علمی مسئلہ یا اصول سمجھ میں آتا ہو جس کے لیے وہ اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ یہ حضرات ترقی زبان کے رستے سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں اور اس منزل کی طرف پھر جانا چاہتے، جہاں پورے علمی مسئلے یا اصول کو بار بار دہرانے کی ضرورت پیش آتی تھی اور ہر دفعہ ایسا کرنے میں بے انتہا وقت ضائع کرنا پڑتا تھا۔ تضیع اوقات ہی سے بچنے کے لیے یہ اشارے ایجاد کیے گئے ہیں، جن کا نام اصطلاحات ہے اور یہ اس وقت کی ایجاد ہے جب کہ انسانی عقل کی ترقی کے ساتھ زبان بھی ترقی کی بلندی پر پہنچ گئی تھی۔جو حال اصطلاحوں کا ہے وہی تلمیحوں کا۔ طوفانِ نوح کہتے ہی وہ تمام طوفانی واقعات آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں، جو حضرت نوح کے زمانہ میں پیش آئے تھے۔ صور اسرافیل کا لفظ زبان پر لاتے ہی وہ تمام ہیبت انگیز واقعات دل میں پھرنے لگتے ہیں، جو آغازِ قیامت کے وقت پیش آئیں گے۔ ان میں سے پہلا اشارہ گزرے ہوئے واقعات کے ایک خوفناک منظر کو یاد دلاتا ہے۔ دوسرا اشارہ آنے والے واقعات کے ایک پرہول نظارہ کو آنکھوں کے سامنے لاتا ہے۔ ان اشاروں کے لیے جو الفاظ مقرر کیے گئے ہیں، وہ کسی طرح گزشتہ اور آئندہ واقعات کا پورا مفہوم ادا نہیں کرتے۔بلاغت کے معنی یہ ہیں کہ کم سے کم الفاظ سے زیادہ سے زیادہ معنی سمجھے جائیں۔ یہ بات جس قدر تلمیحات میں پائی جاتی ہے، الفاظ کی دیگر اقسام میں نہیں پائی جاتی۔ جس زبان میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل نہیں ہیں، وہ بلاغت کے درجے سے گری ہوئی ہے۔ ایسی زبانوں میں بولنے والوں، لکھنے والوں اور شعر کہنے والوں کو اپنے مطالب کے ادا کرنے میں بہت زیادہ وقت ضائع کرنا پڑتا ہے۔ سننے والے ایک ہی واقعہ کو بار بار سننے سے اکتا جاتے ہیں۔ اگر وہ واقعہ ایک مختصر لفظ سے تعبیر کیا جائے، تو اس کا دہرانا اجیرن نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص لطف محسوس ہوتا ہے۔ ضمیر اسم کے قائم مقام ہوتی ہے۔ وہ اسی لیے وضع کی گئی ہے کہ بار بار کسی اسم کو دہرانا نہ پڑے اور سننے والوں کو ناگوار نہ ہو۔ تلمیحات کو اور تلمیحات کے ساتھ اصطلاحات کواسی قدرتی ضرورت پر مبنی سمجھو۔

تلمیحات سے ہم کیا کچھ جان سکتے ہیں؟

اگر کسی زبان کی تلمیحات کا بغور مطالعہ کیا جائے، تو ان سے اس زبان کے بولنے والوں کے گزشتہ واقعات اور تاریخ پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کے مذہبی عقائد، ان کے اوہام، ان کے معاشرتی حالات اور ان کی رسوم اور مشاغل معلوم ہوتے ہیں۔ کسی قوم نے جس طرح تمدنی منزلیں رفتہ رفتہ طے کی ہیں اور جو تبدیلیاں اس کی زندگی میں یکے بعد دیگرے ہوتی رہی ہیں، اس کی زبان کی تلمیحات کے مطالعہ سے سب نظر کے سامنے آجاتی ہیں۔ مثلاً اگر آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ جرمنوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں کے آباؤ اجداد کن اوہام و خرافات پر ایمان رکھتے تھے، پھر ان کے مذہبی خیالات میں کیا تبدیلی ہوئی، کون سے اہم تاریخی واقعات انہیں پیش آئے، ان کے اسلاف میں سے کون کون اشخاص مشہور ہوئے اور وہ کن کن حالات و اوصاف سے متصف تھے، تو آپ جرمن، فرانسیسی یا انگریزی زبان کی کسی ایسی فرہنگ کو اٹھالیجیے جس میں اس زبان کی تلمیحات درج کی گئی ہوں۔ ایک سرسری نظر اس فرہنگ پر ڈالنے سے آپ پر سب کچھ منکشف ہو جائےگا۔فرضی قصوں میں جن اشخاص کے خاص حالات اور خاص صفات کی تصویر کھینچی گئی ہے، آج کل ان سے بھی تلمیح کا کام لیا جاتا ہے۔ جب کوئی انشا پرداز شاعر کسی ایسے شاعر کا ذکر اپنی انشاء یا نظم میں کرتا ہے جس کے صفات اور حالات قصے کے کسی مشہور شخص سے ملتے جلتے ہوں، تو وہ اپنے شخص کو اس سے تشبیہ دینا کافی سمجھتا ہے۔ نظم و انشاء کے پڑھنے والے اس تشبیہ سے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ شخص مذکور میں کون سی صفات اور کون سے حالات پائے جاتے ہیں۔ فرصی قصوں کی تلمیحات سے اس قوم کے انشاء پردازوں کی قوتِ تخیل کا سراغ ملتا ہے، جس کی زبان میں اس قسم کی تلمیحوں سے کام لیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی، انسانی اخلاق اور انسانی معاشرت کے اس قدر پہلو ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ہر پہلو کے لیے ایک نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ہم جانتے ہیں کہ فلاں انسان اس قسم کی زندگی بسر کرتا ہے، فلاں آدمی میں اس قسم کے اخلاق موجود ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہماری گزشتہ تاریخ میں بھی کوئی نمونہ ایسا موجود ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس خاص نمونہ کے انسان کی صحیح تصویر قصے کے پیرایہ میں کھینچیں۔ پھر دیگر مصنفین جب اسی نمونہ کے اشخاص کا ذکر کریں تو اس قصے کے نمونے کو تلمیح بناکر اس سے کام لیں۔ شائستہ اور ترقی یافتہ قوموں کے انشاء پردازوں نے اسی ضرورت سے خاص خاص طریقہ زندگی اور خاص خاص اخلاق کے انسانوں کی تصویریں قصے کے پیرایے میں کھینچی ہیں اور قوت تخیل سے کام لے کر مکمل نمونے خاص خاص اخلاق اور خاص خاص صفات و حالات کے تیار کر دیے ہیں، پھر بعد کے مصنفین نے ان نمونوں سے تلمیحات کا کام لیا ہے۔امریکہ کا مشہور انشاء پرداز آسبورن لکھتا ہے، ’’تلمیحات کیا ہیں؟ ہماری قوم کے قدموں کے نشان ہیں جن پر پیچھے ہٹ کر ہم اپنے باپ دادا کے خیالات، مزعومات، اوہام، رسم و رواج اور واقعات وحالات کے سراغ لگا سکتے ہیں۔‘‘ فرانس کا نامور مضمون نگار شوئی کران تحریر کرتا ہے کہ ’’جب میں کسی فصیح البیان شخص کی زبان سے انقلاب فرانس کا لفظ سنتا ہوں تو میرا دل ان وحشت خیز اور دہشت انگیز حالات سے بھر جاتا ہے، جن کے سبب دریائے سین کی وادیاں خون سے لبریز ہو چکی ہیں مگر اس کے بعد فوراً میرے خیال کا رخ اس شاندار جمہوریت کی طرف پھر جاتا ہے جس کی بنیاد ان خون سے بھری وادیوں میں اٹھائی گئی ہے۔‘‘ایک گروہ جو تلمیحات کو ناپسند کرتا ہے

غرض کہ تلمیحات شائستہ قوموں کی ادبیات کی جان ہیں۔ ان معنی خیز اشاروں سے وہ اپنی شاعری اور ادب میں بلاغت کی روح پھونکتی ہیں مگر دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے تئیں تلمیحات کی الجھن میں ڈالنا پسند نہیں کرتے اور باوجود اس قدر فوائد کے ان سے گریز کرتے ہیں۔ انگریزی زبان کا ایک فرہنگ نگار، جس نے تلمیحات کی ایک بسیط فرہنگ لکھی ہے، ایسے لوگوں کے خیالات کا ان الفاظ میں ذکر کرتا ہے،’’جن واقعات پر چوبیس گھنٹے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، ان کا علم حاصل کرنے سے آج کل کے بعض نوجوان گریز کرتے ہیں۔ وہ دیرینہ حالات کو تقویم پارینہ سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ وہ بس انہیں باتوں کو سننا چاہتے ہیں جو آج کل ان کے گردوپیش سنائی دیتی ہیں۔ تلمیحات جو ہماری قوم کے گزشتہ حالات وخیالات کے اشارے ہیں جب ان کی نظر سے گزرتی ہیں، تو وہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے حافظے میں وہ حالات و خیالات موجود نہیں ہیں۔ اس غرض سے کہ ان کے حافظے پر بار نہ پڑے، تلمیحات کی فرہنگیں مرتب کی گئی ہیں۔‘‘جب یورپ اور امریکہ میں تلمیحوں سے ناک بھوں چڑھانے والے موجود ہیں تو عجب نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی اس خیال کے بزرگوار موجود ہوں۔ اصطلاحات کے متعلق تو ایسا خیال رکھنے والے حضرات ہماری نظر کے سامنے ہیں، جن سے خود ہمیں شرف نیاز حاصل ہے۔ یہ حضرات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کوئی اصطلاح نہ بنائی جائے۔ ہر اصطلاح کا مطلب جملوں میں ادا کیا جائے۔ اِن کو اس بات کی مطلق پروا نہیں کہ اصطلاح کا مفہوم جملوں میں ادا کرنے سے کاغذ اور وقت کا کس قدر صرفہ ہوتا ہے اور ایک طویل مطلب کو بار بار دہرانا پڑھنے والوں کو کس قدر ناگوار گزرتا ہے۔بلاشبہ کوئی رائے ایسی نہیں ہے، جس کا ایک نہ ایک ماننے والا دنیا میں موجود نہ ہو اور کوئی خیال ایسا نہیں، جو کسی نہ کسی انسان کے دل میں نہ گزرتا ہو۔ یہی حال تلمیح اور اصطلاح سے نفرت رکھنے کا ہے، مگر جو خیال تلمیحات و اصطلاحات کو ناپسند کرنے والوں کا ہے، اگر وہ عام طور سے سب کے دلوں میں موج زن ہوتا تو آج دنیا کی شائستہ اور ترقی یافتہ زبانوں میں ادبیات کے لطیف ذخیرے اور علمی معلومات کے وسیع خزانے موجود نہ ہوتے۔ ہرزبان کا ادب بار بار کی دہرائی ہوئی خشک اور بے مزہ باتوں کا ایک طویل انبار ہوتا۔ کسی قوم کو اپنے علم اور اپنے ادب پر فخر و ناز کرنے کا موقع نہ ملتا۔

تلمیحات کے ماخذ

تلمیحیں کہاں سے لی جاتی ہیں۔ اگر آپ اس پر غور کریں تو حسب ذیل ماخذ معلوم ہوں گے۔(۱) مائتھالوجی (دیومالا) یعنی دیوتاؤں کی قصے کہانیاں۔ (۲) مذہبی قصے۔ مذہبی عقائد کی کتابیں۔ (۳) تاریخی واقعات(۴) عام فرضی قصے اور افسانے۔ (۵) شعرا کی نظمیں، خاص کردہ نظمیں جن میں قصے بیان کیے گئے ہیں۔ (۶) ڈراما یاناٹک کی کتابیں۔چنانچہ انگریزی زبان اور انگریزی ادب میں جو تلمیحات مستعمل ہیں ان کے ماخذوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حسب ذیل ذخیروں سے حاصل کی گئی ہیں: کتاب مقدس (توریت و انجیل وغیرہ کا مجموعہ) یہودیوں کی مذہبی کتاب تاملود۔ روم ویونان کے دیوتاؤں کے قصے۔ شیکسپیئر کے قصے۔ ملٹن کی پیراڈائیزلاسٹ (بہشت گم شدہ) گلیور کا سفرنامہ۔ مارکوپولو کا سفرنامہ۔ ڈان کؤ مکزٹ بینین کی پلگرمس پر اگرس وغیرہ۔ شیریڈن، ڈکنس، ڈرائڈن، مولیر، سروالٹر اسکاٹ، کوپر وغیرہ کے افسانے۔ کولرج، ورجل، ہومر، ملٹن، پوپ، ورڈس ورتھ، گولڈ سمتھ وغیرہ کی نظمیں۔ تاریخ انگلستان۔ تاریخ یورپ۔اس کے علاوہ بعض مشہور نظموں یا مضمونوں کی سرخیاں بھی تلمیح کے طور پر مستعمل ہیں۔ مثلاً کتابوں کی جنگ۔ مینڈکوں اور چوہوں کی جنگ۔ شاعروں کی جنگ۔ مختلف بادشاہوں، شاعروں، حکیموں اور مختلف مقامات کے وصفی نام بھی تلمیح کے طور پر لائے جاتے ہیں، جو شاعروں اور انشاپردازوں نے وضع کیے ہیں۔ مثلاً شمال کا سکندر، (سویڈین کے بادشاہ چارلس دوم کا لقب ہے) ایتھنز کی شہد کی مکھی (افلاطون) امریکہ کا ایتھنز (بوسٹن) سیک آف دی ایسٹ یعنی مریض مشرق (اس سے ٹرکی مراد ہے) بعض فرانسیسی اور لاطینی جملے بھی بطور تلمیح مستعمل ہیں۔ ان سب کے علاوہ الف لیلیٰ جومشرق میں تصنیف ہوئی ایک بڑاماخذ اسنہ یورپ کی تلمیحات کا ہے۔ یورپ کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس میں اس عجیب اور دلکش کتاب کا ترجمہ نہ کیا گیا ہو۔ یہ کتاب اس قدر مشہور اور اس قدر مقبول و ہردل عزیز ہوئی ہے کہ کوئی خواندہ شخص اس کے مطالعہ سے محروم نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے قصوں سے سینکڑوں تلمیحات لی گئیں اور وہ ادبیات یورپ میں داخل ہوئی ہیں اور بےتکلف بولی اور لکھی اور عام طور پر سمجھی جاتی ہیں۔

اردو زبان کی تلمیحات

انگریزی زبان کی تلمیحات کا ذکر بطور مثال کے کیا گیا ہے مگر ہمارا اصلی مقصود اردو زبان کی تلمیحات پر بحث کرنا ہے۔ ان تلمیحوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ (اول) ادبی تلمیحات یعنی وہ تلمیحیں جو اردو نثر و نظم میں مستعمل ہیں۔ (دوم) عام تلمیحات یعنی وہ تلمیحیں جو عام طور سے بول چال میں داخل ہیں۔اردو زبان کی ادبی تلمیحات کہاں سے آئیں، اس کاپتہ چلانے کے لیے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب اسلام نے عرب سے نکل کر گردوپیش کے ملکوں کو فتح کیا تھا، تو انہیں میں سے ایک ملک ایران بھی تھا۔ جب فاتحین کے حملوں سے ایران کو سر اٹھانے اور ہوش سنبھالنے کا موقع ملا تو ایرانیوں نے اپنے اپنے مٹے ہوئے ادب کو زندہ کرنا چاہا۔ تمام ایران مذہب اسلام قبول کر چکا تھا۔ آتش پرستی ناپید ہو چکی تھی۔ اس لیے ایران کے جدید ادب میں عربی کی مذہبی روح دوڑنے لگی۔ ایران کے جغرافیہ و تاریخ اور عرب کی مذہبیت نے مل کرایک نیا ادب پیدا کیا۔ جس کو نہ ہم خالص ایرانی ادب کہہ سکتے ہیں نہ عربی ادب، عربی ادب کے چمکتے ریگستان، کھجوروں کے جھنڈ، اونٹ، بادیہ نشینوں کے خیمے، ماردھاڑ اور لوٹ مار کے کینڈے، بہادرانہ عشق کے کارنامے سب کافور ہو گئے مگر انبیاء کے قصے، فرشتوں کے تذکرے، جنت و دوزخ اور قیامت کے نظارے اور بعض مشاہیر عرب کے حالات ایرانی ادب پر محیط ہو گئے۔عرب کے پہاڑوں میں سے صرف کوہِ طور کا ذکر باقی رہا۔ الوند، قاف، بستیوں اور البرز ایران ہی کے رہے۔ درخت اور پھول بھی ان ہی کی سرزمین سے لیے گئے، یعنی سرو، شمشاد، صنوبر، بید، چنار وغیرہ۔ پھول وہی جن سے ایران کی زمین گلزار ہے یعنی سوسن، سنبل، نارون، لالہ، نازبو، شبو، بنفشہ، ریحان، نرگس وغیرہ۔ حسن و عشق کی داستانوں میں سے سلمیٰ، لیلیٰ، قیس عذرا، وامق، یوسف، زلیخا کے نام لیے گئے اور فرہاد و شیریں کا اضافہ کیا گیا۔ دریاؤں میں مصر سے نیل اور عراق عرب سے دجلہ اور فرات لیے گئے۔ ان پر جیحوں وسیحوں کا اضافہ کیا گیا۔ عرب کے مغربی سمندر قلزم اور مشرقی سمندر عمان کا تذکرہ بھی ضروری سمجھا گیا مگر خلیج فارس کا نام نہیں لیا گیا۔ موتی عدن سے اور لعل یمن سے لیے گئے اور ان پر بدخشاں کے لعل کا اضافہ کیا گیا۔ پرند ایران ہی کے رہے یعنی بلبل، طوطی، قمری، کبک دری، تدرو، عقاب، سیمرغ، شہباز، وغیرہ۔بادشاہ اور پہلوان بھی ایرانیوں نے اپنے وطن کی تاریخ ہی سے لیے۔ یہی جدید ایرانی ادب جو نہ عربی ادب ہے نہ ایرانی ادب، بلکہ ایک نئے نام عربیرانی کہلانے کا مستحق ہے، ہندوستان کے مغربی حملہ آوروں کے ذریعہ سے ہندوستان پہنچا۔ غزنوی، غوری، تغلق، خلجی، سادات، لودھی، سوری اور مغل خاندان جنہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں ہندوستان پر حکومت کی، ان کی زبان فارسی تھی۔ ان زبانوں میں بھی یہی عربیرانی ادب جاری تھا۔ ہندی بھاشا پر فارسی زبان کا اثر پڑنے سے رفتہ رفتہ اردو زبان پیدا ہوئی۔ جب فارسی شاعری کو چھوڑ کر یہاں کے شعراء نے اردو زبان میں طبع آزمائی شروع کی، تو قدرتی طور سے اسی عربیرانی ادب کا خاکہ اتارا گیا۔ یہ شعراء حاکم اور فاتح قوم کے تھے۔ مغلوب و مفتوح قوم کی زبان یعنی ہندی اور سنسکرت کی طرف ان کی توجہ مائل نہیں ہوئی۔ ہندو راگ مالا، ہندو تاریخ، ہندو شاعری، ہندو مذہب کو وہ دلچسپی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ اس لیے لازم تھا کہ جو تلمیحیں اردو ادب میں آئیں، وہ ہندو ماخذوں سے نہ لی جائیں۔ بلکہ عرب اور ایران کے اسی مرکب ادب سے لی جائیں جس کو فاتح اپنے ساتھ لائے تھے۔اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو شعراء کو اگر ہندو ادبیات سے شغف نہ تھا، تو انہوں نے بذات خود ہندوستان کا مشاہدہ کیوں نہ کیا؟ کیا ہندوستان کے شاندار پہاڑ ہمالیہ، بندھیاچل وغیرہ اور یہاں کے پر عظمت دریا گنگا، جمنا، سندھ، برہم پتر وغیرہ ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتے تھے؟ کیا یہاں کے خوبصورت اور خوش الحان پرند کویل، پپیہا، اگن، چنڈول وغیرہ ان کے جذبات کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتے تھے؟ کیا یہاں کے دلکش پھول اور حسین پودے، ہرے بھرے مرغزار، زرخیز میدان، جھلملاتے چشمے، اچھلتے کودتے چرند ان کے قالبوں میں زندگی اور مسرت کی روح پھونکنے کے لیے کافی نہیں تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آریا جب اپنا اصلی وطن چھوڑ کر یہاں آئے، تو انہوں نے اسی ملک کو اپنا وطن بنا لیا۔ یہاں کی تمام چیزوں کو انہوں نے دلچسپی کی نظر سے دیکھا بلکہ اکثر چیزوں کو مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیا۔ برخلاف اس کے مسلمان فاتح بن کر آئے۔ انہوں نے اس ملک کو اپنا وطن نہیں بنایا۔ وہ ہمیشہ جیحون وسیحوں اور فرات ودجلہ کے خواب دیکھتے رہے۔ یہاں کی زمین اور یہاں کے آسمان کو وہ ہمیشہ اجنبیت کی نظر سے دیکھا کیے۔ وہ اپنا ملجا و ماویٰ ہمیشہ انہیں ملکوں کو سمجھتے رہے، جن سے نکل کر یہاں آئے تھے۔ جن مسلمان بادشاہوں نے سیاست کو وطنیت کے تابع کرنے کی کوشش کی، ان پر علم بردارانِ مذہب کی طرف سے حملے کیے گئے۔ اس کا جونتیجہ ہوا وہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب سے کچھ دنوں پہلے تک یہی خیالات عام و خاص، سب کے دلوں پر محیط تھے۔مولانا حالی نے اپنی مشہور نظم شکوہ ہند کی بنیاد انہیں خیالات پر رکھی ہے۔ جب مولانا سے اس کا تذکرہ آیا، تو انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ مگر اصلی اور سچی بات یہ ہے کہ شاعر اپنے زمانے کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کا درجہ مصلح کا نہیں ہے۔ وہ کسی عقیدہ یا خیال کو بدلنا نہیں چاہتا، بلکہ ان خیالات و واقعات کا نقشہ کھینچتا ہے، جو اس کے گردوپیش پھیلے ہوئے ہیں۔ مولانا حالی کی شاعری میں سیاست کی جھلک بھی جابجا نمایاں ہے۔ مگر یہ اسی حد تک ہے، جہاں تک کہ ان کے زمانے میں مسلمانوں کے سیاسی خیالات پہنچ چکے تھے۔ زمانہ حال کا یہ سیاسی نظریہ ان کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوا تھا کہ مسلمان مذہب اور وطنیت پر ایک ساتھ عمل کر سکتے ہیں اور ان دونوں میں کوئی ٹکر نہیں ہو سکتی۔ اس بنا پر مولانا حالی معذور تھے اور اس خیال کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔غرض کہ یہی وجہ تھی کہ اردو ادب میں جو تلمیحات آئیں وہ عربیرانی ادب سے آئیں۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ، قدیم ادب، یہاں کے مذہب یہاں کے رسم ورواج اور یہاں کے قدرتی مناظر سے ان کو کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اب ہم ایرانی تلمیحات کا ذکر کرتے ہیں۔ ان تلمیحات کی دو قسمیں ہیں: (اول) وہ تلمیحات جو عربی اثر سے داخل ہوئیں۔ (دوم) وہ تلمیحات جن میں خالص ایرانی اثر ہے۔

اردو ادبی تلمیحات (قسم اول)

ادبی تلمیحات کی قسم اول میں سب سے پہلے انبیا کے متعلق تلمیحات ہیں، جس کو تمام اہل اسلام عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ حسب ذیل ہیں،آدم کی پیدائش

فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ شیطان نے انکار کیا اور ملعون ہوا۔ خدا نے آدم کی پیدائش سے پہلے فرشتوں سے فرمایا تھا کہ میں زمین پر اپنا ایک نائب اور خلیفہ بھیجنا چاہتا ہوں، فرشتوں نے کہا کہ آدم کی اولاد زمین پر خون بہائےگی۔ وہ خلیفہ بنانے کے قابل نہیں۔ یہ حق ہم کو ہے کیونکہ ہم تیری عبادت کرتے اور تیری حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں۔ خدا نے فرمایا تم میری مصلحتوں سے آگاہ نہیں۔ آدم پیدا ہوئے۔ فرشتوں کے ساتھ ان کا امتحان لیا گیا۔ جن باتوں کا جواب آدم سے بن پڑا، فرشتے ان کا جواب نہ دے سکے۔ آدم کی جو اولاد قیامت تک ہونے والی ہے، ان سب کی روحیں حاضر کی گئیں۔ خدا نے ان سے پوچھا الست بربکم یعنی کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ قالوا بلیٰ یعنی انہوں نے کہا ہاں بے شک تو ہمارارب ہے۔ اس قصہ کی تلمیحات میں بلیٰ، قالوا بلیٰ، الست، روزالست، عہد الست، مست الست وغیرہ الفاظ آتے ہیں۔حضرت آدم کو بہشت میں رہنے کا حکم ہوا۔ تنہائی سے ان کی طبیعت گھبرائی۔ حوا ان کی پسلی سے پیدا کی گئیں۔ بہشت میں گیہوں کا درخت تھا۔ حکم ہوا، اس درخت کے پاس نہ جانا۔ آدم کو شیطان نے بہکایا۔ گیہوں کا دانہ انہوں نے خود بھی کھایا اور آدم کو بھی کھلایا۔ نافرمانی کی سزا میں دونوں بہشت سے نکالے گئے اور زمین پر ڈالے گئے۔ اس قصہ کی تلمیح میں شیطان کے مددگاروں سانپ اور مور کا بھی ذکر آتا ہے۔ شیطان کی تلمیح میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پہلے فرشتوں کا معلم تھا۔ جس کی تلمیح میں معلم الملکوت کا لفظ آتا ہے۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا تھا اور آدم خاک سے۔ جب شیطان نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو دلیل یہی پیش کی تھی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور آدم خاک سے۔ اس بناپر میں اس کے آگے سجدہ نہیں کر سکتا۔ سرکشی کے سبب شیطان کے گلے میں لعنت کا طوق ڈالا گیا۔ اس نے اولاد آدم کو بہکانے کی اجازت طلب کی۔ اجازت دی گئی۔ مگر خدا نے فرمایا کہ میرے نیک بندوں پر تیرا قابو نہیں چلےگا۔ آدم کے بیٹوں میں سے قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا۔ اس کاذکر بھی بطور تلمیح کے آتا ہے۔حضرت لوط کا ذکر بھی تلمیحاً آتا ہے، جن کی بیوی کافر تھی۔ ان کی قوم پر آگ اور پتھر بطور عذاب برسائے گئے۔ چونکہ آدم سے نسل انسانی چلی، اس لیے ان کو ابواالبشر کہتے ہیں۔حضرت نوع نے عمردراز پائی۔ اس کی تلمیح میں عمرنوح کا لفظ آتا ہے۔ وہ مدت دراز تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے مگر (۸۰) آدمیوں کے سوا کوئی ان پر ایمان نہیں لایا۔ انہوں نے اپنی قوم کے لیے بدعا کی۔ خدا نے پانی کا طوفان بھیجا۔ حضرت نوح کو پہلے سے خبر دی گئی۔ ہدایت الہی کے مطابق انہوں نے ایک کشتی تیار کی۔ اس میں ہرجانور کا ایک جوڑا رکھا، تاکہ طوفان کے بعد ان جانوروں کی نسل چلے۔ (۱۰۸) مریدوں کو بھی اسی کشتی میں جگہ دی۔ آغاز طوفان کے وقت آسمان سے موسلادھار پانی برسنے لگا اور ایک بڑھیا کے تنور سے بھی الغاروں پانی ابلنے لگا۔ کشتی پانی پر تیرنے لگی۔ درختوں اور ٹیلوں پر پانی پھر گیا۔ حضرت نوح کا بیٹا کنعان ان سے سرکش رہا۔ اس نے باوجود بار بار بلانے کے کشتی میں پناہ نہیں لی۔ ایک تندموج آئی اور اسے بہا لے گئی۔ حضرت نوح کی کشتی جو دی پہاڑ پر ٹھیری۔ کبوتر جو کشتی میں سے چھوڑا گیا تھا، زیتون کی ہری ٹہنی چونچ میں لایا۔ اور اس نے طوفان تھمنے کی خبردی۔ اس قصے کی طرف جب اشارہ کیا جاتا ہے تو حسب ذیل الفاظ آتے ہیں۔ کشتی نوح۔ طوفان نوح۔ کنعان کی تلمیح میں، جو حضرت نوح کا ناخلف بیٹا تھا، فرزند نوح اور پسر نوح کے الفاظ آتے ہیں۔ آدم کے بعد حضرت نوح سے دوبارہ نسل انسانی چلی۔ اس لیے ان کو آدم ثانی بھی کہتے ہیں۔عاد عرب کی ایک قوم تھی، جو اپنے تئیں عاد بن سام بن نوح کی نسل بتاتی ہے۔ حضرت ہود ا ن کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے مگر انہوں نے نافرمانی کی اور آندھی کا عذاب ان پر بھیجا گیا اور سب ہلاک ہو گئے۔ اس قصہ کی تلمیح میں طوفانِ عاد یاصرصر عاد کا لفظ آتا ہے۔ثمود عرب کی ایک قوم تھی جو چار واسطوں سے اپنے تئیں حضرت نوح کی اولاد بتاتی تھی۔ ان کی ہدایت کے لیے حضرت صالح بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے بھی سرکشی کی اور حضرت صالح کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ نافرمانی کے سبب یہ بھی ہلاک کر دیے گئے۔ اس قصہ کی تلمیح میں ناقہ صالح کا لفظ مستعمل ہے۔ حضرت زکریا پیغمبر آرہ سے چیرے گئے۔ اس کا ذکر بھی شعرا نے بطور تلمیح کے بار بار کیا ہے۔ حضرت یونس کو ایک مچھلی نگل گئی تھی۔ وہ مچھلی کے پیٹ کے اندر بھی خدا کی حمد و ثنا میں مشغول رہے۔ آخر مچھلی نے ان کو دریا کے کنارے پر اگل دیا۔ یونس کے لفظ سے اسی قصہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ایوب پر امتحاناً خدا کی طرف سے طرح طرح کی تکلیفیں نازل ہوئیں مگر انہوں نے اف نہیں کی اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ صبر ایوب کی تلمیح اسی قصہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔حضرت داؤد نہایت خوش الحان تھے۔ وہ جب خدا کی حمد و ثنا کے راگ گاتے، تو پرندان کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ مزا میر داؤد، نغمہ داؤد، لحن داؤدی کے الفاظ سے یہی مراد ہے۔ ان پر زبور نازل ہوئی۔ معجزہ یہ تھا کہ لوہا ہاتھ میں آتے ہی موم بن جاتا تھا۔ وہ لوہے کی زرہ آسانی سے بنا لیتے تھے۔ اس معجزہ کا ذکر بھی شعراء نے بار بار کیا ہے۔حضرت سلیمان حضرت داؤد ہی کے بیٹے تھے۔ ان کو خدانے عظیم الشان سلطنت عطا کی۔ انسان، دیو پری، چرندپرند سب ان کے مطیع تھے۔ انہوں نے بیت المقدس کی عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی۔ ہوا ان کے تخت کو جہاں وہ چاہتے اڑالے جاتی تھی۔ ان کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر اسم اعظم کندہ تھا۔ اسی کی برکت تھی کہ تمام مخلوق پر ان کو حکمرانی حاصل تھی۔ ایک دیواس انگوٹھی کو چرا لے گیا۔ سلطنت حضرت سلیمان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس حالت میں وہ ایک ماہی گیر کے پاس ملازم ہو گئے۔ انگوٹھی چراکر دیو آسمان پر اڑ گیا مگر انگوٹھی اس کے ہاتھ سے سمندر میں گر پڑی۔ سمندرکی ایک مچھلی نے اس انگوٹھی کو نگل لیا۔ جب خدا کو منظور ہوا کہ حضرت سلیمان کی سلطنت پھر بحال ہو، تو ایک دن وہی مچھلی ماہی گیر کے جال میں آ گئی۔ مچھلی کا پیٹ چیرا تو انگوٹھی نکل آئی۔ حضرت سلیمان نے اس کو پھر پہن لیا اور تخت سلطنت پر پھر بدستور جلوہ افروز ہوئے۔ تخت سلیمانی، خاتم سلیمانی، انگشتری سلیمانی انہیں باتوں کو یاد دلاتے ہیں۔حضرت سلیمان کے زمانے میں ملک سبا پر حکمران بلقیس تھی۔ ہد ہد حضرت سلیمان کا پیغام بلقیس کے پاس لے گیا۔ اس نے اطاعت قبول کی اور دربار میں حاضر ہوئی۔ یہاں اس کے آنے سے پہلے اس کا تخت جو جواہر سے مرصع تھا، منگاکر دربار میں سجا دیا گیا تھا۔ قصر سلیمانی کے صحن میں شیشے کا فرش تھا۔ اس کے نیچے پانی کا حوض تھا۔ اسی فرش سے گزر کر دربارمیں سب لوگ جا سکتے تھے۔ بلقیس کو شبہ ہوا کہ محل کے صحن میں پانی بھرا ہے۔ اس نے پانی میں اترنے کے لیے اپنے پائچے چڑھا لیے۔ بلقیس دربار میں اپنے تخت کو رکھا دیکھ کر حیران رہ گئی اور حضرت سلیمان کی عظمت وقوت کی قائل ہوئی۔ بلقیس، سبا، ہد ہد اور حضرت سلیمان کے شیش محل کا ذکر باربار شعراء نے کیا ہے۔ ہد ہد کو مرغ سلیمان بھی کہتے ہیں۔ سلیمان کے ساتھ مور یعنی چیونٹی کا ذکر بھی ضرور آتا ہے۔ کہاں چیونٹی جو ایک حقیر مخلوق ہے اور کہاں سلیمان جو دنیا کے تمام بادشاہوں سے زیادہ صاحب عظمت واقتدار تھے۔ مورو سلیمان کے متعلق ایک چھوٹا سا قصہ بھی ہے۔ حضرت سلیمان پرندوں کی بولیاں سمجھتے تھے۔ اس کی طرف لفظ منطق الطیر سے اشارہ کیا جاتا ہے۔حضرت یوسف اور حضرت یعقوب دونوں کا ذکر اکثر ایک ساتھ آتا ہے۔ حضرت یوسف حضرت یعقوب کے بیٹے تھے۔ ایک ماں سے حضرت یوسف اور یامین اور دوسری ماں سے دس بیٹے اور تھے۔ حضرت یعقوب حضرت یوسف کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ بھائیوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی۔ ایک بار حضر ت یوسف نے خواب دیکھا کہ چاند سورج اور گیارہ ستارے ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اس خواب کو سن کر حضرت یعقوب نے منع کیا کہ اس کا ذکر بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایک دن شکاروتفریح کے بہانے سے بہت اصرار کے ساتھ حضرت یوسف کو ان کے بھائی جنگل کو لے گئے اور ایک اندھے کنوئیں میں ان کو گرا دیا۔ ان کا کرتا پھاڑ ڈالا اور خون سے آلودہ کرکے باپ کے سامنے لائے اور کہا کہ یوسف کو ایک بھیڑیے نے پھاڑ کھایا ہے۔ یہ کرتا ان کا ہاتھ لگا ہے۔ حضرت یعقوب نہایت غمگین ہوئے۔مصر کو ایک تجارتی قافلہ جا رہا تھا۔ اس قافلہ کا ایک غلام کنوئیں پر پانی لینے کے لیے پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ کوئی آدمی کنوئیں میں ہے۔ فوراً ڈول ڈال کر ان کو کھینچا۔ حضرت یوسف حسن و جمال میں لاثانی تھے۔ عزیز مصر کی بیوی زلیخا ان پر عاشق ہوگئی۔ مصر کی عورتیں زلیخا کو طعنہ دیتی تھیں کہ وہ اپنے غلام پر فریفتہ ہے۔ زلیخا نے ایک بار مصری عورتوں کو جمع کیا۔ حضرت یوسف کو پردہ کے پیچھے چھپا دیا۔ ایک ایک چھری اور ایک ایک لیمو، ہر عورت کو دیا گیا۔ اور ان سے کہا گیا کہ جب یوسف پردہ کے پیچھے سے برآمد ہوں تو ہر عورت اپنا لیمو، چھری سے تراشے۔ جب حضرت یوسف باہر آئے تو مصری عورتوں کے ہوش و حواس گم ہو گئے اور انہوں نے بجائے لیمو کے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ زلیخا نے ان سے کہا تم مجھ سے اس کنعانی غلام کے حسن پر فریفتہ ہونے کا طعنہ دیتی تھیں۔ اب تمہارے ہوش و حواس کیوں گم ہو گئے۔حضرت یوسف کو زلیخا نے بار بار اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ ایک دفعہ تنہائی میں مکان کے دروازے بند کرکے ان سے التجائیں کیں مگر حضرت یوسف پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ اس کے پاس سے بھاگے۔ دروازوں کے قفل خودبخود کھلتے گئے۔ زلیخا ان کے پیچھے دوڑتی چلی آئی۔ آخری دروازے پر پیچھے سے ان کا دامن پکڑ کر پھاڑ ڈالا۔ اتنے میں عزیر مصر بھی آ گیا۔ اپنی بیوی کو خفا ہوا۔ بیوی نے کہا یہ تمہارا غلام میری عصمت پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے مشکل سے پیچھا چھڑایا۔ خدا نے ایک دودھ پیتے بچے کو، جو اس وقت وہاں موجود تھا، زبان گویا عطا کی۔ اس نے بآواز بلند کہا اگر یوسف کا دامن آگے سے پھٹا ہے، تو وہ خطاوار ہے اور اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو زلیخا کی خطا ہے۔ دیکھا تو دامن پیچھے سے پھٹا تھا۔ عزیز نے یہ دیکھ کر اپنی بیوی کو سخت ملامت کی، مگر عشق کا بھوت جو سرپر سوار تھا، کب مانتا تھا۔ زلیخا حضرت یوسف کے ہمیشہ درپے رہی، مگر جب دیکھا کہ کوئی منتر کارگر نہیں ہوتا تو الزام لگاکر ان کو قید خانے میں بھجوا دیا۔حضرت یوسف قید خانے میں سخت تکلیفیں اٹھاتے تھے۔ مگر صابر شاکر تھے۔ ان کو تعبیر خواب میں خاص مہارت تھی۔ دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر انہوں نے بتائی اور ویسا ہی ظہور میں آیا۔ ایک قیدی نے جس کے خواب میں تعبیر بتائی گئی تھی اور جو بادشاہ مصر کے دربارمیں ساقی گری کی خدمت پر مامور ہو گیا تھا، ایک موقع پر جب کہ بادشاہ نے آنے والے قحط کی نسبت ایک دہشت ناک خواب دیکھا تھا، حضرت یوسف کی تقریب کی۔ حضرت یوسف نے اس کے خواب کی صحیح تعبیر بتائی اور کہا کہ سات برس تک ملک میں سماں رہےگا، پھرسات برس کا کال پڑے گا۔ بادشاہ نے حضرت یوسف کو اپنا نائب السلطنت بناکر قحط کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ حضرت یوسف نے اس وقت جب کہ سماں تھا، خوب غلہ جمع کیا اور قحط کے زمانہ میں لوگوں کو تقسیم کیا۔حضرت یوسف کے بھائی بھی قحط سے تنگ آکر مصر میں غلہ خریدنے کے لیے آئے۔ حضرت یوسف نے ان کو پہچان لیا۔ بہت ساغلہ دیا۔ سنا کہ ان کے غم میں حضرت یعقوب کی آنکھیں روتے روتے سفید ہو گئی ہیں، انہوں نے اپنی خبر بھیجی اور ان کو مصر میں بلایا۔ جب حضرت یوسف کے بھائی کنعان میں باپ کے پاس پہنچے، تو انہوں نے حضرت یوسف کا پیراہن پیش کیا۔ انہوں نے پیراہن کو چھوا اور یکایک بینائی عود کرآئی۔ حضرت یعقوب کو پیراہن سے حضرت یوسف کی خوشبو محسوس ہوئی۔ یہ قصہ نہایت دلچسپ ہے۔ قرآن مجید میں پوری ایک سورہ اسی قصہ میں ہے۔ بہت سی کتابیں نثرو نظم میں ہیں، جن میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے۔ شعراء نے اس قصہ کی تلمیحات کثرت سے بیان کی ہیں، جو حسب ذیل الفاظ سے اس قصے کے مختلف اجزاء کو یاد دلاتی ہیں۔ ماہ کنعاں (حضرت یوسف) چاہ کنعاں، چاہ یوسف، حسن یوسف، زندان یوسف، بیت الحزن (حضرت یعقوب کا غم خانہ، جس میں وہ بیٹھے رویا کرتے تھے۔) خواب یوسف، برادران یوسف، عزیز مصر، زلیخا۔ پیر کنعاں (حضرت یعقوب)حضرت ادریس کی نسبت مشہور ہے کہ وہ جیتے جی جنت میں پہنچا دیے گئے۔ شاعری میں ان کا ذکر بہت کم آتا ہے۔ اسی طرح حصرت یحیٰ کا بھی۔ حضرت الیاس کی نسبت مشہور ہے کہ سمندر کی خدمت ان کے سپرد ہے اور حضرت خضر خشکی کی خدمت پر مامور ہیں، مگر عام طور سے اردو اور فارسی ادب میں بجر و بر دونوں میں رہنمائی اور مشکل کشائی کا کام حضرت خضر ہی کے حوالے کیا گیا ہے۔ جہازوں اور کشتیوں کی رہنمائی، طوفان کے وقت مصیبت زدوں کی مدد کرنا، جنگلوں اور بیابانوں میں رستہ بھولنے والوں کو راہِ راست پر لگانا انہیں کا کام سمجھا جاتا ہے۔ سکندر اور خضر ایک ساتھ آب حیات کے چشمے کی طرف جاتے ہیں اور ظلمات کو طے کرتے ہیں مگر حضرت کامیاب ہوتے ہیں اور آب حیات پی کر زندہ جاوید ہو جاتے ہیں۔ سکندر ظلمات میں بھٹک کر واپس آتا ہے اور اپنی قسمت کی محرومی پر افسوس کرتا ہے۔ آب حیات، آب بقا، چشمہ حیواں، آبِ خضر، چشمہ خضر، آب حیواں، چشمہ زندگی، ظلمات راہِ ظلمات، اسی قصہ کی تلمیحات ہیں۔ حضرت خضر کو شعراء مبارک قدم خجستہ پے کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ لقمان کو بعض نے حکماء کے گروہ میں اور بعض نے پیغمبروں کے زمرہ میں شامل سمجھا، مگر ان کی حکمت کے سوا کوئی چیز مشہور نہیں۔حضرت ابراہیم کا لقب خلیل اللہ ہے۔ ان کی مہمان نوازی مشہور ہے۔ خوانِ خلیل کی تلمیح اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم کے نام کے ساتھ ان کے باپ آذر کا نام بھی بت تراش کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم جب ہوش سنبھالتے ہیں تو ان کو بتوں سے نفرت ہوتی ہے۔ وہ بت خانۂ آذر کے بتوں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ بادشاہ وقت نمرود ان کا ذکر سن کر بگڑ جاتا ہے اور ان کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے مگر آگ گلزار ہو جاتی ہے۔ آتش نمرود، گلزار خلیل، گلزار ابراہیم۔نمرود ایک سرکش اور مغرور بادشاہ تھا۔ ایک مچھر اس کی ناک میں گھس کر اس کا کام تمام کرتا ہے۔ اور پشہ اور نمرود کی جنگ بھی ہماری شاعری کا ایک خاص مضمون ہے۔ حضرت ابراہیم کا امتحان لیا جاتا ہے۔ وہ اپنے محبوب بیٹے اسمعیل کو خدا کے رستے میں قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں مگر ایک مینڈھا نمودار ہوتا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ اسمعیل کے عوض اس کی قربانی کرو۔ عیدقرباں اسی واقعہ کی یادگار ہے۔ حضرت اسمعیل کو اسی قصہ کی وجہ سے ذبیح اللہ کا لقب دیا گیا ہے۔ ذبح عظیم کا لفظ بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم اپنے بیٹے اسمعیل کو ان کی والدہ کے ساتھ مکہ میں چھوڑ آتے ہیں۔ یہاں پانی کا نام نہیں۔ حضرت اسمعیل کے لیے پانی کی تلاش میں ان کی والدہ حضرت ہاجرہ اس بیابان میں ہر طرف دوڑتی ہیں، مگر پانی کا نشان نہیں ملتا۔ حضرت اسمعیل پیاس کی شدت سے روتے اور ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ یکایک ان کے قدموں کے نیچے چشمہ زمزم نمودار ہوتا ہے، جو آج تک متبرک خیال کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم کعبہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔ سنگ اسود جسے حجر اسود بھی کہتے ہیں، اسی زمانۂ تعمیر کی یاد گار ہے، جو اب تک کعبہ میں نصب ہے۔ ہر حاجی اس کو ادب سے بوسہ دیتا ہے۔ شعراء کعبہ بیت اللہ، بیت الحرام، مسجد حرام، بیت العتیق کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔حضرت موسیٰ بھی نہایت جلیل القدر پیغمبر تھے۔ ان پر توریت نازل ہوئی۔ ان کا لقب کلیم اللہ ہے۔ ان کے زمانہ میں جو فرعون مصر پر حکمراں تھا، وہ نہایت سرکش اور مغرور تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔ کاہنوں اور نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ اس کو ہلاک کرنے والابنی اسرائیل میں پیدا ہوگا۔ بنی اسرائیل کی حالت اس زمانہ میں نہایت زبوں تھی۔ وہ مصر میں غلامی اور مزدوری کی خدمتیں انجام دیتے تھے۔ فرعون نے پیشین گوئی سن کر بنی اسرائیل کے بچوں کو ہلاک کرنا شروع کیا۔ حضرت موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے ان کو ایک گہوراہ میں ڈال کر دریا کی نذر کر دیا۔ یہ گہوارہ بہتے بہتے فرعون کے محل تک پہنچا۔ فرعون کی بیوی نے اس کو دریا سے نکلوایا۔ بچے کی شکل دیکھ کر رحم آیا۔ پالنے کا عزم مصمم کر لیا۔ فرعون کو اس بچے پر اپنے قاتل کا شبہ ہوا۔ چاہا کہ ہلاک کر ڈالے مگر فرعون کی بیوی حائل ہوئی۔فرعون نے اس بچے کا امتحان عجیب طریقے سے کیا۔ ایک طشت لعلوں سے اور ایک طشت انگاروں سے بھرا سامنے لایا گیا۔ فرعون کا خیال تھا کہ اگر یہ بچہ وہی ہے جو میرا قاتل ہوگا تو انگاروں پر ہاتھ نہیں ڈالےگا۔ جب بچے نے ہاتھ لپکایا، تو قریب تھا کہ لعلوں کے طشت پر پڑے مگر فرشتے نے ہاتھ کھینچ کر انگاروں کے طشت پر رکھ دیا۔ ایک انگار اٹھایا اور جھپ سے منھ میں رکھ لیا۔ ہاتھ کی ہتھیلی اور زبان دونوں جل گئیں۔ ہاتھ کا سفید داغ بعد میں یدبیضا کے معجزہ سے تبدیل کر دیا گیا۔ مگر زبان میں لکنت ساری عمر باقی رہی۔ حضرت موسیٰ کے لیے دودھ پلانے والی عورت کی تلاش ہوئی، تو ان کی والدہ ہی کو یہ موقع ملا اور انہوں نے ماں ہی کے دودھ سے پرورش پائی۔ہوش سنبھالنے پر حضرت موسیٰ نے شہزادوں کی طرح تعلیم پائی۔ مصری کا ہنوں نے اپنے تمام علوم ان کو سکھائے۔ ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ دراصل فرعون کے بیٹے نہیں ہیں اور نہ قبطی ہیں، بلکہ اسرائیلی نسل کے ہیں۔ ان کو اپنی قوم سے ہمدردی اور قبطی قوم سے نفرت ہو گئی۔ ایک دن ایک قبطی ایک اسرائیلی پر ظلم کر رہا تھا۔ یہ واقعہ دیکھ کر انہیں غصہ آیا اور قبطی کو جان سے مار ڈالا۔ پھر مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ عرب کی سرحد پر پہنچے، تو مدین کے ایک کنویں پر چند نوجوان عورتوں کو انہوں نے پانی بھرتے دیکھا۔ پیاس شدت کی تھی۔ پانی مانگا۔ جواب ملا کہ ہم اپنے مویشیوں کو سیراب کر لیں تو تمہاری خبر لیں۔ حضرت موسیٰ نے کہاتم مجھے پانی پلادو، میں تمہارے مویشیوں کو پانی کھینچ کر پلا دوں گا۔ انہوں نے اس شرط کو منظور کر لیا۔یہ نوجوان لڑکیاں مدین کے پیغمبر شعیب کی بیٹیاں تھیں۔ انہوں نے اپنے والد بزرگوار سے اس نوجوان کا تذکرہ کیا۔ حضرت شعیب نے بلاکر کہا کہ اگر تم بارہ برس تک ہمارے قبیلے کی بکریاں چراؤ تو ہم اپنی لڑکی سے شادی کر دیں گے۔ حضرت موسیٰ نے منظور کر لیا۔ بارہ برس کی خدمت کے بعد شادی ہو گئی، اپنی بیوی کو ساتھ لے کر چلے۔ راستہ میں وادی ایمن ملی، جو کوہ طور کے دامن میں ہے۔ بیوی حمل سے تھیں۔ رات وہیں بسر کی، اسی وقت وضع حمل ہوا۔ آگ کی ضرورت تھی۔ سامنے پہاڑ پر روشنی دکھائی دی۔ آگ لینے اس طرف بڑھے۔ دیکھا ایک درخت سرتاپا روشن ہے، مگر آگ کا نام نہیں۔ درخت میں سے آواز آئی:میں تیرا خدا ہوں۔ تو وادی مقدس میں ہے۔ اپنی جوتیاں اتار دے۔ موسیٰ نے کہا رب ارنی یعنی اے خدا تو اپنا دیدار مجھے دکھا۔ جواب ملا: لن ترانی، یعنی تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکےگا۔ پھر جب تجلی ربانی کا ظہور ہوا، تو موسیٰ غش کھاکر گر پڑے، پہاڑ لرز گیا، بلکہ جل کر سرمہ ہو گیا۔اس واقعہ کی طرف حسب ذیل تلمیحات میں اشارہ کیا گیا ہے: تجلی طور۔ شعلہ طور۔ نخل طور۔ شمع طور۔ شجر طور۔ نخل موسی۔ جلوہ طور، نخل ایمن، شمع ایمن۔ وادیٔ ایمن۔ نور سینا۔ دادی سینا۔ شعلہ سینا۔ طور سینا۔ سرمہ طور۔ رب ارنی۔ لن ترانی۔ خر موسیٰ۔ (یعنی موسیٰ غش کھاکر گر پڑے) ہوش میں آئے تو حضرت موسیٰ کو حکم ہوا، تم اور تمہارے بھائی ہارون دونوں مل کر فرعون کو میرا پیغام پہنچاؤ۔ اسی وقت حضرت موسیٰ کو دو معجزے عطا ہوئے۔ ایک یہ کہ جب وہ اپنے عصا کو زمین پر ڈال دیتے تھے تو وہ اژدہا بن جاتا تھا۔ دوسرا یہ کہ جب وہ اپنا ہاتھ گریبان میں سے نکال لیتے تھے، تو آفتاب کی طرح چمکنے لگتا تھا۔ پہلے معجزے کی طرف عصائے موسیٰ اور عصائے کلیم کے الفاظ سے اور دوسرے معجزے کی طرف دستِ کلیم، دست موسیٰ اور یدبیضا کے الفاظ سے اشارہ کیا جاتا ہے۔کوہِ طور سے چل کر حضرت موسیٰ حضرت ہارون کے ساتھ مصر میں آئے۔ فرعون نے اپنے جادوگروں کو مقابلے کے لیے پیش کیا، مگر حضرت موسیٰ اپنے عصا اور یدبیضا کی مدد سے غالب آئے۔ بڑی دقتوں اور مقابلوں کے بعد انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرایا اور ان کو ساتھ لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ عصا کی ایک جنبش سے دریا پھٹ گیا اور پایاب ہو گیا۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ پار اتر گئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں عین اس وقت پہنچا جب کہ دریا پایاب تھا اور بنی اسرائیل پار ہو چکے تھے۔ وہ بھی اپنے لشکر کو ہمراہ لے کر دریا میں اتر گیا مگر جب بیچ میں پہنچا تو جو پانی سمٹ گیا تھا، پھر پھیل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہو گیا۔ شاعروں نے اس دریا کا نام نیل بتایا ہے، گو کہ وہ مؤرخین کے نزدیک بحر قلزم تھا۔دریا سے پار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے اس جنگل میں پہنچے جس کو تیہ بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ یہاں چالیس برس تک رہے۔ ہر چند بنی اسرائیل کو اکسایا کہ فلسطین پر حملہ کرو اور فرعون کے گورنروں کو نکال کر خود اپنے وطن پر قابض ہو، مگر مدت دراز تک غلامی کی زندگی بسر کرنے کے سبب ان کی ہمتوں اور جرأتوں نے جواب دے دیا تھا۔ اس جنگل میں بنی اسرائیل کی گزران جس چیز پر تھی، اس کا نام من وسلویٰ بتایا گیا ہے۔ عام خیال ہے کہ یہی بہشتی نعمتوں کا خوان تھا، جوہر روز فرشتوں کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا اور اسی عام خیال پر شاعری کا مدار ہے۔ حضرت موسیٰ اکثر کوہِ طور پر جاتے اور خدا سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔ اسی مقدس پہاڑ پر ان کو توریت کے صحیفے عطا ہوئے۔ ایک دفعہ جب وہ کوہ طور پر گئے تھے، ایک شخص نے جس کا نام سامری تھا، سونے کا ایک بچھڑا بنایا، جس میں سے آواز نکلتی تھی۔ حضرت موسیٰ کی قوم نے اس کو پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت موسیٰ جب واپس آئے تو غضبناک ہوئے اور بچھڑے کو جو شعرا کی زبان میں گوسالۂ سامری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جلاکر خاک کر ڈالا۔حضرت عیسیٰ بے باپ کے پیدا ہوئے۔ حضرت مریم ان کی والدہ ماجدہ کا نام ہے۔ وضع حمل کی تکلیف میں جس درخت کا سہارا انہوں نے لیا وہ نخل مریم کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت مریم بڑی عابدہ و زاہدہ تھیں۔ رات کو نیت کرکے دن بھر کسی سے کلام نہیں کرتی تھیں اور خدا کی یاد میں مشغول رہتی تھیں۔ اسی کو صوم مریم اور روزہ مریم کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم او رروح اللہ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ گدھا جو ان کی سواری میں رہتا تھا، وہ خر عیسیٰ کے نام سے مذکور ہوتا ہے۔ مسیح و مسیحا بھی حضرت عیسیٰ ہی کے نام ہیں۔ وہ قم باذنی (یعنی کھڑا ہو میرے حکم سے) کہہ کر مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔ اس معجزہ کا ذکر اعجاز عیسوی، دم عیسیٰ، اعجاز مسیحا، قم اور قم باذنی کے الفاظ سے کیا جاتا ہے۔حضرت عیسیٰ مٹی کے جانور بناکر ان میں روح پھونکتے اور ان کو اڑا دیا کرتے تھے۔ چمگادڑ اسی معجزہ کی یادگار ہے، جسے مرغ عیسیٰ اور مرغ مسیحا کہتے ہیں۔ بیماروں کو اچھا کرنا بھی حضرت عیسیٰ کا ایک معجزہ تھا۔ اس کا ذکر بھی بار بار شاعری میں آتا ہے۔ عیسائی ان کو ابن اللہ کہتے ہیں۔ ان پر انجیل نازل ہوئی۔ یہودیوں نے ان کو صلیب پر چڑھایا، مگر خدا نے ان کو زندہ اٹھا لیا اور وہ چوتھے آسمان پر جاپہنچے۔ قیامت کے قریب وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے اور ایک کافر کا مقابلہ کریں گے جس کا نام دجال ہوگا اور جو گدھے پر سوار ہوگا۔ خر دجال سے اسی آنے والے واقعہ کی تلمیح سمجھی جاتی ہے۔ کہتے ہیں آسمانوں پر چڑھتے وقت ایک سوئی حضرت عیسیٰ کے پیرہن میں اٹکی رہ گئی۔ چونکہ یہ دنیوی چیز تھی، اس لیے ممدوح چوتھے آسمان سے آگے نہ بڑھ سکے۔ سوزنِ عیسیٰ اسی خیال کی تلمیح ہے۔زمانۂ انبیا کے متعلق چند تلمیحیں اور بھی آتی ہیں، جو انبیاکی ذیل میں بیان نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک ہاروت و ماروت ہے۔ یہ دو فرشتوں کا نام ہے، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انسان جس طرح نفسانی خواہشوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اسی طرح ہم اگر دنیا میں جائیں تو کبھی مبتلا نہیں ہو سکتے۔ خدا نے ان کو دنیا میں امتحاناً بھیجا۔ وہ اول وعظ و عبادت میں مشغول رہے، پھر ایک رنڈی پر، جس کا نام زہرہ تھا، عاشق ہو گئے۔ کہتے ہیں یہ عورت نہایت حسین اور جادوگرنی تھی۔ اس نے ان فرشتوں سے آسمان پر جانے کا علم سیکھا اور ان کو جادو کا علم سکھایا۔ خدا نے ان فرشتوں کو بطور سزا کے بابل کے ایک کنوئیں میں لٹکنے کی سزا دی۔ کہتے ہیں، تمام دنیا کا دھواں وہیں جاتا اور ان کے نتھنوں میں داخل ہوتا اور ان کو ایذا دیتا ہے۔ اگر کوئی ان سے جادو سیکھنا چاہے تو وہ سکھادیتے ہیں۔ رنڈی اس واقعہ کے بعد آسمان پر چلی گئی اور زہرہ تارہ بن گئی۔ زہرہ اور چاہ بابل کے ساتھ یہ تلمیح وابستہ ہے۔ایک قصہ ذوالقرنین کا ہے، جس کو عام لوگوں نے سکندر سمجھا ہے۔ کہتے ہیں کہ دو پہاڑوں کے پیچھے ایک قوم یاجوج، ماجوج آباد ہے۔ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک گھاٹی ہے جس سے یہ قوم باہر نکل کر لوگوں کو ستاتی تھی۔ اس قوم کی شکل و صورت اور قدوقامت کی نسبت عجیب عجیب روایتیں ہیں۔ مشہور ہے کہ سکندر ذوالقرنین نے لوہے اور تانبے کو گلاکر ایک دیوار ان پہاڑوں کے درمیان بنا دی، جس سے یہ لوگ باہر نہ نکل سکیں۔ کہتے ہیں کہ ہر روز یہ لوگ اس دیوار کو چاٹ کر پتلا کر دیتے ہیں۔ شام کو جتنی باقی رہ جاتی ہے، چھوڑ دیتے ہیں۔ رات بھر میں یہ دیوار جتنی پتلی ہوتی ہے، اتنی ہی دبیز پھر ہو جاتی ہے۔ قیامت کے قریب یہ لوگ اس دیوار سے نکل آئیں گے۔ دیوار مذکور سد سکندری کے نام سے مشہور ہے۔ایک قصہ اصحاب کہف کا ہے۔ اس کے معنی ہیں غار والے آدمی۔ جب عیسائی مذہب کی اشاعت اول اول ہوئی تو جن سات آدمیوں نے بت پرست رومی بادشاہ دقیانوس کے زمانہ میں اس مذہب کو قبول کیا، انہیں کو اصحاب کہف کہتے ہیں۔ یہ اس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں جا چھپے اور تین سو برس تک سوتے رہے۔ پھر جاگے اور جاگ کر پھر سو گئے۔ ایک کتا ان کے ہمراہ غار کے منہ تک گیا اور وہ بھی وہیں سو رہا۔ اس کتے کا نام قطمیر بتایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب وہ قیامت کے دن بیدار ہوں گے۔ کتا آدمی بن کر اٹھےگا اور وہ بھی ان کے ساتھ بہشت میں داخل ہوگا۔ایک قصہ عنقا کا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ ایک لمبی گردن کا عظیم الشان جانور تھا، جس کا چہرہ آدمی جیسا، پاؤں چار تھے اور پر کئی رنگ کے تھے۔ بچوں کو اٹھا لے جاتا تھا۔ جس زمانہ میں اس کا ظہور ہوا، حیطلہ اس زمانہ کے پیغمبر تھے۔ لوگوں نے ان سے شکایت کی۔ ان کی دعا سے یہ جانور ایک جزیرہ میں بھیج دیا گیا اور عام نظروں سے پوشیدہ ہو گیا۔ اب وہ اس جزیرہ میں ہاتھی اور اژدہے کا شکار کرکے اپنا گزارہ کرتا ہے۔ایک قصہ باغ ارم کا ہے، جس کو ایک کافر بادشاہ شداد نے بنوایا تھا۔ اس بادشاہ نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ اس زمانہ کے پیغمبر نے نصیحت کی اور کہا کہ اگر تو راہِ حق پر آجائے، تو تجھے بہشت ملے گی۔ پھر بہشت کی کیفیت بیان کی۔ اس نے کہا کہ ایسی بہشت تو میں خود بنوا سکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے مقام ارم میں ایک باغ بنوایا، جواہرات سے مرصع محل تیار کرائے، اس میں حسین عورتیں حوروں کی جگہ اور حسین خادم غلمان کی جگہ رکھے۔ باغ تیار ہو چکا تو گھوڑے پر سوارہوکر باغ کے دروازے پر پہنچا۔ رکاب سے پاؤں زمین پر رکھنے کی اجازت نہیں ملی۔ ملک الموت نے اس کا دم قبض کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد یہ باغ زمین سے اٹھا لیا گیا اور بہشت اور دوزخ کے درمیان رکھ دیا گیا۔ اب اسی کو اعراف کہتے ہیں۔ باغ ارم، گلزار ارم، بہشت ارم، بہشت شداد، جنت شداد، باغ شداد اور ارم اسی قصہ کی تلمیحیں ہیں۔ایک قصہ عوج بن عنق کا ہے جو حضرت آدم کے زمانے میں پیدا ہوا اور حضرت موسیٰ کے زمانے تک زندہ رہا۔ یہ شخص بہت ہی دراز قد تھا۔ طوفان نوح اس کی کمر تک آیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں اس نے بنی اسرائیل کے لشکر پر حملہ کرنا چاہا اور اس غرض کے لیے ایک دو میل لمبا پہاڑ سر پر اٹھا لیا اور چاہا کہ اس کو لشکر مذکور پر دے مارے۔ مگر خدا کے حکم سے ایک ہد ہد نے اس پہاڑ میں سوراخ کر دیا اور وہ پہاڑ عوج کے گلے میں اتر گیا۔ پھر حضرت موسیٰ نے اس کے ٹخنے کی ہڈی پر عصا مارا جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اس کی پنڈلی کی ہڈی سے دریائے نیل کا پل باندھا گیا تھا۔ایک قصہ قارون کا ہے۔ کہتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ کا چچازاد بھائی تھا۔ اس کو کیمیا آتی تھی۔ وہ سونا چاندی بناتا اور خزانے پر خزانہ جمع کرتا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کے پاس اتنے خزانے جمع ہو گئے کہ چالیس خچروں پر اس کے خزانوں کی کنجیاں لادی جاتی تھیں۔ حضرت موسیٰ نے اس سے کہا کہ ہزار دینار پر ایک دینار زکوٰۃ دیا کرو۔ اس نے انکار کیا اور حضرت موسیٰ کو ایذا پہنچانی چاہی۔ خدا نے اس کو یہ سزا دی کہ اب تمام خزانے اس کے سر پر ہیں اور وہ زمین میں برابر دھنستا چلا جاتا ہے۔ قارون کا بخل مشہور ہے۔ قارون کا خزانہ، گنج قارون، گنجینہ قارون، خزانۂ قارون، دولت قارون اس قصے کی تلمیحیں ہیں۔ایک قصہ اصحاب فیل کا ہے، جو رسول خدا کی ولادت باسعادت سے پہلے وقوع میں آیا۔ حبش کے بادشاہ کی طرف سے ایک شخص ابرہہ نامی یمن کا گورنر تھا۔ وہ کعبہ کی طرف لوگوں کی توجہ دیکھ کر حسد سے جل گیا۔ یمن میں ایک عالیشان عبادت گاہ تیار کرائی اور لوگوں کو اس کی طرف حج کی غرض سے آنے کی ہدایت کی، مگر سمندر کی طرف ابابیلوں کا ایک لشکر آکر آسمان پر منڈلانے لگا۔ ہر ابابیل کی چونچ میں ایک سنگ ریزہ تھا۔ جب یہ سنگ ریزے ابابیلوں نے اس لشکر پر چھوڑے تو ہاتھیوں پر بیٹھنے والوں کے جسموں سے پار نکل گے اور وہ سب ہلاک ہو گئے۔ اصحاب فیل اور طیراً ابا بیل کے الفاظ اس قصے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔آنحضرت سب سے اخیر پیغمبر ہیں۔ آپ کے بے شمار وصفی نام بطور تلمیح کے آتے ہیں۔ مثلاً خاتم الانبیاؐ، خاتم النبیینؐ، ختم رسلؐ، شافع محشرؐ، شفیع روزقیامت، شاہِ اممؐ، رسول مقبولؐ، شافع امم، رحمتہ للعالمین، شفیع المذنبین، سرورکائنات، ماہ یثرب، خیرالوریٰ، مدینۃ العلم، مصطفے ٰ، مجتبیٰ، وغیرہ۔ لولاک ایک حدیث قدسی کا ٹکڑا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تو نہ ہوتا، میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔ شرح صدر بھی ایک تلمیح ہے۔ قصہ یہ ہے کہ لڑکپن کے زمانے میں ایک دفعہ فرشتوں نے آپ کا سینہ چیر کر آپ کے دل کو دھویا اور صاف کیا اور نور معرفت سے بھر کر پھر آپ کے سینے کے اندر رکھ دیا۔ مہرنبوت ایک اور تلمیح ہے۔ یہ ایک خاص نشان حضور انور کے جسم مبارک پر تھا۔ اس مقام پر بالوں کا حلقہ اس شکل کا بن گیا تھا کہ اس میں کلمے کے حروف پڑھے جاتے تھے۔قاب قوسین کے معنی ہیں، ’’دو کمانوں کا فاصلہ۔‘‘ یہ تلمیح معراج کے متعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضور انور معراج میں خدا سے اس قدر قریب ہوئے کہ دو کمانوں کا فاصلہ یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ معراج خود ایک تلمیح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک رات، جب کہ آپ سو رہے تھے۔ جبریل آئے اور انہوں نے آپ کو جگاکر براق پر سوار کر دیا۔ یہ ایک بہشتی چار پایہ تھا، جو خچر سے چھوٹا، گدھے سے بڑا تھا۔ اس پر سوار ہوکر آپ پہلے بیت المقدس میں پہنچے، جہاں تمام انبیا کی روحیں آپ کے استقبال کے لیے جمع تھیں۔ یہاں سے آپ نے آسمان کی طرف چڑھنا شروع کیا۔ جب آسمان پر بیت المعمور میں پہنچے تو روحوں نے آپ کا استقبال کیا۔ بیت المعمور آسمان پر فرشتوں کے لیے ایسا ہی مقام ہے جیسا کہ زمین پر انسانوں کے لیے کعبہ۔سدرۃ المنتہی جس کو سدرہ بھی کہتے ہیں، حضرت جبریل کے رہنے کا مقام ہے۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے کہا کہ میں اس مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر آگے قدم بڑھاؤں گا تو میرے بال و پر تجلی الہی سے جل جائیں گے۔ براق نے بھی یہاں ساتھ چھوڑ دیا۔ یہاں ایک اور دوسری سواری ملی، جس کو رفرف کہتے ہیں۔ آپ اس پر سوار ہوکر آگے بڑھے۔ خدا سے خاص قرب حاصل کیا۔ حضور انور اس رات کو جس مقام تک پہنچے، اس کا نام مقام محمود ہے۔ جب واپس تشریف لائے تو آپ کے حجرہ مبارک کی زنجیر ابھی ہلتی تھی اور آپ کا بستر ابھی گرم تھا۔ گویا آپ نے چشم زدن میں افلاک، عرش، کرسی، جنت، دوزخ وغیرہ مقامات کی سیر کر لی۔ اس واقعہ کا ذکر معراج اسرا، شب معراج، لیلۃ الاسرا وغیرہ الفاظ سے کیا جاتا ہے۔غار حرا ایک اور تلمیح ہے۔ یہ ایک پہاڑی غار مکہ کے قریب ہے۔ یہاں آپ عبادت کے لیے اکثر جایا کرتے تھے۔ ایک تلمیح مسجد ضرار ہے۔ جب کہ مکہ سے ہجرت کرکے آپ مدینہ میں پہنچے تو آپ نے وہاں ایک مسجد کی بنیاد ڈالی۔ اس میں تمام مسلمان عبادت کافرض ادا کرتے تھے۔ مسجد نبوی سے دور ایک اور مسجد منافقوں نے بنائی۔ غرض یہ تھی کہ وہاں اسلام اور آنحضرت کے برخلاف سازش کے مشورے کریں۔ انہوں نے آنحضرت سے درخواست کی کہ ایک دفعہ آپ اس مسجد میں نماز پڑھیں اور جو مسلمان کمزور ہیں اور دوری کے سبب مسجد نبوی میں نہیں آ سکتے ان کو اس نئی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دیں۔ وحی کے ذریعے سے آپ کو ان کا ارادہ معلوم ہو گیا۔ آپ وہاں نماز کے لیے تشریف نہیں لے گئے۔ پھر آپ کے حکم سے وہ مسجد جلا دی گئی۔ اسی کومسجد ضرار کہتے ہیں۔خم غدیر جو اصل میں غدیر خم ہے، ایک جھیل کا نام ہے، جہاں آخری حج سے واپسی کے بعد آپ نے آخری تقریر فرمائی۔ اہل بیت آپ کے کنبے والوں کو کہتے ہیں۔ خاتون جنت آپ کی دختر اطہر حضرت فاطمہ زہرا کا لقب ہے۔ یار غار کی تلمیح سے حضرت ابوبکر صدیق مراد ہیں، جو ہجرت کے وقت ایک پہاڑ کے غار میں حضور انور کے رفیق تھے۔ فاروق یا فاروق اعظم حضرت عمر کا اور ذوالنورین اور جامع قرآن حضرت عثمان کا لقب ہے، جو جلیل القدر صحابی تھے۔ حضرت علی آپ کے داماد تھے۔ ان کے وصفی نام کثرت سے ہیں۔ مثلاً فاتح خیبر، خیبر شکن، حیدر کرار، حیدر صفدر، ابو تراب، مرتضیٰ، مشکل کشا، ساقی کوثر، شیر خدا، دلدل سوار شاہ مرداں، اسد اللہ وغیرہ۔ ان کی تلوار ذوالفقار کے نام سے مشہور ہے اور گھوڑا دلدل کے نام سے۔خالد بن ولید بھی ایک صحابی تھے۔ ان کا لقب سیف اللہ ہے۔ ایک صحابی ابوہریرہ کی کنیت سے ممتاز ہیں۔ انہوں نے ایک بلی پال رکھی تھی۔ گربہ ابوہریرہ کی تلمیح سے وہی بلی مراد ہے۔ آپ کے مخالفوں میں سے ایک کی کنیت ابوجہل اور ایک کی ابولہب ہے۔ باغ فدک کھجوروں کا ایک باغ تھا، جو یہودیوں سے صلح ہونے پر لیا گیا تھا۔ اسی کی آمدنی پر آنحضرت کی گذران تھی۔جن فرشتوں کا ذکر تلمیح میں آتا ہے، ان میں سے ایک جبریل ہیں۔ ان کے بہت سے وصفی نام ہیں۔ مثلاً مرغ سدرہ، بلبل سدرہ، طائر سدرہ، سدرہ نشین، جبریل امین، جوہر اول، عقل کل، روح قدس، طائر قدس، روح امیں، ناموس اکبر، ناموس اعظم، فرشتہ وحی وغیرہ۔ یہ آنحضرت کے پاس خدا کا پیام لاتے تھے۔ ان کا مقام سدرۃ المنتہیٰ ہے، جیسا کہ معراج کے ذکر میں بھی بیان ہو چکا ہے۔ ایک فرشتہ کا نام میکائیل ہے۔ روزی تقسیم کرنا ان کا کام ہے۔ ایک فرشتہ عزرائیل ہے، جو روحوں کے قبض کرنے پر مامور ہے، جسے ملک الموت یا قابض روح یا فرشتہ موت بھی کہتے ہیں۔ ایک کا نام اسرافیل ہے، جو قیامت کو صور پھونکیں گے۔ صور اسرافیل کی تلمیح انہیں کے نام کے ساتھ منسوب ہے۔ دوسرے کراماً کاتبین کے نام سے موسوم ہیں، ان کو کاتب اعمال بھی کہتے ہیں۔ دونوں انسانوں کے دائیں بائیں رہتے ہیں اور ہر ایک انسان کی نیکی بدی لکھتے رہتے ہیں۔ وہ دفتر جس میں نیکی بدی لکھی جاتی ہے اور جو قیامت کے دن خدا کے سامنے پیش ہوگا، صحیفۂ اعمال، دفتر اعمال، نامہ اعمال، اعمال نامہ کہلاتا ہے۔دو فرشتے ہیں جو قبر میں آتے ہیں اور مردے سے سوال و جواب کرتے ہیں۔ ان کو منکر نکیر یا نکیرین کہتے ہیں۔ ایک فرشتہ رعا کے نام سے موسوم ہے، جو بادلوں کو ہانکتا اور مینہ برساتا ہے۔ ایک فرشتہ جنت کا داروغہ ہے، اس کا نام رضوان ہے اور ایک فرشتہ ہے، جو دوزح کا نگہبان ہے۔ اس کو مالک کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد قیامت تک جو زمانہ گزرےگا، اسے برزخ یا عالم برزخ کہتے ہیں۔ جنت وہ مقام ہے جہاں نیک آدمیوں کی روحیں رکھی جائیں گی۔ اس کے بہت سے نام ہیں۔ مثلاً بہشت، خلد، جنان، دارالسلام، باغ جنان، باغ رضواں، فردوس، فردوس بریں، باغ عدن، دارالقرار، علیین، باغ نعیم وغیرہ۔ دوزخ وہ مقام ہے، جہاں گنہگار رکھے جائیں گے اور آگ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ اس کے بھی بہت سے نام ہیں۔ مثلاً نار، جہنم، جحیم، سعیر، ہاویہ، سقر وغیرہ۔جنت میں ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے، جس کی شاخیں ہر جنتی کے گھر میں پہنچی ہیں۔ کئی نہریں بھی ہیں، جن میں سے ایک کا نام کوثر ہے۔ اسے چشمہ کوثر اور حوض کوثر بھی کہتے ہیں۔ دیگر نہروں کے نام حسب ذیل ہیں: تسنیم، نہریں، سنسبیل، زنجبیل، کافور۔ دوزخ اور جنت کے درمیان جو مقام ہے اس کا نام اعراف ہے، جہاں ایسے لوگ رکھے جائیں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہیں۔ دوزخ کے پشت پر ایک پل ہے جس کو پل صراط کہتے ہیں۔ یہ تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ نیک آدمی اس پر سے بجلی کی طرح گزر جائیں گے اور بد آدمی کٹ کٹ کر دونوں طرف دوزخ میں گریں گے۔ نیکیوں اور بدیوں کا اندازہ کرنے کے لیے قیامت کے دن ایک ترازو کھڑی کی جائےگی، جس کو میزان یا میزان اعمال کہتے ہیں۔بہشت میں خوبصورت عورتیں بہشتیوں کی خدمت میں ہوں گی، وہ حوریں کہلاتی ہیں اور جو حسین خادم ان کی خدمت کریں گے وہ غلمان کے نام سے موسوم ہیں۔ بہشتیوں کو جو شراب پلائی جائےگی، اس کا نام شراب طہور ہے۔ دوزخ میں دوزخیوں کو ایک کانٹے دار پھل کھانے کو دیا جائے گا جو زقوم کہلاتا ہے۔ دوزخ میں بہت سے گنہگار جھونکے جائیں گے، مگر اس کا پیٹ نہیں بھرےگا۔ وہ بار باریہ صدا بلند کرےگی، ’’ہل من مزید۔‘‘ کیا میرے لیے کچھ اور بھی خوراک ہے؟ یہ آیت بھی بطور تلمیح کے بار بار آتی ہے۔ اس کے علاوہ حاتم کی فیاضیوں اور لیلی وقیس کی عشق بازی کے قصے بھی عرب سے ایران میں آئے اور ایرانی ادب میں گھل مل گئے۔ادبی تلمیحات قسم اول میں جو تلمیحات درج کی گئی ہیں، وہ بطور مثال کے ہیں۔ تمام تلمیحات کا استیعاب نہیں کیا گیا۔ یہ کام اس مصنف کا ہے جو تلمیحات کی فرہنگ مرتب کرے۔ ہم اب ان تلمیحات پر توجہ کی نظر ڈالتے ہیں جو قسم دوم میں داخل ہیں اور یہ وہ تلمیحات ہیں جن میں ایرانی اثر پایا جاتا ہے۔

اردو ادبی تلمیحات قسم دوم

جمشید ایران کا ایک مشہور بادشاہ تھا، جو عیش و عشرت اور شان و شوکت کے لحاظ سے بار بار مذکور ہوا ہے۔ اس کو جم بھی کہتے ہیں۔ مگر جم کے لفظ سے شعرا کبھی حضرت سلیمان مراد لیتے ہیں، کبھی سکندر اور کبھی ایران کے اس نامور بادشاہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ خاتم جم، نگین جم، انگشتر جم، تخت جم کی تلمیحوں میں اس لفظ سے حضرت سلیمان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آئینہ جم سے سکندر مراد ہے۔ بزم جم، جام جم، جشن جم، ساغر جم میں ایران کے بادشاہ جمشید کی طرف اشارہ ہے۔ ان تلمیحات میں جم کی جگہ جمشید کا لفظ بھی لایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس بادشاہ کے پاس شراب کا ایک پیالہ تھا۔ اس کے گرد سات خط کھینچے ہوئے تھے۔ سب سے پہلے خط یعنی بالائی خط تک شراب بھری جاتی تو جمشید کے سوا کسی کی مجال نہ تھی کہ اس پیال کو پی سکے۔ پہلے خط یعنی کنارے کے خط کا نام خط جور ہے۔ باقی چھ خطوں کے نام ترتیب وار حسب ذیل ہیں، خط بغداد۔ خط بصرہ۔ خط ازرق جس کو خط سیاہ، خط شب اور خط سبز بھی کہتے ہیں۔ خط شکریہ۔ خط اشک۔ خط کا سہ گر۔ خط فرودینہ۔ تخت جمشید جو ایران کے آثار قدیمہ میں سے ایک عالی شان عمارت ہے، اسی بادشاہ کی یادگار ہے۔ایک اور بادشاہ جس نے ایران پر حکومت کی، ضحاک تھا۔ یہ اپنے ظلم و ستم او رخون ریزی کے سبب بدنام ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کے دونوں شانوں پر دوسانپ پیدا ہو گئے تھے۔ ان کی غذا کے لیے انسان کا گوشت درکار تھا۔ ضحاک ہر روز انسانوں کو ہلاک کرتا اور سانپوں کے لیے خوراک بہم پہنچاتا تھا۔ مارضحاک سے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بادشاہ فریدوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔فریدوں اپنی عظمت و صولت کے سبب مشہور ہے۔ جب شاعر کسی بادشاہ کی تعریف کرتے ہیں تو اس کو فریدوں فر کہا کرتے ہیں۔ ضحاک کے عہد حکومت میں ایک لہار تھا جس کا نام کا وہ تھا۔ یہ لہار اصفہان کا باشندہ تھا۔ اس کے چار بچے ضحاک نے مروا ڈالے تھے۔ خلقت ضحاک کے جو روستم سے عاجز آ گئی تھی۔ کاوہ کے دل میں ان واقعات کو دیکھ کر جوش پیدا ہوا۔ اس نے دکان بند کر دی۔ جس چمڑے کو وہ اہرن کے نیچے بچھایا کرتا تھا، اس کو ایک لکڑی پر آویزاں کرکے پھر یرا بنایا اور ڈھول بجاتا ضحاک کے ظلم کے راگ گاتا نکل کھڑا ہوا۔ درفش کا ویانی، علم کاویانی، پرچم کاویانی، اختر کاویانی کے الفاظ سے بھی یہی جھنڈا مراد ہے۔ایران کے باشندے جو ضحاک کے ظلم و ستم سے تنگ آ گئے تھے، اس جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ کاوہ اس لشکر کو اپنے ساتھ لے کر بڑھا۔ ضحاک کی فوجوں سے اس کی ٹکر ہوئی۔ ان فوجوں نے شکست کھائی، یہاں تک کہ تمام ایران کو کاوہ نے فتح کر لیا۔ اس نے بذات خود سلطنت کرنے سے انکار کیا۔ فریدوں جو جمشید کا بیٹا تھا اور جس کا باپ ضحاک کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا، تخت ایران پر بٹھایا گیا۔ تمام لڑائیوں میں درفش کاویانی فوج کے آگے آگے رہتا تھا۔ پے درپے فتوحات نے یہ بات ذہن نشین کر دی کہ یہ جھنڈا بہت مبارک ہے۔ کاوہ کے مرنے کے بعد فریدوں نے اور فریدوں کے بعد ایران کے دیگر بادشاہوں نے اس جھنڈے کو جواہرات سے مرصع کیا۔ یزد جرد کے زمانہ تک یہ جھنڈا ہر لڑائی میں فوج کے آگے آگے چلتا تھا۔ حضرت عمر کے زمانے میں یہ جھنڈا مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ اس کے جواہرات تقسیم کر دیے گئے اور چمڑا جلاکر خاکستر کر دیا گیا۔کیخسرو ایران کا ایک اور نامور فرماں رواں تھا۔ کہتے ہیں کہ اس نے ایک پیالہ بنایا تھا۔ اس پر ہندسی خطوط کھچے ہوئے تھے۔ جس طرح اصطرلاب کے خطوط سے ستاروں کا ارتفاع وغیرہ معلوم ہوتا ہے، اسی طرح اس جام کے خطوط سے ستاروں کی گردش نمایاں ہوتی تھی، اور زمانے کے آیندہ واقعات اس سے معلوم کیے جاتے تھے۔ اس جام کی طرف جو اشارے ہمارے شعرا نے کیے ہیں، ان کے لیے حسب ذیل الفاظ تراشے گئے ہیں: جامِ کیخسرو، جام جہاں نما، جام جہاں بیں۔کیانیوں کے عہد حکومت میں ایران اور توران کے درمیان ہمیشہ معرکہ آرائیاں ہوتی تھیں۔ ایرانیوں کی حمایت میں سیستان یازابلستان کے ایک پہلوان نے اپنے شاندار کارناموں سے بڑی شہرت حاصل کی۔ اس پہلوان کا نام رستم تھا۔ رستم کو پیلتن اور تہمتن بھی کہتے ہیں۔ یہ زال کا بیٹا تھا اس لیے پورِ زال کے لفظ سے بھی یہی پہلوان مراد ہے۔ شاہ نامہ فردوسی کا ہیرو یہی رستم ہے۔ رستم کے ہاتھ میں گرز رہتا تھا، جو گرز رستم کے نام سے مشہور ہے۔ چونکہ یہ گرزبیل کے سرسے مشابہ تھا، اس لیے اسے گرزگاوسر بھی کہتے ہیں۔ اس کے گھوڑے کا نام رخش ہے۔ سہراب اسی کے بیٹے کا نام تھا۔ اتفاق سے دونوں باہم جنگ آزما ہوئے اور ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی۔ جب رستم کے ہاتھ سے سہراب زخمی ہو چکا تو اس راز سے آگاہ ہوا مگر واقعہ لاعلاج تھا۔افراسیاب جو توران کا بادشاہ تھا، اس کے لشکر سے بار بار رستم کے مقابلے ہوئے۔ کیکاوس جو ایران کا نہایت مشہور بادشاہ تھا، اسے ایک دفعہ دیووں نے گرفتار کرکے مازنداں کے قلعہ میں قید کر دیا تھا۔ رستم اس بادشاہ کو قید سے چھڑانے کے لیے گیا۔ رستہ نہایت دشوار گزار تھا۔ ہر منزل میں ایک نئی ہولناک مصیبت و تکلیف سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ سات منزلیں شاہ نامہ کی زبان میں ہفت خواں کے نام سے مشہور ہیں۔ ہفت خوان رستم کے علاوہ ایک اور ہفت خواں بھی ہے، جو ہفت خوانِ اسفندیار کے نام سے موسوم ہے۔ ارجا سپ بادشاہ اسفندیار کی دوبہنوں کو پکڑ لے گیا تھا اور انہیں روئیں وژمیں، جو ایک قلعہ کا نام ہے، قید کر دیا۔ جب اسفندیار اپنی بہنوں کو چھڑانے کے لیے اس قلعہ کی طرف روانہ ہوا تو رستہ میں اسے بھی سات مصیبت خیز اور ہولناک واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسفندیار کی بھی ساتوں منزلیں، جن کو طے کرنے کے بعد وہ اپنی بہنوں کو چھڑا کر لایا، ہفت خوانِ اسفندیار کے نام سے مشہور ہیں۔ابھی بتایا جا چکا ہے کہ رستم کے باپ کانام زال تھا۔ زال کو دستاں بھی کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے رستم کو رستم دستاں کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ زال کی پرورش پہاڑ کے ایک غارمیں سیمرغ نے کی تھی۔ جو ان ہونے پر سیمرغ نے اپنا ایک پراسے دے دیا تھا کہ جب میرے بلانے کی ضرورت ہو، اس پر کو آگ پر رکھنا، میں اس کی بو پر آ پہنچوں گا۔ رستم کو جب کبھی کوئی سخت واقعہ پیش آیا، اسی پر کی مدد سے سیمرغ بلایا گیا اور اس سے مشورہ کیا گیا۔ سام رستم کے دادا کا نام تھا اور نریمان پر دادا کا۔ شغادرستم کا ایک بھائی تھا، جو اس کی طرف سے دل میں حسد رکھتا تھا۔ اس نے سات کنویں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تیار کرائے اور ان کو ہتھیاروں سے بھر دیا اور خس پوش کر دیا۔ پھر رستم کو سیروشکار کے بہانے سے اس موقع پر لے گیا، جہاں وہ خس پوش کنوئیں تھے۔رستم جو گھوڑے پر سوار تھا، پہلے کنوئیں میں گر گیا مگر گھوڑے نے جست کی، تو اس میں سے نکل آیا۔ پھر دوسرے کنوئیں میں جا گرا۔ جب چھ کنوؤں سے جست کر کر نکل چکا اور ساتویں کنوئیں میں گرا تو رستم اور اس کا گھوڑا دونوں بہت زخمی ہو گئے تھے۔ آخر رستم نے اسی کنوئیں میں جان دی۔ شعرا اس واقعہ کی طرف چاہ رستم کے لفظ سے اشارہ کرتے ہیں۔ چاہ رستم کی طرح ایک تلمیح چاہ بیزن بھی ہے۔ بیزن گیو کا بیٹا اور رستم کا بھانجا تھا۔ وہ افراسیاب کی بیٹی منیژ ہ پر عاشق ہو گیا تھا۔ اس کی پاداش میں وہ ایک چاہ تاریک کے اندر قید کر دیا گیا۔ یہی کنواں چاہ بیزن کہلاتا ہے۔ رستم اس کو آخر کار قید سے چھڑا لایا۔سیاوش کیکاؤس کا یبٹا تھا۔ اپنی سوتیلی ماں کے طعنوں سے تنگ آکر اپنے باپ کے دشمن افراسیاب کے پاس چلا گیا، جو توران کا بادشاہ تھا۔ وہ پہلے تو اس کے آنے سے بہت خوش ہوا اور اپنی لڑکی سے اس کی شادی کر دی۔ مگر پھر اپنے ایک اور داماد کے بہکانے سکھانے سے اسے ناحق قتل ک رڈالا۔ خون سیاوش اسی واقعہ کی تلمیح ہے۔ اس لفظ سے خون ناحق مراد لیتے ہیں۔ بہرام گور بھی ایران کا ایک مشہور بادشاہ تھا، جو شہسواری اور نیزہ بازی میں شہرت رکھتا تھا۔ یہ شکار کا بے حد شائق تھا اور اکثر گورخر کا شکار کرتا تھا۔ اسی لحاظ سے اسے بہرام گور کا لقب دیا گیا ہے۔ ہمارے شعرا اس بادشاہ کا ذکر بار بار کرتے ہیں۔نوشیرواں، ایران کا عادل بادشاہ مشہور ہے۔ اس کا محل ایوان کسری کے نام سے موسوم ہے، جو نہایت عالیشان تھا۔ اسی کو طاق کسریٰ بھی کہتے ہیں۔ ان تلمیحات میں کسریٰ کو نوشیرواں کا مرادف خیال کیجیے۔ جب یہ محل بننے لگا، تو محل کے ایک پہلو پر ایک بڑھیا کی جھونپڑی تھی۔ چاہا کہ اس جھونپڑی کی جگہ خیرید لی جائے، تاکہ محل اس گوشہ کی طرف ٹیڑھا نہ رہ جائے مگر بڑھیا نے جگہ دینے سے انکار کیا۔ عاملان شاہی نے بڑھیا پر جبر کرنا چاہا، مگر نوشیرواں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ میں ظلم سے رعایا کی زمین پر قبضہ کرنا نہیں چاہتا۔ اگر میرا محل ٹیڑھا رہے تو کچھ پروا نہیں۔ عدل نوشیروانی کا ذکر جب ہمارے شعرا کرتے ہیں، تو اس بڑھیا کا ذکر ضرور آتا ہے۔ نوشیرواں کا بیٹا ہرمز تھا۔ ہرمز کا بیٹا پرویز، جس کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس بادشاہ کا ذکر ہمارے شعرا نے بار بار کیا ہے۔ یہ بہ مقابلہ دیگر شاہان ایران کے زیادہ مال دار تھا۔ اس کے پاس آٹھ خزانے تھے۔ جن کے نام حسب ذیل ہیں: گنج عروس۔ گنج باد آور دیا گنج شایگاں۔ گنج دیبا خسروی۔ گنج افراسیاب۔ گنج سوختہ۔ گنج خضرا۔ گنج شاد آورد۔ گنج بار۔اس بادشاہ کے گھوڑے کا نام شب ویز تھا، جو ایک اعلیٰ درجہ کا مشکی گھوڑا تھا۔ کچھ دنوں تو اس بادشاہ نے عاقلانہ اور مدبرانہ طریقے سے سلطنت کی، مگر آخر میں وہ عیش پسند ہو گیا۔ اس نے اپنے محل میں حسین عورتیں کثرت سے جمع کر لیں۔ اسی زمانہ عیش میں اس نے شیریں کے حسن کا چرچا سنا۔ یہ ارمن کی ملکہ مہین بانو کی بھتیجی تھی۔ خسرو نے اپنے ایک مصاحب شاپور نامی سے اس باب میں امداد چاہی۔ شاپور کو مصوری میں کمال تھا۔ اس نے خسرو کی کئی تصویریں مختلف لباس اور مختلف وضع کی کھینچیں۔ پھر ان تصویروں کو بغل میں دبا ارمن پہنچا۔ ایک باغ میں، جس میں شیریں سیر و تفریح کے لیے آیا کرتی تھی، اس نے وہ تصویریں درختوں سے لٹکا دیں۔ شیریں کی نظر ان پر پڑی تو وہ فریفتہ ہو گئی۔ اس نے شاپور کو بھی دیکھا اور اس سے ان تصویروں کا حال پوچھا۔ اس نے خسرو کے حسن و جمال کا تذکرہ اس طرح نمک مرچ لگا کر کیا کہ وہ خسرو کے پاس جانے اور اس سے شادی کرنے پر راضی ہو گئی۔ آخر کار شیریں خسرو کے محل میں داخل ہوئی۔خسرو محل کی تمام حسین عورتوں سے زیادہ اسی سے محبت کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ شیریں کو تازہ دودھ سے بہت رغبت تھی۔ شہر کے کنارے ایک پہاڑ کوہ بے ستوں نامی کھڑا تھا۔ اس کی پشت پر بکریوں کے گلے چرتے تھے۔ انہیں کا دودھ شیریں کے محل میں لایا جاتا تھا، مگر اتنی دور سے لانے میں دقت تھی۔ ایک نامی سنگ تراش فرہاد سے کہا گیا کہ وہ کوہ مذکور سے ایک نہر کاٹ کر شیریں کے محل تک پہنچادے تاکہ چراگاہ سے بکریوں کا دودھ دُہ کر نہر میں ڈالا جائے اور وہ بہہ کر شیریں کے محل میں پہنچے۔ فرہاد مذکور بھی اتفاق سے شیریں پر فریفتہ تھا۔ اس کے عشق کے چرچے پھیل چکے تھے۔ خسرو نے اس خیال سے کہ اس سے پیچھا چھڑائے، یہ خدمت اس کے سپرد کی اور وعدہ کیا کہ اگر وہ اس خدمت کو سر انجام دے سکا تو شیریں اس کو بخش دی جائےگی۔خسرو کو یقین تھا کہ فرہاد اس سنگین خدمت کو انجام تک نہ پہنچا سکےگا، مگر عشق اور امید وصال محبوب نے فرہاد میں ہزاروں سنگ تراشوں کی قوت پیدا کر دی۔ وہ کمر باندھ کر اس کام میں مشغول ہو گیا۔ بے ستون کے پتھر کاٹنے کے وقت فرہاد عشق کی دھن میں جابجا شیریں کی مورتیں تراشتا جاتا تھا۔ کئی سال کے بعد جب یہ کام اختتام کے قریب پہنچا اور ایفائے وعدہ کا وقت آیا، تو خسرو نے ایک مکار بڑھیا کو فرہاد کے پاس بھیجا جو سر کے بال بکھرے ہوئے روتی پیٹتی اس کے پاس پہنچی اور اس نے یہ جھوٹی خبر سنائی کہ شیریں کا انتقال ہو گیا۔ فرہاد کو جو صدمہ اس خبر سے ہوا، وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ اس کے ہاتھ میں تیشہ تھا، وہی تیشہ اپنے سرپر دے مارا اور ہلاک ہو گیا۔شیریں اور فرہاد کا افسانہ ایران میں بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اس قصے پر مثنویاں لکھی گئیں۔ شاعروں نے لیلیٰ اور مجنوں کی طرح ان دوعاشق و معشوق کے تذکرہ کو بھی اپنے اشعار میں عاشقانہ شاعری کا محور بنا لیا ہے۔ فرہاد کا لقب کو ہ کن ہے۔ جوئے شیروہ نہر ہے جو فرہاد نے بے ستون سے کاٹ کر قصر شیریں تک پہنچائی۔ قصر شیریں کی جگہ قصر خسرو کا لفظ بھی لایا جاتا ہے۔ باربد اس بادشاہ کا خاص درباری بربط نواز تھا، جو موسیقی کے فن میں کمال رکھتا تھا۔ اس نے تیس راگنیاں ایجاد کیں، جو اسی لحن کے نام سے مشہور ہیں۔ ترانہ باربد یا ترانہ باربدی سے اسی بربط نواز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ خسرو پرویز کے تخت کا نام طاقدیس تھا۔ یہ تخت فریدوں سے اس کے ورثہ میں آیا تھا۔ اس کا طول (۱۷۰) گز اور عرض (۱۲۰) گز تھا۔ سر سے پاؤں تک جواہرات نصب کیے گئے تھے۔ اس کی چھتری میں بارہ برجوں اور سات ستاروں کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا تھا کہ فلکی اور نجومی حالات اس سے معلوم ہوتے رہتے تھے۔مانی اور بہزاد دو نقاشوں کے نام بار بار شاعری میں لائے جاتے ہیں۔ ان میں سے پہلا ایک رومی نقاش تھا۔ اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا۔ مانوی فرقہ اس کی طرف منسوب ہے۔ اس نے تصویروں کا جو مجموعہ تیار کیا تھا، اس کو ارتنگ یا ارژنگ کہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ارژنگ ایک دوسرے مصور کا نام تھا۔ بہزاد شاہ اسمعیل صفوی کے زمانہ کا نقاش ہے۔ مرقع مانی، نقش بہزاد کے الفاظ انہیں دونوں نقاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔آتش پرستوں یعنی زردشتیوں کے مذہب سے جو تلمیحیں لی گئی ہیں، وہ حسب ذیل ہیں: اہرمن اور یزداں دو قوتوں کا نام ہے، جو دنیا پر حکمرانی کرتی ہیں۔ کبھی یہ قوت غالب آتی ہے اور کبھی وہ۔ ان میں سے پہلی قوت بدی کی ہے دوسری قوت نیکی کی۔ سدھ آگ کو کہتے ہیں۔ جمشید نے اول اول پتھر سے آگ نکلتی دیکھی تو اس خوشی میں ایک جشن کی بنیاد ڈالی۔ یہ جشن جشنِ سدھ کے نام سے مشہور ہے۔ زردشتی مذہب والے آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ آتش کدوں میں آگ ہر وقت روشن رہتی ہے، کبھی بجھنے نہیں پاتی۔ آتش فارسی، اسی آگ کی طرف اشارہ ہے۔ آتش کدہ کی خدمت کے لیے جو خوبصورت نوجوان مقرر ہوئے تھے وہ مغ کہلاتے تھے اور ان کا افسر پیرمغاں کہلاتا تھا۔ یہی نوجوان مجلسوں میں ساقی گری کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آتش کدوں میں ایک جانور چھپکلی کی شکل کا پیدا ہو جاتا ہے، جس کی زندگی کا مدار آگ کھانے پر ہے۔ اس کو سلمندر کہتے ہیں۔ سلمندر کا ذکر بھی ہماری شاعری میں بار بار آتا ہے۔ جب آفتاب برج حمل کے پہلے نقطہ پر پہنچتا ہے اور ماہ فردردین کا پہلا دن ہوتا ہے، پارسی خوشیاں مناتے ہیں۔ اس روز کو نوروز کہتے ہیں۔نخشب ترکستان کا ایک شہر ہے۔ جو سمرقند سے تین دن کے رستہ پر ہے۔ یہاں ایک حکیم ابن عطانامی نے جسے ابن مقنع بھی کہتے ہیں، کسی عجیب طریقے سے ایک مصنوعی چاند بنایا تھا، جونخشب کے ایک کنویں سے ہر روز شام کے وقت برآمد ہوتا تھا اور اتنا بلند ہوتا تھا کہ اس کی روشنی چاروں طرف بارہ میل تک پہنچتی تھی۔ دو مہینے تک یہ چاند برابر نکلتا رہا۔ اس چاند کو ماہ نخشب اور ماہ مقنع کہتے ہیں اور اس کوئیں کو جس میں سے وہ چاند نکلتا تھا، چاہ نحشب کہتے ہیں۔ ایک اور تلمیح سنگ یدہ ہے۔ ترکستان میں ایک مقدس پتھر تھا۔ جب بارش کا امساک ہوتا تھا، ترکستان کے لوگ جنگل میں نکل جاتے اور اس پتھر کو ہاتھ پر رکھ کر بارش کی دعا مانگتے تھے۔ اس کی برکت سے بارش ہونے لگتی تھی۔ اس پتھر کو سنگ یدہ کہتے ہیں۔کمان رستم جب ہماری شاعری میں آتا ہے، تو اس سے قوس قزح مراد لی جاتی ہے۔ لسان الغیب حافظ شیراز کا، بلبل آمل طالب آملی کا، بلبل شیراز سعدی شیرازی کا، حسان عجم اور اخلاق المعافی خاقانی شروانی کا اور عندلیب نیشا پوری نظیری کا لقب ہے۔ شاخ نبات حافظ شیراز کی محبوبہ کا نام ہے۔ ایاز سلطان محمود غزنوی کاایک عزیز و محبوب غلام تھا۔ حسن و عشق کے ذکر میں یہ دونوں نام بھی لیے جاتے ہیں۔ سکندر نے ایران کو فتح کیا تھا۔ شاعروں نے اس کی فتوحات کو آب و تاب سے بیان کیا۔ اس کے عجیب و غریب کارنامے لکھے گئے۔ اس کی تعریف کے گیت یہاں تک گائے گئے کہ لوگوں نے اس کو پیغمبر بھی سمجھ لیا۔ آب حیات کے چشمہ کی طرف اس کے جانے کا ذکر خضر کی تلمیح میں مذکور ہوا ہے۔ سد سکندری کا ذکر ذوالقرنین کی تلمیح میں کیا گیا ہے۔ ایک اور تلمیح سکندر کی نسبت یہ ہے کہ اس نے حکیم بلیناس کی ہدایت سے اسکندریہ میں ایک عظیم الشان مینار بنوایا تھا، جو تین سو گز بلند تھا۔ اس پر ایک آئینہ لگایا تھا، جس کا دور اکیس گز کا اور قطر سات گز کا تھا۔ یہ آئینہ دوربین کا کام دیتا تھا۔ جب اس میں سے دیکھتے تھے تو قسطنطنیہ کا سارا شہر آنکھوں کے سامنے نظر آتا تھا۔ آئینہ سکندر سے اسی بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ادبی تلمیحات کے بعد اب ہم ذیل میں عام تلمیحات پر نظر ڈالتے ہیں،عام تلمیحات

عام بول چال میں جو تلمیحات مستعمل ہیں، ان میں سے بعض تاریخ سے لی گئی ہیں۔ بعض ہندوؤں اور مسلمانوں کے عام مذہبی عقاید اور اوہام سے ماخوذ ہوئی ہیں۔ بعض ان دونوں قوموں کی خاص خاص رسموں کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور بعض کی بنیاد ان فرضی قصوں پر ہے، جو عام طور سے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض تلمیحیں محاوروں کی شکل میں ہیں اور بعض مثلوں کے پیرایے میں۔ ایسے محاوروں کو ہم تلمیحی محاورے اور ایس مثالوں کو ہم تلمیحی مثلین کہتے ہیں۔ ماخذوں کے لحاظ سے یہ تلمیحیں ملی جلی ہیں۔ ہندو مسلمان ان میں برابر کے شریک ہیں۔ مندرجہ بالا چاروں قسم کے تلمیحات کی مثالیں ہم پیش کرنا چاہتے ہیں، جو حسب ذیل ہیں،

(اول) وہ تلمیحیں جو تاریخ سے لی گئی ہیں

ڈھائی دن کی بادشاہت یا اڑھائی دن کی بادشاہت سے تھوڑے دنوں کی حکومت یا ناپائدار حکومت مراد ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اس واقعہ سے آگاہ ہیں کہ جب ہمایوں شیرہ شاہ سے شکست کھاکر دریا میں کود پڑا، تو نظام سقہ نے اس کو ڈوبتے ڈوبتے بچایا تھا اور اس کے صلہ میں اس نے ہمایوں بادشاہ سے ڈھائی دن کی حکومت مانگی تھی۔ نظام نے اس قلیل دور حکومت میں چمڑے کا گول روپیہ سونے کی کیل جڑ کر چلایا تھا۔ اس واقعہ سے ایک دوسری تلمیح پیدا ہوئی ہے۔ چام کے دام چلانا۔ اس محاورہ سے جوتے کے زور سے حکومت کرنا اور جبراً کام لینا مراد ہے۔ اورنگ زیبی ایک طبی تلمیح ہے۔ یہ ایک سوداوی مادہ کا پھوڑا ہے، جو اکثر کئی سال تک ہرا رہتا ہے اور اچھا ہونے میں نہیں آتا۔ جب اورنگ زیب عالمگیر نے گولکنڈہ کا محاصرہ کیا اور محاصرہ نے طول کھینچا، تو آب و ہوا کی خرابی سے اکثر اہل لشکر کے پھوڑے نکل آئے اور باجود علاج کے وہ مدت تک ہرے رہے، اسی پھوڑے کو اورنگ زیبی کہتے ہیں۔سلطنت مغلیہ کے زمانے میں بادشاہوں کے جلوس کے ساتھ بائیس اضلاع کی فوج رہتی تھی۔ یہ فوج بائیسی کہلاتی تھی۔ بائیسی ٹوٹنے کا محاورہ اسی سے نکالا گیا ہے، جس سے مراد ہے ساری فوج سے حملہ کرنا یا تمام زور صرف کر ڈالنا۔ ٹوپی والے وہ قزلباش سپاہی کہلاتے ہیں جو اول نادرشاہ کے ساتھ، پھر احمد شاہ ابدالی کے ساتھ آئے تھے۔ ترکی زبان میں قزل کے معنی سرخ اور باش کے معنی ہیں سر۔ یہ سپاہی سروں پر لال لال ٹوپیاں رکھتے تھے، اسی سبب سے قزلباش کہلاتے تھے۔ دلی والوں نے ان کا نام ٹوپی والے رکھا۔ ایک زمانہ میں دلی میں افغان بادشاہوں کی حکومت تھی۔ اس زمانے کی یادگار پٹھانوں کی وہ چھوٹی چھوٹی مسجدیں ہیں، جو پاس پاس بنائی گئی ہیں۔ پٹھان تند مزاجی کے سبب کسی کا احسان اپنے سر لینا اور غیر کی بنائی ہوئ مسجد میں نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا ایک تلمیحی محاوہ ہے، جو اس واقعہ کو یاد دلاتا ہے۔رادھا کو یاد کرو ایک محاورہ ہے، جس کے معنی ہیں جاؤ اپنام کام کرو۔ سری کرشن کی ایک محبوبہ کا نام رادھا اور ایک کا نام کبجا تھا۔ کبجا بےتکلفی اور شوخی سے یہ کلمہ زبان پر لایا کرتی تھی۔ کالے کلوٹے آدمیوں کو محاورہ میں راون کی سینا کہتے ہیں۔ راون جو لنکا کا راجہ تھا اور جو رام چندر جی کے ساتھ نبرد آزما ہوا، اس کی فوج کے لوگ سیا ہ فام تھے، ان کی وردیاں سیاہ رنگ کی تھیں۔ اسی سبب سے رام لیلا میں جو اس واقعہ کی نقل ہے، راون کی فوج کے سپاہیوں کو سیاہ لباس پہنایا جاتا ہے۔ رستم محاورہ میں بہادر کے معنوں میں بولا جاتا ہے، جیسے بس ایک تم ہی تو رستم ہو۔ یہاں تمہاری رستمی کیوں نہ چلی، رستم کا بچہ خاں اور رستم کا سالا وغیرہ الفاظ بھی بولے جاتے ہیں۔ چھپا رستم ایک اور محاوہ ہے۔ جس کے دو معنی لیے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ شریر آدمی جو ظاہر میں غریب نظر آتا ہو۔ دوسرے وہ شخص جو کامل الفن ہو اور وقت پر اس کا ہنر ظاہر ہو۔افلاطون جو یونان کا مشہور حکیم ہے، کشتی کے فن میں کامل تھا۔ اس بناپر جہاں زور آور، زبردست کے معنوں میں رستم کا لفظ بولا جاتا ہے، وہیں افلاطون اور افلاطون کا بچہ وغیرہ الفاظ بھی رائج ہیں۔ سکھا شاہی کے لفظ سے بے انصافی اور کس مپرسی کا زمانہ مراد لیتے ہیں۔ یہ تلمیح سکھوں کے عہد حکومت کو یاد دلاتی ہے۔ اسی طرح نادرشاہی یا نادر گردی سے بدانتظامی اور افراتفری کازمانہ مراد لیتے ہیں۔ یہ الفاظ نادرشاہ کے زمانہ میں اس ملک کی حالت کا پتہ دیتے ہیں۔ تانا شاہی مزاج کا لفظ اس نازک مزاجی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ابوالحسن تانا شاہ والی گول کنڈہ میں تھی۔ تخت طاؤس شاہ جہاں کے تخت کی تلمیح ہے، جس پر چھ کروڑ روپیہ صرف ہوا تھا اور جو جواہرات سے مرصع تھا اور جس کے اوپر ایک مور پنکھ پھیلائے کھڑا تھا۔اخفش ایک مشہور صرفی تھا۔ اس نے ایک بکری پال رکھی تھی۔ عربی افعال کی گردانیں اس بکری کے سامنے دہرایا کرتا تھا۔ اگر وہ بکری سر ہلا دیتی، تو سمجھتا تھا کہ سبق یاد ہو گیا، ورنہ پھر اس سبق کو رٹنا شروع کر دیتا تھا۔ جس وقت اس بکری کو ذبح کیا، تو معلوم ہوا کہ اس کے سر میں بھیجا ندارد ہے۔ اس سبب سے ایسے آدمی کو جو بے سمجھے گردن ہلادے، بزاخفش کہتے ہیں۔ لکھ بخش یا لکھ داتا اس شخص کو کہتے ہیں، جو انتہا درجے کا فیاض ہو۔ یہ اصل میں قطب الدین ایبک کا لقب ہے، جو شہاب الدین کا غلام تھا اور اس کے مرنے پر خود بادشاہ ہو گیا تھا۔ اس کی فیاضی کی داستانیں آج تک زبان زدعام ہیں۔ ہندو آج تک اسے پوجتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جابجا تھان بناکر اس کی پوجا کراتے ہیں۔ہلاکو ظالم اور سفاک آدمی کو کہتے ہیں۔ یہ تلمیح ہولاکو خاں کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو چنگیز خاں کا پوتا تھا اور اسی نے بغداد کو تاخت و تاراج کیا۔ تور والی مغرور عورت کو کہتے ہیں۔ تورنا جتانا شیخی کرنا ہے۔ شروعِ تو رہ بھی محاورہ ہے جس سے دین داری کا اظہار اور بات بات میں مذہبی روک ٹوک مراد ہے۔ تو رہ اصل میں چنگیز خاں کے مجموعہ قوانین کا نام تھا، جس میں ہر قانون کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں مقرر کی گئی تھیں۔ یہ سب محاوے اسی لفظ تورہ سے لیے گئے ہیں۔گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ یہ ایک تلمیحی مثل ہے۔ راون کے بھائی بھویشن نے راجہ رام چندر سے مل کر ان کو قلعہ لنکا کے بہت سے بھید بتائے تھے اور اس کے فتح کرنے میں مدد دی تھی۔ اب اس مثل سے مطلب یہ ہے کہ رازدار کی دشمنی بڑانقصان پہنچاتی ہے۔

(دوم) وہ تلمیحیں جو عام عقائد و اوہام سے ماخوذ ہوئی ہیں

جب کوئی شخص سفر کو سدھارتا ہے تو مسافر کے بازو پر روپیہ وغیرہ باندھ دیا جاتا ہے، جب وہ خیر و عافیت سے منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے تو وہ رقم سیدوں کو بانٹ دی جاتی ہے۔ اس کو امام ضامن کا روپیہ کہتے ہیں۔ یہاں امام سے حضرت علی رضا آٹھویں امام مراد ہیں۔ عام لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر آپ کے نام کا روپیہ مسافر کے بازو پر باندھ دیا جائے تو آپ اس کی سلامتی کے ضامن ہو جاتے ہیں۔ اندر کا اکھاڑا اس مقام کو کہتے ہیں، جہاں ناچنے گانے والی حسین عورتیں جمع ہوں۔ ہندو راجہ اندر کو سورگ پتی یعنی بہشت کا مالک مانتے ہیں، جس کے سامنے حوریں گاتی اور ناچتی رہتی ہیں۔ یہ محاورہ اسی خیال پر مبنی ہے۔ بجلی کی تلوار اس تلوار کو کہتے ہیں کہ جو بہت کاٹ کرنے والی ہو۔ عوام کا خیال ہے کہ بعض مقامات میں بجلی اکثر گرا کرتی ہے۔ وہاں کے لہار بہت سالوہا جمع کرکے میدان میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اس پر بجلی گرے، اور وہ آبدار ہو جائے۔ کہتے ہیں کہ جو تلوار اس لوہے سے بنائی جاتی ہے، اس کا مقابلہ آبداری اور کاٹ میں کوئی تلوار نہیں کر سکتی۔عام لوگوں کا خیال ہے کہ جس رستے سے بلی نکلے، اگر کوئی شخص بجلی کے نکل جانے کے بعد اس رستے سے گزرے، تو اس کو لڑائی جھگڑا ضرور پیش آتا ہے۔ اسی سبب سے بلی الا نگنا ایک محاورہ ہو گیا ہے، جس کے معنی ہیں لڑنے جھگڑنے کو آنا۔ جو شخص آتے ہی ٹیڑھی ترچھی باتیں کرنے لگے، اس کی نسبت کہتے ہیں کہ تم بلی الانگ کر تو نہیں آئے۔ بھیرو ہندووں کے نزدیک شیوجی کا ایک نام ہے اور یہ اس وقت کے لیے ہے، جب کہ وہ غضبناک ہوں۔ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ ان کی خفگی سے تباہی اور بربادی آتی ہے۔ اسی عقیدہ سے بھیروں ناچنا ایک محاورہ بنایا گیا ہے، جس کے معنی ہیں ویرانی چھا جانا۔جاہل مسلمان عورتیں بہت سے پیروں، ولیوں اور پریوں کے نام لیتی اور ان کو مانتی ہیں۔ مثلاً: لال پری، سبز پری، زرد پری، سیاہ پری، آسمان پری، دریا پری، نور پری، زین خان، صدر جہان، ننھے میاں، شاہ دریا، شاہ سکندر، شیخ سدو، ماموں الہ بخش، سید برہنہ، پیر ہٹیلے، شاہ مدار، پیر غیب، چالیس تن یا چہل ابدال جن کے دم قدم سے یہ دنیا قائم ہے۔ عورتیں ان پریوں اور یا ان بزرگوں کی روحوں میں سے کسی روح کو اپنے سر پر بلاتی ہیں۔ جو عورت یہ کام کرتی ہے۔ وہ جمعرات کے دن خوشبو، زیور اور عمدہ پوشاک سے آراستہ ہوکر بیٹھ جاتی اور گاناسنتی ہے۔ جب کوئی پری یا روح اس کے سر پر آتی ہے، تو وہ اپنا سر ہلانے لگتی ہے۔ دوسری عورتیں اپنی اپنی حاجتیں اس کے سامنے پیش کرتی ہیں اور وہ ہر ایک کے سوال کا جواب دیتی جاتی ہے۔ اس طریقے سے روحوں کے بلانے کو بیٹھک دینا یا حاضرات کرنا کہتے ہیں۔ اس تلمیح میں عورتوں کے اس خاص عقیدے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کیا گیا۔ادنیٰ درجے کے ہندو بھی اسی طرح کسی دیوی دیوتا، یا بیر کو اپنے سر پر بلاتے ہیں۔ ان میں جو مرد اس کام کو انجام دیتا ہے، اس کو بھگت کہتے ہیں اور عورت کو بھگتانی۔ بیراس جن یا خبیث روح کو کہتے ہیں جس کو جادوگر کسی کو ضرر پہنچانے کے لیے اس پر مسلط کرتے ہیں۔ مسلمان اس روح کو مؤکل کہتے ہیں۔ اس سے بیر بٹھانا اور بیر ووڑ، دمی درے پیدا ہوئے ہیں۔ اڑن کھٹولا اور بوان یا بمان کے الفاظ ہندوؤں کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دیوتا ایک تخت رواں پر سوار ہوکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے تھے۔ اس تخت کو ہوا اڑاکر لے جایا کرتی تھی۔ پاتال ہندی میں زمین کے سب سے نیچے کے طبقے کو کہتے ہیں۔ ہندوؤں نے پاتال کے سات طبقے قرار دیے ہیں۔ ہر طبقے میں ایک زندہ مخلوق آباد ہے۔ پاتال تک کی خبر لانا اسی تلمیح سے ایک محاوہ بنایا گیا ہے۔ پارس ایک خیالی پتھر کانام ہے، جس کی نسبت عام لوگوں میں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ اگر یہ پتھر لوہے سے چھوا جائے تو اسے سونا بنا دیتا ہے۔پچھلپائی کا لفظ، جس سے بھتنی یا چڑیل مراد ہے، عوام کے اس خیال کو یاد دلاتا ہے کہ چڑیلوں یا بھتنیوں کے پاؤں میں پنجہ پیچھے کی طرف اور ایڑی آگے کی طرف ہوتی ہے۔ پری ایک خیالی حسین مخلوق ہے جس کا سارا جسم عورتوں جیسا ہوتا ہے مگر بازو پردار ہوتے ہیں۔ پرستان اس جگہ کا نام رکھا گیا ہے جہاں پریاں آباد ہیں۔ پری مادہ اور دیویا پری زاد نر ہوتے ہیں۔ پرستان یا پریوں کا اکھاڑہ محاوہ میں اس محفل کو کہتے ہیں، جہاں بہت سے خوبصورت آدمی جمع ہوں۔ بیر کی طرح پون بھی ان خبیث روحوں کو کہتے ہیں جنہیں جادوگر کسی شخص کوضرر پہنچانے کے لیے بھیجتے ہیں۔ پون بٹھانا اور پون دوڑانا یا چلانا وہ محاورے ہیں، جو اس لفظ سے بنائے گئے ہیں۔ بھوت وہ روحیں ہیں جو جسموں سے جدا ہوکر دنیا میں بھٹکتی پھرتی ہیں۔ مرد کی روح بھوت اور عورت کی بھتنی کہلاتی ہے۔ بھوت لوگوں کے سروں پر آتے ہیں، یہ عام خیال ہے۔ بھوت چڑھنا کے ساتھ بھوت اتارنا بھی محاورہ میں آ گیا ہے، کیونکہ عام خیال یہ بھی ہے کہ منتر کے زور سے بھوت کسی کے سر سے اتارا بھی جا سکتا ہے۔مسلمانوں کے نزدیک سات سمندر سے مراد بحیرہ شام، بحیرہ قلزم، بحیرہ عرب، بحیرہ عمان، بحیرہ فارس، اور بحیرہ اسود ہیں۔ مگر ہندوؤں کے سات سمندروں میں سے ایک سمندر نمک کا ہے، دوسرا دودھ کا، تیسرا گھی کا، چوتھا دہی کا، پانچواں شراب کا، چھٹا گنے کے رس کا، ساتواں شہد کا ہے۔ سفلی عمل جادو کی وہ قسم ہے، جو شیاطین و جنات کی مدد سے عمل میں لائی جاتی ہے۔ برخلاف اس کے علوی عمل وہ ہے، جس میں ستاروں اور فرشتوں سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ جادو کی نسبت عام لوگوں کاجو عقیدہ ہے اس کو یہ دونوں الفاظ ظاہر کرتے ہیں۔ خدا کے اسماء دو قسم کے مانے جاتے ہیں۔ ایک جلالی جن سے غصہ اور جلال کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسرے جمالی جن سے رحم و لطف نمایاں ہے۔ جب خدا کا کوئی جلالی اسم ننگی تلوار کی پشت پر پڑھ کر پھونکتے ہیں تو اس سے مقصدیہ ہوتا ہے کہ دشمن ہلاک ہو۔ اس عمل کو سفلی کہتے ہیں۔ اگر اسم مذکور کے پڑھنے میں بے احتیاطی ہو تو کہتے ہیں کہ یہ عمل الٹا عامل کے لیے تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ اس حالت کو سفلی کا الٹ جانا کہتے ہیں۔سانپ کا من عوام کے اس خیال کو ظاہر کرتا ہے کہ جب سانپ خوش ہوتا ہے تو وہ ایک روشن جواہر منہ سے باہر نکال کر جنگل میں رکھ دیتا ہے۔ اس کی روشنی چودھویں رات کے چاند کی مانند ہوتی ہے۔ سانپ اس روشنی میں کوسوں سیر کرتا پھرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس کسی کے پاس سانپ کا من ہو، وہ تمام آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ نہ آگ اسے جلا سکتی ہے، نہ پانی اسے ڈبو سکتا ہے۔ شب چراغ بھی ایک ایسا ہی لفظ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ ایک جواہر ہے۔ دریائی گائے رات کے وقت چرنے نکلتی ہے، تو اس جواہر کو منھ سے نکال رک رکھ دیتی ہے اور اس کی روشنی میں چرتی پھرتی ہے۔ چرچکنے کے بعد اس کو اپنے منھ میں رکھ کر دریا میں غوطے لگا جاتی ہے۔ شب برات میں لفظ برات کے معنی روزی کے ہیں۔ اس لفظ سے یہ خیال ظاہر ہوتا ہے کہ اس رات کو یعنی شعبان کی چودھویں یا پندرہویں رات کو فرشتے انسانوں کی روزی اور عمر کا حساب آئندہ کے لیے لگاتے اور روزی تقسیم کرتے ہیں۔ست جگ ہندوؤں کے نزدیک دنیا کا پہلا دور ہے، جس میں سچ اور راستی کے سوا دوسری بات کا نام نہ تھا۔ اس دور کی میعاد سترہ لاکھ اٹھائیس ہزار برس قرار دی گئی ہے۔ اس کے مقابل ایک دور کلجگ کہلاتا ہے۔ یہ دور چار لاکھ بتیس ہزار برس کا ٹھیرایا گیا ہے۔ اس زمانے میں پاپ اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ تریتا جگ اور دواپر جگ ہیں، مگر عام لوگوں میں مشہور یہی جگ ہیں۔ لچھمی ہندوؤں کے اعتقاد میں دولت کی دیوی ہے۔ لچھمی گھر میں آنا ایک محاورہ ہے، جس کے معنی ہیں صاحب اقبال ہونا۔ لنکا میں جو چھوٹا سو باون ہی گز کا، یا لنکا سے جو نکلا سو باون گز کا، یہ ایک تلمیحی مثل ہے، اس موقع پر بولی جاتی ہے جہاں چھوٹے بڑے سب شریر اور فتنہ پرداز ہوں۔ ہندوؤں کاعقیدہ ہے کہ جزیرہ لنکا میں دیو رہتے تھے، جو بہت بڑے بڑے قد کے ہوتے تھے، یہاں تک کہ ان کے بچے بھی باون گز سے کم قد نہیں رکھتے تھے اور ان کا مزاج نہایت سرکش اور شریر واقع ہوا تھا۔میر بھجڑی کی کڑھائی، ایک تلمیح ہے، جو ہیجڑوں سے لی گئی ہے۔ میر بھجڑی جسے میر بھوجی بھی کہتے ہیں، ہیجڑوں کے سلسلے کا بانی تھا۔ ہیجڑے اس کی نیاز دلواتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ اگر کوئی اس نیاز کی کڑھائی کا حلوا کھالے تو وہ ناچنے تھرکنے اور ہیجڑوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے اور جب تک ہیجڑا نہ بن جائے اسے کل نہیں پڑتی۔یوہا یا یوحیٰ عوام کے خیال میں ایک قسم کا سانپ ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ہزار برس گزرنے پر وہ ایک آواز نکالتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔ پھر ہزار برس کے بعد ایک دفعہ چلاتا اور چپ ہو جاتا ہے۔ تیسری دفعہ یعنی تین ہزار برس کے بعد یہ قدرت اسے حاصل ہو جاتی ہے کہ جس شکل اور جس کا روپ چاہے، بن جائے یعنی انسان یا حیوان بننے کی طاقت اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ عام لوگوں کاعقیدہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ایک جن پیدا ہوتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کو ہم زاد کہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو خاص عمل کے ذریعے سے اس کو قابو میں لا سکتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اس سے کام لے سکتے ہیں۔ہندوؤں کے خیال میں ایک فرضی وجود ہے جو دکھائی نہیں دیتا اور دنیا کے گرد حرکت کرتا رہتا ہے۔ کبھی کسی طرف ہوتا ہے کبھی کسی طرف۔ مثلاً شنبہ کے دن وہ مشرق میں ہوتا ہے، پنجشنبہ کے دن جنوب میں، منگل کے دن شمال میں، اتوار کے دن مغرب میں۔۔۔ علیٰ ہذالقیاس۔ اس فرضی وجود کا نام ہندوؤں نے دشاشول رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس روز وہ جس سمت میں ہو، اس روز اس سمت میں سفر کرنا نقصان اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ سفر کرنے والے پر واجب ہے کہ دشاشول کو بائیں طرف یا اپنی پشت کی طرف رکھے۔ اس کا سامنے پڑنا یا دائیں ہاتھ پر ہونا، ازحد منحوس خیال کیا جاتا ہے۔الوپ انجن ایک قسم کا سرمہ ہے، جس کے لگانے سے آدمی آپ تو سب کو دیکھتا ہے مگر اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اسے سرمۂ سلیمان بھی کہتے ہیں۔ گنگا پارہ کی ایک طلسمی گولی ہے، جسے جوگی تیار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس گولی کو منہ میں رکھنے سے قوت پرواز آ جاتی ہے اور اس کی مدد سے جوگی جہاں چاہتے ہیں، اڑ کر چلے جاتے ہیں۔

سوم وہ تلمیحیں جو خاص رسموں کی طرف اشارہ کرتی ہیں

مسلمان عورتوں میں دستور ہے کہ نکاح کے بعد وہ دولہا دولہن کو آمنے سامنے سر سے سر ملاکر اور ایک دوسرخ دوپٹہ اڑھاکر بٹھا دیتی ہیں اور ان دونوں کے بیچ میں ایک آئینہ اور قرآن شریف میں سے سورہ اخلاص نکال کر رکھ دیتی ہیں۔ اس رسم کو آرسی مصحف کہتے ہیں۔ آرسی سے مراد آئینہ ہے۔ آئینہ رکھنے سے مطلب یہ ہے کہ دولہا دولہن ایک دوسرے کاچہرہ دیکھ لیں۔ سورہ اخلاص سے غرض یہ ہے کہ میاں بیوی میں ہمیشہ اخلاص بنا رہے۔ دیوا ٹھان ہندوؤں کی ایک رسم ہے، جو کاتک سدی، اکادشی کو منائی جاتی ہے۔ وشنو ہندوؤں کے نزدیک چار مہینے سے اس تاریخ تک سوتے رہتے ہیں۔ ہندو اس تاریخ کو ایک معین جگہ لیپ پوت کر کھریا اور گیرو سے اس پر نقش ونگار بناتے ہیں اور وہاں پوجا کی چیزیں رکھ کر ان کو ایک تھالی سے ڈھک دیتے ہیں۔ گھر کی کوئی عورت یا کوئی برہمنی ہاتھوں سے اس تھالی کو بجاتی جاتی اور یہ کہہ کر، دیو اٹھو، وشنو کی تعریف کے فقرے گاتی جاتی ہے۔سوئمبر ہندوؤں کی ایک قدیم رسم کا نام ہے۔ جب راجاؤں یا عالی خاندان کے لوگوں میں کسی لڑکی کے لیے بر درکار ہوتا تھا، تو تمام راجاؤں یا امیروں کو پہلے اطلاع دی جاتی تھی۔ تاریخ معین پر سب جمع ہو جاتے تھے۔ لڑکی بھرے جلسے میں آکر شہزادوں اور امیرزادوں کے کرتب دیکھتی تھی اور ان میں سے جس کو اپنا شوہر بنانا پسند کرتی تھی، اس کے گلے میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کا ہار ڈال دیتی تھی۔ موچھوں کا کونڈا مسلمان عورتوں کی ایک رسم کی تلمیح ہے۔ جب کسی لڑکے کی مسیں بھیگتی ہیں تو اس خوشی میں اس کی ماں حضرت خاتون جنت کی نیاز دلواتی ہے اور اس میں رشتہ دار جمع کیے جاتے ہیں۔آمین ایک رسم ہے، جو قرآن شریف کے ختم ہونے یا اس کا کوئی حصہ ہونے پر ادا کی جاتی ہے۔ لڑکا جس مکتب میں قرآن کی تعلیم پاتا ہے، اس کے تمام شاگرد اور استاد اس لڑکے کے مکان پر پہنچ کر ایک خاص نظم بہ آواز بلند پڑھتے ہیں۔ ایک لڑکا پڑھتا ہے، باقی سب لڑکے ہر شعر پر پکار کر آمین کہتے جاتے ہیں۔ نظم پڑھنے کے بعد دعا مانگی جاتی ہے۔ شیرینی تقسیم ہوتی ہے اور استاد کو لڑکے کے ماں باپ حسب توفیق نذر دیتے ہیں۔ رت جگا ایک اور رسم ہے جو بیاہ، سال گرہ، بسم اللہ یا کسی اور تقریب پر منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر عورتیں جمع ہوتی ہیں اور رات بھر جاگتی ہیں۔ رات کو کڑھائی ہوکر، دن کو گللگلوں اور رحم پر اول اللہ میاں کی سلامتی پڑھی جاتی، پھر زردے یا خشکہ پر حضرت فاطمہؓ کی نیاز دلوائی جاتی ہے۔ مسلمان عورتوں میں شادی کے وقت کی ایک خاص رسم ہے، جسے نوباتیں حیوانا کہتے ہیں۔ نوبات نبات سے بگڑا ہے جس کے معنی ہیں مصری کی نوڈلیاں دلہن کے دونوں مونڈہوں، کہنیوں، گھٹنوں، پیٹھ اور ہاتھوں پر رکھی جاتی ہیں۔ دولہا سے کہا جاتا ہے کہ ان ڈلیوں کو ایک ایک کرکے منھ سے اٹھاؤ اور ہاتھ نہ لگاؤ۔ یہ حقیقت میں ایک ٹوٹکا ہے، جس سے غرض یہ ہے کہ دولہا ہمیشہ دلہن کا فرماں بردار ر ہے۔ تارے دکھانا ایک اور رسم ہے جو ایام زچگی میں ادا کی جاتی ہے۔ زچہ کو رات کے وقت چھٹی کے روز دالان سے باہر لاکر تارے دکھاتی ہیں۔ دوعوتوں کے ہاتھ میں تلواریں ہوتی ہیں اور وہ اس کے ساتھ محافظ بن کر آتی ہیں۔ زچہ بچے کو گود میں اور قرآن شریف کو سر پر رکھ کر آسمان کی طرف دیکھتی ہے اور سات تارے گنتی ہے۔ عورتوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے زچہ کو جن وپری کا خوف نہیں رہتا۔بیوی کی صحنک ایک اور رسم ہے۔ اکثر شادی یا کسی مراد کے برآنے پر عورتیں حضرت فاطمہ کے نیاز دلواتی ہیں۔ اس میں بڑی احتیاط کی جاتی ہے۔ سہاگن اور پارسا عورتیں شامل ہوتی ہیں۔ اگر کوئی عورت دو خاوند کر چکی ہو تو اس کو شریک نہیں کرتیں بلکہ سیدانیوں کو اس نیاز کا کھلانا اولی سمجھتی ہیں۔ جہانگیر کے زمانے سے یہ رسم جاری ہوئی ہے۔ پھول ہونا ایک اور رسم ہے، جو مرنے سے تیسرے دن ادا کی جاتی ہے۔ ہندوؤں میں دستور ہے کہ مرنے سے تیسرے دن مردے کی ہڈیاں، جنہیں وہ پھول کہتے ہیں، چنی جاتی اور دریائے گنگا میں بہائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں میں بھی تیسرے دن مردہ کی فاتحہ ہوتی ہے۔ چنوں کے دانوں پر کلمہ پڑھا جاتا ہے تاکہ مردے کی روح کو ثواب پہنچایا جائے۔ فاتحہ کے وقت کچھ ارگجا اور کچھ پھول لائے جاتے ہیں۔ سورہ فاتحہ پڑھ کر ہر ایک حاضر مجلس ارگجے کے پیالے میں پھول ڈالتا ہے اور یہ پھول اور خوشبو مردے کی قبر پر بھیجی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی رسمیں ہیں۔ مثلاً بسم اللہ، چھٹی، چوتھی، منگنی، ستوانسا، مہندی، بری یا ساچق، چالیسواں وغیرہ۔چہارم وہ تلمیحیں جن کی بنیاد فرضی قصوں پر ہے غتربود کرنا ایک محاورہ ہے، جسے عام آدمی بولتے ہیں۔ اس کے معنی ہیں مطلب خبط کرنا۔ اس کا قصہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک بیوقوف آدمی بوستاں پڑھتا تھا۔ جب سعدی کے اس شعر پر پہنچا،کہ سعدی کہ گوی بلاغت ربوددرایام بوبکر بن سعد بودتو اس نے استاد سے پوچھا غتربود کے کیا معنی ہیں۔ بلاغت میں سے اس نے بلا کو جدا کرکے دوسرے لفظ ربود سے ملا دیا اور غتربود کو ایک لفظ سمجھا۔ ٹیڑھی کھیر کے معنی ہیں مشکل کام۔ کہتے ہیں کہ ایک اندھے سے کسی شخص نے پوچھا، حافظ جی کھیر کھاؤگے۔ اس نے کہا کھیر کیسی ہوتی ہے۔ اس نے کہا سفید، پوچھا سفید کیسی، کہا جیسے بگلا۔ اس نے پوچھا، بگلا کیسا ہوتا ہے۔ اس نے ہاتھ ٹیڑھا کرکے دکھایا کہ ایسا۔ اندھے نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے ٹٹول کر کہا، یہ تو بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ ہم سے نہیں کھائی جائےگی۔ چور کی داڑھی میں تنکا، یہ ایک تلمیحی مثل ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی زمیندار کے ہاں بھینس کی چوری کی تھی۔ قاضی نے تمام مشتبہ آدمیوں کو، جن میں چور بھی تھا، سامنے کھڑا کر دیا، پھر اپنے ایک پیادے سے کہا، میں جس کی طرف اشارہ کروں، تم اسے گرفتار کر لینا۔ پھر اس نے کہا دیکھ چور کی ڈاڑھی میں تنکا ہے۔ چور کے دل میں ڈبکا تھا ہی، اس نے فوراً اپنی داڑھی پر ہاتھ ڈالا اور اس حرکت سے وہ شناخت کرکے پکڑا گیا۔نیبو نچوڑ، ناخواندہ مہمان کو کہتے ہیں۔ ایک سرائے میں ایک مفت خور ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کا دستور تھا کہ جب کوئی مسافر کھانا کھانے بیٹھتا، تو ایک نیبولے کر دسترخوان پر پہنچ جاتا۔ مسافر کے آگے سالن دیکھ کر کہتا کہ حضرت نیبواس کا بناؤ ہے۔ اس کو نچوڑ کر مزا دیکھیے۔ وہ بیچارہ مروت میں آکر اس کو بھی کھانے میں شریک کر لیتا۔ طفیلی کا لفظ بھی اسی طرح پیدا ہوا ہے۔ طفیل کوفہ کا ایک شاعر تھا۔ اس کی عادت تھی کہ جب لوگوں کو کسی دعوت میں جاتے دیکھتا تو یہ بھی ان کے ساتھ ہو لیتا تھا اور بے تکلف دعوت میں شریک ہو جاتا تھا۔ ناؤ میں خاک اڑانا ایک محاورہ ہے، جس کے معنی ہیں جھوٹا الزام لگانا۔ کہتے ہیں کہ ایک شیر اور بکری دونوں کشتی میں سوار تھے۔ شیر نے اس کو کھانے کی نیت سے کہا کہ تو کشتی میں کیوں خاک اڑاتی ہے۔ اس نے کہا جناب یہاں خاک کہاں ہے جسے میں اڑادوں۔ شیر نے غصے میں آکر کہا تو ہماری بات کو جھٹلاتی ہے۔ دیکھ تو میں تیری گستاخی کا کیا مزا چکھاتا ہوں۔ یہ کہہ کر حملہ کیا، اور پھاڑ چیر کر اسے کھا گیا۔نیکی کر اور دریا میں ڈال۔ اس کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ بے دریغ نیکی کر۔ اس بات کی پروا نہ کر کہ اس کا انعام بھی کچھ ملےگا، یا نہیں۔ حاتم طائی کے قصے میں لکھا ہے کہ ایک شخص دریا میں ہر روز روٹیاں ڈالا کرتا تھا۔ خدا نے اس کی محنت بھی ضائع نہیں کی۔ اس کا مفصل قصہ حاتم طائی کے قصے میں دیکھنا چاہیے۔ اود بلاؤ کی ڈھیری اس جھگڑے کو کہتے ہیں، جو کبھی فیصل نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ جب کئی اودبلاؤ مل کر مچھلیاں مارتے پھرتے ہیں، تو دریا کے کنارے ڈھیر لگاتے جاتے ہیں۔ پھر ہر ایک کا حصہ الگ الگ لگاتے ہیں۔ مگر کوئی نہ کوئی اود بلاؤ اپنے حصے کو کم سمجھ کر سارے حصوں کو گڈمڈ کر دیتا ہے۔ پھر ازسرنو حصے لگائے جاتے ہیں اور اس تقسیم کا انجام بھی یہی ہوتا ہے۔ غرض کہ ان میں برابر جھگڑا ہوتا رہتا ہے اور کسی طرح فیصلہ ہونے میں نہیں آتا۔نمازی کا ٹکا اس ناشائستہ بات کو کہتے ہیں، جس کا بدلا کہیں نہ کہیں ضرور مل کر رہے۔ کہتے ہیں کہ ایک شریر لڑکا نماز پڑھنے میں لوگوں کی ٹانگیں گھسیٹ لیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب سجدہ کرتے وقت اس نے کسی نمازی کی ٹانگ گھسیٹی، تو اس نے ملامت کرنے کی بجائے سلام پھیر کر چپکے سے ایک ٹکا اس کے حوالے کیا، تاکہ یہ مزا پڑ جائے، تو وہ کہیں نہ کہیں اس کی سزا پائے۔ اسے تو ٹکے کی چاٹ لگ ہی گئی تھی، اتفاق سے ایک جلاد پٹھان کے ساتھ بھی اس نے یہی حرکت کی۔ اس نے سلام پھیرتے ہی تلوار میان سے نکالی اور اس شریر لڑکے کی گردن اڑا دی۔آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ بہت سا کام ہو چکا ہے، تھوڑا سا باقی رہ گیا ہے۔ کہتے ہیں ایک سوداگر بچے کی دوستی کسی جادوگرنی سے تھی۔ وہ اس کی بیوی کے نام سے جلا کرتی تھی۔ ایک روز اس نے جادو کی ایک پڑیا بجائے اس کے کہ اس کی نیک بخت بیوی کو کچھ ضرر پہنچائے، خود سوداگر بچے کے بدن پر جا پڑی۔ اس کا پڑنا تھا کہ اس کے سارے تن بدن میں سوئیاں ہی سوئیاں بھگ گئیں۔ سوداگر بچہ اس تکلیف کے مارے بیہوش ہو گیا۔ بیوی نے صبح کی نماز پڑھ کر میاں کی یہ حالت دیکھی تو وہ فوراً سوئیاں نکالنے میں مشغول ہو گئی۔ ہاتھ سے سوئیاں نکالنے میں تکلیف ہونے لگی تو اس نے ہونٹوں سے نکالنی شروع کیں۔ تھوڑی سی سوئیاں نکالنی باقی تھیں کہ ظہر کا وقت آگیا۔ اس نے باندی سے کہا کہ میں ظہر کی نماز پڑھتی ہوں، تھوڑا سا کام باقی رہ گیا ہے۔ اب میری جگہ تو کام کر۔ باندی سوئیاں نکالنے لگی، بیوی ظہر کی نماز سے فارغ نہیں ہوئی تھی کہ سوئیاں سب نکال لی گئیں۔ سوداگر بچہ کو ہوش آ گیا۔ اس نے آنکھ کھول کر دیکھا تو بیوی اس کے پاس نہ تھی۔ باندی اس کی خدمت کر رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کو بیوی سے نفرت ہو گئی، اس نے باندی کو بیوی بنا لیا اور بیوی کو باندی کی خدمت پر مامور کر دیا۔بھیگی بلی بتانا ایک تلمیحی محاورہ ہے جس کے معنی ہیں بے جا عذر کرنا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص اپنے مکان کے دالان میں شب کے وقت پر دے ڈالے سو رہا تھا۔ اسی دالان میں اس کا نوکر بھی ایک طرف پڑا تھا۔ نوکر کو اس کے آقا نے کئی دفعہ کام کے لیے دالان سے باہر بھیجنا چاہا۔ ہر دفعہ نوکر نیا عذر تراش کر بیان کر دیتا تھا، تاکہ اسے باہر نہ جانا پڑے۔ آخر میں آقا نے کہا باہر آنگن میں بارش ہو رہی تھی، ذرا باہر جاکر تو دیکھ، اب بارش تھم گئی ہے، یا ہو رہی ہے، نوکر نے جواب دیا، کہ ابھی بارش ہو رہی ہے۔ آقا نے پوچھا تو نے کس طرح معلوم کیا۔ اس نے کہا باہر سے بلی اندر آئی تھی، میں نے اس پر ہاتھ پھیر کر دیکھا تو وہ بھیگی ہوئی تھی۔جون پور کا قاضی محاورہ میں احمق آدمی کو کہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شہر کے کسی مکتب میں استاد اپنے ایک شاگرد پر خفا ہو رہا تھا۔ اثنائے خفگی میں اس نے کہا نالائق تو میرا احسان نہیں مانتا کہ میں نے تجھے گدھے سے آدمی بنایا۔ ایک کمہار نے جو اس مکتب کے قریب گزر رہا تھا، یہ بات سنی۔ فوراً مکتب میں آیا اور اس نے استاد سے کہا کہ میر ے پاس بھی ایک گدھا ہے۔ اگر آپ اسے آدمی بنادیں، تو بڑااحسا ن ہو۔ استاد اس کی حماقت کو تاڑ گیا۔ اس نے ہنسی کے طور پر کہا اگر تم سو روپیہ دو اور اپنا گدھا میرے پاس چھوڑ جاؤ تو سال بھر کے بعد میں اس کو آدمی بنا دوں گا۔ کمہار اس شرط پر راضی ہو گیا۔ گدھا استاد صاحب کے پاس چھوڑ گیا اور سورپیہ بھی دے گیا۔سال بھر کے بعد آیا، تو استاد اس گدھے کو فروخت کرکے دام کھرے کر چکے تھے۔ اس نے کہا میرا گدھا جسے آپ نے آدمی بنایا ہوگا، واپس کیجیے۔ استاد صاحب نے کہا، میں نے اس کو آدمی ہی نہیں بنایا، لکھا پڑھا کر عالم بھی بنا دیا ہے۔ اب وہ جونپور میں قاضی کے عہدہ پر مامور ہے۔ یہ سن کر کمہار خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ فوراً چھٹی پلانا ہم راہ لے جونپور کو روانہ ہوا۔ قاضی صاحب عدالت کر رہے تھے۔ کوئی مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو رہا تھا۔ کمہار ان کے سامنے ذرا دور کھڑا ہو گیا اور قاضی صاحب کو چھٹی پلانا دکھانے لگا، تاکہ وہ اپنے مالک کو پہچان لیں اور اس کے پاس چلے آئیں۔ قاضی صاحب نے یہ عجیب حرکت دیکھی، تو آدمی بھیج کر اس حرکت کا سبب دریافت کیا۔ کمہار نے سارا ماجرا اول سے آخر تک کہہ سنایا۔ جب قاضی صاحب کو معلوم ہوا تو اس خیال سے کہ لوگوں میں ان کی ہنسی نہ اڑے، اس کو ایک معقول رقم دے کر ٹالا اور اس سے خدا خدا کرکے پیچھا چھڑایا۔شیخ چلی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو دو راز کار منصوبے باندھے۔ یہ ایک فرضی شخص لوگوں نے گڑھ لیا ہے اور اس قسم کی تمام باتیں جو دو رازکار منصوبوں اور تجویزوں سے تعلق رکھتی ہیں، اس کے نام کے ساتھ چپکا دی ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ شیخ جی کو ایک شخص نے مزدوری پر لگایا۔ ایک ٹوکری میں شیشہ آلات بھر کر ان کو دیے کہ فلاں جگہ اس ٹوکرے کو پہنچا دو۔ شیخ جی نے رستے میں ایک جگہ ٹوکرے کو الگ رکھ کر سوچنا شروع کیا کہ آج جو مزدوری مجھے وصول ہوگی، اس سے ایک مرغا اور ایک مرغی خرید کروں گا۔ مرغی کو انڈوں پر بٹھاؤں گا، اس سے بہت سے بچے حاصل ہوں گے۔ جب بہت سی مرغیاں ہو جائیں گی تو ان کو بیچ کر ایک بکری اور ایک بکرا خریدوں گا اور اس کی نسل بڑھاؤں گا۔بکریوں کا گلہ جب بڑھ جائےگا تو اس کو فروخت کرکے گائے لوں گا۔ گائے کی نسل اسی طرح ترقی کرےگی۔ گایوں کا گلہ بیچ کر بھینسیں لوں گا۔ جب بہت سی بھینسیں ہو جائیں گی تو ان کی تجارت سے میں امیروکبیر ہو جاؤں گا۔ ایک بڑے گھرانے میں شادی کروں گا۔ بیوی ایسی تلاش کروں گا جو حسین ہو۔ میں اس کو ہمیشہ اپنے قابو میں رکھوں گا۔ اگر وہ نافرمانی کرےگی تو میں اس کی کمر پر زور سے ایک لات جڑوں گا۔ شیخ جی اس وقت غصے میں تھے۔ خیالی بیوی کی جگہ آپ کی لات ٹوکرے پرپڑی اور تمام شیشے چور چور ہو گئے۔لال بجھکڑ اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر بات کا جواب دینے اور ہر معاملہ میں رائے دینے پر تیار رہتا ہو۔ اصل میں تو احمق ہو مگر اپنے تئیں سب سے زیادہ عقل مند خیال کرتا ہو۔ شیخ چلی کی طرح لال بجھکڑ بھی لوگوں نے ایک فرضی شخص تراش لیا ہے اور اس قسم کی تمام رائیں جو حماقت پر مبنی ہوں، اس کی طرف منسوب کر دی ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ جس گاؤں میں لال بجھکڑ رہتا تھا، اس کے رہنے والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک دفعہ ایک ہاتھی اس گاؤں سے گزرا۔ اس کے پاؤں کے نشان زمین پر پڑے۔ گاؤں والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا، اس کے پاؤں کے نشان ضرور دیکھے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ نشان زمین پر کیوں ہو گئے۔ لال بجھکڑ کو وہ نشان لاکر دکھایا اور ان کی حقیقت دریافت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ ارے بیوقوفو! میرے سوا کوئی اس معمے کو نہیں سمجھ سکتا۔ ہرن چکی کے پاٹ چاروں پاؤں سے باندھ کر کودا ہے۔ اور اس سے یہ نشان زمین پر بنے ہیں۔اسی طرح ایک دفعہ ایک لڑکا گھر کے ایک ستون کو ہاتھوں کے حلقے میں لیے کھڑا تھا۔ اس اثنا میں اس کا باپ باہر سے چنے چباتا آیا۔ لڑکے نے اسی حالت میں اس سے چنے مانگے۔ باپ نے اس کی مٹھی میں چنے دے دیے۔ مگر اب مشکل یہ پیش آئی کہ ستون سے ہاتھ کیوں کر نکالے۔ اگر ہاتھ جدا کرے تو چنے زمین پر گریں گے اور یہ اسے منظور نہ تھا۔ لڑکا رونے لگا۔ باپ کی سمجھ میں کوئی تدبیر نہ آئی۔ وہ دوڑا لال بجھکڑ کے پاس پہنچا اور اس کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اس نے موچھوں کو تاؤدے کر کہا بھلا میرے سوا کون اس تدبیر کو بتا سکتا ہے۔ جاؤ گھر کی چھت کو ادھیڑ ڈالو۔ جب ستون پر چھت ہٹ جائےگی تو لڑکے کو آسانی سے تم چھت پر کھینچ لوگے۔ مٹھی سے چنے بھی گرنے نہ پائیں گے اور لڑکا بھی صحیح سلامت ستون سے نکل آئےگا۔یک نہ شد دوشد ایک تلمیحی مثل ہے۔ یہ اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کہ ایک عجیب امر کے بعد دوسرا عجیب امر واقع ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو ایک ایسا منتر معلوم تھا کہ اس کے ذریعہ سے وہ مردے کو جگا سکتا اور اس سے باتیں کر سکتا تھا۔ دوسرا ایک اور منتر بھی معلوم تھا کہ جس کے ذریعہ سے وہ مردے کو باتیں کرنے کے بعد پھر قبر میں سلا دیتا تھا۔ اگر کسی مردہ کے گھروالوں کو راز کی کچھ باتیں مردے سے پوچھنی ہوتیں تو اس عامل سے جاکر التجا کرتے تھے۔ وہ اپنے عمل سے مردہ کو جگاکر سب کچھ پوچھ دیتا، پھر اس کو دوبارہ سلا دیتا تھا۔ مرتے وقت اس نے شاگرد کووہ دونوں منتر بتائے۔ شاگرد نے بطور آزمائش کے ایک قبر پر پہلا منتر پڑھا۔ مردہ جاگ اٹھا اوراس سے باتیں کرنے لگا اور اس نے ہر سوال کا جواب دیا۔ مگر دوسرا منتر اتفاق سے یاد نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردہ اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس نے گھبراکر استاد کو قبر سے اٹھایا تاکہ وہ پہلے منتر کا اتار دوبارہ بتائے مگر اس عالم میں وہ بھی کچھ نہ بتا سکا۔ پہلے مردہ کی طرح یہ نیا مردہ بھی اب اس کے ساتھ چل پڑا۔ اس موقع پر بے ساختہ اس کی زبان سے یہ فقرہ نکلا۔اس مثل کی طرح ایک اور فارسی تلمیحی مثل اردو میں مستعمل ہے۔ گر بہ کشتن روز ازل۔ اس مثل کا مطلب یہ ہے کہ رعب پہلے ہی دن جمانا چاہئے۔ کہتے ہیں دو دوستوں نے ایک ساتھ شادی کی۔ دونوں کی بیویاں بدمزاج نکلیں۔ ایک کی بیوی خاوند پر غالب آئی اور دوسرے کی نہایت فرماں بردار ثابت ہوئی۔ پہلے دوست نے دوسرے سے دریافت کیا کہ تم نے اپنی بدمزاج بیوی کو کس طرح مطیع کیا۔ اس نے کہا اول ہی روز جب ہم میاں بیوی کھانے پر بیٹھے تو ایک بلی بھی دسترخوان پر آ بیٹھی۔ میں نے کہا چلی جا۔ وہ نہ گئی۔ تب میں نے فوراً اٹھ کر اسے مار ڈالا۔ اس واقعے سے میری بیوی پر میرا رعب چھا گیا۔ وہ ڈرنے لگی کہ جس نے ذرا سی بات نہ ماننے پر بلی کو مارڈالا، وہ خدا جانے میرا کیا حال کرےگا۔ یہ سن کر دوست نے بھی اس پر عمل کیا مگر چونکہ اس کی بیوی اس کی عادت سے واقف ہو چکی تھی اور اس کے مزاج پر غالب آ چکی تھی، اس لیے کچھ پیش نہ گئی۔ اس کا حال معلوم کرکے دوست نے کہا، بھائی گربہ کشتن روزاول، بعد کا رعب جمانا کام نہیں دیتا۔کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ یہ بھی ایک تلمیحی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امیر غریب کی نسبت نہیں مگر تقدیر کے نزدیک کوئی عجیب بات نہیں۔ کہتے ہیں کہ جب راجہ بھوج پر مصیبت پری اور راج پاٹ چھن گیا تو وہ مارا مارا پھرتا تھا۔ ایک دفعہ مانگتا کھاتا ایک رانی کے پاس جا نکلا۔ ابھی وہ محل میں ہی تھا کہ ایک کاٹ کی مورتی رانی کا کھونٹی پر لٹکا ہوا ہار نگل گئی۔ رانی نے بھوج کو چور سمجھ کر راجہ کے پاس بھیج دیا۔ اس نے چوری کی سزا میں اس کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیے۔ وہ اسی بیچارگی کی حالت میں تھا کہ گنگو تیلی ادھر آنکلا۔ گھر میں اولاد نہ تھی۔ اس لنڈ منڈہی کو غنیمت سمجھ کر اپنے گھر لے گیا۔ علاج کیا تو اچھا ہو گیا۔ کولہو چلانے کی خدمت سپرد ہوئی۔ایک دن رات کو کولہو چلا رہا تھا اور دیپک راگ گا رہا تھا۔ راجہ کی بیٹی نے اس وقت محل کا چراغ گل کرنے کا حکم دیا مگر چراغ جب بجھائے جاتے تو راگ کے سروں کے اثر سے جل اٹھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ گنگو تیلی کے گھرمیں کوئی شخص دیپک راگ گا رہا ہے۔ صبح کو اس نے راجہ کے سر ہوکر شادی کا پیغام گنگو تیلی کے گھر بھجوایا۔ چنانچہ شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد تقدیر سے ہاتھ پاؤں بھی نکل آئے۔ کاٹ کی مورتی نے ہار اگل دیا۔ راج پاٹ بھی دوبارہ نصیب ہوا۔ راج ملنے کے بعد راجہ بھوج نے گنگو تیلی کو ہمیشہ اپنا باپ سمجھا اور اس کو مالا مال کر دیا۔

تلمیحات کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت

اردو زبان کی ادبی اور غیر ادبی تلمیحات پر ہم کافی بحث کر چکے ہیں اور ہر قسم کی تلمیحات کی مثالیں بھی ہم نے تحریر کر دی ہیں۔ ہم نے اس مضمون میں تمام تلمیحات کو گھیر لینے کی کوشش نہیں کی تاہم اگر وہ تمام تلمیحیں جو ہماری زبان میں نظم و نثر میں مستعمل ہیں یا عام بول چال میں رائج ہیں، ایک جگہ جمع کر دی جائیں تو ان پر ایک نظر ڈال کر ہر شخص اس نتیجے پر پہنچ جائےگا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہزاروں خیالات ہیں جن کے ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس موزوں قالب نہیں ہیں۔ یورپ کی ترقی یافتہ زبانوں میں تلمیحات کی یہ کثرت ہے کہ ان کے لیے مستقل فرہنگیں تیار کی جاتی ہیں، جن میں فرہنگ نگار ان تلمیحوں کو حروف تہجی کی ترتیب سے جمع کرتے ہیں اور ہر تلمیح کی تشریح کرتے ہیں۔اگرچہ تلمیحات کی کثرت کے سبب باشندگانِ یورپ ہر قسم کے خیالات کو مناسب سانچوں میں ڈھال سکتے ہیں تاہم ان کی پیاس نہیں بجھی۔ وہ دنیا کی مختلف قوموں کے دیوتاؤں کے قصے معلوم کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی عقاید اور اوہام کا سراغ لگاتے ہیں۔ ان کی تاریخوں کو اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی اور غیرمذہبی افسانوں کو اپنی زبانوں کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ ان کے شاعرانہ خیالات پر غبور حاصل کرتے ہیں۔ ان کے ناٹکوں کو ترجمہ کا لباس پہناتے ہیں اور اس تمام ذخیرہ سے ادبیات کے لیے تلمیحیں اخذ کرتے ہیں تاکہ ان کو ہر قسم کے خیالات و افکار کے ادا کرنے کا سامان پہلے سے زیادہ میسر ہو، برخلاف اس کے ہمارے ہم زبان قدامت پرست ہیں۔اگر غیر زبان کے کسی لفظ میں اہل فارس نے تغیر و تبدل کیا ہے یا عربوں نے کوئی تبدیلی کی ہے تو اس کو جایز سمجھتے ہیں۔ اگر ایرانیوں نے غیر زبان کے کسی لفظ کے ساتھ اپنا لاحقہ یا سابقہ لگا کر کوئی لفظ بنا لیا ہے تو اس کو بھی روا داری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر عربوں نے غیرزبان کے کسی لفظ سے کوئی مصدر بنا لیا ہے تو اس پر بھی ناک بھوں نہیں چڑھاتے۔ اگر اہل ایران یا اہل عرب میں سے کسی نے کوئی نئی تلمیح کسی تاریخ یا افسانہ کی بنیاد پر وضع کر لی ہے تو اس پر بھی رضامند رہتے ہیں۔لیکن اگر ہمارے ملک کا کوئی آدمی غیر زبان کے کسی لفظ میں تصرف کرے یا عربی فارسی کے کسی لفظ کے ساتھ ہندی زبان کا کوئی سابقہ یالاحقہ لگائے یا کسی لفظ پر مصدر کی علامت لگاکر کوئی نیا مصدر بنائے یا کوئی جدید تلمیح استعمال کرے، تو اس پر اعتراضات کی بوچھار ہوتی ہے اور قیامت ٹوٹی پڑتی ہے۔ یہ حضرات موجودہ زبان میں سے بہت سے الفاظ کو ترک کرتے جاتے ہیں اور اس پر فخر کا اظہار کرتے ہیں مگر ایسی کوئی تدبیر نہیں کرتے، جس سے ہماری زبان وسیع ہو، ہمارے ادبیات کا دامن فراخ ہو، ہماری لغات میں الفاظ کی تعداد زیادہ ہو، ہمارے ادائے خیالات کی قوت میں ترقی ہو۔اس میں ذرا شبہ نہیں ہے کہ زبان سے غفلت کرنا ایک ایسا گناہ ہے جو کسی طرح قابل معافی نہیں ہے۔ اخبار نویس، رسالوں کے مرتب کرنے والے، شاعر، انشا پرداز اور مصنف جنہوں نے اب تک زبان کی طرف سے غفلت کا اظہار کیا ہے، اگر چاہیں تو نئے الفاظ، نئے محاورات، نئے استعارات، نئی اصطلاحات اور نئی تلمیحات سے ہماری زبان کو مالامال کر سکتے ہیں۔ میں عام زبان کی توسیع پر یہاں اظہار خیالات نہیں کرتا، صرف تلمیحات پر بحث کرنی چاہتا ہوں۔ موجودہ تلمیحات کا بیشتر حصہ عرب وایران سے لایا گیا ہے۔ ہندوستانی تلمیحات عام بول چال میں کسی قدر ہیں، مگر وہ لائق شمار نہیں ہیں۔ ہندوستان کی زبانوں اور ان کے ادبیات سے نفرت و گریز کرنے کے بعد کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اردو زبان کو ہندوستان کی مشترک زبان کا خطاب دیں۔اگر آپ جرمن، فرانسیسی یا انگریزی زبان کی لغات کھول کر دیکھیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے تمام دنیا کی زبانوں اور ادبیات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ کوئی مذہب، کوئی زبان، کوئی ملک اور کوئی قوم ایسی نہیں ملےگی جس کے عقائد، رسوم، اوہام، تاریخ اور ادب کے متعلق ضروری الفاظ ان ترقی یافتہ زبانوں میں موجود نہ ہوں۔ گویا انہوں نے اپنی زبانوں کے ادب کو ایک عالم گیر ادب بنا دیا ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ بات شرم کی نہیں ہے کہ ہم نے اپنی زبان کو اب تک ہندوستانی زبان کہلانے کا مستحق بھی ثابت نہیں کیا۔ اگر ہم فراخ دل ہوتے، اگر ہم میں تعصب کی جھلک نہ ہوتی، اگر ہم کو اپنی زبان سے محبت ہوتی، اگر ہم اپنی زبان کے ساتھ اپنے وطن کی عزت بھی کرنا چاہتے تو پھر ہمارا فرض تھا کہ جتنی قومیں ہندوستان میں آباد ہیں، ان کے عقائد و اوہام، ان کے رسم و رواج اور ان کی تاریخ و ادب کے تمام ضروری الفاظ اپنی زبان میں داخل کر لیتے اور اس کا دائرہ اس قدر وسیع کرتے کہ ہندوستان کی کوئی موجودہ زبان اس کا مقابلہ نہ کر سکتی۔اگر عام بول چال میں تغیر و تبدل کرنے کا اختیار ہم نہیں رکھتے، تو یہ بات تو ہماری قدرت میں ہے کہ ہم اپنے ادبیات کا دائرہ وسیع کردیں اور اس کو ہندوستان کے تمام تعلیم یافتہ باشندوں کے لیے قابل مطالعہ اور لائق انس بنا دیں۔ اردو زبان کے بنانے میں ہندو مسلمان دونوں شریک ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے ادب میں صرف اسلامی ادبیات کے آثار موجود ہیں۔ ہندو قوم کے ادبیات کا کوئی نشان نہ ہماری نثر میں ہے نہ نظم میں۔شاید ایک معترض اس موقع پر یہ اعتراض اٹھائے کہ ہندوؤں کے مذہبی عقائد، ان کے دیوتاؤں کے قصے، ان کے شگون واوہام، ان کی تاریخ کی غیر معتبر کہانیاں اس قابل نہیں ہیں کہ مسلمان ان کو تسلیم کریں۔ حالانکہ وہ توحید کے ماننے والے ہیں اور معقول پسند ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اب بھی ہمارے ادب میں ایسی سینکڑوں باتیں داخل ہیں، جو نہ مذہب کے لحاظ سے قابل تسلیم ہیں نہ عقل کے لحاظ سے۔ اگر ہم مذہب یا عقل کا پاس کرتے ہیں، تو لازم ہے کہ ہم تمام ایسی باتوں کو اپنے ادبیات سے نکال دیں۔ یہ تو ایک الزامی جواب ہے۔ اصلی اور حقیقی جواب یہ ہے کہ شاعری اور انشاپردازی میں ایسی تمام باتیں اس لیے داخل نہیں کی گئیں کہ وہ مذہباً یا عقلاً لائق تسلیم ہیں، بلکہ اس لیے داخل کی گئی ہیں کہ وہ ادائے خیالات کے سانچے ہیں۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ ایک دیو ہمالیہ پہاڑ کی طرح سینہ تانے کھڑا ہے اور ہندوستان کو اپنی آغوش میں لینے کے لیے تیار ہے، تو اس فقرہ سے یہ استدلال نہیں ہ وسکتا کہ اس کا کہنے والا دیو کے وجود کا قائل ہے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ ہمالیہ کے بلند سلسلہ نے ہندوستان کو ایک طرف سے گھیر رکھا ہے۔اسی طرح اگر کوئی کہے کہ ’’رزگار عنقا ہو گیا ہے۔‘‘ تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ روزگار نہیں ملتا، نہ یہ کہ اس فقرہ کا بولنے والا عنقا کے معدوم ہونے کا اظہار کر رہا ہے۔ ہر شخص جو کسی ناول یا ناٹک کو پڑھتا ہے، اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک مصنوعی قصہ پڑھ رہا ہوں، تاہم جب کوئی ہنسی کی بات اس میں آتی ہے تو ہنس پڑتا ہے اور اگر کوئی دردانگیز واقعہ پڑھتا ہے تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے ہیں۔ فطرت انسانی کے اس گر سے ہر شاعر، ہر انشاپرداز، ہر قصہ نویس اور ہر واعظ اچھی طرح آگاہ ہوتا ہے، اس لیے وہ حقائق کو ان فرضی و خیالی باتو ں کے پیرایے میں پیش کرتا ہے، جن سے اس کے مخاطب مانوس ہوں۔ اس کو مطلق اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ لفافہ جس میں لپیٹ کر وہ اپنے خیالات نظر کے سامنے لاتا ہے، اصلی ہے یا نقلی۔ مولانا روم نے اسی نکتہ کو بیان کیا ہے، جہاں فرمایا ہے کہخوشترآں باشد کہ سرد لبراں گفتہ آید درحدیث دیگراںپس ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی زبان میں ادائے خیالات کے سانچوں کی تعداد بڑھائیں اور اس غرض سے ہندومذہب، ہندو دیومالا و ہندو تاریخ اور ہندو ادب کی تلمیحات کا اضافہ کریں، تو اس سے ہمارے مذہب اور عقل پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ نہ کوئی چیز ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ان چیزوں کے وجود پر ہم یقین کریں، بلکہ اس اضافہ سے ہمیں حسب ذیل فوائد حاصل ہوں گے،(۱) مختلف خیالات کے ادا کرنے پرہم پہلے سے زیادہ قادر ہو جائیں گے۔ (۲) یہ الزام ہم پر سے دور ہوگا کہ ہم محض مذہبی تعصب کی بنا پر ہندو ادبیات سے گریز کرتے رہے۔ (۳) ہندو ہمارے ادبیات سے پیشتر کی نسبت زیادہ مانوس ہو جائیں گے۔ (۴) ہماری زبان صحیح معنوں میں ہندوستانی زبان اور ہمارا ادب صحیح معنوں میں ہندوستانی کہلانے کا مستحق ہوگا۔ (۵) ہندومسلمانوں کے اتحاد کی بنیاد مضبوط ہوگی اور حب وطن کے میدان میں آسانی سے دونوں قومیں ایک ساتھ دوڑیں گی۔اس نقطے پر پہنچنے کے بعد ہم کو لازم ہے کہ ہندوؤں کے مندرجہ ذیل ذخیرہ پر نظرڈالیں اور ان سے جدید تلمیحات حاصل کریں،(۱) رامائن (۲) مہابھارت (۳) ہندو عہد حکومت کی تاریخ (۴) ہندو افسانے، مثلاً شکنتلا، نلدمن، و کرم اروسی وغیرہ۔ (۵) ہندو دیومالا (۶) ہندو رسوم (۷) ہندو فرقوں کے حالات و خیالات۔اس کے علاوہ اسلامی ذخیرہ سے پیشتر کی نسبت زیادہ کام لینا چاہیے اور اس کے لیے ذیل کے ذخیرہ پر نظر ڈالنی اور اس سے تلمیحیں اخذ کرنی چاہئیں،(۱) قرآن مجید (۲) احادیث (۳) اسلام کی عام تاریخ(۴) اسلامی عہد حکومت ہند کی تاریخ(۵) مثنوی مولانا روم(۶) الف لیلہ(۷) شاہنامۂ فردوسی(۸) اردو زبان کے مشہور قصے (مثلاً مولانا نذیر احمد کے تصنیف کردہ قصے) بوستان خیال، داستان امیر حمزہ، چہار درویش، آرائش محفل یعنی قصہ حاتم طائی، فسانۂ عجائب، بدر منیر وغیرہ(۹) اسلامی تصوف کی کتابیںہندو اور اسلامی ذخیرہ کے علاوہ ذیل کے مواد سے بھی تلمیحیں مل سکتی ہیں،(۱) عیسائیوں کے مذہبی عقائد و رسوم(۲) انگریزوں کی عام تاریخ(۳) انگریزوں کے عہد حکومت ہند کی تاریخ(۴) سکھوں کے مذہبی عقائد و رسوم(۵) پارسیوں کے مذہبی عقائد و رسوم(۶) بودھ مت کے مذہبی عقائد و رسوم(۷) راجپوتوں کی تاریخ(۸) مرہٹوں کی تاریخجدید تلمیحات کی مثالیں یہاں ہم مثال کے طور پر چند ہی تلمیحات کا ذکر کرتے ہیں مثلاً ذیل کی تلمیحات پر غور کرو۔ کال کوٹھری یا بلیک ہول (انگریزی عہد حکومت ہند کی تاریخ سے) پادشاہ گر (اسلامی عہد حکومت ہند کی تاریخ سے) الہ دین کا چراغ، تسمہ پا (الف لیلہ سے) کالی موت (یورپ کی عام تاریخ سے) چالیس ٹھگ (الف لیلہ سے) کھل سم سم! بند ہو سم سم! (الف لیلہ سے) حمام باد گرد (قصہ حاتم طائی سے) خوجی (فسانہ آزاد سے) ظاہر دار بیگ (توبۃ النصوح سے) فطرت (توبۃ النصوح سے) کلیم (توبۃ النصوح سے) بود لامہ (اسلامی تاریخ سے) رستم یک دست (شاہنامہ فردوسی سے) رشک حمار (خدائی فوج دار سے) خواجہ سگ پرست (چہار درویش سے) دیو سفید (شاہنامۂ فردوسی سے) گلابو (خدائی فوجدار سے) دیوانی پارلیمنٹ (انگریزوں کی عام تاریخ سے) پگوڈا (بودھ مت والوں کے مذہب سے) جمیل فتا (راجپوتوں کی تاریخ سے) عشائے ربانی (عیسائیوں کے مذہب سے) نوشابہ (سکندر نامہ سے) جان عالم کا طوطا (فسانۂ عجائب سے) کل کا گھوڑا (بدر منیر سے) نروان (بودھ مت والوں کے مذہب سے) دخمہ (پارسیوں کے مذہب سے) امرت (سکھوں کے مذہب سے) کرپان (سکھوں کے مذہب سے) ژندہ بار (پارسیوں کے مذہب سے) مہ آباد (پارسیوں کی تاریخ سے) بہنام (پارسیوں کے مذہب سے) خوجی کی قرولی (فسانۂ آزاد سے۔)رستم و اسفندیار کی سرزمین سے ایران مراد ہے۔ طلوع آفتاب کی سرزمین سے جاپان مراد ہے۔ آسمانی سلطنت سے چین کی سلطنت مراد اور فراعنہ کی سرزمین سے مصر کا ملک مراد ہے۔ دیوتاؤں کی سرزمین سے ہندوستان سمجھو۔ روحانیت کی سرزمین ایشیا، مادیت کا گہوارہ یورپ، کروڑپتیوں کا ملک امریکہ، عہد ظلمت (یورپ کی تاریخ سے) عہد اصلاح (یورپ کی تاریخ سے) تاریک براعظم سے افریقہ مراد ہے۔

ہندو ادبیات کی تلمیحیں

نئی تلمیحات کی جو مثالیں ہم نے دی ہیں وہ بہت ہی کم ہیں۔ اگر ہم عام ذخیرہ کو سامنے رکھ کر تلاش کریں، تو بلاشبہ بہت سی نئی تلمیحات ملیں گی، مگر ہم اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ ان تلمیحات کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو ہندو ادبیات سے لی جا سکتی ہیں اور جن سے ہمارے ادب کے قالب میں نئی روح پیدا ہو سکتی ہے اور جن کے اضافہ کے بعد ہم اپنی زبان اور ادب کو دونوں قوموں کا مشترک سرمایہ کہہ سکتے ہیں۔ ذیل کی تلمیحات پر غور کی نظر ڈالو اور دیکھو کہ شاعری اور انشاء پر دازی میں ان سے کیا کام لیا جا سکتا ہے اور کون سے خیالات ان سانچوں میں ڈھالے جا سکتے ہیں۔ساوتری راجہ اشوپتی کی لڑکی تھی۔ وہ اپنے شوہر ستیوان پر دل سے فریفتہ تھی۔ شادی کے بعد اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک سال سے زیادہ زندہ نہ رہےگا۔ موت کے وقت اس نے فرشتہ موت یم سے اس قدر التجائیں کیں اور اس قدر اصرار کیا کہ وہ ستیوان کی روح قبض کرنے سے باز رہا۔ یم مردوں کی روحوں کا دیوتا ہے۔ اس کا رنگ سبز ہے۔ پوشاک سرخ ہے۔ ایک ہاتھ میں بھالا، دوسرے ہاتھ میں پھانسی کی رسی ہے۔ ایک بھینسے پر سوار رہتا ہے۔ یم پوری وہ مقام ہے، جہاں وہ رہتا ہے۔ کالی چی اس کے محل کا نام ہے۔ اس کے ملازم یم دوت کہلاتے ہیں۔ جب کوئی مرتا ہے تو، یم دوت اس کی روح کو لاحاضر کرتے ہیں۔ اس کی نیکیوں اور بدیوں کا دفتر کھولا جاتا ہے۔ پھر آخری حکم اس کی نسبت صادر کیا جاتا ہے کہ وہ پتھروں میں داخل ہو یا دوزخ میں جائے، یا دنیا میں کسی اور صورت میں پھر جنم لے، دو خوفناک کتے اس کی گزرگاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی چار آنکھیں ہیں۔ نتھنے کشادہ ہیں۔ وہ یم کی طرف سے موت کا پیغام پہنچاتے ہیں۔شت روپا سب سے پہلی عورت ہے، جو دنیا میں پیدا ہوئی، جسے مسلمانوں کے نزدیک حوا کہتے ہیں۔ برہما جی نے اپنے جسم کے دو حصے کیے۔ ایک حصے سے ایک مرد بنایا جس کا نام وراج ہے۔ دوسرے حصے سے عورت اور وہ یہی شت روپا ہے۔شکنتلا راجہ بھرت کی والدہ کا نام ہے۔ یہ وہی بھرت ہے جس کے نام سے ہندوستان کا نام بھارت ورش ہوااور جس کی اولاد جنگ مہابھارت میں معرکہ آرا ہوئی۔ یہ نامور رشی وشوامتر کی لڑکی تھی، مگر رشی کنونے اس کی پرورش کی اور اب اسی کی بیٹی کہلاتی ہے۔ جب یہ جوان ہوئی، تو اتفاق سے راجہ دوشینت سیروشکار کی تقریب سے رشی کنو کے آشرم کے قریب جا نکلا اور اس کو دیکھ کر فریفتہ ہو گیا۔ شکنتلا نے اس کے ساتھ شادی کر لی، مگر اس کے ساتھ نہیں گئی۔ چلتے وقت راجہ نے اپنی انگشتری بطور محبت کی یادگار کے اس کو دی۔ راجہ کے جانے کے بعد شکنتلا اس کی محبت میں ازخود رفتہ رہنے لگی۔ ایک دن ایک رشی اس رشی سے ملنے کے لیے آیا، جس نے اس کی پرورش کی تھی۔ شکنتلا نے عاشقانہ بیخودی کے عالم میں رشی مذکور کی تعظیم نہیں کی۔ اس نے بددعا دی کہ تیرا شوہر تجھے بھول جائے گا۔ شکنتلا نے نادم ہوکر معافی مانگی۔ رشی مذکور نے اپنی بد دعا میں اس قدر ترمیم کی کہ جب راجہ دوشینت اپنی انگشتری دیکھےگا تو اس کے دل میں تیری یاد تازہ ہو جائےگی۔شکنتلا جب حاملہ ہوئی، تو اپنے خاوند کے پاس جانے لگی۔ رستے میں وہ ایک چشمے میں نہانے کے لیے اتری۔ اتفاق سے انگشتری اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور چشمے میں گر پڑی مگر اس کو خبر نہیں ہوئی۔ جب وہ راجہ کے پاس پہنچی تو اس نے نہیں پہچانا۔ مجبوراً اس کی والدہ اسے جنگل میں واپس لے آئی۔ یہاں اس کے بطن سے بھرت پیدا ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک ماہی گیر اس چشمے کے کنارے پہنچا، جہاں شکنتلا نے غسل کیا تھا۔ ایک مچھلی اس کے جال میں آئی۔ جب اس کا پیٹ چاک کیا، تو اس میں سے ایک انگشتری نکلی۔ ماہی گیر وہ انگشتری راجہ دوشینت کے پاس لے گیا۔ راجہ نے اپنی انگشتری کو پہچانا۔ فوراً اس کے دل میں شکنتلا کی یاد تازہ ہوئی۔ اس نے جنگل سے اس کو اور اس کے لڑکے بھرت کو اپنے پاس بلا لیا۔ارجن راجہ پانڈو کا بیٹا رانی کنتی کے بطن سے تھا۔ اس کی بہادری، سپہ گری اور تیراندازی کی داستانیں مشہور ہیں۔ وہ اپنے تیروں سے بارش اور ہوا کو روک دیتا تھا اور اگر چاہتا، تو ان سے آگ اور پانی برساتا تھا۔ جنگ کے وقت وہ کبھی بلند قامت نظر آتا تھا، کبھی پست قد، کبھی لاغر دکھائی دیتا تھا اور کبھی فربہ۔ دروپدی کے سوئمبر میں بہت سے شاہزادے اور بہادر آدمی حاضر تھے مگر دروپدی کو اس کے سوا کوئی حاصل نہ کرسکا۔ اگنی دیوتا نے اس کو اپنی کمان عطا کی تھی۔ شیوجی نے اپنا طاقتور ہتھیار پشوپت دیا ہے۔ خود ورن اور یم دیو تاؤں نے بھی اسے خاص اسلحہ عنایت کیے تھے۔ اندر دیوتا نے ایک سنکھ دیا تھا۔ پھونکنے کے وقت اس سے بادل کی گرج پیدا ہوتی تھی۔ مہابھارت کی جنگ میں اس نے کوروؤں کا ناطقہ بند کردیا تھا اور بہادری اور دلیری کے بڑے بڑے کارنامے دکھائے۔ایک عہد شکنی کے سبب اسے بارہ برس تک جلاوطن رہنا پڑا۔ جب راجہ یدھشٹر نے ایک گھوڑا اس غرض سے چھوڑا کہ وہ تمام ہندوستان میں ہر راجہ کی عملداری سے گزرے اور تمام راجہ یہ جان کر کہ راجہ یدھشٹر سب سے بڑا راجہ ہے، اس گھوڑے کے پیچھے چلا، تاکہ اگر کوئی راجہ یدھشٹر کے دعوے کو رد کرے اور گھوڑے کو گرفتار کرنا چاہے، تو اس سے جنگ کرے۔ چنانچہ بہت سے راجاؤں سے ارجن لڑا۔ اور گھوڑے کو بہ حفاظت تمام واپس لایا۔ گویا اس کی بہادری کے سبب سے راجہ یدھشٹر چکرورتی راجہ مان لیا گیا۔ سری کرشن جی مہابھارت کی جنگ میں ارجن کے رتھ بان تھے۔ اردوزبان کے قدیم شاعروں نے ارجن کی تیراندازی اور کمانداری کا ذکر تلمیحاً کیا ہے۔سدیومن کا ذکر پرانوں میں آتا ہے۔ لکھا ہے کہ منودئی دسوت کو بڑی آرزو تھی کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو۔ اس خیال سے اس نے ورُن اور متردیوتاؤں کے نام پر ایک یگ کیا، مگر یک کے انتظام میں کچھ غلطی واقع ہوئی۔ اس لیے لڑکے کی جگہ لڑکی پیدا ہوئی۔ اس کا نام رلا رکھا گیا۔ منودیٔ دسوت نے جب بہت التجا کی تو دیوتاؤں نے رلا کو لڑکے کی شکل میں تبدیل کردیا۔ اب اس کا نام سدیومن ہوا۔ جوان ہونے پر سدیومن سیر و شکار کی غرض سے اتفاقاً اس جنگل میں جانکلا جس کو شیوجی نے بددعا دی تھی۔ بددعا کے اثر سے جنگل کا یہ خاصہ ہو گیا تھا کہ اگر کوئی مرد وہاں قدم رکھتا تھا، تو عورت بن جاتا تھا۔ چنانچہ سدیومن اس جنگل میں پہنچتے ہی پھر عورت ہو گیا۔ اس کے بعد شیوجی کی عنایت سے یہ بات حاصل ہو گئی کہ وہ ایک مہینے مرد رہتا تھا اور ایک مہینے عورت۔ دونوں حالتوں یعنی مردانی اور زنانی حالت میں اس سے اولاد ہوئی۔اروشی بہشت کی ایک اپسرا یعنی حور تھی۔ ورن اور متردیوتاؤں نے اس کی کسی حرکت سے ناراض ہوکر بددعا دی تھی۔ اس سبب سے وہ زمین پر پھینکی گئی۔ یہاں راجہ پورو جو وکرم کے نام سے مشہور ہے، اس پر فریفتہ ہوا۔ اس نے چند شرائط کے ساتھ راجہ کی بیوی بن کر رہنا منظور کیا۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ بجز خاص وقت کے میرے سامنے کبھی برہنہ نہ ہونا۔ دوسری شرط یہ تھی کہ دو مینڈھے جن کو میں عزیز رکھتی ہوں میرے بستر کے قریب بندھے رہیں اور تمہیں ان کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ کچھ عرصہ کے بعد راجہ اندر نے چاہا کہ اروشی بہشت میں واپس بلائی جائے۔ جو جاسوس اس کام کے لیے مامور ہوئے تھے، انہوں نے اندھیری رات میں آکر دونوں مینڈھے چرا لیے۔اروشی نے غل مچایا تو راجہ برہنگی ہی کی حالت میں تلوار ہاتھ میں لے کر چوروں کے تعاقب میں نکلا۔ راجہ اندر کے جاسوسوں نے عین اسی وقت بجلی چمکائی، جس کے سبب راجہ کابرہنہ جسم اروشی کو نظر آیا۔ عہد ٹوٹ گیا۔ وہ راجہ کی نظر سے فوراً غائب ہو گئی اور بہشت میں جا پہنچی۔ وکرم اس کے فراق میں سخت ملول رہتا تھا اور آوارہ پھرنے لگا۔ اتفاقاً اس نے کر کشیتر کے تالاب میں اروشی کو اپنی چار سہیلیوں کے ساتھ نہاتے دیکھا۔ اس وقت اس نے راجہ سے کہا کہ میں حاملہ ہوں۔ ایک سال گزرنے پر تمہارے پاس آؤں گی اور صرف ایک رات ٹھیروں گی۔ چنانچہ مدت مذکور گزرنے پر وہ راجہ کے پاس آئی۔ لڑکا جو اس کے بطن سے پیدا ہوا تھا، راجہ کے حوالے کیا۔ رات بھر ٹھیر کر واپس چلی گئی۔ آخر دیوتاؤں کے مشورہ سے راجہ نے ایک یگ کیا اور اس کے صلہ میں اروشی کے ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی۔ اروشی اور وکرم کی محبت کا فسانہ ملک الشعراء کالی داس نے نہایت فصاحت سے اپنے ایک ناٹک میں بیان کیا ہے۔سوریہ سورج سے مراد ہے۔ یہ بھی ایک دیوتا ہے۔ اس کے بہت سے القاب ہیں۔ مثلاً روشن دن کا مالک، چشم عالم، سنہری کرنوں والا وغیرہ۔ اس کے رتھ کے آگے سات گھوڑے جوتے جاتے ہیں۔ اس کا قد کوتاہ، آنکھیں سرخ اور رنگ تانبے کا سا ہے۔ اس کی بیوی کا نام سنجنا ہے، جو وشوکرما کی لڑکی تھی۔ سنجنا اس کے جلوے کی تاب نہ لاکر اس سے جدا ہو گئی تھی مگر وشوکرما نے سوریہ کو خراد پر چڑھاکر پاؤں کے سوا ہر طرف سے چھیل ڈالا، جس سے اس کی روشنی کا آٹھواں حصہ کم ہو گیا۔ پھر سنجنا اس کے ساتھ رہنے لگی۔ سورج بنسی راجا سوریہ ہی کے نسل سے ہیں۔سوم چاند کو کہتے ہیں۔ یہ بھی دیوتا ہے۔ نباتات کا پرورش کرنے والا اور عابدوں کا نگہبان کہلاتا ہے۔ اس نے وکش کی ستائیس لڑکیوں سے بیاہ کیا۔ یہی لڑکیاں ہیں جنہیں نچھتر یعنی چاند کی منزلیں کہتے ہیں۔ چندر بنسیوں کا سلسلہ سوم ہی سے چلا ہے۔ جس رتھ پر وہ سوار ہوتا ہے، اس کے تین پہئے ہیں۔ سفید رنگ کے دس گھوڑے اس رتھ کو کھینچتے ہیں۔ اس کے بہت سے صفاتی نام ہیں۔ مثلاً ٹھنڈی کرنوں والا، سفید کرنوں والا، ستاروں کا مالک، رات کا روشن کرنے والا وغیرہ۔کام جسے کام دیو بھی کہتے ہیں، عشق کا دیوتا ہے۔ جب خدا نے چاہا کہ دنیا کو پیدا کرے، اس وقت کام خود اس کے دل میں پیدا ہو گیا۔ یہ بہشت کی حوروں اور آسمانی پریوں کا مالک ہے۔ تیر کمان اس کے ساتھ ہیں۔ حوروں اور پریوں کے جمگھٹ ہیں۔ ہاتھ میں سرخ رنگ کا ایک علم ہے، جس کے پھریرے پر مچھلی کانشان ہے۔ اس کے بہت سے صفاتی نام ہیں۔ مثلاً حسین، شعلہ زن، شادماں، شوخ و شنگ، سراپا خرمی، مردم فریب شمع بہار، چٹختا انگارہ، عصائے قہر، حسن کا ہتھیار، صلح شکن، عیاش، دنیا کا اتالیق، کان محبت، پھولوں سے مسلح۔لچھمی یا لکشمی دولت کی دیوی ہے، دیوتاؤں اور اسروں نے سمندر کو بلویا تھا، تو اور رتنوں کے ساتھ لچھمی بھی سمندر سے کنول کا پھول ہاتھ میں لیے نکلی تھی۔ جب سری رام چندر جی نے اوتار لیا تو یہ سیتاجی کی شکل میں نمایاں ہوئی، سری کرشن جی کے زمانے میں اس نے رکمنی کا قالب اختیار کیا۔ دولت وحشمت کی دیوی ہونے کے سبب ہر جگہ اس کی پرستش کی جاتی ہے۔ اس کو ہیرا، اندر اور چنچلا بھی کہتے ہیں۔ اگنی قدیم زمانہ کا دیوتا، اس کی تین شکلیں ہیں۔ آسمان پر سورج، ہوا پر بجلی، زمین پر آگ۔ اس کی سات زبانیں ہیں، ہون کے وقت آگ میں جو گھی ڈالا جاتا ہے، یہ ان زبانوں سے اس گھی کو چاٹتا ہے۔ اس کی پوشاک سیاہ رنگ کی ہے۔ سرپر دھوئیں کا تاج ہے۔ ایک روشن ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہے۔ سات ہوائیں اس کے رتھ کے پہئے ہیں۔ سرخ رنگ کی گھوڑی اس کے رتھ میں جوتی جاتی ہے۔ ایک مینڈھا اس کے ساتھ رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ دیوتا اس پر سوار ہوتا ہے۔اندر آسمان، ہوا، بادل، بہشت اور حوروں کا مالک ہے۔ اس کا درجہ سب دیوتاؤں سے بڑا ہے۔ اگنی کی طرح ویدوں کی بہت سی رچائیں اس کی طرف بھی منسوب ہیں۔ اس کا رنگ لال کندن جیسا ہے۔ بازو لمبے لمبے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے جو شکل چاہے اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی سواری کا رتھ چمکیلا ہے۔ دوسرخ رنگ کے گھوڑے اس میں جوتے جاتے ہیں۔ اس کاخاص ہتھیار وجر ہے۔ کمان اور جال بھی ساتھ رکھتا ہے۔ چونکہ وہ ہواؤں کا مالک ہے۔ اس لیے موسموں کا انتظام اور بارش کا اہتمام اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ برق اور رعد کو مناسب موقعوں پرمامور کرتا ہے۔ بارش برساتا ہے۔ بجلی چمکاتا ہے۔ زمینوں کو سرسبز کرتا ہے۔ بجلی اور طوفان پر حکمرانی کرتا ہے۔ اس کے بدن پر ہزار آنکھوں کے نشان ہیں۔راون والی لنکا کا بیٹا میگھ ناد اس کو گرفتار کرکے نکال لے گیا تھا۔ اسی سبب سے میگناد کو اندر جیت کہتے ہیں۔ لو دیوتا اسے لنکا سے چھڑا کر لائے۔ وہ رشیوں کی عبادت میں خلل ڈالنے کے لیے ان کو اندر کی پرستش سے منع کیا کرتا تھا۔ اندر نے ناراض ہوکر ان کی سزا کے لیے بارش کا طوفان بھیجا۔ سری کرشن جی گووردھن پہاڑ کو اپنی ایک انگلی پر لے کر کھڑے ہو گئے۔ تمام برج باشی اس پہاڑ کے نیچے آ گئے اور ان کو طوفان سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ وہ ایک سفید ہاتھی پر سوار ہوتا ہے، جس کا نام اراوت ہے۔ اس کے کئی صفاتی نام ہیں۔ مثلاً وجر والا، دیوتاؤں کا سردار، ہوا کا مالک، بہشت کا مالک۔ اس کے دارالحکومت کے نام امراوتی، اور اس کے رتھ کا نام ومان ہے۔مہادیوی یا پاربتی، شوجی کی بیوی کو کہتے ہیں۔ مختلف صفات و افعال کے لحاظ سے اس کے مختلف نام ہیں۔ مہربانی کی حالت میں وہ حسب ذیل ناموں سے پکاری جاتی تھی:مادر دنیا، زردفام اور درخشاں، ہر دم شادماں، متوالی آنکھوں والی۔ مگر جب غضب ناک ہوتی ہے تو حسب ذیل ناموں سے پکاری جاتی ہے: درگا، کالی، خوفناک، غضب ناک، لال دامنوں والی۔ اس کے دس ہاتھ ہیں۔ ہر ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے۔ اس کا رنگ زرد ہے۔ حسن و جمال اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ یہ عام حالت ہے۔ مگر غصے کی حالت میں اس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ ہاتھوں اور دانتوں سے خون ٹپکتا ہے۔ سانپ اس کے جسم کو حلقہ کیے ہوتے ہیں۔ گلے میں سروں اور کھوپڑیوں کی مالا ہوتی ہے۔ اس کی پرستش اسی حالت میں کی جاتی ہے۔ اس کی مورتی کے سامنے خون کبھی خشک ہونے نہیں پاتا۔اہراون پاتال کا راجہ تھا۔ لنکا کی لڑائی میں جب میگھ ناد اور کمبھ کرن مارے جا چکے، تو راون نے اس سے مدد طلب کی۔ وہ بھویشن کے لباس میں سری رام چندر جی کے لشکر میں داخل ہو گیا۔ کسی نے اس کو نہیں پہچانا۔ سری رام چندر جی اور لچھمن جی دونوں اس وقت سو رہے تھے۔ وہ دونوں کو غفلت کی حالت میں اٹھا لے گیا۔ پاتال پہنچ کر اس نے چاہا کہ اپنے دیوتا کے سامنے دونوں کو ذبح کرے۔ ہنومان جی کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو فوراً پاتال گئے۔ وہاں یگ ہونے کو تھا۔ تمام سامان فراہم کر لیا گیا تھا۔ ہنومان جی یگ کا سارا سامان کھا گئے۔ اہراون کو قتل کیا۔ دونوں بھائیوں کو واپس لشکر میں لے آئے۔برہما، مخلوق کو پیدا کرنے والا دیوتا۔ رنگ سرخ ہے۔ چار سر اور چار منہ ہیں۔ چار ہاتھ اور آٹھ کان ہیں۔ ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں کمان، ایک میں مالا اور ایک میں وید ہیں۔ برہما جی کی سواری ہنس ہے۔ یہ وشنو جی کی ناف سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا ایک دن دوارب سولہ کروڑ سال کے برابر ہے۔بلرام، سری کرشن جی کے بڑے بھائی ہیں۔ ان کا رنگ گورا تھا اور سری کرشن جی کا سانولا۔ دونوں وشنو جی کے اوتار ہیں جنہوں نے سفید اور سیاہ رنگ میں ظہور کیا ہے۔ مرتے وقت ان کے منھ سے ایک سانپ نکلا تھا۔ اس لیے ان کو شیش ناگ کا اوتار بھی کہتے ہیں۔ بلرام جی شراب پیا کرتے تھے۔ سری کرشن پرہیزگار تھے۔ بلرام جی نہایت تند مزاج تھے۔ مگر سری کرشن جی نرم طبیعت رکھتے تھے۔ بلرام جی کے ہتھیار ہل اور موسل ہیں۔رام یعنی سری رام چندر جی، راجہ دسرتھ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ راجہ جنک کی بیٹی سیتا سے ان کی شادی ہوئی۔ راجہ جنک نے جب سوئمبر کا جلسہ منعقد کیا، تو شرط یہ کی کہ جو بہادر آدمی میری کمان کو خم کردے گا، سیتا کی شادی اسی سے کر دی جائےگی۔ یہ کمان راجہ مذکور کو وشنو نے عطا کی تھی۔ سری رام چندر جی نے اس کمان کے تین ٹکڑے کرڈالے۔ سوئمبر کی شرط کو پورا کر دیا۔ شادی کے بعد راجہ دسرتھ نے سری رام چندر جی کو تخت پر بٹھانا چاہا۔ مگر بھرت کی والدہ رانی کیکئی نے ایک باندی کے بہکانے سے راجہ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ بھرت کو تخت پر بٹھائے اور رام چندر جی چودہ برس تک جلاوطن رہیں۔ سری رام چندر جی نے باپ کا کہنا منظور کیا۔ لچھمن جی اور سیتا کو ساتھ لے کر جنگل کو روانہ ہوئے۔ ان کی روانگی کے بعد راجہ دسرتھ کا انتقال ہو گیا۔ بھرت نے چترکوٹ پہنچ کر سری رام چندر جی کو واپس چلنے اور تخت نشین ہونے کی صلاح دی مگر انہوں نے یہ بات منظور نہیں کی۔ مجبوراً بھرت ان کی کھڑاؤں لے گیا اور ان کو تخت پر رکھ کر خود بطور نائب السلطنت کے راج کرنے لگا۔دریائے گوداوری کے کنارے پنچ وٹی میں راون والی لنکا کی بہن سری رام چندر جی پر عاشق ہو گئی۔ بہت چاہا کہ ان کو اپنی طرف مائل کرے مگر کچھ اثر نہیں ہوا۔ لچھمن جی نے اس گستاخی پر اس کے کان اور ناک کاٹ ڈالے۔ وہ روتی پیٹتی اپنے بھائی کے پاس پہنچی۔ نیز اس نے سیتاجی کے حسن و جمال کی تعریف اس قدر کی کہ راون ان کے بھگا لینے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ عین اس وقت جب کہ سری رام چندرجی اور لچھمن جی شکار کو گئے ہوئے تھے، راون آیا۔ سیتاجی کو جبر سے اپنے ساتھ لے گیا۔ دونوں بھائی جب شکار سے واپس آئے تو یہ واقعہ معلوم ہوا۔ راجہ سکھ دیو جو ان اطراف میں حکمران تھا، اس کے جنرل ہنومان نے لنکاپر چڑھائی کرنے میں مدد دی۔ ہنومان سمندر پھاند کر لنکا پہنچا اور سیتاجی کی خبر لایا۔ پھر سمندر پر پل باندھا گیا۔ بندروں اور ریچھوں کی فوج ہنومان کی سرکردگی میں لنکا پہنچی۔ راون کے ساتھ جنگ کی گئی۔ راون کے بیٹے اور اس کا بھائی اور خود راون اس لڑائی میں قتل ہوا۔ لنکا فتح ہوئی اور سیتاجی نے قید سے رہائی پائی۔راون والی لنکا بہت شریر، ظالم اور بدی کا پتلا تھا۔ اس کے دس سر تھے، بیس ہاتھ تھے۔ آنکھیں سرخ تھیں۔ صورت خوفناک تھی۔ اس میں اس قدر طاقت تھی کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلا سکتا تھا۔ سمندر کو متحرک کر سکتا تھا۔ دیوتا اس کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اگنی دیوتا باورچی کا کام کرتا تھا۔ ورن دیوتا پانی پہنچاتا تھا۔ کویر دیوتا دولت مہیا کرتا تھا۔ وایو دیوتا اس کے محلات میں جھاڑو دیتا تھا۔ لنکا جس میں وہ حکومت کرتا تھا، اس کے تمام مکانات سونے سے مغرق تھے اور جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔گویر خزانوں کا دیوتا ہے۔ کوہ ہمالیہ پر ایک شہر الکا ہے، جہاں اس کا قیام ہے۔ سونا، چاندی اور جواہرات سب اس کے قبضہ میں ہیں۔ اس کا رنگ سفید ہے۔ اس کے تین پاؤں ہیں۔ آٹھ دانت ہیں۔ سارا جسم زیورات سے ڈھکا ہے۔ اس کو دھن پتی یعنی دولت کا مالک اور رتن پتی یعنی جواہرات کا مالک کہتے ہیں۔ وایو ہواؤں کا دیوتا ہے۔ اندر دیوتا کا رفیق ہے۔ اکثر اس کے ساتھ ایک ہی رتھ پر سوار ہوتا ہے۔ خود اس کا رتھ طلائی ہے، جس میں ہزار گھوڑے جوتے جاتے ہیں۔ خوشبویوں کا حامل اور دایم رواں اس کے صفاتی نام ہیں۔ ورن، سمندروں اور دریاؤں کا دیوتا ہے۔ اس کا صفاتی نام جل پتی ہے۔ اس کی سواری کا جانور مگرمچھ ہے۔ سرسوتی علم، عقل اور شاعری کی دیوی ہے۔ رنگ سفید ہے، ہاتھ میں کتاب ہے۔ سفید کنول کے پھول پر جلوہ افروز ہے، برہما جی اس کے شوہر ہیں۔کورم اوتار، اس اوتار کی شکل کچھوے جیسی ہے۔ ایک دفعہ دیوتاؤں کے مقابلے میں دیتوں نے غلبہ پایا۔ اندر کی حکومت میں بھی خلل آ گیا۔ برہما جی اور نارائن جی کی ہدایت سے دیوتاؤں نے مشورہ کیا کہ سمندر کو بلواکر اس میں امرت یعنی آب حیات نکالیں اور اس کو نوش کرکے دیتوں کا مقابلہ کریں اور ان کو مار کر آرام کی زندگی بسر کریں۔ چنانچہ سمندر کے بلونے کے لیے کوہِ بندھیاچل کی رئی بنائی گئی۔ شیش ناگ کی رسی بناکر اس کے گرد لپیٹی اور سمندر کو سب دیوتاؤں نے بلونا شروع کیا، مگر کوہ بندھیاچل اپنے وزن کے سبب سمندر میں ڈوبا جاتا تھا اور ایک مقام پر کھڑا نہیں رہتا تھا۔ کورم اوتار نے کچھوے کے روپ میں ظہور کیا۔ وہ سمندر میں اتر گیا اور کوہ بندھیاچل کو اپنی پشت پر جمالیا۔ سمندر بلونے سے حسب ذیل چودہ رتن برآمد ہوئے،(۱) امرت یعنی آب حیات۔ اسے دیوتاؤں نے پی لیا۔ (۲) دھنوتری طبیب۔ یہ ایک ہاتھ میں جونک اور ایک ہاتھ میں ہلیلہ لیے برآمد ہوا۔ (۳) لچھمی دیوی۔ یہ وشنو جی کے حصے میں آئی۔ (۴) شراب۔ اسے دیتوں نے نوش کیا۔ (۵) چاند۔ یہ شیوجی کے حصے میں آیا ہے۔ (۶) رمبھا۔ یہ ایک حسین بہشتی حور تھی۔ (۷) اچھی شرو۔ یہ ایک اعلیٰ صفت گھوڑے کا نام ہے۔ اسے سوریہ نے لیا۔ (۸) کوسنبہ منی۔ اسے وشنو جی نے لیا۔ (۹) پارجات جسے کلپ برکش بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک بہشتی درخت تھا۔ (۱۰) سُربھی۔ یہ ایک اعلیٰ صفت گائے تھی، جو رشیوں کو دی گئی۔ (۱۱) اراوت۔ یہ ایک نایاب ہاتھی تھا۔ جو اندر کے حصے میں آیا۔ (۱۲) سنکھ۔ جس کو پھونکنے سے بادل کی گرج پیدا ہوتی تھی۔ یہ وشنوجی نے لیا۔ (۱۳) کمان، یہ ایک عجیب کمان تھی۔ (۱۴) وِش۔متسیہاس کے معنی ہیں مچھلی، یہ ایک اوتار کا نام ہے۔ راجہ منو جس نے دو لاکھ برس ریاضت کی تھی، ایک دفعہ دریائے کرت مالامیں اشنان کر رہا تھا۔ یکایک خوبصورت مچھلی اس کے ہاتھ آئی۔ راجہ اسے ایک رات دن ہاتھ میں لیے رہا اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتا رہا، پھر اسے ایک گھڑے میں ڈالا، مگر وہ گھڑے میں نہ سمائی، راجہ نے اسے ایک کنویں میں ڈال دیا مگر کنوئیں میں بھی نہ سما سکی۔ کنوئیں سے نکال کر اسے ایک تالاب میں پہنچایا۔ جب تالاب میں بھی اس کی گنجایش نہ ہوئی تو دریائے گنگا میں ڈالی گئی۔ یہاں بھی اس نے ہاتھ پاؤں پھیلائے، اور سارے دریا میں نہ سما سکی۔ مجبوراً اسے سمندر میں پہنچایا۔ یہاں پہنچ کر وہ اس قدر پھیلی کہ تمام سمندر پر چھا گئی۔ اب راجہ سمجھا کہ یہ خدائی اسرار ہے۔ مچھلی نے راجہ سے کہا کہ ایک ہفتے کے بعد دریائے جلال موج زن ہوگا۔ طوفان کے سبب ساری دنیا پانی میں غرق ہو جائےگی۔ تم فلاں کشتی پر دیوتاؤں کے ساتھ بیٹھ جانا اور کشتی کو میرے اس سینگ سے جو پیشانی سے نکلا ہوا ہے، باندھ دینا۔ چنانچہ طوفان آیا اور سترہ لاکھ اٹھائیس ہزار برس تک رہا۔ تمام دنیا تباہ ہو گئی۔ صرف منو اور اس کے ہم راہی محفوظ رہے۔ پھر منو کی نسل سے دنیا دوبارہ آباد ہوئی۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک سرکش دیت جس کا نام سنکھا سر تھا، ویدوں کو چراکر سمندر میں چھپ گیا تھا۔ برہما جی کے فریاد کرنے پر یہ اوتار سمندر کی تہہ میں پہنچا اور دیت مذکور کو ہلاک کرکے ویدوں کو واپس لایا۔وامن اوتار جس کو باون اوتار بھی کہتے ہیں۔ اس اوتار کے ظہور کا واقعہ برہمنوں نے اس طرح بیان کیا ہے۔ دیتوں کا ایک راجہ تھا جسے راجہ بلی کہتے ہیں۔ اس نے تینوں لوک اپنے قبضہ میں کر لیے تھے۔ دیوتاؤں کو شکست دے کر ان کا ملک چھین لیا تھا۔ دیوتاؤں کی حمایت کے لیے یہ اوتار نمایاں ہوا۔ عین اس وقت جب کہ راجہ بلی یگ کر رہا تھا، یہ اوتار اس کے پاس پہنچا اور اس سے تین قدم کی زمین کا سوال کیا۔ راجہ نے اس سوال کو حقیر سمجھ کر کہا سوال میرے درجہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ وامن نے اپنے سوال پر اصرار کیا۔ راجہ نے اجازت دی کہ تین قدم ناپ کر زمین لے لے۔ وامن نے ایک قدم اوپر کے لوک پر رکھا۔ دوسرے قدم سے درمیانی لوک کو ناپا۔ تیسرے قدم کے لیے کہا کہ ساری زمین میرے ایک قدم کے برابر ہے۔ راجہ اپنے اقرار پر ثابت قدم رہا اور اپنے تئیں اس کے قدموں پر ڈال دیا۔ وامن جی نے خوش ہوکر پاتال کا ملک اسے بخش دیا اور دیتوں کی صفات اس سے دور کر دیں۔وراہ اوتار اس اوتار کی ظہور کا سبب یہ ہے کہ ایک نہایت سرکش اور طاقتور دیت ہرناکش نامی زمین کو چراکر سمندر میں پاتال تک کھینچ لے گیا تھا۔ برہما جی کی التجاپر اس اوتار نے نمایاں ہوکر ہاتھی کی شکل اختیار کی۔ سمندر میں کود کر اپنے بڑے دانت پر زمین کو رکھ لیا اور سمندر سے کھینچ لایا۔ پھر ہرناکش سے جنگ ہوئی جو ایک ہزار سال تک رہی۔ آخر ہرناکش مارا گیا۔نرسنگھ اوتار ہرناکش کا توام بھائی۔ ہرناکا شپو بھی نہایت ظالم اور مغرور تھا۔ شیوجی کی عبادت کرنے سے اسے یہ عطیہ ملا کہ نہ کوئی انسان اسے ہلاک کر سکےگا نہ کوئی حیوان۔ اس کی موت نہ دن کے وقت ہوگی نہ رات کو، وہ نہ آسمان پر مارا جائےگا نہ زمین پر۔ اپنی موت کی طرف سے مطمئن ہوکر اس نے سرکشی اختیار کی۔ دیوتاؤں سے لڑ کر ان کا سارا ملک چھین لیا۔ اس نے سارے ملک میں منادی کر دی کہ میری حکومت میں کوئی شخص نارائن کا نام نہ لے۔ اس کا بیٹا پرہلاد خدا پرست تھا۔ اس کو بہت سمجھایا کہ وہ خدا پرستی چھوڑ دے مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایک دفعہ پرہلاد کے قتل کا ارادہ کرکے اس نے تلوار اٹھائی اور اس سے کہا کہ اب دیکھوں تجھے میرے ہاتھ سے کون بچاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے تلوار چمکائی کہ یکایک اس کے قریب ایک ستون سے نرسنگھ اوتار نمایاں ہوئے۔ ان کا اوپر کا جسم شیر اور نیچے کا جسم انسان کا تھا۔ انہوں نے ہرناکا شپو کو پکڑ کر اپنے زانو پر بٹھا لیا اور پنجے اور ناخنوں سے اس کا پیٹ چیر ڈالا۔ اس وقت شام کا وقت تھا۔ نہ دن تھا نہ رات، اس کی موت نہ آسمان پر ہوئی نہ زمین پر اور نہ وہ کسی انسان کے ہاتھ سے مارا گیا نہ حیوان کے ہاتھ سے، غرض کہ شیوجی کا کہنا ہر طرح پورا ہوا۔پرسرام یہ وشنوجی کا چھٹا اوتار ہے۔ سری رام چندر جی ساتویں اوتار تھے۔ یہ چھتریوں کا دشمن اور برہمنوں کا دوست تھا۔ اس نے اکیس دفعہ چھتریوں سے جنگ کی اور ان کو قتل کیا۔ سبب یہ تھا کہ ایک چھتری راجہ کا نام کا رت ویریہ تھا اور جس کے ہزار ہاتھ تھے، ایک دفعہ اس کے مکان پر آیا اور اس کی غیبت میں اس کی ایک اعلیٰ صفت گائے جس کا نام کام دھینو تھا، چراکر لے گیا۔ پرسرام کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی، تو اس نے راجہ کا تعاقب کیا اور اس سے لڑ کر اس کے ہزار ہاتھ کاٹ ڈالے اور اسے قتل کر دیا۔ پھر غصے کی حالت میں بار بار چھتریوں سے جنگ کی اور پانچ جھیلیں ان کے خون سے بھر دیں۔ پرسرام کے ہاتھ میں ہتھیار کی جگہ ہمیشہ ایک کلہاڑی رہتی تھی۔کرشن یہ مشہور اوتار ہیں۔ والدہ کا نام دیوکی، والد کا نام واسدیو تھا۔ اس زمانے میں متھرا کا فرماں روا راجہ کنس تھا، جو نہایت ظالم تھا۔ نجومیوں نے خبر دی تھی کہ دیوکی کا لڑکا تجھے قتل کرےگا۔ یہ سن کر اس نے واسدیو اور دیوکی کو قید کر لیا۔ چنانچہ دیوکی کے کئی حمل کے لڑکے اس نے مار ڈالے۔ آخری حمل میں سری کرشن جی ظاہر ہوئے۔ خدا کو منظور تھا وہ اس کے ہاتھ سے محفوظ رہے۔ چناچنہ وہ عجیب طریقے سے محفوظ رہے۔ جوان ہونے پر بھی کنس نے بہت تدبیریں کیں کہ ان کو قتل کر ڈالے مگر اس کا بس نہیں چلا اور آخرکار وہ خود سری کرشن جی کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ ان کے عجیب عجیب کارنامے مشہور ہیں۔ جنگ مہابھارت میں وہ پانڈوں کی طرف تھے اور ان کی فوج کوروں کی طرف سے لڑ رہی تھی، آٹھ رانیاں تھیں، مگر ان کی محبوب لایق کا نام رادھا تھا۔وشنو ہر دفعہ دنیا کے ظہور سے پہلے وشنوجی، شیش ناگ کے بستر پر لیٹے پانی پر تیرتے رہتے ہیں۔ اس حالت میں ان کا نام نارائن ہے یعنی پانی پر تیرنے والا۔ ان کی ناف کنول کے پھول سے مشابہ ہے۔ برہما جی انہیں کی ناف سے پیدا ہوئے۔ شیوجی ان کی پیشانی سے برآمد ہوئے۔ شیوجی نے مختلف صورتوں میں ظہور کیا ہے۔ ان صورتوں کو اوتار کہتے ہیں۔ نو اوتار ظاہر ہو چکے ہیں یعنی متسیہ کورم، وراہ، نرسنگھ، وامن، پرسرام، رام، کرشن، بدھ۔ نویں اوتار کا ظہور باقی ہے۔ اس آخری اوتار کو ہندو کلکی اوتار کہتے ہیں۔ گنگا وشنو جی کے پاؤں سے ظاہر ہوئی ہے، دنیا کی حفاظت اور پرورش کرتے ہیں۔ ان کے ہزار نام ہیں۔ ان کی بیوی کا نام لچھمی ہے۔ رنگت سانولی ہے، شکل حسین ہے۔ چار ہاتھ ہیں۔ پانچ ہتھیاروں سے مسلح رہتے ہیں۔ ان کی کمان کا نام شارنگ اور تلوار کا نام نندک ہے۔ ایک ہتھیار کا نام سدرشن اور ایک نام گئو مکھی ہے، چند صفاتی نام حسب ذیل ہیں۔ لافانی، لاانتہا، سانپ کے بستر والے، چار ہاتھ والے، گایوں کے محافظ، عنصروں کے مالک، پانی پر سونے والے، لچھمی کے شوہر، پانچ ہتھیاروں سے مسلح، کنول جیسی ناف والے، زردپوش، بہشت کے مالک وغیرہ۔شیو ان کو مہادیو بھی کہتے ہیں، یہ وشنو جی کی پیشانی سے ظاہر ہوئے۔ مختلف صفات کے سبب مختلف نام ہیں۔ تباہ اور غارت کرنے والی طاقت کے سبب ان کے نام ہیں: مہاکال، سراپا غضب، لال جٹاؤں والے۔ اس حالت میں ان کی سواری کتا ہے۔ جسم پر سانپ لپٹے رہتے ہیں، شراب پی کر مست نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک نام بھوتیشور ہے یعنی بھوتوں کے مالک۔ اس صفت کے سبب وہ قبرستانوں اور مسانوں میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ سرپر سانپوں کی جٹا، گلے میں کھوپڑیوں کی مالا ہوتی ہے۔ بھوتوں کی فوج ساتھ رہتی ہے، بھوت ان کے گرد مست ہوکر تیزی کے ساتھ ناچتے ہیں اور وہ خود بھی رقص کرتے ہیں۔ ان کے پانچ منہ ہیں۔ تین آنکھیں ہیں۔ تیسری آنکھ پیشانی کے درمیان ہے، جس سے غصہ اور جلال ٹپکتا ہے۔ پیشانی کے گرد چاند حلقہ کیے ہے۔ گلاز ہر نوش کرنے کے سبب نیلگوں نظر آتا ہے۔ ہاتھ میں ترسول ہے۔ پوشاک ہرن، شیریا ہاتھی کی کھال ہوتی ہے۔ نندی بیل ان کے ساتھ رہتا ہے، بعض صفاتی نام حسب ذیل ہیں: تین آنکھوں والا، نیلے گلے والا، چاند جیسے تاج والا، جٹاؤں والا وغیرہ۔ہنومان راجہ سگریو کا جنرل، جس نے سری رام چندرجی کی لنکا کی جنگ میں مدد دی۔ اس کی شکل بندر جیسی ہے۔ اس کی خدمات دیوتاؤں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ وہ ہندوستان کے جنوبی کنارے سے پھاند کر لنکا پہنچتا ہے، سیتاجی کو سری رام چندرجی کا پیغام پہنچاتا ہے، راون کے باغ کو ویران کرتا ہے، جب راچھیوں نے اس کی دم پر روئی لپیٹ کر آگ لگا دی۔ تو وہ اپنی دم کی آگ سے تمام لنکا کو پھونک دیتا ہے۔ اس کا رنگ زرد و سرخ دہکتے سونے کی طرح درخشاں ہے۔ چہرہ لعل رمانی کی طرح نہایت سرخ ہے۔ قد مثل بلند مینار یا پہاڑ کے ہے۔ وہ بڑے بڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ پہاڑ کو سر پر اٹھالیتا ہے، ہوا پر اڑتا ہے۔ بادلوں کو ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے۔ سورج کو اپنے منھ میں چھپا لیتا ہے۔ اثنائے جنگ میں وہ کوہ ہمالیہ سے دوائیں لاتا ہے، جس سے زخمی بندر تندرست ہوتے ہیں۔ جب لچھمن جی پر غشی طاری ہوتی ہے، تو وہ جیون بوٹی لاتا اور ان کی غشی دور کرتا ہے۔ اس کا صفاتی نام مرت پتر یعنی ہوا کا فرزند ہے۔ ہندوستان میں ہر جگہ اس کی پرستش کی جاتی ہے۔بھیشم راجہ شانتو والئ ہستناپور کا بڑا لڑکا تھا۔ اس کی ماں کا نام گنگا تھا۔ گنگا ایک عہد شکنی کے سبب راجہ سے ناراض ہوکر چلی گئی تھی۔ راجہ نے ایک جوان اور حسین عورت ستیہ وتی سے شادی کرنی چاہی۔ اس کے والدین نے کہا کہ تمہارے بعد ستیہ وتی کی اولاد وارثِ تخت نہیں ہوگی، بلکہ یہ حق تمہارے بڑے بیٹے بھیشم کا ہے۔ اگر تم اقرار کرو کہ ستیہ وتی کی اولاد کو تخت دیا جائےگا تو ہم اس کی شادی کرنے پر راضی ہیں۔ بھیشم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو باپ کی آرزو پوری کرنے کے لیے اس نے یہ اقرار کیا کہ نہ میں خود شادی کروں گا نہ تخت لوں گا۔ اس اقرار پر ستیہ وتی سے راجہ کی شادی ہو گئی۔ اس شادی سے راجہ کے ہاں دو لڑکے پیدا ہوئے۔ راجہ کے مرنے کے بعد بھیشم، نے بڑے لڑکے کو تخت پر بٹھایا مگر وہ ایک جنگ میں مارا گیا۔ اس نے اس کے بھائی کو تخت پر بٹھا دیا مگر وہ بھی جوان اور لاولد مر گیا۔بھیشم نے ستیہ وتی سے کہا کہ تم ویاس جی کو بلاکر اپنے آخری بیٹے کی بیواؤں سے اولاد پیدا کراؤ۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ دو لڑکے اس طرح پیدا ہوئے۔ ایک کا نام پانڈو اور ایک کا نام دھرتراشٹر رکھا گیا۔ ان دونوں کی اولاد کوروں پانڈو کے نام سے موسوم ہوئی۔ جب دونوں میں نفاق پیدا ہوا، تو وہ صلح کا مشورہ دیتا رہا، مگر کچھ اثر نہ ہوا۔ جنگ شروع ہوئی۔ یہ بھیشم کوروں کا طرف دار تھا، اس کا مقابلہ ارجن سے ہوا۔ اس کے تیروں سے اس کا سارا جسم چھد گیا۔ دوانگل جگہ بھی زخموں سے خالی نہ رہی۔ جب وہ رتھ سے نیچے گرا، تو تیروں کو کھڑا کرکے اس پر سلایا گیا۔ زخم مہلک تھے۔ مگر اس حالت میں بھی وہ (۵۸) دن تک زندہ رہا اور اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتا رہا۔ تیروں کا بسترا سی واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔بھیم پانڈو کا دوسرا شہزادہ۔ یہ نہایت طاقتور، تند مزاج، بےرحم اور دراز قد تھا۔ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا تھا۔ طمانچہ مار کر ہاتھی کا مونھ پھیر دیتا تھا۔ گرز کی لڑائی اور کشتی میں بے نظیر تھا۔ اس کی خوراک بہت تھی۔ جتنا کھانا اس کے چار بھائی اور اس کی والدہ کھاتی تھی، اتنا یہ اکیلا کھا جاتا تھا۔ دُریودھن نے اس کو حسد سے زہر کھلایا تھا۔ یہ بچ نکلا۔ جنگ مہابھارت میں اس نے بڑے بڑے کارنمایاں دکھائے مگر دریودھن کے ساتھ قواعد جنگ کے خلاف فریب کی چال چلا۔ اس کا صفاتی نام دراز بازو ہے۔جٹایو گدوں کا پادشاہ تھا۔ جب راون سیتاجی کو لنکا لے جارہا تھا، تو اس نے رستے میں روکا۔ مگر راون کے ہاتھ سے زخمی ہوا۔ سری رام چندر جی جب شکار سے واپس آئے او رسیتاجی کو تلاش کرنے لگے، تو اس نے پتہ بتایا اور سارا حال کہہ سنایا۔ رودر طوفان اور ہواؤں کا دیوتا ہے۔ جو لوگ حیوانوں اور انسانوں کو ایذا پہنچاتے ہیں، ان کے لیے یہ دیوتا مہلک اور ان کے سوا اوروں پر مہربان ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دیوتا برہما جی کی پیشانی سے پیدا ہوا۔ اس کاآدھا جسم عورتوں جیسا اور آدھا جسم مردوں جیسا ہے۔ جب برہما جی نے اسے حکم دیا کہ وہ خلقت کو پیدا کرے تو اس نے بھوت اور ر اچھس پیدا کیے۔ یہ دیکھ کر برہما جی ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ اس بیہودہ مخلوق کو نابود کرکے اچھی مخلوق پیدا کرو۔ اس نے کہا میں ایسی مخلوق پیدا کرنا نہیں چاہتا، جو زندگی اور موت کے پنجے میں اسیر ہو۔ ایسی مخلوق آپ خود پیدا کریں۔کمبھ کرن راون کا بھائی تھا۔ اس کی طاقت اور بھوک کا اندازہ لگانا محال ہے۔ چھ مہینے سوتا اور ایک دن جاگتا تھا۔ راون نے اس کو بیدار کرنا چاہا تاکہ لڑائی میں مدد دے۔ بڑی مصیبت سے جاگا۔ شراب کے ہزار گھڑے بھائی سے لینے طے کیے اور اس اقرار پر آمادۂ جنگ ہوا۔ ہزاروں بندر اس نے کھاڈالے۔ بندروں کے سردار سگدیو کو گرفتار کرکے لنکا میں لے گیا۔ آخر کار قتل ہوا۔شیش ناگ سانپوں کا راجہ ہے۔ پاتال کے ساتویں طبقے میں رہتا ہے۔ جب دنیا فنا ہوتی ہے تو وشنو جی اس کو اپنا بستر بناکر پانی پر تیرتے ہیں اور یہ اپنے ہزار سروں سے ان پر سایہ کرتا ہے۔ زمین اسی پر ٹکی ہوئی ہے۔ جب وہ جمائی لیتا ہے، زلزلہ آتا ہے۔ جب دنیا کے خاتمہ کا وقت آتا ہے تو اپنی پھنکار سے آگ نکالتا اور دنیا کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ اس کی پوشاک ارغوانی رنگ کی ہے۔ گلے میں سفید مالا ہے۔ ایک ہاتھ میں ہل اور ایک ہاتھ میں موسل ہے۔ بلرام جی اسی کے اوتار تھے۔ اس کے محل کا نام منی منڈپ ہے۔ گنیش عقل کا دیوتا ہے۔ مصیبتوں کا دور کرنے والا ہے۔ اسی لیے ہر کتاب اس کے نام سے شروع کی جاتی ہے۔ اس کا جسم چھوٹا اور موٹا ہے۔ رنگ زرد ہے۔ پیٹ بڑا ہے۔ چار ہاتھ ہیں۔ سر ہاتھی کا ہے۔ مگر دانت صرف ایک ہے۔ ایک ہاتھ میں سنکھ، دوسرے ہاتھ میں چکر، تیسرے ہاتھ میں گدا اور چوتھے ہاتھ میں کنول کا پھول ہے۔ اس کی سواری کا جانور چوہا ہے۔ بعض صفاتی نام حسب ذیل ہیں: ایک دانت والا، فیل چہرہ، دراز گوش، کلاں شکم وغیرہ۔شنی سوریہ کا لڑکا ہے اور ستاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ رنگ سیاہ، پوشاک بھی سیاہ رنگ کی ہے۔ اگر شنی اوپر کی طرف نگاہ کرے تو تمام دنیا نیست ونابود ہو جائے، اسی خیال سے وہ ہمیشہ سرنگوں رہتا ہے۔ تاکہ اس کی نگاہ کسی پر نہ پڑے۔ امرت ہوا کے طوفانوں کے دیوتا ہیں۔ ان کی تعداد انچاس ہے۔ رعدد برق ان کے ہتھیار ہیں۔ آندھی ان کی سواری ہے۔دکش برہما جی کا لڑکا ہے۔ برہما جی نے اسے پرجاپتیوں کا سردار بنایا۔ اس خوشی میں اس نے ایک یگ کا اہتمام کیا، جس میں دیوتا اور شی بلائے گئے، مگر شیوجی نہیں بلائے گئے۔ شیوجی کی بیوی اُمایگ میں پہنچی، مگر اپنی اور اپنے شوہر کی بے حرمتی دیکھ کر غیرت سے آگ میں جل گئی۔ دکش کو شیوجی سے عداوت تھی، اسی لیے ان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ شیوجی اس واقعے کو سن کر غضب ناک ہوئے۔ وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے چبانے لگے۔ سر سے بالوں کی ایک لٹ اکھاڑ کر پھینکی، جس سے ایک خوفناک آواز نکلی، ساتھ ہی ایک مہیب صورت نمایاں ہوئی، جس کا نام ویر بھدر مشہور ہے۔ اس کے ہزار سر تھے۔ ہزار آنکھیں تھیں۔ ہزار پاؤں تھے۔ ہزار ہتھیاراس کے ہاتھوں میں تھے۔ اس کی شکل خونخوار اور خوفناک اور دہکتی آگ کی طرح روشن تھی۔ سر پر ایک ہلال نمایاں تھا۔ شیر کی کھال جو خون سے آلودہ تھی، اس کے بدن میں تھی۔ شیوجی نے اس کو حکم دیا کہ وہ دکش کے یگ کو خراب کر ڈالے۔ جب ویر بھدر اپنی لاتعداد فوج لے کر چلا، تو زمین لرزنے لگی، پہاڑ آپس میں ٹکرا گئے۔ ہوا شوروغل سے بھر گئی، سمندر میں تلاطم پیدا ہوا۔اس نے یگ کو خراب کیا۔ دیوتاؤں میں سے جو اس یگ میں آئے تھے، اندر کو زمین پر گرا دیا، یم کو زدوکوب کیا، سرسوتی اور ماتری کی ناک کاٹ لی، مترکی آنکھیں نکال لیں، یوشن کے دانت حلق میں اتار دیے، اگنی کے ہاتھ کاٹ ڈالے، بھار گو کی داڑھی مونڈدی، چاند کے منہ پر ایک طمانچہ مارا، برہمنوں پر پتھر پھینکے، دکش کا سرکاٹ کر آگ میں جھونک دیا۔ یہ حالت دیکھ کر دیوتاؤں نے معافی مانگی اور التجائیں کیں۔ آخر کار ان کی خطا معاف کی گئی اور ان کے اعضا پھر درست کیے گئے۔ منودہ ہیں جن سے نسل انسان چلتی ہے۔ یہ تعداد میں چودہ ہیں، پہلا مون سوایم بھوتھا۔ برہما جی نے اپنے جسم کے دو حصے کیے۔ ان سے ایک مرد اور ایک عورت پیدا ہوئی، مرد وراج تھا اور عورت شت روپا۔ پھر ان دونوں سے سوایم بھوپیدا ہوا (دیکھو لفظ برہما) اسی منو کی طرف منوسمرتی منسوب ہے۔ زمانہ حال کی نسل ساتویں منو سے چلی ہے۔ اس منو کانام ئی دسوت ہے۔ متسیہ دیوتا نے اسی کو طوفان کی خبر دی تھی۔ (دیکھو لفظ متسیہ) چھ منو اس سے پہلے گزر چکے ہیں۔ ہر منو کی عمر ۴۳لاکھ ۲۰ ہزار سال کی ہوتی ہے۔شوی ایک زاہد اور سخی راجہ تھا۔ ایک دفعہ اگنی دیوتا نے کبوتر کی صورت اختیار کی، اندر دیوتا نے باز بن کر اس کا تعاقب کیا، کبوتر نے اس راجہ کی گود میں پناہ لی، بازنے راجہ سے کبوتر کا مطالبہ کیا۔ اس نے اپنے جسم سے گوشت کاٹ کر چاہا کہ اس کبوتر کے برابر تول کر دے مگر کبوتر کا وزن زیادہ نکلا۔ اس نے جسم سے پھر گوشت کاٹا مگر وہ بھی وزن میں پورا نہ اترا، مجبوراً اپنا سارا جسم کبوتر کے مقابل ترازو میں رکھ دیا! اب دونوں پلے برابر ہو گئے اور باز اڑ گیا۔ورادھ یہ ایک مہیب آدم خور راچھس تھا۔ دنڈک کے جنگل میں اس نے سری رام چندر جی کا مقابلہ کیا۔ اس کے جسم پر کوئی وار کارگر نہ ہوتا تھا۔ پہاڑ جیسا قد تھا۔ آنکھیں کھوکھلی تھیں۔ مونھ حد سے زیادہ چوڑا تھا۔ پیٹ ابھرا ہوا تھا۔ جسم لمبا اور شکل ہیبت ناک تھی۔ شیر کی خون آلودہ کھال اس کی پوشاک تھی۔ آواز میں گرج تھی۔ نیزہ ہاتھ میں تھا۔ شیر، چیتے، بھیڑیے اور ہاتھی کے سر لٹکائے ہوئے تھا۔ سری رام چندر جی نے تیر مارا تو کوئی اثر نہ ہوا۔ اس نے سری رام چندرجی اور لچھمن جی کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ انہوں نے اس کے بازو توڑ ڈالے۔ گھونسوں سے خبر لی، مگر اسے قتل نہ کر سکے۔ مجبوراً ایک گڑھا کھود کر اسے زندہ درگور کر دیا۔لوپا مدرارشی اگست کی نہایت حسین بیوی تھی۔ جب رشی مذکور نے چاہا کہ اپنی مرضی کے مطابق کسی عورت سے شادی کرے، تو اس نے مختلف حیوانات کے خوبصورت اعضا کو ترکیب دے کر ایک نہایت حسین لڑکی بنائی او رپوشیدہ طور پر ایک راجہ کے محل میں ڈلوادی۔ وہاں راجہ کی لڑکی سمجھی گئی اور شہزادیوں کی طرح اس کی پرورش کی گئی۔ جب وہ جوان ہوئی، تو رشی اگست نے راجہ سے شادی کی درخواست کی۔ راجہ کا د ل نہیں چاہتا تھا مگر رشی کا سوال رد کرنا گناہ تھا۔ چنانچہ اس رشی سے لوپا مدرا کی شادی کر دی۔نل دمن۔ نل عاشق اور دمن اس کی معشوقہ تھی۔ دونوں کا قصہ مشہور ہے۔ فیضی نے فارسی میں اس قصہ کو ایک مثنوی میں نہایت فصاحت سے بیان کیا ہے۔ دمن راجہ بھیم والئ برار کی لڑکی تھی، نل دوسری ریاست کا راجہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کا ذکر سن کر باہم عشق کرنے لگے۔ دمن نہایت حسین تھی۔ نل بہادر، حسین، نیک مزاج، شہ سواری اور سپہ گری کا ماہر تھا۔ ساتھ ہی قمار بازی کی لت بھی تھی۔ راجہ بھیم نے دمن کی شادی کے لیے سویمبر کی تیاری کی۔ امیدواروں میں نل بھی تھا۔ نل کے علاوہ چار دیوتا یعنی اگنی، اندر، ورن، اور یم بھی امیدوار تھے۔ اگرچہ دیوتاؤں نے نل ہی جیسی شکل بنا لی تھی، مگر دمن نے اپنے مطلوب کو پہچان لیا اور اسی کا انتخاب کیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔راجہ نل کا ایک بھائی پشکر تھا، جو اس سے دل میں حسد رکھتا تھا۔ اس نے نل کے ساتھ جوا کھیلنے کی طرح ڈالی۔ پشکر کھیل میں فریب کرکے اس پر غالب آ گیا۔ نل کو اس بازی میں سب کچھ ہار دینا پڑا۔ اب تمام ملک پشکر کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی اعلان کر دیا کہ میری رعایا میں سے کوئی نل اور دمن کو کسی قسم کی مدد نہ دے۔ ایک عرصے تک دونوں مصیبت زدہ جنگلوں میں پھرتے رہے۔ آخر کار نل نے اس خیال سے کہ دمن تکلیف نہ اٹھائے اور اپنے گھر چلی جائے، ایک دن سونے کی حالت میں اسے چھوڑ کر آگے کی طرف کوچ کر دیا۔ دمن اپنے گھر پر نہیں گئی، بلکہ چیدی کے شہزادے کے ہاں پناہ گزیں ہوئی مگر اس کو دمن کاحال معلوم ہو گیا۔ اس نے اس کے باپ کے گھر میں بھجوا دیا۔ نل کو ایک سانپ نے کاٹا۔ موت تو نہیں آئی مگر صورت بالکل بدل گئی۔ وہ بہت بدصورت اور کوتاہ قد ہو گیا۔ شدہ شدہ وہ راجہ رتوپرن والی اجودھیا کے ہاں ملازم ہو گیا۔ دمن کے باپ نے ہر چند نل کی جستجو کرائی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ایک برہمن نے خبر دی کہ نل زندہ ہے اور کسی جگہ موجود ہے۔ اس نے برہمن کا جھوٹ سچ معلوم کرنے کے لیے دوسری دفعہ سویمبر کی تیاری کی۔ راجہ تو پرن سویمبر میں شریک ہوا۔ نل اس کا رتھ بان تھا۔ دمن نے اسے کچھ کچھ پہچانا مگر یقین نہیں ہوا۔ جب اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا دمن نے کھایا تو فوراً اپنے شوہر کو پہچان لیا، دونوں باہم ملے۔ دیوتاؤں کی مدد سے نل اپنی اصلی صورت پر آیا، پھر اس نے اپنے بھائی پشکر سے چوسر کھیلنے کی تیاری کی۔ اس دفعہ وہ بازی جیت گیا۔ اپنی سلطنت واپس حاصل کی بلکہ پشکر کی بیوی بھی جیت لی، مگر نل نے اس کو معاف کر دیا اور کوئی ایذا نہیں پہنچائی۔خاتمہ مضمونہندو ادبیات سے بطور مثال کے جو تلمیحات ہم نے اخذ کی ہیں، ان کا اس قدر بیان غالباً کافی ہوگا، مگر جس ہندو ذخیرہ کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں، اگر اس کو ہمارے شاعر اور ہمارے انشاء پرداز غور کی نظر سے مطالعہ کریں گے تو ان کو اس ذخیرہ سے بہت سی دلچسپ تلمیحات مل سکیں گی، اسی طرح جس اسلامی اور غیراسلامی ذخیرہ کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ اگر ان سے بھی کام لیا گیا، تو ادائے خیالات کے بہت سے نئے سانچے ہاتھ آئیں گے۔ آخر میں ہم دو باتوں کی طرف ناظرین کی توجہ کو خصوصیت کے ساتھ مبذول کرنا چاہتے ہیں۔(پہلی بات) تو وہی ہے جس کو ہم شروع مضمون میں بیان کر چکے ہیں، یعنی انسانی زندگی، انسانی اخلاق اور انسانی معاشرت کے اس قدر پہلو ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ہر پہلو کے لیے ایک نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فلاں انسان اس قسم کی زندگی بسر کرتا ہے، فلاں آدمی میں اس قسم کے اخلاق موجود ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہماری گزشتہ تاریخ میں بھی کوئی ایسا نمونہ موجود ہو، اس لیے ضروری ہے کہ یا تو ہم ایک خاص نمونے کے انسان کی صحیح تصویر قصے کے پیرایہ میں کھینچیں۔ پھر دیگر مصنفین جب اس نمونے کے شخص کا ذکر کریں، اس قصے کے نمونے کو تلمیح بناکر اس سے کام لیں۔ یا (۲) اگر ہماری زبان کے مشہور قصوں میں کسی خاص نمونے کے انسان کا ذکر کیا گیا ہے تو اس نمونے کو تلمیح کا لباس پہنا دیں یا (۳) اگر ان قوموں کی تاریخ دیومالا اور ادبیات میں (جو ہمارے گردوپیش آباد ہیں) اور جن سے رات دن ہمارا سابقہ ہے (ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی وغیرہ) خاص خاص نمونوں کے اشخاص کی تصویریں دیکھنے میں آئیں، تو ان نمونوں کو بے تکلف تلمیح بنا لیں۔(دوسری بات) یہ ہے کہ تلمیح کی بنیاد اکثر مشہورات پر ہوتی ہے، نہ کہ حقائق پر۔ اس لیے جن باتوں سے تلمیح اخذ کی جاتی ہے، ان پر یہ اعتراض کرنا سراسر حماقت ہے کہ ان باتوں کا ثبوت عقلاً یا نقلاً نہیں ہوتا۔ جب ہر تلمیح کسی خیال کے ادا کرنے کا ایک سانچہ ہے اور یہ سانچہ اس لیے کام میں لایا جاتا ہے کہ اس خیال کی تصویر سننے والوں کی نظر کے سامنے آجائے تو ضروری ہے کہ تلمیح کی بنیاد جس بات پر رکھی جائے، وہ لوگوں میں مشہور ہو۔ اس بات کی ہم کو مطلق پروا نہیں کرنی چاہیے کہ اصلی اور واقعی بات کیا ہے۔ کیونکہ جو بات اصلی اور واقعی ہے اور جو عام لوگوں میں مشہور نہیں ہے اور جو صرف محققین کے دماغ میں ہے، اگر ہم اپنے خیال کے چہرے پر نقاب ڈالیں گے تو اس نقاب سے اس کا حسن دوبالا نہیں ہوگا بلکہ ماند پڑ جائےگا، اور جو غرض تلمیح سے ہے، وہ بالکل فوت ہو جائےگی۔مثلاً سوریہ یعنی سورج کو عام ہندو ایک دیوتا مانتے ہیں، ان کے ادبیات میں یہ بات بیان کی جاتی ہے۔ اس دیوتا کے رتھ کے آگے سات گھوڑے جوتے جاتے ہیں۔ بس اسی خیال پر تلمیح کی بنیاد رکھنی چاہیے۔ ایک زیرک طبع تعلیم یافتہ ہندو کہہ سکتا ہے کہ سورج کے رتھ میں سات گھوڑوں کا جوتے جانا محض ڈھکوسلا ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ سورج کی شعاع سات رنگوں سے مرکب ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یورپ نے سائنس کی اس قدر ترقی کے بعد جس حقیقت کا سراغ لگایا ہے، ہمارے بزرگوں کی نظر اس پر ہزاروں سال پہلے پڑ چکی ہے۔ ممکن ہے کہ اس تعلیم یافتہ ہندو کا یہ خیال درست ہو، مگر جو شاعر اور انشا پرواز اس تلمیح سے کام لینا چاہتا ہے، اس کو اس موشگافی کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ وہ اسی عام اور مشہور خیال کو تلمیح کا لباس پہنانا پسند کرےگا۔ امید ہے کہ ہمارے شاعروں اور انشاپردازوں کے لیے یہ اشارہ کافی ہوگا۔ فقط۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.