Jump to content

تقریر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

From Wikisource
تقریر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
by مولوی عبد الحق
319563تقریر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹیمولوی عبد الحق

‏(یہ تقریر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ دسمبر ۳۸ء میں کی گئی ‏تھی۔ جمیل احمد صاحب نقوی اسسٹنٹ لائبریرین یونیورسٹی نے بڑی چابک دستی سے اسے قلم بند کر لیا۔)

جناب صدر اور صاحبو! ‏میری زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہے یعنی زبان اردو کی اشاعت اور ترقی۔ مجھے یا انجمن ترقی اردو کو کسی سیاسی جماعت سے دور کا بھی تعلق ‏نہیں۔ لیکن باوجود اس کے میں ہر جماعت سے تعاون کے لیے آمادہ ہوں، بشرطیکہ اسے ہمارے مقاصد سے ہمدردی ہو۔ میں جب کل یہاں ‏حاضر ہوا تو ڈاکٹر عابد احمد علی صاحب نے مجھے وہ اشتہار دکھایا جس میں انہوں نے اپنی طرف سے میری تقریر کے لیے ایک موضوع کا اعلان ‏کر دیا تھا۔ وہ موضوع ہے، ’’موجودہ سیاست اور اردو زبان۔‘‘ اسے دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ جس زمانے میں کہ مسلم یونیورسٹی نہ تھی ‏اور ایم۔ اے۔ او کالج تھا، اس وقت کالج میں ایک حجام عنایت اللہ نامی تھا۔ مولوی عزیز مرزا مرحوم جب تعلیم سے فارغ ہوئے تو اسے اپنے ‏ساتھ حیدرآباد لے گئے۔ وہ بہت سمجھ دار اور وفادار شخص تھا۔ اس نے حیدرآباد میں خاص حیثیت حاصل کر لی تھی اور ہم سب اسے عزت ‏سے دیکھتے تھے۔ کچھ دنوں بعد مولوی شبلی حیدرآباد تشریف لے گئے۔ انہیں وہی خیال رہا اور عنایت اللہ کی نئی حیثیت کی خبر نہ تھی۔ انہوں نے عنایت اللہ ‏سے کہا کہ ’’میاں خلیفہ، ذرا ناخن تو لینا۔‘‘ یہ اسے ناگوار تو ضرور ہوا مگر خیر ان کے ناخن تولیے مگر ایک ناخن ذرا گہرا بھی کاٹ ڈالا، جس ‏سے مولوی صاحب کو ذرا جھنجھلاہٹ ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا کہ اب تم کیا کرتے ہو۔ عنایت اللہ نے کہا کہ ’’مولوی صاحب ‏اب میں پولیٹکل ہوں۔‘‘ اس زمانے میں حیدرآباد کی فضا کچھ ایسی ہی تھی۔ میں جب اس زمانے کا خیال کرتا ہوں اور آج کل کے زمانے کو ‏دیکھتا ہوں تو ہر شخص حجام یعنی پولیٹکل نظر آتا ہے۔ ‏اس زمانے میں ہمارے ملک پر سیاسیات کا برچھا یا ہوا ہے اور ہماری زندگی کا کوئی شعبہ اس سے نہیں بچا۔ زبان بھی اسی لپیٹ میں آ گئی ہے اور ‏آج کل سب سے زیادہ آفت اسی پر ہے۔ اور یہ آج سے نہیں بلکہ ایک زمانے سے ہماری زبان کو سیاسیات نے گھیر رکھا ہے بلکہ یوں کہنا ‏چاہیے کہ سیاسی اختلاف اور نزاع کی ابتدا اسی سے ہوئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ‏غدر سے پہلے اس کا کسی کو خیال بھی نہ تھا۔ چنانچہ جب ۱۸۳۷ء میں فارسی کی بجائے دفتروں اور عدالتوں میں اردو زبان کورائج کیا گیا تو ‏کسی فردو بشر نے اس کی مخالفت نہ کی اور کہیں سے یہ آواز نہ اٹھی کہ نہیں، ہندی بھاشا ہونی چاہیے۔ اردو کوسب نے تسلیم کر لیا۔ یہ نہ ‏کرتے تو کیا کرتے، دوسری کوئی زبان تھی ہی نہیں جو اس کے مقابلے میں آتی۔ لیکن ۵۷ء کے بعد سے رفتہ رفتہ زبان کی چھیڑ شروع ہوتی ‏ہے۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط اٹھ گیا اور انگریزی حکومت قائم ہو گئی تو اس وقت ہندوؤں کی ایک جماعت میں قومیت کا ایک نیا احساس ‏پیدا ہوا اور اپنی قدیم تہذیب کو پھر زندہ کرنا چاہا۔ اسی زمانے میں سوامی دیانند سرسوتی نے سنسکرت کے پڑھنے پڑھانے اور بولنے پر زور ‏دیا اور ویدک زمانے کی یاد تازہ کی۔ گورکل قائم کیے اور ان میں ویدک زمانے کی تہذیب اور رسوم کو ازسر نو رواج دیا۔ ‏‏اس کے بعد یورپ والوں نے اس خیال کو اور تقویت پہنچائی۔ خاص کر پروفیسر میکس مولر کی تحریروں اور میڈل بلوٹسکوی، اینی بسنٹ اور ‏کرنل الکاٹ کی تحریروں اور تحریکوں نے اور شہ دی۔ قومیت کے لیے لازم ہے کہ زبان بھی ایک ہو۔ وہ زبان وہ ہے جسے آج ہندی کہا ‏جاتا ہے مگر وہ ایسی ہندی ہے جسے نہ شہر والے سمےھتی ہیں نہ دیہات والے۔ ‏غرض اس طرح زبان بھی الگ کر لینے کی کوشش کی گئی۔ یہیں سے اصل نزاع اور نفاق کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ پہلا قدم تھا جوفرقہ پرستی یعنی ‏کمیونلزم کی طرف اٹھایا گیا۔ اور وہ فرقہ پرستی جس کے مجرم آج ہم قرار دیے جاتے ہیں اس کی بنا سب سے اول ان حضرات نے اپنے مبارک ‏ہاتھوں سے ڈالی۔ سب سے پہلے اس کا بیج بہار میں بویا گیا، اس کے بعد اس کے کلے یوپی میں پھوٹے۔ بنارس اور الہ آباد میں سبھائیں قائم ‏ہوئیں اور اس بات کی کوشش شروع ہوئی کہ عدالتوں اور دفتروں میں ہندی کو رواج دیا جائے۔ اس وقت سر سید احمد خاں نے اس ‏نامبارک تحریک کی مخالفت کی اور اردو کی تائید میں مضامین لکھے۔ ‏‏سرسید نہایت حسرت اور افسوس سے لکھتے ہیں کہ ’’تیس برس کے عرصے سے مجھ کو ملک کی ترقی اور اس کے باشندوں کی فلاح کا خواہ وہ ہندو ‏ہوں یا مسلمان، خیال پیدا ہوا اور ہمیشہ میری یہ خواہش تھی کہ دونوں مل کر دونوں کی فلاح میں کوشش کریں مگر جب سے بعض ‏ہندو صاحبوں کویہ خیال پیدا ہوا کہ اردو زبان اور فارسی کو جو مسلمانوں کی حکومت اور ان کی شاہنشاہی ہندستان کی باقی ماندہ نشانی ہے، مٹا دیا ‏جائے۔ اس وقت سے مجھ کو یقین ہو گیا کہ اب ہندو مسلمان باہم متفق ہوکر ملک کی ترقی اور اس کے باشندوں کی فلاح کا کام نہیں کر سکتے۔ ‏میں نہایت درستی اور اپنے تجربے اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں جو نفاق شروع ہوا ہے، اس کی ابتدا اسی سے ہوئی۔‘‘ ‏یہ سلسلہ برابر جاری رہا، لیکن رفتہ رفتہ اس کا زور کسی قدر کم ہو گیا۔ اس کے بعد جب سرانٹونی میکڈانلڈ اس صوبے کے لفٹنٹ گورنر ہوکر ‏آئے تو یہ شاخ جو کمھلا سی گئی تھی، پھر ہری ہونی شروع ہوئی۔ وہ بہار سے آئے تھے اور اردو ہندی کے جھگڑے میں بہت کچھ حصہ لے چکے ‏تھے۔ ان کے یہاں پہنچنے پر ہندی والوں نے پھر ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ یہ سرسید کی زندگی کے بالکل آخری دن تھے۔ اس موقع پر بھی ‏انہوں نے ایک مضمون لکھا جو غالباً ان کی آخری تحریر تھی اور جس میں انہوں نے اس انجمن کو جو الہ آباد میں اردو کی حمایت کے لیے قائم ‏ہوئی تھی، لکھا کہ میں اس معاملے میں ہر قسم کی مدد دینے کو تیار ہوں۔ اس کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا اور ہندی والوں کی بن آئی، جنہیں ‏اپنی کوشش میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی اور دفتروں اور عدالتوں میں ہندی کا رواج ہو گیا۔ ‏پھر ایک اور دور آتا ہے۔ نواب محسن الملک نے جو سر سید کے جانشین تھے، اردو کی حمایت پر کمر باندھی۔ لکھنؤ میں ایک بڑا بھاری جلسہ کیا ‏جس میں نواب صاحب نے بہت پرجوش اور پرزور تقریر کی۔ اس تقریر کا یہ مصرع اب تک زبان زد خاص وعام ہے۔ عاشق کا جنازہ ہے ‏ذرا دھوم سے نکلے۔ لیکن سرانٹونی میکڈانل اپنے حکم کی تعمیل پر تلے ہوئے تھے اور اس کی مخالفت کو اپنی ذاتی مخالفت سمجھتے تھے۔ انہوں نے ‏نواب صاحب کو ڈرایا دھمکایا۔ سب سے بڑی دھمکی یہ تھی کہ اگر تم اس تحریک میں حصہ لیتے رہو گے تو کالج کے سیکرٹری نہیں رہ سکتے۔ ‏کالج کا نقصان انہیں گوارانہ ہوا اور وہ اس دھمکی میں آگئے اور صبر کرکے بیٹھ رہے۔ اگر وہ سکرٹری کے عہدے سے مستعفی ہو جاتے اور اپنی ‏ساری ہمت اردو کی ترقی اور اشاعت میں صرف کر دیتے تو ہماری زبان کو بڑی تقویت پہنچتی اور ہمیں یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا۔ ‏اس کے بعد یہ معاملہ کچھ دنوں تک دھیما پڑ گیا۔ اس وقت تک ہندی میں ادب کا ذخیرہ کچھ بھی نہ تھا۔ چند معمولی کتابیں اور قصے کہانیاں ‏تھیں، ان میں بھی اکثر اردو کے قصے تھے جوناگری حروف میں چھاپ لیے تھے۔ لیکن جب پنڈت مالویہ نے شدھی اور سنگھٹن کا قضیہ چھیڑا ‏تو اس سلسلے میں ہندی زبان بھی آ گئی۔ اور اس مذہبی جوش میں ہندی زبان کو خوب فروغ ہوا۔ اب یہ ادبی چیز نہ رہی بلکہ سیاسی اور مذہبی ‏ہو گئی۔ اور چونکہ وہ اپنی الگ ایک سیاسی جماعت اور نئی قومیت بنا رہے تھے، اس لیے اس پردے میں زبان کی ترقی ضرور ہو گئی۔ ‏اس میں شک نہیں کہ پنڈت جی کی تحریک سے ہندی زبان کو بہت تقویت پہنچی اور خود انہوں نے اور ان کے ہم خیال اصحاب نے کوشش ‏کر کے یہ نئی زبان بولنی اور لکھنی شروع کر دی اور ہندی ادب میں بھی ا س کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا لیکن سب سے بڑی قوت اسے اس ‏وقت پہنچی جب گاندھی جی نے ساہتیہ سمیلن کی صدارت قبول کی اور ہندی کو ہندستان کی عام زبان بنانے کا بیڑا اٹھا یا۔ اس سے سارے ملک ‏میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہندی کا غلغلہ مچ گیا اور صوبہ مدراس، پنجاب اور سرحد جیےح علاقوں میں جہاں کی زبانوں سے ہندی ‏کا کوئی تعلق نہ تھا، ہندی تیزی سے پھیلنی شروع ہو گئی اور وہاں کے ہندو اپنی اپنی حکومتوں سے ہندی کی تعلیم کا مطالبہ کرنے لگے جو بالکل ‏ناواجب تھا، کیونکہ ہندی نہ کبھی وہاں کی زبان تھی اور نہ اب ہے۔ ‏یہاں تک کہ اس جوش میں انڈین نیشنل کانگریس کا رزولیوشن بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ اور اس کی اشاعت میں لاکھوں روپئے صرف کیے ‏جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہم ہندستان میں ایک قوم بنانا چاہتے ہیں اور اس قومیت کے دعویٰ کے ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں ‏کہ ملک میں بول چال کی ایک زبان ہو اور وہ زبان ایسی ہو جو مشترک ہو اور دوسری طرف اس زبان کو جو مشترک ہے اور دونوں قوموں کی ‏یکجہتی اور اتحاد سے بنی ہے، اسے خارج بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ‏ہندستان میں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن وہ زبان جو بہت پہلے سے مشترک چلی آتی ہے یعنی اردو زبان، اس کی حیثیت دوسری ‏زبانوں سے بالکل جدا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ کسی خاص علاقے، قوم یا ذات میں محدود نہیں۔ ہندستان کے ہر علاقے میں کچھ نہ کچھ سمجھی اور ‏بولی جاتی ہے اور اکثر علاقوں میں لکھی پڑھی جاتی ہے اور اس لیے دوسری زبانوں کے مقابلے میں اسے ہر لحاظ سے مشترک ہونے کی ‏حیثیت حاصل ہے۔ یہ حیثیت دوسری زبانوں کو حاصل نہیں۔ یہ اس تمدن اور تہذیب کی یادگار ہے جو ہندو مسلمانوں کے ربط ضبط سے ‏پیدا ہوئی۔ یہ زبان خاص ہندستان کی ہے اور دو قوموں کی تہذیب کی عظیم الشان یادگار ہے اور اس لیے اس پر دونوں کو مساوی حق حاصل ‏ہے۔ ‏یہ جو کہا جاتا ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے اس زبان کو رواج دینے میں کوشش کی، سراسر بہتان ہے۔ مسلمان بادشاہوں کو کبھی توفیق نہ ‏ہوئی کہ وہ اس طرف توجہ کریں۔ اور ایک بادشاہ ہی نہیں، ہمارے علما اور فضلا بھی اس کی طرف سے بےپروا رہے بلکہ اسے حقارت سے ‏دیکھتے تھے۔ یہ زبان نہ کسی بادشاہ کے خبط کا نتیجہ ہے نہ کسی حکیم کی حکمت کا نہ کسی کانگریس یا کانفرنس کے رزولیوشنوں سے پیداہوئی، نہ ‏کسی مہاتما کے روحانی فیض سے اور نہ کسی مفتی کے فتوے سے، بلکہ اسے قدرتی اور معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور یہ سراسر زمانے کا اقتضا ‏تھا، اس لیے کہ جب مسلمان یہاں آئے تو یہاں نہ کوئی ایک حکومت تھی نہ کوئی ایک زبان۔ ہرعلاقے میں مختلف بولیاں جاتی تھیں، ہر جگہ ‏انتشار اور ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ جب مسلمانوں کی حکومت کو ذرا استقلال ہوا تو اس زبان نے بھی فروغ پایا اور جیسے جیسے اس کی فتوحات ‏کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور جہاں جہاں اس کے صوبے داراور لشکر اور لشکری پہنچے، یہ بھی ان کے ساتھ پہنچی۔ ‏اس زبان کا ملک پر بڑا احسان ہے اور وہ یہ کہ اس نے مختلف لوگوں اور قوموں کو ایک کر دیا۔ جہاں نفاق وانتشار تھا وہاں اتفاق ونظام ‏پیدا کر دیا اور ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جس نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا۔ یہ اس کا کچھ کم احسان نہیں۔ یہ زبان ہر حیثیت سے ‏مشترک ہے اور بقول سرتیج بہادر سپرد کے ’’جائداد مشترکہ ناقابل تقسیم ہے۔‘‘ ‏یہ زبان جیسا کہ میں نے عرض کیا، مخلوط زبان ہے اور مخلوط زبان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں طرفین کو کچھ نہ کچھ قربانی کرنی ‏پڑتی ہے۔ جب دو مختلف زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں تو ہر ایک کو اپنی زبان کی بعض ایسی خصوصیتیں ‏ترک کرنی پڑتی ہیں جو اس زبان سے مخصوص ہیں اور جس کے سمجھنے یاقدر کرنے سے غیر زبان والا قاصر ہوتا ہے۔ اس لیے دونوں زبان ‏والے ایک دوسرے کی خاطر اپنی بعض خصوصیتوں اور لفظی نزاکتوں کو قربان کرد یتے ہیں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک روز سر سید مسٹر بیک ‏سے گفتگو کر رہے تھے تو اثنائے گفتگو میں فرمانے لگے، ’’ہی ڈڈود ضد ناٹ ود دل‘‘ ‏‎(He did with zid not with dil)‎مسٹر بیک بھی اسی طرح کی مخلوط زبان میں اپنی اردو بگھار رہے تھے۔ میں نے جب یہ گفتگو سنی تو میرا خیال فوراً اردو زبان کی پیدائش کی ‏طرف گیا۔ جب ہندو مسلمان آپس میں ملے ہوں گے اور انہوں نے آپس میں بات چیت کی ہوگی تو ان کی گفتگو کا ڈھنگ بھی یہی ہوگا اور ان ‏کے متواتر میل جول سے رفتہ رفتہ نئی زبان بن گئی ہوگی اور اس میں مطلق شبہ نہیں کہ وہ اسی طرح سے وجود میں آئی۔ غرض اردو زبان ‏دونوں زبانوں (یعنی دیسی اور بدیسی زبانوں) اور دونوں قوموں (یعنی ہندو مسلمانوں) کی قربانی سے پیدا ہوئی ہے۔ مسلمانوں نے قربانیاں ‏کرکے یہ زبان بنائی ہے، پھر کس کا منہ ہے جو اس کی مخالفت کرے؟ جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ اپنے ملک اور قوم کی مخالفت کرتا ہے۔ اس ‏کے بنانے، بڑھانے، سنوارنے اور فروغ دینے میں ہندو مسلمان دونوں کی کوشش شریک ہے۔ ہمارے اسلاف نے صدہا سال اس پر محنت کی ‏ہے، تب جاکر اس نے یہ رنگ روپ نکالا ہے۔ اب جو کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے وہ کپوت ہے، ناخلف ہے، ناسعادت مند ہے۔ ‏اب اس اختلاف کا یہ سلسلہ جس کی ابتدا سیاسی اختلاف سے ہوئی اور جس میں مذہبی جوش بھی شریک تھا، بڑھتا چلا۔ جب انڈین نیشنل ‏کانگریس نے یہ دیکھا کہ دونوں فریق مخالفت پر تلے ہوئے ہیں تو اس نے کچھ اپنی مصلحت اور کچھ رفع شر کے خیال سے یہ کیا کہ ہندی اور اردو ‏دونوں لفظ ترک کر دیے اور ان کی جگہ ہندستانی کا لفظ اختیار کیا اور اسی کو ملک کی زبان قرار دیا۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ ہندستانی کسے کہتے ‏ہیں۔ شاید یہ اچھا ہی ہوا، ورنہ یہ جھگڑا اور طول پکڑتا۔ ‏لیکن بڑا معرکہ بھارتیہ ساہتیہ پرشد کے اجلاس میں ہوا۔ بحث یہ تھی کہ پرشد کی کاروباری زبان کیا ہو۔ گاندھی جی فرماتے تھے ہندی اور میں ‏کہتا تھا ہندستانی۔ میری دلیل یہ تھی کہ جب انڈیل نیشنل کانگریس نے ہندستانی کے متعلق فیصلہ کر دیا ہے تو اسے ماننے میں کیا عذر ‏ہو سکتا ہے۔ گاندھی جی نے فرمایا کہ وہ رزولیوشن بھی تو میرا ہی بنایا ہوا تھا۔ میں نے کہا اس وقت تو اس کا یہ مطلب نہ تھا۔ فرمایا کہ میں اب ‏بتاتا ہوں۔ میں حیرت سے ان کا منہ تکنے لگا۔ اگر ہر دس بارہ برس بعد مفہوم بدلنے لگے تو پھر کوئی فیصلہ قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد ‏انہوں نے ’’ ہندی ہندستانی‘‘ کا نیا لفظ گڑھا۔ مںر نے دریافت کیا کہ آپ کی ہندی سے کیا مراد ہے۔ کہنے لگے وہ زبان جو کتابوں میں ہے، ‏بول چال میں نہیں۔ اور ہندستانی وہ زبان ہے جو بول چال میں ہے کتابوں میں نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر ’’ہندی ہندستانی‘‘ ‏کیا ہوئی۔ فرمایا کہ وہ ہندی جو آگے چل کر ہندستانی ہو جائےگی۔ میں نے کہا کہ جب ہندستانی پہلے سے موجود ہے تو اس طول عمل کی کیا ‏ضرورت ہے۔ ‏‏یہ سب بحث میں لکھ چکا ہوں اور آپ کو معلوم ہے۔ اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ آخر زچ ہوکر انہوں نے یہ فرمایا کہ میں ہندی نہیں چھوڑ سکتا۔ ‏اور فیصلہ ووٹ لے کر کر دیا۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیے کہ جب گاندھی جی ہندی نہیں چھوڑ سکتے تو ہم اردو کیسے چھوڑدیں۔ ‏اس کے بعد سے ہماری آنکھیں کھلیں۔ ہندی اردو کی بحث روز بروز نازک ہوتی جاتی ہے۔ جب ہماری طرف سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ‏ہندی یا ہندستانی میں کثرت سے سنسکرت لفظ ملائے جارہے ہیں تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اردو میں بھی عربی فارسی الفاظ شامل کیے ‏جا رہے ہیں۔ لیکن اس میں اور اس میں بہت فرق ہے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اردو میں عربی فارسی الفاظ ملائے جائیں۔ برخلاف اس ‏کے گاندھی جی، بابو راجندر پرشاد، کاکاکالیلکر اور ان کے رفیقوں نے صاف طور پر اپنی اس پالیسی کا اعلان کیا ہے کہ سنسکرت لفظ زیادہ ملائے ‏جائیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا منشا اس سے یہ ہے کہ جنوبی ہند والے اس زبان کو سمجھ سکیں کیونکہ ان کی زبان میں زیادہ ‏سنسکرت کے لفظ ہیں۔ ‏اول یہ صحیح نہیں کہ ان کی عام زبان میں سنسکرت زیادہ ہے۔ دوسرے، بڑے لطف کی بات یہ ہے کہ جنوبی ہند والے اسی وجہ سے ان سے ‏بدگمان اور ان کے مخالف ہیں کہ ان کو سنسکرت آمیز ہندی پڑھائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’یہ لوگ بڑے مکار ہیں۔ یہ ہندی کے نام ‏سے ہمارے ملک میں سنسکرت پھیلانا چاہتے ہیں اور ہماری زبان اور کلچر کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ اس حالت میں ان کی یہ دلیل ‏کیسے قابل قبول ہو سکتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی ہندوالوں کی بدگمانی کچھ بیجا نہیں۔ جس دلیل سے وہ ہمیں پھسلانا چاہتے ہیں ‏وہ ان کے مخالف پڑتی ہے۔ ‏اعتراض صرف یہی نہیں ہے کہ نئے نئے غیر مانوس اور ثقیل سنسکرت لفظ داخل کیے جا رہے ہیں، بڑاغضب یہ ہے کہ جو لفظ سالہا سال بلکہ ‏صدہا سال سے زبان میں رائج ہیں، انہیں بھی خارج کیا جا رہا ہے۔ اور اس سے بھی بڑا غضب یہ ہے کہ ٹھیٹ عام فہم ہندی لفظ بھی مردود ‏قرار دیے گئے ہیں اور ان کی جگہ یاتو اصل سنسکرت کا یا کوئی نیا غیرمانوس لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ جب ایک بار زبان میں آ گیا اور رائج ‏ہو گیا تو وہ ہمارا ہو جاتا ہے، غیر نہیں رہتا۔ اسے غیر سمجھ کر نکالنا سخت بیدردی ہے۔ وہ اب جائے تو کہاں جائے۔ اپنے اصل وطن کو جانہیں ‏سکتا کیونکہ اس کا رنگ روپ، خصلت، سیرت سب بدل گئی ہے، وہاں اسے کوئی نہیں پہچانتا۔ یہ فعل ایساہی سفاکانہ ہے جیسا ہٹلر کا بےگناہ ‏یہودیوں کو خارج کرنا۔ ‏‏مثلاً برس کا لفظ ہے جسے عام وخاص، پڑھا لکھا ان پڑھ، شہری دیہاتی سبھی بولتے ہیں۔ اب اگر اسے زبان سے نکال باہر کردیں اور اس کی جگہ ‏اصل سنسکرت ورش استعمال کرنے لگیں تو یہ بے چارہ کہاں جائے۔ سنسکرت میں یہ داخل نہیں ہو سکتا، عربی، فارسی والے منہ نہیں ‏لگائیں گے تو پھر یہ کہاں جائے۔ یہ تو ہمارا لفظ ہے اور اس ٹھکانہ ہماری ہی زبان میں ہے، ہمیں اس کے نکالنے کا کیا حق ہے۔ ‏میں یہ پوچھتا ہوں کہ آخر برس کے لفظ میں کیا برائی ہے، یہ کیوں مردود قرار دیا گیا ہے اور ورش میں کیا خوبی ہے جو اس کی جگہ لاکر ‏بٹھایا گیا ہے؟ برس کو ہر اعتبار سے ترجیح ہے۔ ایک تو اس لیے کہ صدہا سال سے رائج ہے اور ہر ایک کی زبان پر ہے۔ دوسرے وہ ہمارا لفظ ‏ہے۔ ورش ہمارا لفظ نہیں، بالکل اجنبی اور غیر ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ اپنے پر غیر کو ترجیح دی جائے۔ مشترک الفاظ کو خارج کرکے مشترک ‏زبان بنانا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ لفظ کا معیار رواج ہے اور یہی اس کے مستند ہونے کی سند ہے۔ مثلاً مدعی اور مدعی علیہ ایسے لفظ ہیں ‏جنہیں ایک گنوار سا گنوار بھی سمجھتاہے۔ اب جو انہیں ہٹاکر ’’بادی‘‘ اور ’’پرتبادی‘‘ کے نامانوس الفاظ کو ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ‏یہ مشترک زبان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ ‏اردو میں سرسید کے زمانے سے آسان زبان لکھنے کا عام رواج ہو گیا ہے، اس میں شک نہیں کہ بعض مستثنیٰ بھی ہیں اور یہ ہرزبان میں ‏ہوتا ہے۔ یا بعض علمی مضمون ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ادا کرنے میں زبان مشکل ہو جاتی ہے۔ لیکن عام طور پر رجحان سہل زبان لکھنے کی ‏طرف ہے۔ انتہا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد مشہور الہلال کے اڈیٹرجن کی تحریر عربی اور فارسی کے پروں پر پرواز کرتی تھی، عامیانہ زبان پر ‏اتر آئے ہیں۔ اب ان کی جگہ گفتگو میں بیٹھک، چناؤ جیے لفظ سن کر حیرت ہوتی ہے۔ اردوداں طبقے نے کبھی خاص ارادے اور اہتمام سے ‏نامانوس عربی فارسی الفاظ زبان میں داخل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بیشک ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ لوگ مقفی اور مسجع عبارتیں لکھتے تھے ‏جن میں عربی فارسی الفاظ کثرت سے آتے تھے لیکن وہ ایک عارضی جنون تھا۔ اب کوئی ایسی عبارت نہیں لکھتا۔ اگر لکھے تو لوگ اس کی ہنسی ‏اڑائیں گے۔ ‏ہمارے ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور جہالت بہت زیادہ ہے۔ انہیں پڑھنا لکھنا سکھا دیجیے اور پڑھنے کا شوق ‏پیدا کر دیجیے، بہت سی مشکلیں آسان ہو جائیں گی اور آج جو چیزیں انہیں مشکل معلوم ہوتی ہیں کل آسان معلوم ہونے لگیں گی۔ ‏کہا جاتا ہے کہ یہ نیا زمانہ ہے، حالات بھی بہت کچھ بدل گئے ہیں اور نئے خیالات کی رو بڑھتی چلی آرہی ہے، اس لیے نئے الفاظ کا آنا ناگزیر ‏ہے۔ ہم اسے تسلیم کرتے ہیں کہ ایک زندہ زبان کے لیے لازم ہے کہ اس مںل نئے الفاظ کا اضافہ ہوتا رہے ورنہ وہ ایک روز مردہ ہو جائے‏گی۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ لغات میں سے بھدے، بے ڈھنگے اور ثقیل الفاظ چن چن کر بھر دیے جائیں۔ ہر زبان کی ایک فطرت اور ‏ساخت ہوتی ہے اور جب تک لفظ اس کے سانچے میں نہیں ڈھلتا، قابل قبول نہیں ہوتا۔ ابھی حال میں آپ کے صوبے کے وزیر تعلیم کی ‏ایک تقریر سرکاری طور پر چھپ کر شائع ہوئی تھی، اسے دیکھ کر یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ انسانوں کی زبان ہے بلکہ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ شاید ‏راکشسوں کی بولی ہے۔ یہ زبان کا بنانا نہیں، بگاڑنا ہے۔ ‏یہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ آسان لکھو، یہ ذرا تفصیل طلب ہے۔ ہر زبان میں آسان لکھنے والے بھی ہوتے ہیں اور مشکل لکھنے والے بھی۔ ایک ‏تو اپنا اپنا طرز بیان ہوتا ہے اور دوسرے مضمون کی نوعیت۔ طرز بیان کے معاملے میں کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔ مضمون کی نوعیت کا مسئلہ اور ‏بھی ٹیڑھا ہے۔ سائنس، فلسفہ، شعروغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں اشکال آ ہی جاتا ہے۔ البتہ بچوں، لڑکوں لڑکیوں اور عام لوگوں کے لیے ‏جو کتابیں لکھی جائیں، وہ ضرور آسان اور سلیس زبان میں ہونی چاہییں۔ اس بارے میں لوگ الفاظ پر زور دیتے ہیں کہ غیرمانوس اور ثقیل ‏لفظ نہ ہوں۔ اشکال غیرمانوس لفظوں سے اتنانہیں پیدا ہوتا جتنا پیچیدہ اور مغلق بیان سے۔ اس سے زیادہ زور اس بات پر دینا چاہیے کہ بیان ‏سادہ اور سہل ہو۔ ‏رہا لفظ، تو اس کا پرکھنے والا ادیب ہی ہو سکتا ہے۔ وہ ہر لفظ کی نبض پہچانتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ کون سا لفظ کہاں آنا چاہیے۔ اس میں موقع ‏اور محل کو پہچاننا بڑی بات ہے۔ یہ انشاپردازی کا بڑا گرہے۔ لفظ میں ایک جادو ہوتا ہے جو بے محل استعمال سے پھیکا پڑ جاتا ہے اور اچھا خاصا لفظ ‏بےجان اور بےاثر ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آواز زیادہ سے زیادہ اشخاص ‏تک پہنچے تو ہمیں ایسی زبان میں لکھنا یا بولنا چاہیے جسے زیادہ سے زیادہ اشخاص سمجھ سکیں۔ اور اگر ساتھ ہی آپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کی ‏تحریر وتقریر میں اثر اور دل کشی بھی ہو تو اس کے لیے بڑی محنت، مشق اور مطالعہ کی ضرورت ہے ورنہ نری سادہ زبان زیادہ کارآمد نہیں ‏ہو سکتی۔ ‏میں اس موقع پر دو ایسی غلط فہمیوں کوبھی رفع کرنا چاہتا ہوں جو ہم لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ہم اردو دانوں کو بڑا غرہ ہے کہ اردو ‏زبان میں آگے بڑھنے اور پھیلنے کی فطری صلاحیت موجود ہے۔ وہ گزشتہ زمانہ میں بغیر کسی خاص کوشش کے خودبخود پھیلتی چلی گئی اور اسی ‏طرح آئندہ بھی پھیلتی اور ترقی کرتی چلی جائےگی۔ اس میں مطلق شبہ نہیں کہ اردو میں یہ فطری صلاحیت موجود ہے لیکن اگر فطرت ‏کو انسانی سعی کی مدد نہ ملے تو فطری صلاحیت بھی ٹھٹھر کررہ جاتی ہے اور اکثر اوقات ایسی چیزیں خودرو پودوں کی طرح پامال ہوکر رہ جاتی ‏ہیں۔ اس لیے فطری صلاحیت کو ابھارنے اور ترقی دینے کے لیے آپ کی کوشش پیہم اور متواتر جاری رہنی چاہیے۔ دوسراایک یہ خیال ‏بارہا سننے میں آیا ہے کہ زبان قدرتی چیز ہے اور بنانے سے نہیں بنتی۔ اس دھوکے میں نہ رہیےگا۔ انسانی کوشش بڑی بدبلاہے۔ یہ ہر مشکل پر ‏غالب آ سکتی ہے۔ اگر وہ لوگ جو نئی سنسکرت آمیز ہندی کے حامی ہیں، عزم واستقلال سے کوشش کرتے رہے تو یاد رکھیے کہ وہی زبان جسے ‏آپ حقارت سے دیکھتے ہیں اور جس پر ہنستے ہیں، ایک روز کامیاب ہوکر رہےگی۔ ‏حضرات! علی گڑھ نے اردو زبان کی بڑی خدمت کی ہے۔ سرسید احمد خاں اور ان کے اثر سے ان کے رفقا نے اسے ادبی اور علمی رتبے تک ‏پہنچانے اور اسے مقبول بنانے میں نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔ سرسید کا یہ بہت بڑا احسان ہے۔ اب آپ اس کے وارث ہیں۔ یہ زبان ایک ‏بڑی دولت ہے جو اسلاف ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے بڑی بڑی جانفشانیاں اور قربانیاں کی ہیں اور اپنے خون جگر سے ‏اسے سینچا ہے۔ اب یہ ہم تک پہنچی ہے اور بےمشقت اور مفت ہم تک پہنچی ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور ہمارایہ فرض ہونا چاہیے ‏کہ ہم موجودہ حالات کی رو سے اسے اور ترقی دیں اور اس دولت میں اضافہ کریں تاکہ جب یہ آئندہ نسلوں تک پہنچے تو آپ کو اسی شکرگزاری ‏سے یاد کریں جیسے اب ہم اپنے اسلاف کا ذکر کرتے ہیں۔ آپ آئندہ نسلوں کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اگر آپ نے اپنے فرض میں کوتاہی کی تو ‏میرے کہنے کی ضرورت نہیں، آپ خود سمجھ جائیے کہ وہ آپ کو کن الفاظ سے یاد کریں گے اور آپ کے حق میں کیا کہیں گے۔ ‏لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری طبیعتیں ہنگامہ پسند واقع ہوئی ہیں۔ ہم جلسے، مشاعرے، کانفرنسیں بڑی شان سے کرتے ہیں، تجویزیں بھی بڑی ‏آب و تاب سے پیش کرتے ہیں، بحثیں بھی بڑے جوش و خروش سے ہوتی ہیں، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو نہ معلوم وہ جوش و خروش ‏کیوں ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ مجھے علی گڑھ کے طالب علموں سے یہ توقع ہے کہ وہ دھوم دھام کم اور کام زیادہ کریں گے اور اس یونیورسٹی کے بانی ‏کی نظیر کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں گے اور جس خلوص، تندہی اور استقلال سے اس نے اس زبان کے رتبے کو بڑھایا، آپ بھی اسی طرح اس ‏کے بنانے، بڑھانے اور سنوارنے میں کوشش کریں گے کیونکہ اس کی سلامتی میں ہماری سلامتی اور اس کے بگاڑ میں ہمارا بگاڑ ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.