ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
Appearance
ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
نہ فراق تھا نہ وصال تھا رہی اک تو بے خبری رہی
تو ہمیشہ اے بت مہ لقا رہا محو اپنی ہی شکل کا
ترے عکس حسن کی آرسی ترے سامنے ہی دھری رہی
ترے عہد حسن میں یک زماں نہ جنوں سے مجھ کو ملی اماں
وہی نالہ اور وہی فغاں وہی مشق جامہ دری رہی
کوئی ہووے کیونکے نہ تنگ دل ترے دل میں اے بت سنگ دل
اثر آہ اپنی نے یہ کیا کہ رہین بے اثری رہی
نہ خط آئے پر بھی کمی پڑی تری شان حسن میں یک ذری
وہی قد کی فتنہ گری رہی وہی رخ کی جلوہ گری رہی
کبھی دل لیا کبھی دیں لیا کبھی زر لیا کبھی سر لیا
یوں ہی اپنی مفت دہی رہی وہی اس کی مفت بری رہی
نہ کمال اوج سے تو گرا کبھی فکر شعر میں مصحفیؔ
غزل اور بھی کہی تو نے گر وہی تیری تیز پری رہی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |