ترے درد سے جس کو نسبت نہیں ہے
Appearance
ترے درد سے جس کو نسبت نہیں ہے
وہ راحت مصیبت ہے راحت نہیں ہے
جنون محبت کا دیوانہ ہوں میں
مرے سر میں سودائے حکمت نہیں ہے
ترے غم کی دنیا میں اے جان عالم
کوئی روح محروم راحت نہیں ہے
مجھے گرم نظارہ دیکھا تو ہنس کر
وہ بولے کہ اس کی اجازت نہیں ہے
جھکی ہے ترے بار عرفاں سے گردن
ہمیں سر اٹھانے کی فرصت نہیں ہے
یہ ہے ان کے اک روئے رنگیں کا پرتو
بہار طلسم لطافت نہیں ہے
ترے سرفروشوں میں ہے کون ایسا
جسے دل سے شوق شہادت نہیں ہے
تغافل کا شکوہ کروں ان سے کیونکر
وہ کہہ دیں گے تو بے مروت نہیں ہے
وہ کہتے ہیں شوخی سے ہم دل ربا ہیں
ہمیں دل نوازی کی عادت نہیں ہے
شہیدان غم ہیں سبک روح کیا کیا
کہ اس دل پہ بار ندامت نہیں ہے
نمونہ ہے تکمیل حسن سخن کا
گہر بارئ طبع حسرتؔ نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |