تری گلی میں جو آئے وہ گھر نہیں جاتے
تری گلی میں جو آئے وہ گھر نہیں جاتے
جو تیرے در پہ ہیں وہ در بدر نہیں جاتے
وہ آئیں گے کبھی کوٹھے پہ امتحاں کر لو
فلک سے بھاگے تو شمس و قمر نہیں جاتے
مسیح و بو علی سینا کی کیا ہوئی تشخیص
کسی علاج سے داغ جگر نہیں جاتے
گلے لگاتے ہیں ان کو بہانے رخصت کے
چلے شراب کہ اب ہم سفر نہیں جاتے
وہ کون صبح نہیں کرتے شام کا وعدہ
وہ شام کون سی ہے جو مکر نہیں جاتے
پڑھایا طوطے کو اک عمر بے وفا نکلا
ازل کے بگڑے کسی سے سدھر نہیں جاتے
یہ آگے آگے کنول لے کے چل رہے ہو کیوں
وہ منزلوں میں قمر کے اگر نہیں جاتے
تمہاری چشموں نے خط پر مگر نہ ڈالی آنکھ
غزال کس لئے ریحاں کو چر نہیں جاتے
فلک سے پوچھئے دریا کا شور کچھ بھی ہے
جو نکلے دل سے یہ نالہ کدھر نہیں جاتے
غبار آہ کا میرے ہے جلد ریل سے بھی
کچھ آب برق روش تار پر نہیں جاتے
لڑا کے آنکھ تم آنکھوں سے ہو گئے پنہاں
پر آنکھ سے مری مثل نظر نہیں جاتے
مکان اور تو لائق نظر نہیں آتا
غریب خانہ تو ہے کیوں اتر نہیں جاتے
خیال سبزۂ خط بھی ہو اے جناب خضر
پئے ہیں آب بقا آپ مر نہیں جاتے
دھڑی جماؤ ملو مہندی زلف سلجھاؤ
غضب کا ناز ہے تم کیوں سنور نہیں جاتے
تمہاری چوٹی کی ناگن سے کھیلتے ہیں مدام
کسی بلا سے یہ عشاق ڈر نہیں جاتے
خفا نسیم سے کتنے ہیں وہ الٰہی خیر
ہوا بھی کھانے کو شام و سحر نہیں جاتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |