تروار کھینچ ہم کو دکھاتے ہو جب نہ تب
Appearance
تروار کھینچ ہم کو دکھاتے ہو جب نہ تب
کیا مر رہے جواں کو ستاتے ہو جب نہ تب
تقصیر ہم سے کون سی ایسی ہوئی وقوع
منہ پر جو ہاتھ میرے دھراتے ہو جب نہ تب
از بس مزاج ہم سے تمہارا کشیدہ ہے
آزردہ بات میں ہوئے جاتے ہو جب نہ تب
اب تو رکھا ہے کاٹ ہمارا یہ آپ نے
غیروں سے مل پتنگ اڑاتے ہو جب نہ تب
اک بات کا ہماری بتنگڑ بناتے ہو
سو جھوٹ سچ کو اپنے چھپاتے ہو جب نہ تب
اے واعظو یہ کیا تمہیں بکواس لگ گئی
میری سنو تم اپنی ہی گاتے ہو جب نہ تب
ہم درد دل کہیں تو جواب اس مزے سے دو
قصہ محبؔ یہ کس کو سناتے ہو جب نہ تب
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |