ترانۂ قومی
مرحبا اے خاک پاک کشور ہندوستاں
یادگار عہد ماضی ہے تو اے جان جہاں
کیسے کیسے اولیا گزرے اور قطب زماں
جن کے قدموں نے بنایا ہے تجھے جنت نشاں
روشنی سے تیرے پھیلا ہے اجالا ہر طرف
تیرا دنیا میں رہا ہے بول بالا ہر طرف
کیوں نہ کہیے تجھ کو اک سرچشمۂ آب بقا
ہیں یہ آثار قدیمہ تیرے گنج بے بہا
روز و شب نیرنگیاں تیری ہیں کیا کیا جاں فزا
کس قدر ہے روح پرور یہ تری آب و ہوا
گردش ایام سے گو میں پھروں نزدیک و دور
ہر جگہ یاد وطن ہے مایۂ عیش و سرور
اب تو لازم ہے کہ ہوں بیدار ابنائے وطن
ہو دلوں میں جذبۂ ملت پرستی جوش زن
غلغلہ تیری ستائش کا ہو تا چرخ کہن
اور تیرے جاں نثاروں کے ہو لب پر یہ سخن
مٹ نہیں سکتے کبھی تیرے اصول اتفاق
کیوں نہ ہو اے ہند تجھ کو دور نو کا اشتیاق
جبکہ جاری ہو زبانوں پر یہ کلمہ صبح و شام
نغمہ ہائے ساز سے بڑھ کر ہے جو معجز نظام
یعنی صلح و آشتی کا دیں ہم آپس میں پیام
مشکلیں آسان ہوں بگڑے ہوئے بن جائیں کام
رونما جس کی بدولت جلوۂ امید ہو
دور ظلمت ہو دلوں سے اور گھر گھر عید ہو
دین و آئیں ہیں جدا سب کے مگر اے خاک ہند
گود میں تیرے رہیں شیر و شکر اے خاک ہند
تیری خدمت پر جو باندھیں گے کمر اے خاک ہند
ہوں گے وہ تیرے لیے سلک گہر اے خاک ہند
زیب و زینت میں تو اے جان جہاں مشہور ہے
خیر و برکت سے تو اے ہندوستاں معمور ہے
روز و شب قوموں کو ہوتی ہے ترقی یا زوال
کر سکا لیکن نہ تجھ کو دور گردوں پائمال
ہر زمانے میں رہا تیرا عجب جاہ و جلال
سایۂ رحمت نے دائم تجھ کو رکھا ہے نہال
گر نظر آئے کبھی غم کی گھٹا چھائی ہوئی
ٹل گئی ہے سر سے تیرے ہر بلا آئی ہوئی
اختلاف دین و ملت کے یہ جھگڑے ہوں تمام
جو مصیبت بن گئے ہیں آج بہر خاص و عام
ہے مبارک جو تجھے حاصل ہے امن و انتظام
"با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام"
خاکساری میں تو اب تک شہرۂ آفاق ہے
مخزن فضل و ہنر ہے معدن اخلاق ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |