تجھ سے بوسہ میں نہ مانگا کبھو ڈرتے ڈرتے
Appearance
تجھ سے بوسہ میں نہ مانگا کبھو ڈرتے ڈرتے
دیکھیے آب بقا پاؤں گا مرتے مرتے
کیا ہے انصاف کہ جوں صبح تو ہنستا ہے ہنوز
مر چکا شمع سا میں گریہ ہی کرتے کرتے
اب تو منہ دے مجھے اے نور نظر آئینہ وار
گر گئیں پلکیں سرشک آنکھ سے جھڑتے جھڑتے
نہ ہوا درد سر ناز کا صندل تجھے ہائے
گھس گیا ماتھا ترے پانو پہ دھرتے دھرتے
جب سے دکھلا گیا جاں بخش تو جلوے کی بہار
مر گئیں بلبلیں گل زار سے گرتے گرتے
ہم دوانوں کو نہیں حاجت زنداں طفلو
چھپ گئے ڈھیر میں ہم سنگ کے پڑتے پڑتے
ذرہ کر مہر تو عزلتؔ پہ کہ مانند ہلال
خالی ہوں آپ سے دن ہجر کے پھرتے پھرتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |