تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے
Appearance
تجھے خلق کہتی ہے خود نما تجھے ہم سے کیوں یہ حجاب ہے
ترا جلوہ تیرا ہے پردہ در تیرے رخ پہ کیوں یہ نقاب ہے
تجھے حسن مایۂ ناز ہے دل خستہ محو نیاز ہے
کہوں کیا یہ قصۂ راز ہے مرا عشق خانہ خراب ہے
یہ رسالہ عشق کا ہے ادق ترے غور کرنے کا ہے سبق
کبھی دیکھ اس کو ورق ورق مرا سینہ غم کی کتاب ہے
تری جذب میں ہے ربودگی تیرے سکر میں ہے غنودگی
نہ خبر شہود و وجود کی نہ ترنگ موج سراب ہے
یہ وہی ہے ساقیؔٔ شیفتہ جو ہے دل سے تیرا فریفتہ
یہ ہے تیرا بندہ گریختہ کہ جو خاکسار تراب ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |