تارے گنتے رات کٹتی ہی نہیں آتی ہے نیند
تارے گنتے رات کٹتی ہی نہیں آتی ہے نیند
دل کو تڑپاتا ہے ہجر آنکھوں کو ترساتی ہے نیند
گھر میں آنکھوں کے قدم رکھنے نہیں پاتی ہے نیند
دونوں پلکوں کے طمانچے رات بھر کھاتی ہے نیند
فرش راحت پر مجھے جس وقت یاد آتا ہے یار
مرغ دل ایسا پھڑکتا ہے کہ اڑ جاتی ہے نیند
کون ہے راحت رساں اپنا شب اندوہ میں
موت بھی آنکھیں چراتی ہے جو شرماتی ہے نیند
سوؤں کیا آنکھوں کی ڈھیلے ہو گئی ہیں سنگ راہ
آ کے تیرے خواب گہ میں ٹھوکریں کھاتی ہے نیند
عین راحت ہے مجھے خدمت گزاری یار کے
تلوے آنکھوں سے جو سہلاتا ہوں آ جاتی ہے نیند
دن نکل آتا ہے اٹھنے کو نہیں جی چاہتا
ساتھ جب سوتا ہے وہ کیا پاؤں پھیلاتی ہے نیند
خواہش دیدار آنکھوں میں بھری ہے سوؤں کیا
پتلیوں میں اپنی جا تل بھر نہیں پاتی ہے نیند
مرغ بسمل عاشق مہجور دونو ایک ہیں
اس کو پھڑکاتی ہے مرگ اور اس کو تڑپاتی ہے نیند
کیسے تکیے کیسے توشک کیسا ہوتا ہے پلنگ
میں وہ غافل ہوں مرے گھر آ کے پچھتاتی ہے نیند
بھول جاتا ہوں میں غفلت میں خیال یار کے
بدلے راحت کی اذیت مجھ کو پہنچاتی ہے نیند
باغ جنت کو یوں ہی خواب عدم دکھلائے گا
جس طرح کوئے صنم مجھ کو دکھا لاتی ہے نیند
جب تھکے اس کی سواری دوڑ کر یوں سوئے ہم
جیسے سوداگر کو گھوڑے بیچ کر آتی ہے نیند
سوتے سوتے جب پکار اٹھتا ہوں اپنے یار کو
مرقدوں کے سونے والوں کی اچٹ جاتی ہے نیند
یار گل اندام کا زانو کہاں یہ سر کہاں
بحرؔ میں سوتا ہوں مجھ کو خواب دکھلاتی ہے نیند
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |