بے دیے لے اڑا کبوتر خط
Appearance
بے دیے لے اڑا کبوتر خط
یوں پہنچتا ہے اوپر اوپر خط
پرزے پرزے ہوا سراسر خط
ایک خط کے بنے بہتر خط
قتل ہوتے ہیں نامہ بر ہر روز
لاش پر لاش اور خط پر خط
روز اک نامہ بر کہاں سے آئے
یوں ہی رکھ چھوڑتا ہوں لکھ کر خط
کیا قلم نے شرر فشانی کی
پھلجڑی بن گیا مرا ہر خط
چار ہیں گے کل ان کے ہم سایے
لکھ کے دے آئے آج ہم سر خط
جو کہ لیتے نہیں ہیں میرا نام
وہ لکھیں گے مجھے مقرر خط
کس طرح سر نوشت کو بدلوں
خط میں مل جائے غیر کے گر خط
پڑھ تو لیں گے وہ نامہ میرا بھی
آتے رہتے ہیں اس کے اکثر خط
دیکھ کر نام پھینک دیں گے ضرور
پھر نہ لیں گے کبھی مکرر خط
ڈاک گھر میں ٹکٹ نہیں باقی
ناظمؔ اتنے گئے ہیں خط پر خط
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |