بے باک نہ دیکھا کوئی قاتل کے برابر
Appearance
بے باک نہ دیکھا کوئی قاتل کے برابر
شرم آنکھ میں پائی نہ گئی تل کے برابر
دشمن کوئی اے یار مرا اور ترا دوست
ہوگا نہ زمانے میں مرے دل کے برابر
دل متصل کوچۂ محبوب ہوا گم
لٹنا تھا پہنچ کر مجھے منزل کے برابر
کم بختیٔ واعظ ہے کہ ہو وعظ کی صحبت
رندان قدح نوش کی محفل کے برابر
ہم پی گئے جو اشک قریب مژہ آیا
کشتی ہوئی جب غرق تو ساحل کے برابر
آہوں کے شرر گرد نہیں داغ جگر کے
تابندہ ہیں اختر مہ کامل کے برابر
پردہ نہ اٹھا قیس نے لیلیٰ کو نہ دیکھا
جھونکا بھی نہ آیا کوئی محمل کے برابر
مقتل میں یہ حسرت رہی اے ضعف پس ذبح
پہنچے نہ تڑپ کر کسی بسمل کے برابر
گھر تک در جاناں سے جلالؔ آئیے کیوں کر
ایک ایک قدم ہے کئی منزل کے برابر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |