Jump to content

بیگو

From Wikisource
بیگو (1940)
by سعادت حسن منٹو
325281بیگو1940سعادت حسن منٹو

’’تسلیاں اور دلاسے بیکار ہیں۔ لوہے اورسونے کے یہ مرکب میں چھٹانکوں پھانک چکا ہوں۔ کون سی دوا ہے جو میرے حلق سے نہیں اتاری گئی، میں آپ کے اخلاق کا ممنون ہوں مگر ڈاکٹر صاحب میری موت یقینی ہے۔ آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ میں دق کا مریض نہیں۔ کیا میں ہر روز خون نہیں تھوکتا؟ آپ یہی کہیں گے کہ میرے گلے اور دانتوں کی خرابی کا نتیجہ ہے مگر میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میرے دونوں پھیپھڑے خانۂ زنبور کی طرح مشبک ہو چکے ہیں۔ آپ کے انجکشن مجھے دوبارہ زندگی نہیں بخش سکتے۔ دیکھیے میں اس وقت آپ سے باتیں کررہا ہوں مگرسینے پر ایک وزنی انجن دوڑتا ہوا محسوس کررہا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک تاریک گڑھے میں اتر رہا ہوں۔

قبر بھی تو ایک تاریک گڑھا ہے۔ آپ میری طرف اس طرح نہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب، مجھے اس چیز کا کامل احساس ہے کہ آپ اپنے ہسپتال میں کسی مریض کا مرنا پسند نہیں کرتے مگر جو چیز اٹل ہے وہ ہوکے رہے گی۔ آپ ایسا کیجیے کہ مجھے یہاں سے رخصت کردیجیے۔ میری ٹانگوں میں تین چار میل چلنے کی قوت ابھی باقی ہے۔ کسی قریب کے گاؤں میں چلا جاؤں گا۔ اور۔۔۔ مگر میں تو رو رہا ہوں۔ نہیں نہیں۔ ڈاکٹرصاحب یقین کیجیے۔ میں موت سے خائف نہیں۔ یہ میرے جذبات ہیں، جو آنسوؤں کی شکل میں باہر نکل رہے ہیں۔

آہ! آپ کیا جانیں۔ اس مدقوق کے سینے سے کیا کچھ باہر نکلنے کومچل رہا ہے۔ میں اپنے انجام سے باخبر ہوں۔ آج سے پانچ برس پہلے بھی میں اس وحشت ناک انجام سے باخبر تھا۔ جانتا تھا۔ اور اچھی طرح جانتا تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد میری زندگی کی دوڑ ختم ہو جائے گی۔ میں نے اس گیند کو جسے آپ زندگی کے نام سے پکارتے ہیں، خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارکر کاٹا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ میں اس کھیل میں لذت محسوس کررہا ہوں۔ لذت۔۔۔ ہاں لذت۔۔۔ میں نے اپنی زندگی کی کئی راتیں حسن فروش عورتوں کے تاریک اڈوں پرگزاری ہیں۔ شراب کے نشے میں چورمیں نے کس بے دردی سے خود کو اس حالت میں پہنچایا۔ مجھے یاد ہے، انہی اڈوں کی سیاہ پیشہ عورت۔۔۔ کیا نام تھا اس کا۔۔۔؟ ہاں گلزار، مجھے اس بری طرح اپنی جوانی کو کیچڑ میں لت پت کرتے دیکھ کر مجھ سے ہمدردی کرنے لگ گئی تھی۔ بیوقوف عورت، اس کو کیا بتاتا کہ میں اس کیچڑ میں کس کا عکس دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ مجھے گلزار اور اس کی دیگر ہم پیشہ عورتوں سے نفرت تھی اور اب بھی ہے لیکن کیا آپ مریضوں کو زہر نہیں کھلاتے اگر اس سے اچھے نتائج کی امید ہو۔ میرے درد کی دوا ہی تاریک زندگی تھی۔ میں نے بڑی کوشش اور مصیبتوں کے بعد اس انجام کو بلایا ہے جس کی کچھ روئداد آپ نے میرے سرہانے ایک تختی پر لکھ کر لٹکا رکھی ہے۔ میں نے اس کے انتظار میں ایک ایک گھڑی کس بے تابی سے کاٹی ہے، آہ! کچھ نہ پوچھیے! لیکن اب مجھے دِلی تسکین حاصل ہو چکی ہے۔ میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔

میں دِق اور سِل کا مریض ہوں۔ اس مرض نے مجھے کھوکھلا کردیا ہے۔۔۔ آپ حقیقت کا اظہارکیوں نہیں کردیتے۔ بخدا اس سے مجھے اور تسکین حاصل ہوگی۔ میرا آخری سانس آرام سے نکلے گا۔۔۔ ہاں ڈاکٹر صاحب یہ تو بتائیے، کیا آخری لمحات واقعی تکلیف دہ ہوتے ہیں؟ میں چاہتا ہوں میری جان آرام سے نکلے۔ آج میں واقعی بچوں کی سی باتیں کررہا ہوں۔ آپ اپنے دل میں یقیناًمسکراتے ہوں گے کہ میں آج معمول سے بہت زیادہ باتونی ہوگیا ہوں۔۔۔ دیا جب بجھنے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی روشنی تیز ہو جایا کرتی ہے۔ کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں۔۔۔؟ آپ تو بولتے ہی نہیں اور میں ہوں کہ بولے جارہا ہوں۔ ہاں ہاں بیٹھیے، میرا جی چاہتا ہے آج کسی سے باتیں کیے جاؤں۔ آپ نہ آتے تو خدا معلوم میری کیا حالت ہوتی۔۔۔ آپ کا سفید سوٹ آنکھوں کو کس قدر بھلا معلوم ہورہا ہے۔ کفن بھی اسی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے پھر آپ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔

آپ کو کیا معلوم کہ میں مرنے کے لیے کس قدر بے تاب ہوں۔ اگر مرنے والوں کو کفن خود پہننا ہو تو آپ دیکھتے میں اس کو کتنی جلدی اپنے گرد لپیٹ لیتا۔ میں کچھ عرصہ اور زندہ رہ کرکیا کروں گا؟ جب کہ وہ مر چکی ہے۔ میرا زندہ رہنا فضول ہے۔ میں نے اس موت کو بہت مشکلوں کے بعد اپنی طرف آمادہ کیا ہے اور اب میں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا۔ وہ مر چکی ہے اور اب میں بھی مررہا ہوں۔ میں نے اپنی سنگ دلی۔۔۔ وہ مجھے سنگ دل کے نام سے پکارا کرتی تھی، کی قیمت ادا کردی ہے۔ اور خداگواہ ہے کہ اس کا کوئی بھی سکہ کھوٹا نہیں۔ میں پانچ سال تک ان کو پرکھتا رہا ہوں، میری عمر اس وقت پچیس برس کی ہے۔ آج سے ٹھیک سات برس پہلے میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ آہ ان سات برسوں کی روئداد کتنی حیرت افزا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی تفصیل کاغذوں پرپھیلا دے تو انسانی دلوں کی داستانوں میں کیسا دلچسپ اضافہ ہو۔ دنیا ایک ایسے دل کی دھڑکن سے آشنا ہوگی جس نے اپنی غلطی کی قیمت خون کی ان تھوکوں میں ادا کی ہے۔ جنہیں آپ ہر روز جلاتے رہتے ہیں کہ ان کے جراثیم دوسروں تک نہ پہنچیں۔

آپ میری بکواس سنتے سنتے کیا تنگ تو نہیں آگئے۔ خدا معلوم کیا کیا کچھ بکتا رہوں۔ تکلف سے کام نہ لیجیے، آپ واقعی کچھ نہیں سمجھ سکتے، میں خود نہیں سمجھ سکا۔ صرف اتنا جانتا ہوں کہ بٹوت سے واپس آکر میرے دل و دماغ کا ہر جوڑ ہل گیا تھا۔ اب یعنی آج جب کہ میرے جنون کا دورہ ختم ہو چکا ہے اور موت کو چند قدم کے فاصلے پر دیکھ رہا ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ وزن جو میری چھاتی کو دابے ہوئے تھا، ہلکا ہوگیا ہے اور میں پھرزندہ ہورہا ہوں۔ موت میں زندگی۔۔۔ کیسی دلچسپ چیز ہے! آج میرے ذہن سے دھند کے تمام بادل اٹھ گئے ہیں۔ میں ہر چیز کو روشنی میں دیکھ رہا ہوں۔ سات برس پہلے کے تمام واقعات اس وقت میری نظروں کے سامنے ہیں۔

دیکھیے۔۔۔ میں لاہور سے گرمیاں گزارنے کے لیے کشمیر کی تیاریاں کررہا ہوں۔ سوٹ سلوائے جارہے ہیں۔ بوٹ ڈبوں میں بند کیے جارہے ہیں۔ ہولڈال اور ٹرنک کپڑوں سے پر کیے جارہے ہیں۔ میں رات کی گاڑی سے جموں روانہ ہوتا ہوں۔ شمیم میرے ساتھ ہے۔ گاڑی کے ڈبے میں بیٹھ کر ہم عرصہ تک باتیں کرتے رہتے ہیں۔ گاڑی چلتی ہے۔ شمیم چلا جاتا ہے۔ میں سو جاتا ہوں۔ دماغ ہر قسم کی فکر سے آزاد ہے۔ صبح جموں کے اسٹیشن پر جاگتا ہوں۔ کشمیر کی حسین وادی کی ہونے والی سیر کے خیالات میں مگن لاری پر سوار ہوتا ہوں۔ بٹوت سے ایک میل کے فاصلے پر لاری کا پہیہ پنکچر ہو جاتا ہے۔ شام کا وقت ہے اس لیے رات بٹوت کے ہوٹل میں کاٹنی پڑتی ہے۔ اس ہوٹل کا کمرہ بے حد غلیظ معلوم ہوتا ہے مگر کیا معلوم تھا کہ مجھے وہاں پورے دو مہینے رہنا پڑے گا۔ صبح سویرے اٹھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ لاری کے انجن کا ایک پرزہ بھی خراب ہوگیا ہے۔ اس لیے مجبوراً ایک دن اور بٹوت میں ٹھہرنا پڑے گا۔ یہ سن کر میری طبیعت کس قدر افسردہ ہوگئی تھی! اس افسردگی کو دور کرنے کے لیے میں۔۔۔ میں اس روز شام کو سیر کے لیے نکلتا ہوں۔ چیڑ کے درختوں کا تنفس، جنگلی پرندوں کی نغمہ سرائیاں، سیب کے لدے ہوئے درختوں کا حسن اور غروب ہوتے ہوئے سورج کا دلکش سماں، لاری والے کی بے احتیاطی اور رنگ میں بھنگ ڈالنے والی تقدیر کی گستاخی کا رنج افزا خیال محو کردیتا ہے۔

میں نیچر کے مسرت افزا مناظر سے لطف اندوز ہوتا سڑک کے ایک موڑ پر پہنچتا ہوں۔۔۔ دفعتاً میری نگاہیں اس سے دو چار ہوتی ہیں۔ بیگو مجھ سے بیس قدم کے فاصلے پر اپنی بھینس کے ساتھ کھڑی ہے۔۔۔ جس داستان کا انجام اس وقت آپ کے پیش نظر ہے۔ اس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔

وہ جوان تھی۔ اس کی جوانی پر بٹوت کی فضا پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ سبز لباس میں ملبوس وہ سڑک کے درمیان مکئی کا ایک دراز قد بوٹا معلوم ہورہی تھی۔ چہرے کے تانبے ایسے تاباں رنگ پر اس کی آنکھوں کی چمک نے ایک عجیب کیفیت پیدا کردی تھی۔ جو چشمے کے پانی کی طرح صاف اور شفاف تھیں۔۔۔ میں اس کو کتنا عرصہ دیکھتا رہا۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے دفعتاً اپنا سینہ موسیقی سے لبریز پایااور پھرمیں مسکرا دیا۔ اس کی بہکی ہوئی نگاہوں کی توجہ بھینس سے ہٹ کر میرے تبسم سے ٹکرائی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے ایک تیز تجسس سے میری طرف دیکھاجیسے وہ کسی بھولے ہوئے خواب کو یاد کررہی ہے۔ پھر اس نے اپنی چھڑی کو دانتوں میں دبا کر کچھ سوچا اور مسکرا دی، اس کا سینہ چشمے کے پانی کی طرح دھڑک رہا تھا۔ میرا دل بھی میرے پہلو میں انگڑائیاں لے رہا تھا۔۔۔ اور یہ پہلی ملاقات کس قدر لذیذ تھی۔ اس کا ذائقہ ابھی میرے جسم کی ہر رگ میں موجود ہے۔۔۔ وہ چلی گئی۔۔۔ میں اس کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھتا رہا۔ وہ اس انداز سے چل رہی تھی جیسے کچھ یاد کررہی ہے۔ کچھ یاد کرتی ہے مگر پھر بھول جاتی ہے۔ اس نے جاتے ہوئے پانچ چھ مرتبہ میری طرف مڑ کر دیکھا۔ لیکن فوراً سر پھیر لیا۔

جب وہ اپنے گھرمیں داخل ہوگئی جو سڑک کے نیچے مکئی کے چھوٹے سے کھیت کے ساتھ بنا ہوا تھا، میں اپنی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اس احساس نے مجھے سخت متحیر کیا۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی۔ کالج میں اپنے ہم جماعت طلبہ کی زبانی میں محبت کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ عشقیہ داستانیں بھی اکثر میرے زیرمطالعہ رہی تھیں۔ مگر محبت کے حقیقی معانی میری نظروں سے پوشیدہ تھے۔ اس کے جانے کے بعد جب میں نے ایک ناقابل بیان تلخی اپنے دل کی دھڑکنوں میں حل ہوتی ہوئی محسوس کی تو میں نے خیال کہ شاید اسی کا نام محبت ہے۔۔۔ یہ محبت ہی تھی۔۔۔ عورت سے محبت کرنے کا پہلا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مرد کی ہو جائے یعنی وہ اس سے شادی کرلے اور آرام سے اپنی بقایا زندگی گزار دے۔ شادی کے بعد یہ محبت کروٹ بدلتی ہے۔ پھر مرد اپنی محبوبہ کے کاندھوں پر ایک گھر تعمیر کرتا ہے۔ میں نے جب بیگو سے اپنے دل کو وابستہ ہوتے محسوس کیا تو فطری طور پر میرے دل میں اس رفیقہ حیات کا خیال پیدا ہوا جس کے متعلق میں اپنے کمرے کی چار دیواری میں کئی خواب دیکھ چکا تھا۔

اس خیال کے آتے ہی میرے دل سے یہ صدا اٹھی، ’’دیکھو سعید!یہ لڑکی ہی تمہارے خوابوں کی پری ہے۔‘‘ چنانچہ میں تمام واقعے پر غور کرتا ہوا ہوٹل واپس آیا اور ایک ماہ کے لیے ہوٹل کا وہ کمرہ کرائے پر اٹھا لیا جو مجھے بے حد غلیظ محسوس ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہوٹل کا مالک میرے اس ارادے کو سن کر بہت متحیر ہوا تھا۔ اس لیے کہ میں صبح اس کی غلاظت پسندی پر ایک طویل لیکچر دے چکا تھا۔

داستان کتنی طویل ہوتی جارہی ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ آپ اسے غور سے سن رہے ہیں۔۔۔ ہاں ہاں آپ سگریٹ سلگا سکتے ہیں۔ میرے گلے میں آج کھانسی کے آثار محسوس نہیں ہوتے۔ آپ کی ڈبیا دیکھ کر میرے ذہن میں ایک اور واقعہ کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ بیگو بھی سگریٹ پیا کرتی تھی۔ میں نے کئی بار اسے گولڈ فلیک کی ڈبیاں لا کردی تھیں۔ وہ بڑے شوق سے ان کو منہ میں دبا کر دھوئیں کے بادل اڑایا کرتی تھیں۔ دھواں۔۔۔! میں اس نیلے نیلے دُھوئیں کو اب بھی دیکھ رہا ہوں جو اس کے گیلے ہونٹوں پر رقص کیا کرتا تھا۔۔۔ ہاں تو دوسرے روز میں شام کو اسی وقت ادھر سیر کو گیا۔ جہاں مجھے وہ سڑک پر ملی تھی۔ دیر تک سڑک کے ایک کنارے پتھروں کی دیوار پر بیٹھا رہا مگر وہ نظر نہ آئی۔

اٹھا اور ٹہلتا ٹہلتا آگے نکل گیا۔ سڑک کے دائیں ہاتھ ڈھلوان تھی۔ جس پر چیڑ کے درخت اگے ہوئے تھے۔ بائیں ہاتھ بڑے بڑے پتھروں کے کٹے پھٹے سر ابھر رہے تھے۔ ان پر جمی ہوئی مٹی کے ڈھیلوں میں گھاس اگی ہوئی تھی۔ ہوا ٹھنڈی اور تیز تھی۔ چیڑ کے تاگانماپتوں کی سرسراہٹ کانوں کوبہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ جب موڑ مڑا تو دفعتاً میری نگاہیں سامنے اٹھیں۔ مجھ سے سو قدم کے فاصلے پر وہ اپنی بھینس کو ایک سنگین حوض سے پانی پلا رہی تھی۔ میں قریب پہنچا مگر اس کو نظر بھر کے دیکھنے کی جرأت نہ کرسکا اور آگے نکل گیا اور جب واپس مڑا تو وہ گھر جا چکی تھی۔ اب ہر روز اس طرف سیر کو جانا میرا معمول ہوگیا مگر بیس روز تک میں اس سے ملاقات نہ کرسکا۔

میں نے کئی بار باؤلی پر پانی پیتے وقت اس سے ہم کلام ہونے کا ارادہ کیا۔ مگر زبان گنگ ہوگئی۔ کچھ بول نہ سکا۔ قریباً ہر روز میں اس کو دیکھتا مگررات کو جب میں تصور میں اس کی شکل دیکھنا چاہتا تو ایک دھندسی چھا جاتی۔ یہ عجیب بات ہے کہ میں اس کی شکل کو اس کے باوجود کہ اسے ہر روز دیکھتا تھا بھول جاتا تھا۔ بیس دنوں کے بعد ایک روز چار بجے کے قریب جب کہ میں ایک باؤلی کے اوپر چیڑ کے سائے میں لیٹا تھا۔ وہ خورد سال لڑکے کو لے کر اوپر چڑھی۔ اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں سخت گھبرا گیا۔ دل میں یہی آئی کہ وہاں سے بھاگ جاؤں لیکن اس کی سکت بھی نہ رہی۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر آگے نکل گئی۔ چونکہ اس کے قدم تیز تھے اس لیے لڑکا پیچھے رہ گیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔ دفعتاً لڑکے نے ایک چیخ ماری اور چشم زدن میں چیڑ کے خشک پتوں پر سے پھسل کر نیچے آرہا۔ میں فوراً اٹھا اور بھاگ کر اسے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔ چیخ سن کر وہ مڑی اور دوڑنے کے لیے بڑھے ہوئے قدم روک کر آہستہ آہستہ میری طرف آئی۔ اپنی جوان آنکھوں سے مجھے دیکھا اور لڑکے سے یہ کہا، ’’خدا جانے تم کیوں گرپڑتے ہو؟‘‘

میں نے گفتگو شروع کرنے کا ایک موقع پا کر اس سے کہا، ’’بچہ ہے اس کی انگلی پکڑ لیجیے۔ ان پتوں نے خود مجھے کئی بار اوندھے منہ گرا دیا ہے۔‘‘

یہ سن کر وہ کھکھلا کر ہنسی پڑی، ’’آپ کے ہیٹ نے تو خوب لڑھکنیاں کھائی ہوں گی۔‘‘

’’آپ ہنستی کیوں ہیں؟ کسی کو گرتے دیکھ کر آپ کی طبیعت اتنی شاد کیوں ہوتی ہے اور جوکسی روز آپ گر پڑیں تو۔۔۔ وہ گھڑا جو ہر روز شام کے وقت آپ گھر لے جاتی ہے کس بری طرح زمین پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔‘‘

’’میں نہیں گر سکتی۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے دفعتاً نیچے باؤلی کی طرف دیکھا۔ اس کی بھینس نالے پر بندھے ہوئے پل کی طرف خراماں خراماں جارہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس نے اپنے حلق سے ایک عجیب قسم کی آواز نکالی۔ اس کی گونج ابھی تک میرے کانوں میں محفوظ ہے۔ کس قدر جوان تھی یہ آواز۔ اس نے بڑھ کر لڑکے کو کاندھے پر اٹھا لیا۔ اور بھینس کو ’’اے چھلاں، اے چھلاں‘‘ کے نام سے پکارتی ہوئی چشم زدن میں نیچے اتر گئی۔ بھینس کو واپس موڑ کر اس نے میری طرف دیکھا اور گھر کو چل دی۔

اس ملاقات کے بعد اس سے ہم کلام ہونے کی جھجھک دور ہوگئی۔ ہر روز شام کے وقت باؤلی پر یا چیڑ کے درختوں تلے میں اس سے کوئی نہ کوئی بات شروع کردیتا۔ شروع شروع میں ہماری گفتگو کا موضوع بھینس تھا۔ پھرمیں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا اور اس نے میرا۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ اصل مطلب کی طرف آگیا۔ ایک روز دوپہر کے وقت جب وہ نالے میں ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھی اپنے کپڑے دھو رہی تھی۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ مجھے کسی خاص بات کا اظہار کرنے پر تیار دیکھ کر اس نے جنگلی بلی کی طرح میری طرف گھور کر دیکھا۔ اور زور زور سے اپنی شلوار کو پتھر پر جھٹکتے ہوئے کہا، ’’آپ کشمیر کب جارہے ہیں۔ یہاں بٹوت میں کیا دھرا ہے جو آپ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘

یہ سن کر میں نے مستفسرانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ گویا میں اس کے سوال کا جواب خود اس کی زبان سے چاہتا ہوں۔ اس نے نگاہیں نیچی کرلیں اور مسکراتے ہوئے کہا، ’’آپ سیر کرنے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے سنا ہے کشمیر میں بہت سے باغ ہیں۔ آپ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘

موقع اچھا تھا۔ چنانچہ میں نے دل کے تمام دروازے کھول دیے۔ وہ میرے جذبات کے بہتے ہوئے دھارے کا شور خاموشی سے سنتی رہی۔ میری آواز نالے کے پانی کی گنگناہٹ میں جو ننھے ننھے سنگ ریزوں سے کھیلتا ہوا بہہ رہا تھا ڈوب ڈوب کر ابھر رہی تھی۔ ہمارے سروں کے اوپر اخروٹ کے گھنے درخت میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ ہوا اس قدر تروتازہ اور لطیف تھی کہ اس کا ہر جھونکا بدن پر ایک خوشگوار کپکپی طاری کردیتا تھا۔ میں اس سے پورا ایک گھنٹہ گفتگو کرتا رہا۔ اس سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی کا خواہش مند ہوں۔ یہ سن کروہ بالکل متحیر نہ ہوئی۔ لیکن اس کی نگاہیں جو دور پہاڑیوں کی سیاہی اور آسمان کی نیلاہٹ کو آپس میں ملتا ہوا دیکھ رہی تھیں، اس بات کی مظہر تھیں کہ وہ کسی گہرے خیال میں مستغرق ہے۔ کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد اس نے میرے اصرار پر صرف اتنا جواب دیا۔

’’اچھا آپ کشمیر نہ جائیں۔‘‘

یہ جواب اختصار کے باوجود حوصلہ افزا تھا۔۔۔ اس ملاقات کے بعد ہم دونوں بے تکلف ہوگئے۔ اب پہلا سا حجاب نہ رہا۔ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔ ایک روز میں نے اس سے نشانی کے طور پر کچھ مانگا تو اس نے بڑے بھولے انداز میں اپنے سر کے کلپ اتار کر میری ہتھیلی پر رکھ دیئے اور مسکرا کر کہا، ’’میرے پاس یہی کچھ ہے۔‘‘ یہ کلپ میرے پاس ابھی تک محفوظ ہیں۔

خیر کچھ دنوں کی طول طویل گفتگوؤں کے بعد میں نے اس کی زبان سے کہلوا لیا کہ وہ مجھ سے شادی کرنے پر رضا مند ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب اس روز شام کو اس نے اپنے گھڑے کو سر پر سنبھالتے ہوئے اپنی رضا مندی کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا کہ’’ہاں میں چاہتی ہوں۔‘‘ تو میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہوٹل کو واپس آتے ہوئے میں کچھ گایا بھی تھا۔ اس پر مسرت شام کے چوتھے روز جب کہ میں آنے والی ساعتِ سعید کے خواب دیکھ رہا تھا، یکا یک اس مکان کی تمام دیواریں گرپڑیں جن کو میں نے بڑے پیار سے استوار کیا تھا۔ بستر میں پڑا تھا کہ صبح سیالکوٹ کے ایک صاحب جو بغرض تبدیلی آب و ہوا بٹوت میں قیام پذیر تھے۔ اور ایک حد تک بیگو سے میری محبت کو جانتے تھے۔ میری۔۔۔ چارپائی پر بیٹھ گئے اور نہایت ہی مفکرانہ لہجہ میں کہنے لگے۔

’’وزیر بیگم سے آپ کی ملاقاتوں کا ذکر آج بٹوت کے ہر بچے کی زبان پر ہے۔ میں وزیر بیگم کے کیریکٹر سے ایک حد تک واقف تھا۔ اس لیے کہ سیالکوٹ میں اس لڑکی کے متعلق بہت کچھ سن چکا ہوں۔ مگر یہاں بٹوت میں اس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ایک ہفتہ پہلے یہاں کا قصائی اس کے متعلق ایک طویل حکایت سنا رہا تھا۔ پرسوں پان والا آپ سے ہمدردی کا اظہار کررہا تھا کہ آپ عصمت باختہ لڑکی کے دام میں پھنس گئے ہیں۔ کل شام کو ایک اور صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ ٹوٹی ہوئی ہنڈیا خرید رہے ہیں۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بعض لوگ ا س سے آپ کی گفتگو پسند نہیں کرتے۔ اس لیے کہ جب سے آپ بٹوت میں آئے ہیں وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ میں نے آپ سے حقیقت کا اظہار کردیا ہے۔ اب آپ بہتر سوچ سکتے ہیں۔

عصمت باختہ لڑکی، ٹوٹی ہوئی ہنڈیا، لوگ اس سے میری گفتگو کو پسند نہیں کرتے، مجھے اپنی سماعت پر یقین نہ آتا تھا۔ بیگو اور۔۔۔ اس کا خیال ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر جب دوسرے روز مجھے ہوٹل والے نے نہایت ہی راز دارانہ لہجے میں چند باتیں کہیں تو میری آنکھوں کے سامنے تاریک دھند سی چھا گئی، ’’بابو جی، آپ بٹوت میں سیر کے لیے آئے ہیں مگر دیکھتا ہوں کہ آپ یہاں کی ایک حسن فروش لڑکی کی محبت میں گرفتار ہیں، اس کا خیال اپنے دل سے نکال دیجیے۔ میرا اس لڑکی کے گھر آنا جانا ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس کو کچھ کپڑے بھی خرید دیے ہیں۔ آپ نے یقیناًاور بھی روپے خرچ کیے ہوں گے، معاف کیجیے مگر یہ سراسر حماقت ہے۔ میں آپ سے یہ باتیں ہرگز نہ کرتا کیونکہ یہاں بیسیوں عیش پسند مسافر آتے ہیں مگر آپ کا دل ان سیاہیوں سے پاک نظر آتا ہے۔ آپ بٹوت سے چلے جائیں، اس قماش کی لڑکی سے گفتگو کرنا اپنی عزت خطرے میں ڈالنا ہے۔‘‘

ظاہر ہے کہ ان باتوں نے مجھے بے حد افسردہ بنا دیا تھا۔ وہ مجھ سے سگریٹ، مٹھائی اور اسی قسم کی دوسری معمولی اشیا طلب کیا کرتی تھی اور میں بڑے شوق اور محبت سے اس کی یہ خواہش پوری کیا کرتا تھا۔ اس میں ایک خاص لطف تھا۔ مگراب ہوٹل والے کی بات نے میرے ذہن میں مہیب خیالات کا ایک تلاطم برپا کردیا۔ گزشتہ ملاقاتوں کے جتنے نقوش میرے دل و دماغ میں محفوظ تھے اور جنھیں میں ہرروز بڑے پیار سے اپنے تصور میں لا کر ایک خاص قسم کی مٹھاس محسوس کیا کرتا تھا، دفعتاً تاریک شکل اختیار کرگئے۔ مجھے اس کے نام ہی سے عفونت آنے لگی۔ میں نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ میرا دل جو ایک کالج کے طالب علم کے سینے میں دھڑکتا تھا، اپنے خوابوں کی یہ بری اور بھیانک تعمیر دیکھ کرچلا اٹھا۔ اس کی باتیں جو کچھ عرصہ پہلے بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں ریا کاری میں ڈوبی ہوئی معلوم ہونے لگیں۔

میں نے گزشتہ واقعات، بیگو کی نقل و حرکت، اس کی جنبش اور اپنے گردوپیش کے ماحول کو پیش نظر رکھ کر عمیق مطالعہ کیا تو تمام چیزیں روشن ہوگئیں، اس کا ہرشام کو ایک مریض کے ہاں دودھ لے کر جانا اور وہاں ایک عرصہ تک بیٹھی رہنا، باؤلی پر ہرکس و ناکس سے بیباکانہ گفتگو، دوپٹے کے بغیر ایک پتھر سے دوسرے پر اچھل کود، اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کہیں زیادہ شوخ اور آزاد روی۔۔۔ وہ یقیناًعصمت باختہ لڑکی ہے۔‘‘

میں نے یہ رائے مرتب تو کرلی۔ مگر آنسوؤں سے میری آنکھیں گیلی ہوگئیں۔ خوب رویا مگر دل کا بوجھ ہلکا نہ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ ایک بار، آخری بار اس سے ملوں اوراس کے منہ پر اپنے تمام غصے کو تھوک دوں۔ یہی صورت تھی جس سے مجھے کچھ سکون حاصل ہو سکتا تھا۔ چنانچہ میں شام کوباؤلی کی طرف گیا۔ وہ پگڈنڈی پر انار کی جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی میرا انتظار کررہی تھی۔ اس کو دیکھ کر میرا دل کسی قدر کڑھا۔ میرا حلق اس روز کی تلخی کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اس کے قریب پہنچا اور پاس ہی ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ چھلاں اس کی بھینس اور اس کا بچھڑا چند گزوں کے فاصلے پر بیٹھے جگالی کررہے تھے۔ میں نے گفتگو کا آغاز کرنا چاہا مگر کچھ نہ کہہ سکا۔ غصے اور افسردگی نے میری زبان پر قفل لگا دیا تھا۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ گئی، جیسے چشمے کے پانی میں کسی نے اپنے مٹی بھرے ہاتھ دھو دیئے ہیں۔ پھر وہ مسکرائی، یہ مسکراہٹ مجھے کسی قدرمصنوعی اور پھیکی معلوم ہوئی۔ میں نے سر جھکا لیا اور سنگ ریزوں سے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ شاید میرارنگ زرد پڑ گیا تھا۔ اس نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا، ’’آپ بیمار ہیں؟‘‘

اس کا یہ کہنا تھا کہ میں برس پڑا، ’ ’ہاں بیمار ہوں، اور یہ بیماری تمہاری دی ہوئی ہے، تمہیں نے یہ روگ لگایا ہے بیگو! میں تمہارے چال چلن کی سب کہانی سن چکا ہوں اور تمہارے سارے حالات سے باخبر ہوں۔‘‘

میری چبھتی ہوئی باتیں سن کر اور بدلے ہوئے تیور دیکھ کر وہ بھونچکا سی رہ گئی اور کہنے لگی، ’’اچھا تو میں اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ آپ کو میرے چال چلن کے متعلق سب کچھ معلوم ہو چکا ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ آپ کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔‘‘

میں چلایا، ’’گویا تم کو معلوم ہی نہیں۔ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو تو اپنی سیہ کاریوں کا سارا نقشہ تمہاری آنکھوں تلے گھوم جائے گا۔‘‘ میں طیش میں آگیا، کتنی بھولی بنتی ہو۔ جیسے کچھ جانتی ہی نہیں۔ پروں پر پانی پڑنے ہی نہیں دیتیں۔ میں کیا کہہ رہا ہوں، بھلا تم کیا سمجھو، جاؤ جاؤ بیگو، تم نے مجھے سخت دکھ پہنچایا ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ وہ بھی سخت مضطرب ہوگئی اور جل کر بول اٹھی، ’’آخر میں بھی تو سنوں کہ آپ نے میرے بارے میں کیا کیا سنا ہے۔ پر آپ تو رو رہے ہیں۔‘‘

’’ہاں، رو رہا ہوں۔ اس لیے کہ تمہارے افعال ہی اتنے سیاہ ہیں کہ ان پر ماتم کیا جائے۔ تم پاکبازوں کی قدر کیا جانو۔ اپنا جسم بیچنے والی لڑکی محبت کیا جانے۔ تم صرف اتنا جانتی ہو کہ کوئی مرد آئے اور تمہیں اپنی چھاتی سے بھینچ کر چومنا چاٹنا شروع کردے اور جب سیر ہو جائے تو اپنی راہ لے۔ کیا یہی تمہاری زندگی ہے۔‘‘

میں غصے کی شدت سے دیوانہ ہوگیا تھا۔ جب اس نے میری زبان سے اس قسم کے سخت کلمات سنے تو اس نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کی نظر میں یہ سب گفتگو ایک معمہ ہے۔ اس وقت طیش کی حالت میں میں نے اس کی حالت کو نمائشی خیال کیا اور ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا، ’’جاؤ! میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔ تم ناپاک ہو۔‘‘

یہ سن کر اس نے ڈری ہوئی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’آپ کو کیا ہوگیا ہے؟‘‘

’’مجھے کیا ہوگیا۔۔۔ کیا ہوگیا ہے۔‘‘ میں پھر برس پڑا، ’’اپنی زندگی کی سیاہ کاریوں پر نظر دوڑاؤ۔۔۔ تمہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ تم میری بات اس لیے نہیں سمجھتی ہو کہ میں تم سے شادی کرنے کا خواہش مند تھا، اس لیے کہ میرے سینے میں شہوانی خیالات نہیں، اس لیے کہ میں تم سے صرف محبت کرتا ہوں۔ جاؤ مجھے تم سے سخت نفرت ہے۔‘‘

جب میں بول چکا تو اس نے تھوک نگل کر اپنے حلق کو صاف کیا اور تھرتھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’’شاید آپ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ جان بوجھ کر انجان بن رہی ہوں۔ مگر سچ جانیے مجھے کچھ معلوم نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شام آپ سڑک پر سے گزر رہے تھے، آپ نے میری طرف دیکھا تھا اور مسکرا دیئے تھے۔ یہاں بیسیوں لوگ ہم لڑکیوں کو دیکھتے ہیں اور مسکرا کر چلے جاتے ہیں۔ پھر آپ متواتر باؤلی کی طرف آتے رہے۔ مجھے معلوم تھا آپ میرے لیے آتے ہیں مگر اسی قسم کے کئی واقعے میرے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ایک روز آپ نے میرے ساتھ باتیں کیں اور اس کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے ملنے لگے۔ آپ نے شادی کے لیے کہا میں۔۔۔ مان گئی۔ مگر اس سے پہلے اس قسم کی کئی درخواستیں سن چکی ہوں۔ جو مرد بھی مجھ سے ملتا ہے دوسرے تیسرے روز میرے کان میں کہتا ہے، ’’بیگو دیکھ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں۔ رات دن تو ہی میرے دل و دماغ میں بستی رہتی ہے۔‘‘ آپ نے بھی مجھ سے یہی کہا۔ اب بتائیے محبت کیا چیز ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ آپ نے دل میں کیا چھپا رکھا ہے۔ یہاں آپ جیسے کئی لوگ ہیں جو مجھ سے یہی کہتے ہیں، بیگو تمہاری آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں جی چاہتا ہے کہ صدقے ہو جاؤں۔ تمہارے ہونٹ کس قدر پیارے ہیں جی چاہتا ہے ان کو چوم لوں۔۔۔ وہ مجھے چومتے رہے ہیں کیا یہ محبت نہیں ہے؟

کئی بار میرے دل میں خیال آیا ہے کہ محبت کچھ اور ہی چیز ہے مگر میں پڑھی لکھی نہیں، اس لیے مجھے کیا معلوم ہو سکتا ہے۔ میں نے قاعدہ پڑھنا شروع کیا مگر چھوڑ دیا۔ اگرمیں پڑھوں تو پھر چھلاں اور اس کے بچھڑے کا پیٹ کون بھرے، آپ اخبار پڑھ لیتے ہیں اس لیے آپ کی باتیں بڑی ہوتی ہیں۔ میں کچھ نہیں سمجھ سکتی چھوڑیئے۔ اس قصے کو آئیے کچھ اورباتیں کریں مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ میری ماں کہہ رہی تھیں کہ بیگو تو ہیٹ والے بابو کے پیچھے دیوانی ہوگئی ہے۔‘‘

میری نظروں کے سامنے سے وہ تاریک پردہ اٹھنے لگا تھا جو اس انجام کا باعث تھا۔ مگر دفعتاً میرے جوش اور غصے نے پھر اسے گرا دیا۔ بیگو کی گفتگو بے حد سادہ اور معصومیت سے پر تھی مگر مجھے اس کا ہر لفظ بناوٹ میں لپٹا نظر آیا۔ میں ایک لمحہ بھی اس کی اہمیت پر غور نہ کیا۔

’’بیگو، میں بچہ نہیں ہوں کہ تم مجھے چکنی چیڑی باتوں سے بیوقوف بنالوگی۔‘‘ میں نے غصہ میں اس سے کہا، ’’یہ فریب کسی اور کو دینا۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، تم نے ابھی ابھی اپنی زبان سے اس بات کا اعتراف کیا ہے اب میں کیا کہوں۔‘‘

’’نہیں نہیں کہیے!‘‘ اس نے کہا۔

’’کئی لوگ تمہارے منہ کو چومتے رہے ہیں۔ تمہیں شرم آنی چاہیے!‘‘

’’ہاں آپ تو سمجھتے ہی نہیں۔ اب میں کیا جھوٹ بولتی ہوں۔ میں خود تھوڑا ہی ان کے پاس جاتی ہوں اور منہ بڑھا کر چومنے کو کہتی ہوں۔ اگر آپ اس روز میرے بالوں کو چومنا چاہتے جبکہ آپ ان کی تعریف کررہے تھے، تو کیا میں انکار کردیتی! میں کس طرح انکار کرسکتی ہوں، مجھے چھلاں بہت پیاری لگتی ہے اور میں ہر روز اس کو چومتی ہوں۔ اس میں کیا ہرج ہے میں چاہتی ہوں کہ لوگ میرے بالوں، میرے ہونٹوں اور میرے گالوں کی تعریف کریں اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے، خبر نہیں کیوں؟ میں صبح سویرے اٹھتی ہوں اور چھلاں کو لے کر گھاس چرانے کے لیے باہر چلی جاتی ہوں، دوپہر کوروٹی کھا کر پھر گھر سے نکل آتی ہوں۔ شام کو پانی بھرتی ہوں۔ ہر روز میرا یہی کام ہے، مجھے یاد ہے کہ آپ نے مجھ سے کئی مرتبہ کہا تھاکہ میں پانی بھرنے نہ آیا کروں۔ بھینس نہ چرایا کروں۔ شاید آپ اسی وجہ سے ناراض ہورہے ہیں۔ مگر یہ تو بتائیے کہ میں گھر پر رہوں تو پھر آپ ملاقات کیونکر کرسکیں گے؟ میں نے سنا ہے کہ پنجاب میں لڑکیاں گھر سے باہر نہیں نکلتیں مگر ہم پہاڑی لوگ ہیں، ہمارا یہی کام ہے۔

’’تمہارا یہی کام ہے کہ ہر رہ گذر سے لپٹنا شروع کردو۔ تم پہاڑی لوگوں کے چلن مجھ سے چھپے ہوئے نہیں، یہ تقریر کسی اور کو سنانا۔ گھر پر رہو یا باہر رہو۔ اب مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ان پہاڑیوں میں رہ کر جو سبق تم نے سیکھا ہے وہ مجھے پڑھانے کی کوشش نہ کرو‘‘

’’آپ بہت تیز ہو جاتے جارہے ہیں، بہت چل نکلے ہیں۔‘‘ اس نے قدرے بگڑ کر کہا، ’’معلوم ہوتا ہے لوگوں نے آپ کے بہت کان بھرے ہیں۔ مجھے بھی تو پتہ لگے کہ وہ کون‘‘، ’’مرن جوگے‘‘ ہیں جو میرے متعلق آپ کو ایسی باتیں سناتے رہے ہیں۔ آپ خواہ مخواہ اتنے گرم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ میں مردوں کے ساتھ باتیں کرتی ہوں ملتی ہوں مگر۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس کے گال سرخ ہوگئے۔ مگر میں نے اس کی طرف دھیان نہ دیا۔

ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولی۔ آپ کہتے ہیں کہ میں بری لڑکی ہوں یہ غلط ہے۔ میں پگلی ہوں۔۔۔ سچ مچ پگلی ہوں۔ کل آپ کے چلے جانے کے بعد میں پتھر پر بیٹھ کر دیر تک روتی رہی۔ جانے کیوں۔ ایسا کئی دفعہ ہوا ہے کہ میں گھنٹوں رویا کرتی ہوں۔ آپ ہنسیں گے مگر اس وقت بھی میرا جی چاہتا ہے کہ یہاں سے اٹھ بھاگوں اور اس پہاڑی کی چوٹی پر بھاگتی ہوئی چڑھ جاؤں اور پھر کودتی پھاندتی نیچے اتر جاؤں۔ میرے دل میں ہر وقت ایک بے چینی سی رہتی ہے۔ بھینس چراتی ہوں، پانی بھرتی ہوں، لکڑیاں کاٹتی ہوں۔ لیکن یہ سب کام میں اوپرے دل سے کرتی ہوں۔ میرا جی کسی کو ڈھونڈتا ہے۔ معلوم نہیں کس کو۔۔۔ میں دیوانی ہوں۔‘‘

بیگو کی یہ عجیب و غریب باتیں جو درحقیقت اس کی زندگی کا ایک نہایت الجھا ہوا باب تھیں اور جسے بغور مطالعہ کرنے کے بعد سب راز حل ہو سکتے تھے، اس وقت مجھے کسی مجرم کا غیر مربوط بیان معلوم ہوئیں، بیگو اور میرے درمیان اس قدر تاریک اور موٹا پردہ حائل ہوگیا تھا کہ حقیقت کی نقاب کشائی بہت مشکل تھی۔

’’تم دیوانی ہو۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’کیا مردوں کے ساتھ بیٹھ کر جھاڑیوں کے پیچھے پہروں باتیں کرتے رہنا بھی اس دیوانگی ہی کی ایک شاخ ہے۔۔۔؟ بیگو، تم پگلی ہو مگر اپنے کام میں آٹھوں گانٹھ ہوشیار!‘‘

’’میں باتیں کرتی ہوں، ان سے ملتی ہوں، میں نے اس سے کب انکار کیا ہے۔ ابھی ابھی میں نے آپ سے اپنے دل کی سچی بات کہی تو آپ نے مذاق اڑانا شروع کردیا اب اگرمیں کچھ اور کہوں تو اس سے کیا فائدہ ہو گا۔ آپ کبھی مانیں گے ہی نہیں۔‘‘

’’نہیں، نہیں، کہو، کیا کہتی ہو، تمہارا نیا فلسفہ بھی سن لوں۔‘‘

’’سُنیے پھر۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تھکی ہوئی ہرنی کی طرح میری طرف دیکھا اور آہ بھر کربولی، ’’یہ باتیں جو میں آج آپ کو سنانے لگی ہوں میری زبان سے پہلے کبھی نہیں نکلیں۔ میں یہ آپ کو بھی نہ سناتی مگر مجبوری ہے۔ آپ عجیب و غریب آدمی ہیں۔ میں بہت سے لوگوں سے ملتی رہی ہوں۔ مگر آپ بالکل نرالے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے آپ سے۔۔۔ وہ ہچکچائی، ہاں آپ سے پیار ہو گیا ہے۔ آپ نے کبھی مجھ سے غیر بات نہیں کہی۔ حالانکہ میں جس سے ملتی رہی ہوں وہ مجھ سے کچھ اور ہی کہتا تھا۔ میری اماں جانتی ہے کہ میں گھر میں ہر وقت آپ ہی کی باتیں کرتی رہتی ہوں میرا منہ تھکتا ہی نہیں۔ آپ نے نہیں کہا، پر میں نے گاہکوں کے پاس دودھ لے جانا چھوڑ دیا۔ لوگوں سے باتیں کرنا چھوڑ دیں۔ پانی بھرنے کے لیے بھی زیادہ چھوٹی بہن ہی کو بھیجتی رہی ہوں۔ آپ کے آنے سے پہلے میں لوگوں سے ملتی رہی ہوں۔ اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں ان سے کیوں ملتی تھی۔۔۔ مجھے کوئی مرد بھی بلاتا تو میں اسی سے باتیں کرنے لگتی تھی۔ اس لیے۔۔۔ نہیں نہیں میں نہیں بتاؤں گی۔۔۔ میرا دل جو چاہتا تھا وہ ان لوگوں کے پاس نہیں تھا، میں بری نہیں، اللہ کی قسم، بے گناہ ہوں، خدا معلوم لوگ مجھے برا کیوں کہتے ہیں۔ آپ بھی مجھے بُرا کہتے ہیں۔

جس طرح آپ نے آج میرے منہ پر اتنی گالیاں دی ہیں اگر آپ کے بجائے کوئی اور ہوتا تو میں اس کا منہ نوچ لیتی مگر آپ۔۔۔ اب میں کیا کہوں، میں بہت بدل گئی ہوں، آپ بہت اچھے آدمی ہیں۔ میں خیال کرتی تھی کہ آپ مجھے کچھ سکھائیں گے، مجھے اچھی اچھی باتیں بتائیں گے۔ لیکن آپ مجھ سے خواہ مخواہ لڑ رہے ہیں۔۔۔ آپ کو کیا معلوم کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتی ہوں۔ میں نے آپ کے سامنے کبھی گالی نہیں دی۔ حالانکہ ہمارے گھر سارا دن گالی گلوچ ہوتی رہتی ہے۔‘‘

میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ڈاکٹر صاحب! اس پہاڑی لڑکی کی گفتگو کس قدر سادہ تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اس وقت میرے کانوں میں روئی ٹھنسی ہوئی تھی۔ اس کے ہر لفظ سے مجھے عصمت فروشی کی بو آرہی تھی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا۔

’’بیگو! تم ہزار قسمیں کھاؤ۔ مگر مجھے یقین نہیں آتا۔ اب جو تمہارے جی میں آئے کرو۔ میں کل بٹوت چھوڑ کر جا رہا ہوں میں نے تم سے محبت کی، مگر تم نے اس کی قدر نہ کی۔ تم نے میرے دل کو بہت دکھ دیا ہے۔۔۔ خیر اب جاتا ہوں، مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔‘‘

مجھے جاتا دیکھ کر وہ سخت مضطرب ہوگئی اور میرا بازو پکڑ کر اور پھر اسے فوراً ڈرتے ہوئے چھوڑ کرتھرائی ہوئی آواز میں صرف اس قدر کہا، ’’آپ جارہے ہیں؟‘‘

میں نے جواب دیا، ’’ہاں جارہا ہوں تاکہ تمہارے چاہنے والوں کے لیے میدان صاف ہو جائے۔‘‘

’’آپ نہ جائیے، اللہ کی قسم میرا کوئی چاہنے والا نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نمناک ہوگئیں، ’’نہ جانئے، نہ جائیے نہ۔۔۔‘‘ آخری الفاظ اس کی گلوگیر آواز میں دب گئے۔ اس کا رونا میرے دل پر کچھ اثر نہ کرسکا۔ میں چل پڑا۔ مگر اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور روتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ خفا کیوں ہوگئے ہیں۔ میں آئندہ کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔ اگر آپ نے مجھے کسی مرد کے ساتھ دیکھا تو آپ اس چھڑی سے جتنا چاہیے پیٹ لیجیے گا۔ آئیے گھر چلیں۔ میں آپ کے لیے حقہ تازہ کرکے لاؤں گی۔‘‘

میں خاموش رہا اور اس کا ہاتھ چھوڑ کر پھر چل پڑا۔ اس وقت بیگو سے ایک منٹ کی گفتگو کرنا بھی مجھے گراں گزر رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی میری نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائے، میں نے بمشکل دو گز کا فاصلے طے ہوگا کہ وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی۔ اس کے بال پریشان تھے، آنکھوں کے ڈورے سرخ اور ابھرے ہوئے تھے، سینہ آہستہ آہستہ دھڑک رہا تھا۔

اس نے پوچھا، ’’کیا آپ واقعی جارہے ہیں؟‘‘

میں نے تیزی سے جواب دیا، ’’تو اور کیا جھوٹ بک رہا ہوں۔‘‘

’’جائیے۔‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور گال آنسوؤں کی وجہ سے میلے ہورہے تھے مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک ناچ رہی تھی۔

’’جائیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ الٹے پاؤں مڑی۔ اس کا قد پہلے سے لمبا ہوگیا تھا۔

میں نے نیچے اترنا شروع کردیا۔ تھوڑی دور جا کر میں نے جھاڑیوں کے پیچھے سے رونے کی آواز سنی۔ وہ رو رہی تھی۔ وہ تھرائی ہوئی آواز ابھی تک میرے کانوں میں آرہی ہے۔ یہ ہے میری داستان ڈاکٹر صاحب، میں نے اس پہاڑی لڑکی کی محبت کو ٹھکرا دیا۔ اس غلطی کا احساس مجھے پورے دو سال بعد ہوا۔ جب میرے ایک دوست نے مجھے یہ بتایا کہ بیگو نے میرے جانے کے بعد اپنے شباب کو دونوں ہاتھوں سے لٹانا شروع کردیا اور دق کے مریضوں سے ملنے کی وجہ سے وہ خود اس کا شکار ہوگئی۔ بعد ازاں مجھے معلوم ہوا کہ اس مرض نے بالآخر اسے قبر کی گود میں سلا دیا۔۔۔ اس کی موت کا باعث میرے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ وہ زندگی کی شاہراہ پر اپنا راستہ تلاش کرتی تھی مگر میں اس کو بھول بھلیوں میں چھوڑ کر بھاگ آیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھٹک گئی، میں مجرم تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے لیے وہی موت تجویز کی جس سے وہ دوچار ہوئی۔ وہ وزن جو میں پانچ سال اپنی چھاتی پر اٹھائے پھرتا رہا ہوں، خدا کا شکر ہے کہ اب ہلکا ہوگیا ہے۔

میں مریض کی داستان خاموشی سے سنتا رہا۔ وہ بول چکا تو پھر بھی خاموش رہا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کے جذبات پررائے زنی کروں۔ چنانچہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ مجھے کئی مریضوں کی داستانیں سننے کا اتفاق ہوا ہے مگر یہ نہایت عجیب و غریب اور پر اثر داستان تھی۔ گو مریض بیماری کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ مگر حیرت ہے کہ اس نے اپنے طویل بیان کو کس طرح جاری رکھا۔

صبح کے وقت میں اس کا ٹمپریچر دیکھنے کے لیے آیامگر وہ مر چکا تھا۔ سفید چادر اوڑھے وہ بڑے سکون سے سو رہا تھا۔ جب اس کو غسل دینے لگے تو ہسپتال کے ایک نوکر نے مجھے بلایا، ’’ڈاکٹر صاحب اس کی مٹھی میں کچھ ہے۔‘‘ میں نے اس کی بند مٹھی کو آدھا کھول کر دیکھا، لوہے کے دو کلپ تھے۔ اس کی بیگو کی یادگار! ’’ان کو نکالنا نہیں، یہ اس کے ساتھ ہی دفن ہوں گے۔ میں نے غسل دینے والوں سے کہا اور دل میں غم کی ایک عجیب و غریب کیفیت لیے دفتر چلا گیا۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.