Jump to content

بیوی کیسی ہونا چاہیے

From Wikisource
بیوی کیسی ہونا چاہیے
by چودھری محمد علی ردولوی
331408بیوی کیسی ہونا چاہیےچودھری محمد علی ردولوی

مجھ سے سوال کیا گیا کہ بی بی کیسی ہونا چاہیے، میں کہتا ہوں کہ کوئی بری بی بی مجھ کو دکھادے تو میں اس سوال کاجواب دوں۔ میرے خیال میں بی بی خدا کی نعمت ہے اور خدا کی نعمت کبھی بری نہیں ہوتی۔ بیوی کی وجہ سے گھر میں روشنی سی پھیلی رہتی ہے۔ چراغ کے نیچے ذرا سا اندھیرا بھی ہوتا ہے، جیسا کہ میں ایک مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اگر کوئی نادان مرد ذری سی تاریکی سے گھبراکر چراغ کی شکایت کرے تو اندھیرا ہی تو ہے۔ میں اس کا بھی دعوے دار ہوں کہ میں نے آج تک کوئی بدصورت عورت بھی نہیں دیکھی۔ آنکھیں رکھتا ہوں اور دنیا دیکھتی ہے، اگر کہیں ہوتی تو آخر میں نہ دیکھتا۔

اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بدصورت سے بدصورت جو کہی جاسکتی ہے اس کا بھی چاہنے والا کوئی نہ کوئی نکل آتا ہے۔ پھر اگر وہ بدصورت تھی تو یہ پرستش کرنے والا کہاں سے پیدا ہوگیا۔ اس لیلیٰ کا مجنوں کہاں سے آگیا، نہیں صاحب عورت بدصورت نہیں ہوتی یہ میرا ایمان ہے او ریہی ایمان ہرشخص کا ہونا چاہیے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ عورت میں عمدہ ترشے ہوئے ہیرے کی طرح ہزاروں پہل ہوتے ہیں اور ہر پہل میں آفتاب ایک نئے رنگ سے مہمان ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی پہل کسی (خاص شخص) کی آنکھ میں ضرورت سے زیادہ چکاچوندھ پیدا کردے، اور وہ پسند نہ کرے تو اس سے بی بی کی برائی کہاں سے ثابت ہوئی۔

ایک پرانے یونانی ڈرامہ نویس نے لکھا ہے کہ پہلے مرد اور عورتیں اس طرح ہوتے تھے کہ دونوں کی پیٹھ ایک دوسرے سے جڑی ہوتی تھی اور یہ لوگ راستہ اس طرح چلتے تھے کہ پہلے چاروں ہاتھ زمین پر لگے اور دونوں سر نیچے آگیے۔ اور چاروں پاؤں سر کی جگہ ہوا میں رہے۔ اس طرح کے بعد پلٹا کھایا اور چاروں پاؤں کے بل کھڑے ہوگیےاور اس طرح آگے بڑھتے گیے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسی حالت میں یہ لوگ راستہ بہت تیز چلتے تھے اور چونکہ دو دو آدمی ملے ہوئے تھے اس لیے ان کی قوتیں بھی دوگنی تھیں۔ دیوتاؤں نے ان کی شورہ پشتی کی وجہ سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے، آخرکار یہ صلاح ٹھہری کہ یہ بیچ سے علیحدہ کردیے جائیں تاکہ ان کی قوتیں آدھی رہ جائیں اور ان کے چڑھاوے دوگنے ہوجائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، تب سے ہر عورت اور ہر مرد اپنا اپنا جوڑا ڈھونڈھتے پھرتے ہیں، جن کو مل جاتا ہے وہ خوش رہتے ہیں، جن کو بدقسمتی سے نہ ملا وہ غریب عورت کو دکھ دیتے ہیں۔

کسی کو بے زبان نموہی بیوی پسند ہے، کسی کو ایسی عورت اچھی لگتی ہے جس کی زبان ہر وقت کترنی کی طرح چلتی رہے، اگر خوش قسمتی سے وہی قدیم جوڑا مل گیا تو دونوں خوش ہیں، نہیں تو بی بی غریب کو برا کہتے ہیں، آخر اس غریب کا جوڑا بھی تو بچھڑ گیا ہے مگر اس کی کوئی بات بھی نہیں پوچھتا۔ یہ خیال غلط ہے کہ صرف اچھوں ہی اچھے کا ساتھ مزے دار ہوتا ہے۔ اگر تال میل ہوا اور پرگت مل گئی تو جن لوگوں کو ہم اپنے زعم ناقص میں براسمجھتے ہیں ان کی بھی زندگی لطف کی گزرتی ہے۔ آپ نے سنا نہیں

خدا کے فضل سے اترا تھا کیا ہی عرش سے جوڑا
نہ مجھ سا کوئی گرگا ہو نہ تم سی کوئی شفتل ہو

ہمارے پڑوس میں ایک میاں بی بی رہتے ہیں جن کا جوڑا پوری طور سے مل گیا ہے۔ یہ دونوں آدمی انتہا درجے کے کاہل، پرلے سرے کے جھوٹے اور حد کے نکارے ہیں، مگر جب دیکھیے دونوں قمریوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور گل بہیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، کسی نے ان بچوں کا دھویا ہوا منھ کبھی نہیں دیکھا۔ کپڑے ان لوگوں کے تن پر سے کٹ کے گرجاتے ہیں مگر دھوبی کو دینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ بچوں کے کپڑوں میں ذرا سی پھونک بڑھ کے نیچے سے اوپر تک پہنچ جاتی اور پھٹ کر علیحدہ ہوجاتی ہے مگر سوئی تاگے کی شرمندہ نہیں ہوتی۔ میں نے ایک دن اس عورت سے پوچھا کہ تمہارے میاں تم کو چاہتے ہیں، کہنے لگی کہ اتنا چاہتے ہیں کہ کھانا لیے بیٹھے رہتے ہیں، مگر بغیر میرے نہیں کھاتے۔ دوسری مثال محبت کی دی کہ کل صبح بٹیر کے شکار کو جارہے تھے، میں نے کہا روز جاتے ہو مگر کبھی ایک پر بھی گھر میں نہ آیا۔ بس غصے میں ایک ڈنڈا میری پیٹھ پر رسید کیا، میں بھی دوپہر تک منھ پھلائے رہی اور نہیں بولی۔ تب دوڑے گیے، تیل کی جلیبیاں لے آئے، تب میں بولی، کبھی برابر کے جوڑ میں لطف آتا ہے، کبھی ایک نرم اور ایک گرم، زندگی کو آرام دہ بنادیتے ہیں۔

کسی رانڈ بیوہ کے یہاں ایک طوطا پلا تھا۔ وہ ہروقت اس عورت کو مغلظات سنایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے یہاں ایک پیرصاحب تشریف لائے۔ طوطے کو سن کر کہنے لگے، ارے تیرا طوطا بڑا فحاش ہے، پنجرا کھول دے یہ اڑے جائے، کہنے لگی، رہنے دیجیے میاں صاحب گھر میں مردوے کی ایسی بولی تو سنائی دیتی ہے۔

کوئی شخص شراب بہت پیتا تھا۔ اس نے پادری کے کہے سے شراب ترک کردی۔ کچھ دنوں کے بعد پادری صاحب اپنے پندونصائح پر ناز کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور پوچھا کہ کہو اب تمہارے میاں ماردھاڑ دنگافساد تو نہیں کرتے، نہایت مایوسی سے کہنے لگی، ارے حضور اب تو وہ میاں ایسے معلوم ہی نہیں ہوتے، کوئی دیکھے تو کہے مہمان طریق گھر میں آئے ہیں۔

چارلس ڈکنس نے ایک شخص سائکس امےکا حال لکھا ہے کہ وہ بھی اپنی نیک شریف خصلت، محنتی، چاہنے والی بیوی کو نہ صرف مارتا ہی تھا بلکہ جو کچھ محنت مزدوری کرکے وہ کمالاتی تھی، وہ بھی شراب میں اڑا دیتا تھا اور خود اس میں دنیا کا کوئی عیب نہ تھا جو نہ ہو۔ چور پر لے سرے کا تھا، ایک ہمدرد نے اس عورت کو مشورہ دیا کہ اس کو چھوڑدے، اس نے کہا کہ افسوس ہے دنیا اس کی برائی سے واقف ہے، خوبی سے نہیں واقف۔ اب ان باتوں کے بعد کوئی کیا کہہ سکتا ہے کہ کون مرد اچھا ہےاور کون عورت۔

میرے ایک دوست ایک ڈپٹی صاحب کا حال بیان کرتے ہیں کہ وہ دورے پر تھے اور میں ان سے ملنے گیا۔ معلوم ہوا کہ ڈپٹی صاحب غسل فرمارہے ہیں۔ یہ بیٹھے رہے، جب دیر ہوئی تو انھوں نے پھر دریافت کیا معلوم ہوا ابھی تک غسل میں ہیں۔ سرکاری کام تھا جس کے ناتمام رہ جانے میں دونوں کی بدنامی تھی۔ اس وجہ سے سنگ آمد سخت آمد انتظار کرتے رہے۔ مگر ڈپٹی صاحب آج نکلنے کا نام لیتے ہیں نہ کل۔ ان کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں، مگر ان کی برآمدگی کی کوئی صورت نہیں دکھائی دیتی۔ خیر کئی گھنٹوں کے بعد طلبی ہوئی تو یہ کیا دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی صاحب دفتر کی میز کے پاس کرسی پر بڑی شان سے تشریف فرما ہیں۔ مسلوں کا ڈھیر لگا ہے مگر خالی پتلون اور کھڑاؤں پہنے بیٹھے ہیں۔ کاندھوں پر پتلون کی گیلس البتہ دکھائی دیتی ہے۔ کام پورا کرکے جب یہ باہر نکلے، نہ تاب ہوئی، اردلی سے انوکھی وضع کا سبب پوچھ ہی بیٹھے۔ معلوم ہوا بیگم کو کسی بات پر غصہ آگیا ہے۔ انھوں نے حکم دیا کہ آج اس مونڈی کاٹے کو کپڑے نہ دیے جائیں۔ خیال تو کیجیے جاڑوں کا مہینہ خیمہ کی زندگی لیکن اگر ڈپٹی صاحب کو یہ باتیں پسند ہیں تو ہم آپ برا ماننے والے کون۔

پیٹر پنڈر نے لکھا ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اپنی بی بی کو مارتا ہے، مجھے ایسا جوش پیدا ہوا کہ میں گھر میں گھس گیا اور اس عورت کو بچانے لگا، میرا یہ کرنا تھا کہ دونوں میرے اوپر پلٹ پڑے اور مجھ کو مار کے باہر کردیا۔ لیجیے صاحب ہم تم راضی تو کیا کریں قاضی، غالب نے کہا ہے:

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں تو وہ کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں

کیوں صاحب اگر کسی کو فتنہ وفساد ہی والا شریک زندگی پسند ہو تو ہماری آپ کی پسندیدگی ناپسندیدگی کیا چیز ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بی بی اچھی اور یہ بری ہے۔ اکثروں کو آس پاس کے گھروں سے اس طرح کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا ہوگا کہ ارے یہ ہاتھ تھکیں، الٰہی تن تن کوڑھ ٹپکے، مچ مچاتی کھاٹ نکلے، تب میرے دل میں ٹھنڈک پڑے۔ اڑوسی پڑوسی ادھر ادھر کھڑے نفرین کر رہے ہیں کہ بھئی کیا برے لوگ ہیں۔ کیا کتے بلی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیجیے صاحب شور و شغب مٹ گیا۔ میاں نکل کر اپنے کام پر چلے گیے، بی ہمسائی کچھ تو ہمدردی کرنے کے خیال سے اور زیادہ تر ٹوہ لینے کو کھڑکی کی طرف سے اندر داخل ہوئیں۔ دیکھا کہ اک طرف کا گال سوجا ہوا ہے، آنکھوں کی لالی باوجود منھ دھونے کے ابھی مٹی نہیں ہے۔ حال تو سب پہلے ہی سے جانتی تھیں، مگر انجان بن کر پوچھنے لگی۔ اے بہن یہ کیا ہوا، جواب ملا بہن کیا کہیں، آپ ہی لڑے، آپ ہی خفا ہوکر چلے گیے، کھانا بھی نہیں کھایا، یہ دیکھو ویسے ہی رکھا ہے، پان کی ڈبیا بھی نہیں لے گیے، دل کڑھتا ہے کہ دن بھر بن پان کے رہیں گے، منھ صابن ہوجائے گا۔ لیجیے صاحب یہ تو گئی تھیں کہ وہ میاں کی اگر ایک برائی کریں گی تو ہم دس کریں گے۔ وہاں رنگ ہی دوسرا دیکھا۔ اپنا سا منھ لے کر چلی آئیں۔

ایک دوسرے مرحوم دوست کہا کرتے تھے کہ بی بی کے ناز وانداز ہر طرح کے اٹھائے جاسکتے ہیں، لیکن ایک بات ناقابل معافی ہے، وہ یہ کہ یہ لوگ کبھی کبھی مرجاتی ہیں۔ اسی کے مقابل یہ دوسرا لطیفہ سنیے۔

ایک صاحب نے بیان کیا کہ میری بی بی دو ہی برس کے اندر داغ مفارقت دے گئیں۔ ذرا سا لڑکا ایک پھوسڑا اپنی نشانی چھوڑ گئیں۔ میری ایک بڑی سالی تھیں جو شاید اسی انتظار میں پہلے ہی سے رنڈاپا کھے رہی تھیں۔ خوش دامن صاحبہ کہنے لگیں، میاں تمہاری سالی موجود ہے اگر عقد کرلیتے تو مردہ رشتہ پھر زندہ ہوجاتا۔ میں نے بھی سوچا کہ اب وہ جوان جہاں نہ رہی تو یہ ادھیڑ کیا رہے گی، لاؤ کر بھی لو۔ لڑکے کی خالہ ہے، بچہ بھی پل جائے گا، جہیز بھی اچھا خاصا ہاتھ لگے گا۔ ان کے مرنے کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ اپنی ہم سن ڈھونڈھ کر کرلیں گے۔

لیجیے صاحب عقد ہونے کو تو ہوگیا مگر وہ آج مرتی ہیں نہ کل۔ وہ تو پہلے ہی سے بوڑھی تھیں، میرے بھی دانت گر گیے، مگر وہ جانے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ ادھر میں کہیں سفر کو تیار ہوا اور ادھر وہ امام ضامن لیے ڈیوڑھی کے پاس پہنچ گئیں۔امام ضامن کی ضمانت میں سونپا کہو قبول کیا۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے جاتے ہو اسی طرح اصل خیر سے واپس آکر منہ دکھانا نصیب ہو۔ان صاحب کا بیان ہے کہ بڑی بی بی کے مرنے سے تو مایوسی ہوہی چکی ہے۔ میں نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہے کہ ادھر انھوں نے امام ضامن باندھا، ادھر میں نے بھی ایک چیتھڑا لے کر ان کے داہنے بازو پر باندھ دیا اور کہنا شروع کیا،’’خدا تمہارے سائے میں ہمیں پروان چڑھائے۔‘‘وہ پوپلا منھ بٹوا سا لے کر ہنسنے لگیں، ہٹو بھی تمہاری مذاخ۔۔۔ کی باتیں کبھی نہ جائیں گی۔

اب ذرا غور فرمائیے۔ اگر ان صاحب کو کہیں ہم نے صلاح دی ہوتی کہ بڑی سالی سے کرلو تو خدا واسطے کو، ہم ہی تو بدنام ہوتے۔ نہیں صاحب اس معاملے میں یہی ٹھیک ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ؛

مذاق عشق یہ ہے نکتہ چیں نہ بن ناصح
نگاہ میری، پرکھ میری، آنکھ میری ہے

جنھیں نظر نہیں اے آرزو وہ کیا جانیں
خزف سمیٹے ہیں یا موتیوں کی ڈھیری ہے؟


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.