Jump to content

بہادر شاہ بادشاہ کی درویشی

From Wikisource
بہادر شاہ بادشاہ کی درویشی
by حسن نظامی
319529بہادر شاہ بادشاہ کی درویشیحسن نظامی

دلی کے آخری بادشاہ ایک درویش صفت بادشاہ گذرے ہیں۔ ان کی فقیری اور فقیر دوستی کی سینکڑوں مثالیں دہلی اور اطراف ہند میں مشہور ہیں اور دہلی میں تو ابھی سینکڑوں آدمی موجود ہیں جنہوں نے اس خرقہ پوش سلطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے ان کے درویشانہ کلام کو سنا۔

بہادر شاہ بڑے عابد بادشاہ تھے۔ ملک کے کاروبار تو سب انگریز کمپنی کے ہاتھوں میں تھے، اس لئے بادشاہ کو سوائے یاد خدا اور صوفیانہ کلمہ کلام کے اور کچھ کام نہ کرنا پڑتا تھا۔ دربار آراستہ ہوتا تو اس میں بھی اقلیم باطن کے حکم احکام سنائے جاتے اور شاعرانہ پیرایہ میں تصوف کے حقائق و معارف کا چرچا رہتا۔ چنانچہ قاعدہ تھا کہ جب درباری لوگ دیوان عام یا دیوان خاص میں جمع ہو جاتے تو حضور ظل سبحانی دربار میں برآمد ہونے کے محل سے چلنے کی تیاری کرتے۔ جو نہی بادشاہ کا قدم اٹھتا، محل کی نقیب عورت آواز لگاتی، ’ہوشیار ادب قاعدہ نگاہ دار‘ یہ لال پردہ محل خاص کی ڈیوڑھی کا نام تھا، وہاں سے اس عورت کی آواز دربار کے مرد نقیب سنتے اور وہ بھی ’ہوشیار ادب قاعدہ نگاہ دار‘ کا نعرہ بلند کرتے تھے، جس کو سن کر تمام درباری سمٹ سمٹا کر قرینے قرینے سے اپنے مقام پر آن کھڑے ہوتے۔ اس وقت عجب عالم ہوتا تھا کہ تمام امراء و وزراء گردنیں جھکائے، آنکھیں نیچی کئے دست بستہ کھڑے ہیں۔ مجال نہیں کوئی نگاہ اٹھا کر دیکھ سکے یا اپنے جسم کو بیکار جنبش دے۔ تمام دربار میں ایک سکتے کی حالت ہوتی تھی۔ جس وقت حضور السلطان مخفی ڈیوڑھی سے تخت پر ظہور کر چکتے تو نقیب پکارتا، ’ظل الٰہی بر آمد کرد، مجرا ادب سے۔ ‘ یہ سنتے ہی ایک امیر سہما سہما اپنی جگہ سے آگے بڑھتا اور بادشاہ کے سامنے ایک مقام پر جا کر کھڑا ہوتا جس کو جائے ادب کہتے تھے اور وہاں جھک کر تین کو رنش بجا لاتا۔ جس وقت یہ کورنش ادا کی جاتی، چو بدار امیر کی حیثیت اور شان کے موافق تعارف کا لفظ پکارتا اور بادشاہ کو اس کو رنش کی جانب توجہ دلاتا۔ الغرض اسی طرح تمام درباری درجہ بدرجہ مجراو کورنش کے مراسم ادا کرتے تھے۔ جب یہ تمام مراسم ادا ہو چکتیں تو حضور السلطان ارشاد فرماتے، ’’ آج ہم نے ایک غزل کہی ہے اور غزل کا پہلا شعر فرماتے ہیں۔‘‘ شعر سنتے ہی ایک امیر اپنی جگہ سے پھر سہما سہما جائے ادب پر جاتا اور گردن جھکا کر عرض کرتا، ’’سبحان اللہ! کلام الملوک ملوک الکلام۔‘‘ اورپھر اپنے مقام پر آ کھڑا ہوتا۔ اسی طرح ہر شعر پر مختلف امراء جائے ادب پر جا کر حق مدح و ثنا ادا کرتے تھے۔ بہادر شاہ کا کلام ابتدا سے تصوف آمیز اور حسرت خیز تھا جس سے بوئے درد و عبرت آتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے شگفتہ مضامین میں بھی مایوسی و اداسی کی جھلک نظر آتی ہے۔ بہادر شاہ مرید بھی کرتے تھے اور جو شخص مرید ہوتا، پانچ روپیہ ماہوار اس کے مقرر ہو جاتے تھے۔ اس لیے کثرت سے لوگ ان کے مرید ہوتے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ بہادر شاہ کو حضرت مولانا فخر صاحب سے بیعت تھی مگر حضرت مولانا صاحب کے زمانے میں بہادر شاہ کم سن تھے۔ خیال نہیں ہو سکتا کہ اس عمر میں بیعت کی ہوگی۔ البتہ یہ ثابت ہے کہ ایام طفولیت میں ان کو حضرت مولانا صاحب کی گود میں ڈالا گیا تھا۔ حضرت مولانا صاحب کے وصال کے بعد آپ کے فرزند حضرت میاں قطب الدین سے بہادر شاہ کو بہت فیض پہنچا ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ بیعت بھی آپ ہی سے ہے۔ میاں قطب الدین صاحب کے صاحبزادے میاں نصیر الدین عرف میاں کالے صاحب سے بھی بادشاہ کو خاص عقیدت تھی۔ یہاں تک کہ اپنی لڑکی میاں کالے صاحب کو بیاہ دی تھی۔ بہادر شاہ کو یوں تو فقیروں اور درویشوں سے ملنے کا شوق تھا اور درویشی میں بصیرت کامل رکھتے تھے، مگر حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ؒ سے ان کو دلی لگاؤ تھا۔ حضرت کے مزار مبارک پر اکثر حاضر ہوا کرتے تھے۔ میرے نانا حضرت شاہ غلام حسن چشتی سےبہادر شاہ کو دوستانہ عقیدت تھی۔ نانا صاحب اکثر قلعہ میں جاتے اور بہادر شاہ کی خاص خلوتوں میں شریک ہوتے تھے۔ میری والدہ ماجدہ بہادر شاہ کے صدہا قصے اپنے پدر بزر گوار حضرت شاہ غلام حسن چشتی کی زبانی بیان فرمایا کرتی تھیں، جن کو سن کر بچپن میں جب کہ مجھ کو بہادر شاہ کی عظمت و شان کی کچھ سمجھ اور خبر نہ تھی، خود بخود متاثر ہوتا تھا اور دل پر دنیا کی بے ثباتی کے نقش جمتے تھے۔ بہادر شاہ صاحب ِ باطن اور بڑے عارف تھے۔ انہوں نے غدر سے پہلے تمام واقعات غدر کو مکاشفہ سے معلوم کر لیا تھا مگر رضائے الٰہی پر شاکر تھے۔ چنانچہ جس زمانہ میں حضرت شاہ اللہ بخش صاحب چشتی سلیمانی تو نسویؒ پہلی مرتبہ دہلی تشریف لائے تو بہادر شاہ نے قلعہ میں آپ کی دعوت کی۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تخلیہ کیا گیا اور بادشاہ نے حضرت صاحب تونسوی سے اپنی سلطنت کی کمزوری کا غیبی سبب دریافت کیا۔ حضرت صاحب تونسوی نے فرمایا کہ میرے خیال میں تمہارے بزرگوں سے کچھ خطائیں سرزد ہوئی ہیں جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ عاشق و معشوق کے آگے حجاب ڈالا گیا یعنی حضرت محبوب الٰہی ؒ اور حضرت امیر خسرو ؒ کے مزارات کے بیچ میں محمد شاہ بادشاہ کو دفن کیا گیا۔ حضرت محبوب الٰہی ؒ اور حضرت امیر خسروؒ کے ما بین جو محبت تھی، اس کا تقاضا یہ تھا کہ ان دونوں حضرات کے مزارات کے درمیان کوئی حجاب نہ کیا جاتا کیوں کہ حضرت محبوب الٰہی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر شریعت کا قدم درمیان نہ ہوتا تو ہم اور خسرو ایک قبر میں رہتے۔ ایسی صورت میں محمد شاہ کو بیچ میں دفن کر نا بہت براہوا اور تباہی سلطنت پر پڑی۔ نانا صاحب فرماتے تھے کہ بہادر شاہ پر اس بیان کا بہت بڑا اثر پیدا ہوا اور انہوں نے اس پر دل سے یقین کیا۔ گو ظاہری و باطنی اعتبار سے ان کے نزدیک زوال حکومت کے صدہا اسباب تھے، جن کو وہ بار ہا خلوت کی صحبت میں بیان کیا کرتے تھے۔ عرس کا جلوسبہادر شاہ جب حضرت محبوب الٰہی کے عرس شریف میں حاضر ہوتے تو بڑی کیفیت رہتی تھی۔ جب تک بادشاہ نہ آجاتے، ختم رکا رہتا۔ جو نہی ان کی سواری آتی، غل مچ جاتا کہ بادشاہ آئے۔ خلقت کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ہوتے تھے مگر بادشاہ کے درگاہ میں داخل ہوتے ہی لوگ راستہ چھوڑ دیتے اور دروازے سے مزار مبارک تک ایک آدمی کے چلنے کے قابل راستہ بن جاتا تھا جس میں سے گذر کر بادشاہ پہلے مزار مبارک پر حاضر ہوتے۔ اس کے بعد محفل میں آجاتے۔ بادشاہ کے آتے ہی ختم شروع کر دیا جاتا اور ختم کے بعد قوالی شروع ہوتی۔ بادشاہ ایک غزل سنتے اس کے بعد محفل سے چلے جاتے۔ محفل سے اٹھتے وقت ایک عجیب بہار ہوتی تھی کہ جو نہی بادشاہ نے چلنے کا رخ کیا، فوراً تمام میلہ کائی کی طرح سے پھٹ گیا اور درواز ے تک راستہ بن گیا۔ شاہی سے گدائی اور بربادی کا زمانہبہادر شاہ اگر غدر کی بلا میں مبتلا نہ ہوتے تو ان کی درویشی بڑے لطف و اطمینان سے بسر ہوتی مگر بیچارے نا کردہ گناہ باغی لشکر کے وبال میں پھنس گئے اور عمر کا آخری حصہ ہزاروں مصائب میں گذرا۔ میری والدہ ماجدہ بروایت اپنے پدر بزرگوار حضرت شاہ غلام حسن صاحب بیان فرماتی تھیں کہ جس دن بہادر شاہ دہلی کے قلعے سے نکلے تو سیدھے درگاہ حضرت محبوب الٰہی ؒ صاحب میں حاضر ہوئے۔ اس وقت بادشاہ پر عجب مایوسی اور ہراس کا عالم تھے۔ چند مخصوص خواجہ سراؤں اور ہوادار کے کہاروں کے سوا کوئی آدمی ہمراہ نہ تھا۔ فکر و اندیشہ سے بادشاہ کا چہرہ اترا ہوا تھا اور گردو غبار سفید داڑھی پر جما ہوا تھا۔ بادشاہ کی آمد سن کر نانا صاحب درگاہ شریف میں حاضر ہوئے۔ دیکھا کہ مزار مبارک کے سرہانے در سے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ مجھ کو دیکھتے ہی حسب معمول بشرہ کو متبسم کر دیا۔ میں سامنے بیٹھ گیا اور خیریت دریافت کرنے لگا۔ جس کے جواب میں نہایت طمانیت سے بولے، میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کمبخت باغی سپاہی خود سرے ہیں، ان پر اعتماد کرنا غلطی ہے۔ خود بھی ڈو بیں گے مجھ کو بھی ڈباویں گے۔ آخر وہی ہوا کہ بھاگ نکلے۔ بھائی اگر چہ میں ایک گوشہ نشین فقیر ہوں مگر ہوں اس خون کی یادگار جس میں آخر دم تک مقابلہ کرنے کی حرارت ہوتی ہے۔ میرے باپ داداؤں پر اس سے زیادہ آڑے وقت پڑے ہیں اور انہوں نے ہمت نہیں ہاری مگر مجھے تو غیب سے انجام دکھا دیا گیا ہے۔ اب اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ میں تخت ہند پر تیمور کی آخری نشانی ہوں۔ مغلئی حکومت کا چراغ دم تو ڑ رہا ہے اور کوئی گھڑی کا مہمان ہے۔ پھر جان بوجھ کر خواہ مخواہ کیوں خون ریزی کراؤں۔ اس واسطے قلعہ چھوڑ کر چلا آیا۔ ملک خدا کا ہے جس کو چاہے دے۔ سیکڑوں برس ہماری نسل نے سر زمین ہند میں ہیبت و جبروت سے سکہ جمایا۔ ا ب دوسروں کا وقت ہے۔ وہ حکمرانی کریں گے۔ تاجدار کہلائیں گے اور ہم ان کے مفتوح ٹھہریں گے۔ یہ کوئی رنج اور افسوس کی بات نہیں۔ آخر ہم نے بھی تو دوسروں کو مٹا کر اپنا گھر بسایا تھا۔ ان حسرتناک باتوں کے بعد بادشاہ نے ایک صندوقچہ دیا اور کہا، لو یہ تمہارے سپرد ہے۔ امیر تیمور نے جب قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا تو سلطان یلدرم بایزید کے خزانے سے یہ نعمت ہاتھ لگی تھی۔ اس میں حضور سرور کائنات کی ریش مبارک کے پانچ بال ہیں جو آج تک ہمارے خاندان میں بطور تبرک خاص چلے آتے ہیں۔ اب میرے لیے زمین و آسمان میں کہیں ٹھکانا نہیں۔ ان کو لے کر کہاں جاؤں۔ آپ سے بڑھ کر کوئی اس کا اہل نہیں ہے۔ لیجئے ان کو رکھئے۔ یہ میرے دل و دیدہ کی ٹھنڈک ہیں، جن کو آج کے دن کی ہولناک مصیبت میں اپنے سے جدا کر تا ہوں۔ چنانچہ نانا صاحب نے وہ صندوقچہ لے لیا اور درگاہ شریف کے تو شہ خانہ میں داخل کر دیا جو اب تک موجود ہے۔ اس کے تبرکات کی ہر سال ربیع الاول کے مہینے میں زیارت کرائی جاتی ہے۔ نانا صاحب سے بادشاہ نے کہا کہ آج تین وقت سے کھانے کی مہلت نہیں ملی۔ اگر گھر میں کچھ تیار ہو تو لاؤ۔ نانا صاحب نے کہا ہم لوگ بھی موت کے کنارے کھڑے ہیں۔ کھانے پکانے کا ہوش نہیں۔ گھر جاتا ہوں، جو کچھ موجود ہے حاضر کرتا ہوں بلکہ آپ خود تشریف لے چلیں۔ جب تک میں زندہ رہوں اور میرے بچے سلامت ہیں، آپ کو کوئی شخص ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ پہلے ہم مرجائیں گے، اس کے بعد کوئی اور وقت آسکے گا۔ بادشاہ نے فرمایا آپ کا احسان جو ایسا کہتے ہو مگر اس بوڑھے جسم کی حفاظت کے لیے اپنے پیروں کی اولاد کو قتل گاہ بھیجنا مجھے کبھی گوارا نہ ہوگا۔ زیارت کر چکا۔ امانت سونپ دی۔ اب دو لقمے محبوبی لنگر سے کھا لوں تو مقبرۂ ہمایوں میں چلا جاؤں گا۔ وہاں جو قسمت میں لکھا ہے پورا ہو جائے گا۔ نانا صاحب گھر آئے۔ دریافت کیا کہ کچھ کھانے کو موجود ہے۔ کہا گیا کہ بیسنی روٹی اور سرکہ کی چٹنی ہے۔ چنانچہ وہی ایک خوان میں آراستہ کر کے لے آئے اور بادشاہ نے وہ چنے کی روٹی کھا کر تین وقت کے بعد پانی پیا اور خدا کا شکرانہ بھیجا۔ اس کے بعد ہمایوں کے مقبرے میں جاکر گرفتار ہوئے اور رنگون بھیج دیے گئے۔ رنگوں میں بھی بادشاہ کی درویشانہ معاشرت میں فرق نہ آیا۔ جب تک زندہ رہے، ایک صابر و متو کل درویش کی طرح بسر اوقات کرتے رہے۔ یہ وہ قصہ ہے جس میں عقل مند آدمی کے لیے عبرت کا بہت بڑا ذخیرہ ہے اور جس کے سننے سے انسان اپنے غرور و تکبر کو بھول جاتا ہے اور جب دماغ سے تکبر کی بو جاتی رہتی ہے تو آدمی اصل آدمی بن جاتا ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.