بہادر شاہ اور پھول والوں کی سیر
سعدی علیہ الرحمہ نے کیا خوب کہا ہے،
رعیت چو بیخ است، سلطاں درخت
درخت اے پسر، باشد از بیخ سخت
یہ جڑوں ہی کی مضبوطی تھی کہ دلی کا سرسبز و شاداب چمن اگرچہ حوادث زمانہ کے ہاتھوں پامال ہو چکا تھا اور فلاکت کی بجلیوں اور باد مخالف کے جھونکوں سے سلطنت مغلیہ کی شوکت و اقتدار کے بڑے بڑے ٹہنے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے پھر بھی کسی بڑی سے بڑی طاقت کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس برائے نام بادشاہ کو تخت سے اتار کر دلی کو اپنی سلطنت میں شریک کر لے۔
مرہٹوں کا زور ہوا، پٹھانوں کا زور ہوا، جاٹوں کا زور ہوا، انگریزوں کا زور ہوا مگر دلی کا بادشاہ دلی کا بادشاہ ہی رہا اورجب تک دلی بالکل تباہ نہ ہوئی، اس وقت تک کوئی نہ کوئی تخت پر بیٹھنے والا نکلتا ہی رہا۔ دلی کے ریذیڈنٹ نے بہت کچھ چاہا کہ بادشاہ کے اعزاز و احترام میں کمی کر دے، گورنر جنرل نے بڑی کوشش کی کہ شاہی خاندان کو قطب میں منتقل کر کے قلعے پر قبضہ کر لے، کورٹ آف ڈائریکٹر ز نے بہت زور مارا کہ دلی کی باشاہت کا خاتمہ کر دیا جائے مگر بورڈ والے اس پر کسی طرح تیار نہ ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ دلی کا بادشاہ کیا ہے اور ا س کے اثرات کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے مباحثے ہوئے، نوجوانوں نے بہت کچھ جوش و خروش دکھایا، مگر انگلستان کے جہاندیدہ بڈھوں کے سامنے کچھ نہ چلی۔
جب بورڈ میں مسٹر ملکر نے کھڑے ہو کر کہا، عزیزو! میں پچاس سال ہندوستان میں رہا ہوں۔ میں وہاں کے رنگ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں دلی کا قلعہ کیا ہے۔ اس کی بنیاد اگر ایک طرف کابل تک گئی ہے تو دوسری طرف راس کماری تک۔ ایک جانب آسام تک ہے تو دوسری جانب کاٹھیا واڑ تک۔ ذرا قلعے کو ہاتھ لگایا تو وہ زلزلہ آئے گا کہ سارا ہندوستان ہل جائے گا۔ یہ برائے نام بادشاہت جس طرح چل رہی ہے اسی طرح چلنے دو۔‘‘
آخر بورڈ میں بڈھے جیتے اور جوان ہارے۔ دلی کے بادشاہ کا اقتدار ضرور کم ہو گیا مگر جو عقیدت رعایا کو بادشاہ سے تھی، اس میں ذرہ برابر فرق نہ آیا اور جو محبت بادشاہ کو رعایا سے تھی وہ جیسی کی ویسی رہی۔ رعایا کی وہ کون سی خوشی تھی جس میں بادشاہ حصہ نہ لیتے ہوں اور بادشاہ کا وہ کون سا رنج تھا جس میں رعایا شریک نہ ہوتی ہو۔ بات یہ تھی کہ دونوں جانتے اور سمجھتے تھے کہ جو ہم ہیں وہ یہ ہیں اور جو یہ ہیں وہ ہم ہیں۔
شاہ عالمگیر ثانی کے قتل کے واقعے ہی پر نظر ڈال لو۔ دیکھو کہ ہندو مرد تو مرد عورتوں کو بھی بادشاہ سے کیسی محبت تھی اور وہ خود بادشاہ اس محبت کی کیسی قدر کرتے تھے۔ عالمگیر ثانی کو فقیروں سے بڑی عقیدت تھی۔ جہاں سن پاتے کہ کوئی فقیر آیا ہوا ہے، اس کو بلاتے۔ نہ آتا تو خود جاتے۔ اس سے ملتے، بہت کچھ دیتے دلاتے اور فقیرنوازی کو توشہ آخرت سمجھتے۔ غازی الدین خاں اس زمانے میں دلی کا وزیر تھا۔ خدا جانے اس کو بادشاہ سے کیوں دلی نفرت تھی۔ قلعے میں تو ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ پڑی، دھوکے سے بادشاہ کو مارنے کا جال پھیلایا۔ قلعے میں مشہور کر دیا کہ پرانے کوٹلے میں ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں۔ بڑے صاحب کرامات ہیں بڑے خدا رسیدہ ہیں، مگر نہ کہیں خود جاتے ہیں، نہ کسی کو آنے دیتے ہیں۔
ادھر بادشاہ کو ملنے کا شوق ہوا، ادھر لوگوں نے شاہ صاحب کی کرامتوں کے اور پل باندھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن بادشاہ تن تنہا قلعے سے نکل کر کوٹلے پہنچے۔ ادھر ادھر کھنڈروں میں تلاش کی۔ یہاں تو پہلے ہی سے دشمن لگے ہوئے تھے۔ چار نمک حراموں نے ایک برج میں سے نکل کر بادشاہ کو شہید کر دیا اور لاش جمنا کی ریتی میں پھینک دی۔ خدا کی قدت دیکھو ادھر سے برہمنی رام کنور آ رہی تھی۔ اس نے جو لاش پڑی دیکھی تو ذرا ٹھنکی، بھاگنے کا ارادہ کیا، پھر ذرا غور کیا تو کیا دیکھتی ہے کہ ہیں، یہ تو بادشاہ سلامت کی لاش ہے۔ رات بھر اس بے کس شہید کا سر زانو پر لیے بیٹھی روتی رہی۔
صبح جمنا جی کے اشنان کو لوگ آئے۔ انہوں نے بھی لاش کو دیکھ کر پہچانا۔ تمام شہر میں کھلبلی پڑ گئی۔ اس بے کس شہید کی لاش دفن ہوئی۔ شاہ عالم ثانی بادشاہ ہوئے۔ انہوں نے رام کنور کو بلایا۔ بہت کچھ انعام و اکرام دیا اور اس برہمنی کو اپنی منہ بولی بہن بنا لیا۔ تھوڑے دنوں میں سلونوں کا تہوار آیا۔ بھائی کے لیے بہن موتیوں کی راکھی لے کر پہنچی۔ بادشاہ نے خوشی خوشی راکھی بندھوائی، بہن کو جوڑا دیا، اس کے رشتہ داروں کو خلعت دیے۔ لیجئے راکھی بندھن کی رسم، قلعے کی رسموں میں شریک ہو گئی۔ جب تک قلعہ آباد رہا، اس برہمنی کے خاندان اور قلعے والوں میں بھائی چارہ رہا۔ ہر سال راکھیاں آتیں، بادشاہ اور شہزادوں کے باندھی جاتیں، جوڑے دیے جاتے۔ یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب بادشاہ سے قلعہ چھوٹا۔
پھول والوں کی سیر بھی اسی محبت باہمی کا نتیجہ تھی۔ ہوا یہ کہ اکبر شاہ ثانی اپنے منجھلے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانا چاہتے تھے۔ سراج الدین ظفر بڑے بیٹے تھے مگر باپ بیٹے میں صفائی نہ تھی۔ مرزا جہانگیر کو بادشاہ بہت چاہتے تھے اور کیوں نہ چاہتے۔ مرزا کی والدہ نواب ممتاز محل کا قلعے میں زور تھا۔ بادشاہ سلامت اور بادشاہ بیگم دونوں نے ریزیڈنسی میں کوشش کی کہ کسی طرح مرزا جہانگیر ولی عہد ہو جائیں۔ اس زمانے میں دلی کے ریزیڈنٹ سیٹن صاحب تھے۔ ایسا بادشاہ پرست انگریز شاید ہی ہندوستان میں کوئی آیا ہو تو آیا ہو۔ اکبر شاہ کی وہ ایسی ہی عزت کرتے تھے جیسی خود اپنے بادشاہ کی کرتے تھے۔ ٹوپی اتار کر مجرا گاہ سے آداب بجا لاتے۔ کرسی دی جاتی تو بادشاہ کے سامنے کبھی نہ بیٹھتے۔ گفتگو میں آداب شاہی ملحوظ رکھتے۔ بادشاہ کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ غرض سب کچھ کرتے تھے مگر اس بات پر راضی نہ ہوتے تھے کہ مرزا جہانگیر ولی عہد ہوں۔ بہ ظاہر اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ سلسلہ تخت نشینی کو درہم برہم کرنا نہیں چاہتے تھے اور دوسری یہ تھی کہ وہ مرزا جہانگیر کے عادات و اطوار سے مطمئن نہ تھے۔
مرزا جہانگیر بلا کے پینے والے اور غضب کے منہ پھٹ تھے۔ اس مخالفت سے دلوں میں بیر تو پڑ ہی گیا تھا۔ ایک دن سر دربار مرزا جہانگیر نے سیٹن صاحب کو ’’لو لو ہے بے‘‘ کہہ دیا۔ صاحب کسی نہ کسی طرح پی گئے۔ تھوڑے دنوں بعد یہ غضب کیا کہ ان پر گولی چلائی۔ آخر کہاں تک طرح دی جاتی۔ قید ہو کر الہ آباد گئے۔ ممتاز محل کو بڑا صدمہ ہوا۔ منت مانی کہ مرزا جہانگیر چھوٹ کر آئیں گے تو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر چادر اور پھولوں کی مسہری چڑھاؤں گی۔ خدا کی قدت اور سیٹن صاحب کی شرافت دیکھئے کہ انہی کی سفارش پر صاحب عالم اس قید سے رہا ہوئے۔ دلی آئے۔ بادشاہ بیگم نے منت چڑھانے کی تیاریاں کیں۔ بڑی دھوم دھام سے چادر گئی۔ شہر بھر کے تمام ہندو مسلمان شریک ہوئے۔ قطب میں کئی دن تک میلہ لگا رہا۔ پھول والوں نے جو مسہری بنائی تو اس میں خوب صورتی کے لیے ایک پھولوں کا پنکھ بھی لٹکا دیا۔ سراج الدین ظفر ولی عہد سلطنت نے ’’پنکھا‘‘ کہہ کر گزرانا،
نور الطاف و کرم کی ہے یہ سب اس کے جھلک
کہ وہ ظاہر ہے ملک اور ہے باطن میں ملک
اس تماشے کی نہ کیوں دھوم ہو افلاک تلک
آفتابی سے خجل جس کے ہے خورشید فلک
یہ بنا اس شہ اکبر کی بدولت پنکھا
شائق اس سیر کے سب آج ہیں با دیدہ دل
واقعی سیر ہے یہ دیکھنے ہی کے قابل
چشم انجم ہو نہ اس سیر پہ کیوں کر مائل
سیر یہ دیکھے ہے وہ بیگم والا منزل
جس کے دیواں کا رکھے ماہ سے نسبت پنکھا
رنگ کا جوش ہے ماہی سے زبس ماہ تلک
ڈوبے ہیں رنگ میں مدہوش سے آگاہ تلک
آج رنگین ہے رعیت سے لگا شاہ تلک
زعفران زار ہے اک بام سے درگاہ تلک
دیکھنے آئی ہے اس رنگ سے خلقت پنکھا
بادشاہ کو یہ میلہ بہت پسند آیا۔ دلی والوں سے پوچھا کہ اگر ہر سال بھادوں کے شروع میں یہ میلہ ہوا کرے تو کیسا؟ مسلمان درگاہ شریف پر پنکھا چڑھائیں، ہندو جوگ مایا جی پر چڑھائیں۔ مسلمانوں کے پنکھے میں ہندو اور ہندوؤں کے پنکھے میں مسلمان شریک ہوں۔ میلے کا میلہ ہو اور دونوں قوموں میں میل جول بڑھے۔ بھلا نیکی اور پوچھ پوچھ، دلی والے راضی ہو گئے۔ لیجئے پھول والوں کی سیر کی بنیاد پڑ گئی۔ بادشاہ سلامت خود قطب جاتے، وہاں رہتے، شہزادے میلے میں شریک ہوتے۔ بڑھتے بڑھتے یہ میلہ کچھ کا کچھ ہو گیا۔ اسی زمانے میں یہ گانا چلا،
قطب کو چلا میرا اکبر ہٹیلا
نہ رستے میں جنگل، نہ ملتا ہے ٹیلا
بہادر شاہ کے زمانے میں تو اس کا وہ زور ہوا کہ بیان سے باہر ہے۔ اگر یہ دیکھنا ہو کہ اس زمانے میں پھول والوں کی سیر کیسی ہوتی تھی۔ تو ذرا آنکھیں بندکر لیجئے، میں دکھائے دیتا ہوں۔
1264ھ کا ساون بھی غضب کا ساون تھا، یا تو برستا ہی نہ تھا یا برسا تو ایسا برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ بدھ بدھ پندر دن ہو گئے مینہ نہ آج کھلتا ہے نہ کل، اور پانی کا یہ حال ہے کہ دھائیں دھائیں یکساں برسے چلا جاتا ہے۔ جمنا بڑھ کر نگم بودھ گھاٹ تک آگئی۔ کیلا گھاٹ میں سے پانی ہو کر شہر میں گھس آیا۔ چاندنی چوک کی نہر ابل کر کناروں سے نکل گئی۔ بچارے چھوٹے چھوٹے مکانوں کا تو ذکر ہی کیا ہے، بڑی بڑی حویلیاں چیں بول گئیں۔ اڑا اڑا دھم کی آوازیں چلی آرہی ہیں۔ اس مکان کی چھت بیٹھی۔ اس کا پاکھا گرا، شاید ہی کوئی مکان ہوگا جس کی کم سے کم چھت نہ گری ہو۔ غریب غربا گھر چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ جامع مسجد کے نیچے سامان کا ڈھیر ہو گیا۔ کسی نے پلنگ بچھا اوپر سے دری ڈال، چھوٹی سی کوٹھری بنا لی۔ کسی نے چھپر کھٹ کے گرد چادر گھیر، عورتوں کے لیے جگہ نکال لی۔ غرض ایک عجیب پریشانی کا عالم تھا۔ دو سال پہلے بھی ڈھائی ڈھوئی مینہ برسا تھا مگر یہ تو کچھ اور ہی رنگ تھا۔ بنئے اپنی مصیبت میں مبتلا تھے، بھٹیارے اپنے حال میں گرفتار، آخر رہیں تو کہاں رہیں، کھائیں تو کیا کھائیں۔
دلی میں بہادر شاہ برائے نام بادشاہ تھے۔ سارا انتظام کمپنی بہادر کے ہاتھ میں تھا۔ بھلا کمپنی کو کیا غرض پڑی تھی جو ان غریب شہر والوں کی خبر لے۔ شہر والے جانیں اور ان کا کام جانے۔ خیر بادشاہ سلامت کو خبر ہوئی، بچارے کے جو کچھ اختیار میں تھا وہ کیا۔ سارے سرکاری مکان کھلوا دیے۔ کوٹ قاسم کی مال گزاری انہی دنوں آئی تھی وہ سب کے سب اس مصیبت ماری رعیت پر خرچ کر دی۔ مسلمانوں کو دونوں وقت کا کھانا پہنچایا۔ ہندوؤں کو غلہ دیا۔ سر چھپانے کی جگہ دی، غرض یہ مصیبت کے دن بھی کسی نہ کسی طرح گزر گئے۔ سولہویں دن ذرا پانی نے دم لیا۔ ابر پھٹا، سورج کا کونا دکھائی دیا، لوگوں کی جان میں جان آئی، دو چار دن مکانوں کی مرمت اور حالت کی درستی میں لگے۔ اس کے بعد یاروں کو میلے کی سوجھی۔
بھلا جمنا ایسی بھر پور چلے اور دلی والے چپکے بیٹھے رہیں۔ ڈھنڈ ورا پٹ گیا کہ کل تیراکی کا میلہ ے۔ صبح ہی سے قلعے کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہونے لگا۔ آٹھ نو بجے تک تو یہ حالت ہوئی کہ شہر خالی ہو، بیلہ 1 آباد ہو گیا۔ پنواڑیوں، کاچھیوں، بساطیوں، سوداگروں غرض ہر قسم کے سودے والوں کی دکانیں لگ گئیں، جنگل میں منگل ہوگیا۔ بادشاہ سلامت بھی نکل ثمن برج 2 میں آ بیٹھے۔ شہزادوں کے لیے دیوان خاص کے صحن میں فرش ہو گیا۔ بیگمات اور شہزادیوں کے لیے موتی محل، خاص محل اور اسد برج کی جالیوں کے سامنے مسندیں بچھ گئیں۔ تیراکوں کے استاد اپنے اپنے شاگردوں کو لیے جمنا میں اترے اور تیراکی کے کمال دکھانے شروع کیے۔ کوئی چت تیرا تو اس طرح گویا تختہ بہا چلا جاتا ہے۔ کسی نے کھڑی ماری تو ایسی کہ گھنتے تک پانی سے باہر نکل آیا۔ کوئی ہے کہ گٹھری بنا بہاؤ پر چلا جاتا ہے، کوئی شیر کے ہاتھ مارتا چڑھاو پر سیدھا چڑھ رہا ہے۔
ادھر تیراکی ہو رہی تھی ادھر قلعے والوں اور شہر والوں میں کنکوے بازی شروع ہوی۔ تکلیں لڑیں تو ایسی کہ چکراتی چکراتی مقبرے 3 سے آگے نکل گئیں۔ پتنگ لڑے تو ایسے کہ سارا آسمان کنکوؤں سے چھپ گیا۔ غرض یہ معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ دو دن پہلے اس شہر میں آفت بپا تھی۔ شام ہوتے ہوتے میلہ بچھڑنا شروع ہوا۔ رات کے نو دس بجے بیلہ پھر وہی جنگل کا جنگل ہو گیا۔ ہاں دونوں اور آب خوروں کے ڈھیر، پیکوں کے نشان اور چھلکوں کے انبار یہ ضرور بتاتے تھے کہ یہاں کوئی بڑا شہر تھا جو دم بھر میں بسا اور دم بھر میں غائب ہو گیا۔
ساون ختم ہوا۔ بھادوں لگا، جھڑیوں کا زمانہ گیا، پھوار کا زمانہ آیا۔ دلی والوں کے دلوں میں پھر گد گدی شروع ہوئی، قطب کا سبزہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ پھول الوں کی سیر کی سوجھی، شرفائے دلی میں سے دو ہندو اور دو مسلمان لال حویلی 4 پہنچے، اطلاع کرائی، باریابی ہوئی۔ ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد حرف مطلب زبان پر لائے۔ کہا، ’’پیر و مرشد! پھول والوں کی سیر کا زمانہ آ گیا ہے۔ جھرنا اور شمسی تالاب بھر کر کٹورا ہو گئے ہیں، کوئی تاریخ مقرر فرما دی جائے، اگر جہاں پناہ بھی تشریف لائیں تو زہے نصیب۔‘‘
بادشاہ نے فرمایا، ’’ہاں، اماں 5 ٹھیک تو ہے جو تمہاری خوشی۔ 15 تاریخ مقرر کر دو۔ رہا ہمارا آنا تو جہاں تم وہاں ہم، کیوں نہ آئیں گے۔‘‘
تاریخ مقرر ہونا تھا کہ شاہی روشن چوکی کا شہنائی نواز چاندی کی نفیری ہاتھ میں لیے حاضر ہوا۔ نفیری پر شادیانہ بجایا۔ لیجئے، سیر کی 15 تاریخ پکی ہو گئی۔ سارے شہر میں نفیر ی بج گئی کہ پندرہویں کو پھول والوں کی سیر ہے۔ لوگوں نے تیاریاں شروع کیں۔ بادشاہ سلامت دربار خاص سےاٹھ کر تسبیح خانے میں گئے ہی تھے کہ تمام بیگمات اور شہزادیاں جمع ہونی شروع ہوئیں۔ ایک آتیں، سلام کر کے بیٹھ جاتیں۔ دوسری آتیں، بیٹھ جاتیں۔ تھوڑی دیر میں سارا قلعہ تسبیح خانے میں جمع ہو گیا لیکن سب ہیں کہ منہ سے چپ ہیں، مگر نگاہیں صاف کہہ رہی ہیں کہ قطب چلئے۔ بادشاہ سلامت بھی سمجھ گئے، فرمایا،
’’اماں! میں تمہارا مطلب سمجھ گیا، سیر کی تاریخ مقرر ہو گئی ہے۔ آج دس ہے، پندرہ کو سیر ہے۔ اچھا ہوگا کہ سب سے پہلے ہم چلے چلیں۔ بعد میں گئے تو شہر والوں کو تکلیف ہوگی۔ دو تین دن قطب کا لطف اٹھا لو اور پھر قطب دلی والوں کے سپرد کر دو۔ لو جاؤ چلنے کی تیاری کرو۔ انشاء اللہ کل سویرے سویرے روانہ ہوں گے اور ہاں میاں دارا! 6 تم ہماری سواری کا بندو بست کرو۔ کوتوال سے کہہ دو، قلعہ دار سے کہہ دو۔ حکیم صاحب 7 سے میں خود کہہ دوں گا۔ کل صبح سویرے نکل گئے توسلطان جی ہوتے ہوئے شام تک انشاء اللہ پہنچ جائیں گے۔‘‘
یہ سب لوگ تو اتنا سننے کے لئے جمع ہی ہوئے تھے۔ ایک ایک اٹھ، مجرا کر، رخصت ہوا۔ سامان بندھنے لگا۔ سامان بندھتا اور داروغہ تو شکچی کے پاس پہنچ جاتا۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کی بیسیوں پیٹیاں، سیکڑوں بو غند، ہزاروں گٹھریاں، لاکھوں پوٹلیاں غرض الم غلم منوں سامان جمع ہو گیا۔ کچھ چھکڑوں میں لادا گیا، کچھ اونٹوں پر چڑھایا گیا، کچھ شکر موں 8 میں رکھا گیا۔ کوئی بارہ ساڑھے بارہ کا عمل ہوگا کہ سامان چلنا شروع ہوا، خدا خدا کر کے کہیں دو بجے اس لین ڈوری کا تانتا ختم ہوا۔ اس وقت کہیں جا کر بچارے داروغہ کو دم لینے کی فرصت ملی۔ ابھی پوری طرح دم نہ لیا تھا کہ اردا بیگنی نے حکم پہنچایا کہ ’’حضرت جہاں پناہ کا ارشاد ہوا ہے کہ تو شک خانہ شاہی ابھی روانہ ہو، جنگلی محل میں قیام ہوگا، اس لیے خیموں سراپردوں اور شامیانوں کے بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں شہر والے اگر یہ سامان طلب کریں تو دے دیا جائے۔ دوسرے حکم کا انتظار نہ کیا جائے، اور حکم صاحب کے ذریعے سے شہر کے لوگوں کو اس حکم کی اطلاع کرا دی جائے۔‘‘
حکم پہنچنا تھا کہ داروغہ پھر کمر باندھ، اپنے پیش دستوں کو لے کر سرکاری سامان باندھنے کی فکر میں لگ گئے۔ یہاں انتظام والے تو اپنی مصیبت میں گرفتار تھے اور وہاں قلعے والوں کی یہ حالت تھی کہ گویا شادی رچی ہوئی ہے۔ چوڑی والیاں بیٹھی دھانی چوڑیاں پہنا رہی ہیں۔ رنگ ریز نیں سرخ دوپٹے رنگ رہی ہیں۔ کہں مہندی پس رہی ہے کہیں کڑاہیاں نکالی جا رہی ہیں۔ کہاں کا کھانا اور کہاں کا سونا اسی گڑ بڑ میں رات کے بارہ بجا دیے۔ کوئی دو بجے ہوں گے کہ سواری کا بگل ہوا، قلعے کے لاہوری دروازے کے سامنے نوبت خانے سے ملا ہوا جو میدان ہے اس میں سواریاں آ لگیں۔ انائیں، مغلانیاں، خواصیں 9 ، چھوکریاں، لونڈیاں، سریتیں 10 سوار ہونا شروع ہوئیں۔ بہار کسوں، منجھولیوں اور بہیلیوں میں وہ ٹھسا ٹھس ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ سانگیوں 11 اور ماچیوں 12 میں پہلے تو اٹائٹ سامان بھرا۔ اوپر سے بھی دو دو تین تین چھوکریاں اور مامائیں دھنس گئیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح سے یہ مشکل بھی آسان ہوئی، بیل لگائے گئے اور یہ قافلہ قطب کو روانہ ہوا۔ مشعلچی مشعلیں اور تیل کی کپیاں ہاتھ میں لیے ساتھ ہوئے۔
یہ لوگ قلعے سے باہر ہی ہوئے ہوں گے کہ بیگمات اور شہزادیوں کے رتھیں ڈولیاں 13 میانے، 14 پالکیاں، 15 چوپہلے، 16 چنڈول اور سکھپال، موتی محل کے برابر آ لگے، شہزادہ ولی عہد بہادر بھی باہر نکل آئے۔ دگلا پلٹن کے سپاہیوں نے راستے بند کیے۔ ترکنوں اور گرجنوں نے قناتیں کھینچیں۔ جو بیگم یا شہزادی باہر آتیں، ان کو بہ لحاظ ان کے درجے کی سواری ملتی۔ ہر سواری کے ساتھ ایک قلما قنی اور ایک اردابیگنی مقرر ہو جاتی۔ تین سوا تین بجے ہوں گے کہ پہلی رتھ روانہ ہوئی۔ آگے آگے رتھیں ان کے پیچھے دوسری سواریاں۔ سب کے آخر میں نواب زینت محل کا سکھپال۔
لاہوری دروازے پر سواری پہنچی تھی کہ کپتان ڈگلس قلعہ دار نے اتر کر سلامی دی۔ دروازے کے باہر دگلا پلٹن کا ایک پرا آگے ہو لیا اور ایک پیچھے۔ شہزادیوں کی سواری کے ادھر ادھر قلمانیاں مردانہ لباس پہنے، کھڑکی دار پگڑیاں باندھے، ساتوں ہتھیار سجائے ساتھ ہوئیں۔ بیگمات کی سواریوں کو ترکنوں کی پلٹنوں نے بیچ میں لیا۔ ان کا بھی مردانہ فوجی لباس گورے گورے چہرے، شانوں پر کاکلیں پڑی ہوئیں، سر پر چھوٹا سا عمامہ، اس میں سفید پروں کی اونچی کلغی، ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی برچھیاں، پشت پر ترکش، شانے پر کمان، پہلو میں تلوار، ڈاب میں پیش قبض، بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ ترکوں کی فوج دلی میں گھس آئی ہے۔
نواب زینت محل کی سواری کا بڑا ٹھاٹ تھا۔ آگے آگے دو حبشیں گھونگر والے بال، ان پر سرخ پگڑیاں، پگڑیوں میں سفید مقیش کے پھندنے، موٹے موٹے ہونٹ، لال لال دیدے، سرخ گورنٹ کے ڈھیلے ڈھالے کوٹ، گھوڑوں پر سوار، ہاتھوں میں پتلی پتلی چوبیں، سامنے گھوڑوں کی پشت پر زر بفت سے منڈھے ہوئے ڈنکے 17 ایک چوب مارتی، دوسری پکارتی، ’’ادب سے نگاہ رو برو، حضرت بادشاہ بیگم سلامت۔‘‘ سکھپال کے دونوں طرف دو دو گرجنیں۔ ایک کے ہاتھ مورچھل دوسرے کے ہاتھ میں چنور، ہر ہر قدم پر بسم اللہ، بسم اللہ، کہتی چلی آتی تھیں۔ سب سے پیچھے ارد بیگنیوں کی پلٹنیں، مردانہ لباس پہنے ہتھیار لگائے اوپچی بنی ساتھ ساتھ تھیں۔ تھوڑےتھوڑے فاصلے پر مشعلچنیں۔ کسی کے ہاتھ میں مشعل اور کپی، کسی کے ہاتھ میں دو شاخہ، کسی کے ہاتھ میں پنچ شاخہ، سواری کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ یہ جلوس دلی دروازے تک تو اسی سلسلے سے گیا۔ دروازے کے باہر نکل کررتھیں تو ترکمان دروازے کی طرف سے ہوتی ہوئیں قطب کی سڑک پر پڑ لیں اور دوسری سواریاں دروازے کے باہر ہی ٹھہر گئیں۔
کوئی چار بجے ہوں گے کہ بادشاہ سلامت بیدار ہوئے حوائج ضروری سے فارغ ہو کر، گڑ 18 کا شربت پی کر معدہ صاف کیا۔ خانسا ماں نے یا قوتی کی سر بہ مہر پیالی پیش کی، مہر توڑ کر یاقوتی نوش جان کی اور فرمایا، ’’ اماں، سب لوگ سدھارے؟‘‘
عرض کی، ’’جہاں پناہ کے اقبال سے سب انتظام ہو گیا۔ میر تزک 19 حاضر ہیں، کیا ارشاد ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا، ’’اچھا، بسم اللہ کرو۔‘‘ یہ حکم ہونا تھا کہ بگل ہوا۔ ولی عہد بہادر کے لئے تام جھام، مرزا شاہ رخ کے لئے تخت رواں، مرزا فخرو کے لئے بوچہ اور خود بادشاہ سلامت کے لئے ہوا دار دیوان خاص میں آ گیا۔ باقی سب شہزادے اور سلاطین زادے گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ ادھر بادشاہ سلامت نے باہر نکل ہوا دار میں قدم رکھا اور ادھر چوبدار نے آواز لگائی، ’’ادب سے تعلیم سے مجرا بجا لاؤ، حضرت بادشاہ سلامت۔‘‘
شہزادوں نے تلواریں میان سے نکال، سلامی دی۔ دوسرے لوگ جھک کر آداب بجا لائے۔ بادشاہ سلامت کے بعد ولی عہد بہادر، مرزا شاہ رخ اور مرزا فخر و سوار ہوئے۔ ہوادار کے پیچھے ایک خواصی نے چتر شاہی کھولا۔ دوسرے نے سورج مکھی لی اور یہ جلوس آہستہ آہستہ قلعے کے دلی دروازے کی طرف چلا۔ دروازے کے باہر پہلے سے فوج کی مثل بندھی ہوئی تھی۔ سب سے آگے نشان کاہاتھی، اس پر شاہی پرچم، اس کے پیچھے نقارے کے اونٹ۔ اونٹوں کے بعد ترک 20 سواروں کا رسالہ، رسالے کے بعد روشن چوکی کے تخت۔ تختوں کے پیچھے میر تزک، اس کے بعد سلاطین زادوں کی سواریاں، شہزادوں کے گھوڑے، مرزا فخرو کا بوچہ، مرزا شاہ رخ کا تخت رواں، مرزا دارا بخت کا تام جھام۔ ان کے پیچھے دور باش 21 اور دور باش کے پیچھے بادشاہ سلامت کا ہوادار۔ ہوادار کے ییچھے فوج کا پرا۔ آخر میں قلعے 22 کے نوکر چاکر، بہیرو بنگاہ، سڑک کے کنارے کنارے، مشعلچیوں کی قطاریں۔ غرض قلعے کے دلی دروازے سے جو مثل بندھی تو پرانے کوٹلے پرجا کر ختم ہوئی۔
سواری قلعے کے دروازے سے نکلی ہی تھی کہ شہدوں نے غل مچایا، ’’حضرت پیرو مرشد! ہمارا حق بھی مل جائے، خدا تعالی عمر و اقبال میں ترقی کرے، آمین اور صدوسی سالہ یہ سایہ دلی والوں کے سروں پر قائم رکھے، آمین۔ خدا شہزادے شہزادیوں کوسلامت رکھے، آمین۔ سیر آ رہی ہے کچھ ایسا ملے کہ ہم بھی جہاں پناہ کے صدقے میں سیر کی بہار دیکھ لیں۔‘‘
بادشاہ سلامت نے اشارہ کیا۔ خواصی نے مٹھیاں بھر بھر کر روپے ہوادار پر سے نچھاور کئے۔ پھر کیا تھا روپوں کےساتھ شہدے سڑک پر بچھ گئے۔ کسی نے ہاتھ پھیلائے، کسی نے جھولی پھیلائی، سواری چلنی مشکل ہو گئی۔ تھوڑی دیر تک یہی ہنگامہ رہا۔ جب دل بھر کر روپیہ لوٹ چکے تو شہدے دعائیں دیتے رخصت ہوئے اور ہوا دار آگے بڑھا۔ لوگوں کو پہلے ہی سے خبر ہو گئی تھی کہ آج پچھلی رات کو سواری مبارک قطب جائے گی۔ رات کے بارہ ہی بجے سے خاص بازار سے لگا فیض بازار اور شہر کے دلی دروازے تک ہزاروں عورتیں بیٹھی جلوس کا انتظار کر رہی تھیں۔ ہر شخص اپنے بادشاہ کو دیکھنے کے لئے بے چین تھا۔ وقت کم تھا اس لئے بازاروں میں آئینہ بندی تو نہیں ہوئی تھی، ہاں بعض بعض مکانوں کے دروازے، کمروں کے روکار اور دکانیں سجا کر روشنی کر دی تھی۔ جلوس آہستہ آہستہ ان سڑکوں پر سے گزرا، ایک سناٹے کاعالم تھا، مگر ہر شخص کے بشرے اور آنکھوں سے جوش ٹپک رہا تھا، بادشاہ سلامت بھی اس جوش سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک پھریری سی آئی اور آنکھوں سے خود بخود آنسو نکل کر رخساروں پر بہہ آئے۔
کیا خبر تھی کہ نوبرس نہ گزریں گے کہ اسی سڑک پر سے گزرنا ہوگا، مگر کس حالت میں کہ سڑک ویران ہوگی، دلی والے تباہ ہوں گے، گولوں کی مار سے مکانات مسمار ہوں گے اوربے گناہوں کے خون سے زمین رنگین ہوگی۔ اس کے چند ہی دنوں بعد اسی سڑک سے پھر شہرمیں داخل ہونا ہوگا مگر کس حالت میں کہ خود قید ہوں گے۔ چاروں طرف جنگی پہرا ہوگا۔ بیٹیوں، بھانجوں اور بھتیجوں کی لاشیں میدانوں میں بے گور و کفن پڑی ہوں گی، محل ویران ہوں گے اور محل والیاں خدا جانے کہاں ہوں گی اور کس حالت میں ہوں گی۔
غرض، سواری مبارک ان سڑکوں پر سے گزر کر دلی دروازے پہنچی، محافظوں نے سلامی دی اور جلوس سلطان 23 جی کی سڑک پر پڑ لیا۔ جو زنانہ سواریاں پہلے سے روانہ ہوکر یہاں ٹھہری ہوئی تھیں وہ بھی جلوس کے آخرمیں شریک ہو گئیں۔ کہاروں نے یہاں سے ذرا قدم تیز کر دیے اور سورج نکلنے سے پہلے پہلے سواری پرانے قلعے پہنچ گئی۔ شیر شاہ کی مسجد کے سامنے ہوا دار رکھا گیا۔ بادشاہ سلامت نے مسجد میں نماز پڑھی، وظیفہ پڑھا، کوئی گھنٹا، آدھ گھنٹا قیام کر کے یہاں سے سواری بڑھی اور ابھی دن پوری طرح نہ نکلا تھا کہ ہمایوں کے مقبرے پہنچ گئی۔ مقبرے میں پردہ ہو گیا، سواریاں اتریں، باہر کے دروازے سے بادشاہ سلامت کا ہوادار کہاریوں نے سنبھال لیا اور مقبرے کے دروازے پر جا لگایا۔
سامنے کے صحن میں پہلے سے فرش ہو گیا تھا، مسند بچھی ہوئی تھی، بادشاہ سلامت مسند پر جا بیٹھے، وظیفہ ختم کیا، مقبرے کے اندر گئے۔ خاندان شاہی کے سیکڑوں لوگ اس مقبرے کے تہ خانوں میں موت کی میٹھی نیند سو رہے ہیں، ہر ایک قبر پر جا کر فاتحہ پڑھی۔ شہزادے ساتھ تھے، سب ایک ایک قبر دکھاتے، نام بتاتے، ان کے کارنامے سناتے، اپنی اور ان کی حالت کا مقابلہ کرتے اور بے اختیار روتے 24 فاتحہ سے فارغ ہو کر پھر ہوا دار میں سوار ہوئے اور جس ترتیب سے یہ قافلہ آیا تھا اسی ترتیب سے آگے بڑھا۔
درگاہ شریف قریب ہی ہے۔ تھوڑی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔ دلی والوں کو خاص اس درگاہ سے جو عقیدت ہے وہ بیان نہیں ہو سکتی۔ کسی قوم اور کسی ملت کا آدمی نہیں جو اس چوکھٹ پر سر نہ جھکاتا ہو اور کوئی بد نصیب ہی ہوگا جو یہاں سے نا مراد جاتا ہو۔ پردے کا انتظام پہلے سے ہوگیا تھا۔ ہوا دار باولی پر رکھا گیا۔ بادشاہ سلامت نے اتر کر وضو کیا، شہزادوں نے ہاتھ منہ دھویا۔ شہزادیوں کے لئے باولی کے طاقوں کے سامنے اوٹ لگ گئے تھے۔ کسی نے وضو کیا کسی نے غسل کیا، کوئی پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھی رہی۔ بادشاہ سلامت وضو کر کے ہوادار میں آبیٹھے۔ ادابیگنی نے عرض کی، ’’جہاں پناہ! باولی میں تیرنے کے لئے خادموں کے لڑکے آئے ہیں، کیا حکم ہوتا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’ہاں اماں، ہاں، بلاؤ وہ حق دار ہیں اپنا حق لینے آئے ہیں، کیوں نہ ملے گا، ضرور ملے گا۔‘‘
حکم ہونا تھا کہ سات سات آٹھ آٹھ برس کے بیس پچیس لڑکے اندر آئے، مجرا بجا لائے، اجازت چاہی اور گنبد پر چڑھ گئے۔ سیڑھیوں پر سے بیگمات اور شہزادیوں نے باولی میں روپے پھینکنے شروع کیے۔ ادھر روپیہ گرا اور ادھر کوئی نہ کوئی لڑکا گنبد پر سے کودا، ڈبکی لگائی اور روپیہ نکال لایا۔ تھوڑی دیر تک یہی تماشا ہوتا رہا۔ اس کے بعد سب کے سب درگاہ شریف میں گئے۔ پہلے حضرت امیر خسرو کے مزارپر فاتحہ پڑھی، وہاں سے حضرت سلطان جی کے مزار پر آئے۔ بادشاہ سلامت تو اندر چلے گئے۔ عورتوں نے گنبد شریف کے دروازے پر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی۔ کسی نے زنجیر پکڑ کر دعا مانگی، کسی نے چوکھٹ کی مٹی لے کر منہ پر ملی، کسی نے گود پھیلا کر دل ہی دل میں تلاوت شروع کی۔
کسی نے مسجد کے کٹورے کا قصہ شروع کیا، ’’دیکھنا بوا! یہ کٹورا سونے کا ہے، بڑا بھاری ہے، کئی سیر کا ہوگا، یہ سامنے جو تسبیح خانہ ہے اس میں بھی ایک ایساہی کٹورا لٹکا ہوا تھا۔ دادا جان کے زمانے میں ایک بڑھیا مصیبت کی ماری درگاہ شریف میں آئی اور عرض کی کہ یاحضرت! سات بیٹیاں ہیں، کھانے کوپیسہ پاس نہیں، یہ پہاڑ کیوں کر اٹھیں گے، آپ ہی مشکل آسان کیجئے۔ وہاں سے اٹھ جو تسبیح خانے میں آئی تو کٹورا گنبد سے اتر اس کی گود میں آ گیا، خوشی خوشی گھر آئی۔ بڑی دھوم دھام سے بیٹیوں کی شادیاں رچائیں، مزے سے ہنسی خوشی رہنے لگی۔
دلی کے ایک امیر تھے ان کوجو یہ خبر ہوئی تو انہوں نے بھی درگاہ شریف میں جا کر دعا مانگی، وہاں سے اس مسجد میں آئے۔ بڑی دیر تک کٹورے کو دیکھتے رہے۔ کٹورا جہاں تھا وہیں رہا، جل گئے۔ مزدوروں کو بلوا، پاڑ باندھی۔ جتنی پاڑ اونچی ہوئی، کٹورا اور اونچا ہوتا جاتا، پاڑ گنبد کے چھت تک پہنچی تو کٹورا غائب ہو گیا۔ ادھر پاڑ کھلی اور ادھر کٹورا اپنی جگہ پر آ موجود ہوا، سچ ہے لالچ بری بلا ہے۔ کٹورا تو کیا ملتا پاڑ باندھنے کا خرچ مفت گلے پڑا۔‘‘
بادشاہ سلامت فاتحہ سے فارغ ہو درگاہ شریف سے باہر آئے۔ محمد شاہ بادشاہ کے مزار مرزا جہانگیر، 25 مرزا نیلی 26 اور جہاں آرا بیگم 27 کی قبروں پر گئے۔ فاتحہ پڑھی۔ یہاں سے پھر باولی پر آئے، خادموں کو انعام دیے، فقیروں کو خیرات تقسیم کی اور وہاں سے نکل منصور کے مقبرے کی سیدھی سڑک پر ہو لئے۔ یہاں دو ٹھائی گھنٹے آرام کیا، خاصہ تناول فرمایا۔ کوئی چار بجے یہاں سے روانہ ہو، شام ہوتے ہوتے قطب پہنچ گئے۔ جنگلی محل اور مرزا بابر 28 کی کوٹھی پہلے سے آراستہ تھی، جو سواریاں سیدھی قطب آئی تھیں، انہوں نے سب سامان قرینے سے جما دیا تھا۔ خاصہ تیار تھا، دن بھر کے سب تھکے ماندے تھے، کھا پی نماز پڑھ، ایسے سوئے کہ جب چار بجے کی نوبت بجی، اس وقت کہیں جا کر آنکھ کھلی۔
جنگل محل اب تو واقعی جنگل محل ہے، ہاں کسی زمانے میں بڑا غدار محل تھا۔ پہلے ہی کچھ کم بڑا نہ تھا۔ بہادر شاہ نے دیوان خاص، دیوان عام، خاص محل اور باب ظفر بنوا کر اس کو اور بڑا کر دیا۔ دروازہ کیا ہے خود ایک چھوٹا سا محل ہے۔ سر تا پا سنگ سرخ کا ہے۔ روکا رپرسنگ مرمر کی پٹیاں، حاشیہ اور پھول دے کر اس کی رونق کو اوربھی دوبالا کر دیا ہے۔ دروازے کی بلندی کوئی 16-17 گز ہے، پہلو میں77 سیڑھیوں کا چکر دار زینہ ہے۔ محراب کے عین اوپر شاہی بارہ دری ہے۔ یہیں سے بیٹھ کر بادشاہ سلامت اور بیگمات پنکھوں کا تماشا دیکھتے تھے۔ دروازے سے ملا ہوا درگاہ شریف کا دروازہ ہے۔ جھرنے سے پنکھے اٹھ کر ادھر آتے۔ پہلے دن جوگ مایا جی کا پنکھا اٹھتا، دوسرے دن درگاہ شریف کا۔ درگاہ شریف کا پنکھا تو برابر والے روازے سے مزار شریف پر چلا جاتا۔ جو گ مایا جی کاپنکھا شاہی دروازے کے سامنے کچھ دیر رکتا۔ اس کے بعد حکیم احسن اللہ خاں کے مکان کے سامنے سے ہوتا ہوا مندر چلا جاتا۔
باب ظفر کے اندر کا حصہ دیکھنے کے قابل ہے۔ بڑے پھاٹک سے لگا کر اندر محل تک سات ڈیوڑھیاں ہیں۔ پھر ہر ڈیوڑھی پر پہرے داروں کے لئے سہ دریاں بنی ہوئی ہیں۔ پھاٹک پر تو وگلا پلٹن کا پہرا تھا۔ اندر کی ڈیوڑھیوں پر ترکنوں، 29 قلماقنیوں، 30 اردابگنیوں 31 شدنوں اور گرجنوں کی نشست ہوتی۔ بھلا کیا مجال کہ محل میں پرندہ تو پر مار جائے۔ پھاٹک سے گھستے ہی الٹی طرف، پہلی ڈیوڑھی کے پاس سے زنانے کو راستہ جاتا تھا۔ غرض اس محل میں اتنی گنجائش تھی کہ سارا قلعہ اس میں سما جاتا ا ور پھر بھی جگہ رہتی۔ اب مردانے اور زنانے سب مکانات ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہو گئے۔ ایک با ب ظفر رہ گیا ہے، اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جس محل کا یہ دروازہ ہے وہ محل کیا ہوگا۔ بادشاہ کی کہی ہوئی تاریخ دروازے کی روکار پراکندہ ہے، ایں در عالی چو شد مکرم بنا حسب المراد
گفت دل سال بنا باب ظفر پائندہ باد
سن 11 جلوس 1264ھ
زمانے کے ہاتھوں اس دروازے کا بھی وہی حشر ہوا جو اندر کے محلوں کا ہوا۔ وہ تو کہو محکمہ آثار قدیمہ نے اس کو اپنی نگرانی میں لے کر سنبھال لیا ہے۔ خیر، تو صبح کی نوبت بجی ہی تھی کہ محل میں چہل پہل شروع ہوئی۔ منہ ہاتھ دھو، کپڑے بدل، نماز پڑھ، ناشتا کر، سب شہزادے شہزادیاں، بادشاہ سلامت کے سلام کو آئیں۔ مطلب یہ تھا کہ چلئے، یہاں بیٹھنے تھوڑی آئے ہیں۔ جہاں پناہ بھی وظیفے سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے۔ سب کا سلام لیا۔ دعائیں دیں، ان سب کا مطلب سمجھ گئے۔ فرمایا، کہو اماں، کہاں کا ارادہ ہے؟ جھرنے کا یا قطب صاحب کی لاٹھ کا۔
سب نے عرض کی، ’’پیر و مرشد! پہلے جھرنے تشریف لے چلئے، ابر آیا ہوا ہے اس وقت جھرنے پر بہار ہوگی۔‘‘ فوراً اردابیگنیوں کو پردہ کرانے کا حکم دیا گیا۔ وگلا پلٹن کے سپاہیوں نے ناکہ بندی کر دی۔ اردا بیگنیوں، قلما قینیوں نے راستے کا انتظام کیا۔ شدنیں اور گرجنیں بیگمات اور شہزادیوں کے ہمراہ ہوئیں۔ ماماؤں، اصیلوں، خواصوں او سریتوں کا غول کا غول نکلا اور سیدھا جھرنے کا رخ کیا۔ شہزادیوں نے پہلے درگاہ شریف میں حاضری دی، وہاں سے مرزا بابر کی کوٹھی میں سے ہو 32 جنگل میں نکل گئیں۔ پہلے جہاز پر جا کر ذرا دم لیا، شمسی تالاب کا لطف اٹھایا۔ میلوں تک پانی ہی پانی تھا۔ برجی 33 بیچ میں آ گئی تھی۔ پانی کا یہ عالم دیکھ کے بہتوں کے جی میں آیا کہ کود پڑیں۔ پھر خیال آیا کہ بادشاہ سلامت سے اجازت لئے بغیر پانی میں اترنا ٹھک نہیں۔ چپکی ہو رہیں۔ تھوڑی دیر یہاں ٹھہر کر سب کے سب اولیا 34 مسجد پہنچے۔ مصلوں پر نفل پڑھی۔ اتنے میں بادشاہ سلامت کی سواری بھی آ گئی، شہزادے ساتھ تھے، ا ٓگے آگے سواری چلی، پیچھے پیچھے عورتوں کا یہ غول روانہ ہوا۔ اولیا مسجد سے جھرنا دور ہی کتنا ہے۔ تھوڑی دیر میں سب کے سب وہاں پہنچ گئے۔
جس نے پہلے زمانے کا جھرنا نہیں دیکھا اس نے دلی میں کچھ خاک نہیں دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے بہشت کا ایک کونا کاٹ کر مہرولی 35 میں جوڑ دیا ہے۔ خدا کی قدت دیکھوں کہ یہ بنا کس لئے تھا اور ہو گیا کیا۔ فیروز شاہ تغلق نے شمسی تالاب کا بند باندھ کر اس کا پانی نو لکھی نالے میں ڈالا تھا اور اس نالے کو تغلق آباد کے نالوں سے ملا دیا تھا تاکہ قلعے میں پانی کی قلت نہ ہو۔ تغلق آباد ویران ہو گیا، نالہ ٹوٹ گیا، تالاب کا پانی جنگل میں بہنے لگا، یہ دیکھ کر 1700ء میں نواب غازی الدین 36 فیروز جنگ بہادر نے شمسی تالاب کے بند کے سامنے حوض بنوائے، نہریں نکالیں، فوارے لگائے اور اس ٹکڑے کو بہشت کا نمونہ کر دیا۔
رفتہ رفتہ یہاں بارہ دریاں، دالان اور مکانات بن گئے، چار دیواری کھنچ گئی۔ درخت بڑھ کر جھرنے پر چھتر ہو گئے اور تھوڑے دنوں میں یہ جگہ کچھ سے کچھ ہو گئی۔ بند سے سوتوں کی شکل میں پانی جھر جھر کر یہاں آتا تھا اسی لئے اس مقام کا نام جھرنا ہو گیا۔ بند سے ملا ہوا جو سہ درہ دالان ہے، وہی جھرنے کی جان ہے۔ دالان کی چھت اندر سے کھوکھلی ہے۔ بند کا پانی پہلے چھت میں آتا ہے۔ چھت میں درزیں چھوڑ دی ہیں، دوزوں میں سے پانی اس طرح گرتا ہے گویا دالان میں مینہ برس رہا ہے۔ دالان کے سامنے جو دیوار ہے اس میں چراغ رکھنے کے لئے سیکڑوں طاق بنے ہوئے ہیں۔ چراغوں کے سامنے پانی کی چادر گرتی ہے۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے یا تو پانی میں آگ لگا دی ہے یا سونا پگھل پگھل کر برس رہا ہے۔
چھت کی منڈیر کے نیچے13 پرنالوں میں سے ہو کر پانی چھجے پر آتا ہے۔ چھجے کے نیچے ایک بڑا حوض ہے، پر نالوں کا پانی چھجے پر پھیل کر اس زور سے حوض میں گرتا ہے گویا دھواں دھار بارش ہو رہی ہے۔ حوض کے سامنے 8 گز لمبی دو گز چوڑی اور گز بھر گہری ایک نہر ہے۔ حوض کا پانی ابل کر اسی نہر میں آتا ہے۔ جہاں نہر ختم ہوئی ہے وہاں سلامی کے پتھر دے کرایک چادر سی بنا دی ہے۔ اس سلامی کے پتھروں پر ایسی اچھی منبت کاری کی ہے کہ پانی کے بنے سے چادرپر مچھلیاں سی تڑپتی معلوم ہوتی ہیں۔ اس چادر کے نیچے شمال اور جنوب سے دو نہروں کے پانی اور آن ملے ہیں۔ آگے چل کر یہ پانی پھر تین نہروں میں بٹ جاتا ہے۔ بڑی نہر تو بارہ دری کے منڈوے 37 کے نیچے چلی گئی ہے اور چھوٹی دونوں نہریں چکر کھا کر منڈوے کے دونوں طرف سے چار دیواری کے باہر نکل جاتی ہیں۔
محمد شاہ کے زمانے سے لگا کر بہادر شاہ تک، شاید ہی کوئی دلی کا بادشاہ ہوگا جس نے جھرنے میں کوئی عمارت نہ بنوائی ہو۔ خود محمد شاہ نے تو بڑی نہر کے اوپر بارہ دری کا منڈوا بنوایا۔ شاہ عالم ثانی نے جنوب کی طرف پچ درہ دالان نکالا، اکبر شاہ ثانی نے شمال کی جانب دہرا دالان تعمیر کیا، بیچ میں جو جگہ رہی تھی اس میں بہادر شاہ نے سنگ سرخ کی بارہ دری بنوا کر جھرنے کی عمارتوں کو مکمل کر دیا۔ جھرنے کے قریب ہی دو چیزیں دیکھنے کے قابل ہیں۔ ایک ’’پھسلنا پتھر‘‘ دوسرے ’’امریاں‘‘ پھسلنا پتھر محمد شاہ بادشاہ کی جدت پسند طبیعت کی یاد گار ہے۔ یہ پتھر کوئی سوا چھ گز لمبا اور اڑھائی گز چوڑا ہے اور جھرنے کی مشرقی دیوار سے ملا کر اس کو ذرا جھکا ہوا گاڑ دیا ہے۔ یہ پتھر اس بلا کا چکنا ہے کہ ذرا کوئی بیٹھا اور پھسلا۔ پھول والوں کی سیر میں لوگوں کو اس پر چڑھنا اور پھسلنا ایک تماشا ہو جاتاہے۔ اسی پتھر کے استعارے سے ذوق نے یہ شعر کہا ہے،
میں کہاں سنگ در یار سے ٹل جاؤں گا
کیا وہ پتھر ہے پھسلنا کہ پھسل جاؤں گا
بارہ دری کے منڈوے سے ملا ہوا جھرنے کا دوسرا دروازہ ہے اور اس کے باہر امریاں۔ آموں کے درخت تو ہر جگہ ہوتے ہیں مگر یہاں کے درختوں پر کچھ اور ہی بہار ہے، جھرنے کے پانی سے بارہ مہینے سر سبز رہتے ہیں اور اتنے گھنے ہو گئے ہیں کہ آسمان بھی مشکل سے نظر آتا ہے۔ ادھر ان کی سبزی، ادھر نیچے گھاس کی سبزی۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین اور آسمان سبز مخمل کے بن گئے ہیں۔ جھرنے میں چادروں کا گرنا، فواروں کا اچھلنا، پانی کا بہنا، اگر’’ جنت نگاہ‘‘ ہے تو امریوں میں موروں کی جھنگار، پپیہے کی پکار او رکوئل کی کو کو’’ فردوس گوش‘‘ ہے۔ غرض جھرنا ایک عجیب چیز تھا کہ ہر موسم میں ایک نیا لطف دکھاتا تھا اور ہر شخص کو نئی لذت بخشتا تھا۔ اب اس کی بھی بہار گئی۔
شمسی تالاب کٹ چھنٹ کر حوض بن گیا، بند اس سے دو رجا پڑا۔ پانی کا رسنا موقوف ہوا۔ نہریں خشک ہوگئیں۔ حوض ملبے سے اٹ گئے۔ درخت سوکھ سوکھ کرکٹ گئے، پھسلنا پتھر ٹوٹ کر ٹکڑے ہوگیا۔ ہاں عمارتیں کھڑی رہ گئی ہیں۔ کچھ دنوں میں ان کا بھی وقت آ لگے گا، اس کے بعد جھرنے اور امریوں کا بس نام ہی نام رہ جائے گا۔ سچ ہے ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔
تو ہاں، بادشاہ سلامت کے جھرنے پہنچتے ہی، قلماقنیوں نے شاہی پنگورا کھڑا کر اس میں مسند بچھا دی، ہوا دار پنگورے کے پاس جا لگا۔ بادشاہ اتر، اس میں جا بیٹھے۔ دو خواصیں مورچھل لیے، پیچھے جا کھڑی ہوئیں۔ دو نے آہستہ آہستہ پنگورے کا ہلانا شروع کیا۔ تھوڑی دیر آرام لینے کے بعد بادشاہ سلامت نے فرمایا، ’’کہو اماں، کیا ارادہ ہے، اب تیرنا ہوتا 38 ہے یا جھولا جھولنا؟‘‘
’’اچھا، کچھ جھرنے میں رہو، کچھ امریوں میں چلو، یہاں کا بھی لطف اٹھاؤ وہاں کا بھی مزہ دیکھ لو۔ ہم تو امریوں میں جاتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ بادشاہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ٹہلتے ٹہلتے بارہ دری کے دروازے سے امریوں میں آ گئے، یہاں پہلے سے انتظام ہو گیا تھا۔ ایک طرف بادشاہ سلامت اور بادشاہ بیگم کے تخت بچھ گئے تھے، دوسری طرف شہزادیوں کے لئے دری، چاندنی اور قالینوں کے فرش کر کے تکیے لگا دیے گئے تھے۔ درختوں میں بیسیوں جھولے پڑ گئے تھے۔ پہلے بادشاہ سلامت تخت پر بیٹھے، اس کے بعد سب سلام کر کے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ انتظار تھا کہ کب حکم ہواور کب جھولوں پر جائیں۔
بادشاہ نے فرمایا، ’’واہ جی واہ، خالی جھولا کیسا، کڑھائی چڑھاؤ جھولتے جاؤ کھاتے جاؤ۔‘‘
تاج محل 39 نے عرض کی، ’’جہاں پناہ، ہم پہلے ہی سے یہ انتظام کر کے آئے ہیں، حکم کی دیر ہے، ابھی سب کچھ ہو ئے جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ لونڈیوں کی طرف دیکھا، وہ تو حکم کی منتظر ہی کھڑی تھیں۔ ذرا سی دیر میں بیسیوں کڑھائیاں آ گئیں۔ درختوں کی جڑوں میں چولہے لگ گئے۔ کسی کسی بیگم کے سامنے انگھی آگئی۔ اب ہے کہ کوئی تو بیٹھا بیسن پھینٹ رہا ہے، کوئی گلگلوں کے آٹے میں کھانڈ ملا رہا ہے، کوئی سہال اور اندر سے تلنے کی تیاری کر رہا ہے، کوئی اندر سے کی گولیوں کا سامان نکال رہاہے، کوئی چھاج پر کھجوریں بنا رہا ہے۔ غرض تھوڑی دیر میں خاصہ بازار سا لگ گیا۔ جب سامان سے لیس ہو گئے تو ایک نے بڑھ کر بادشاہ سلامت سے عرض کی، ’’حکم ہو تو کڑھائی میں گلگلا پڑے؟‘‘
فرمایا، ’’نہیں، اماں، ابھی نہیں، جھولوں پر لوگ بیٹھ لیں اس وقت پکوان شروع ہو۔‘‘ یہ کہہ نواب زینت محل اور نواب تاج محل کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں کھڑی ہو گئیں۔
تاج محل تو ایسی خوبصورت نہ تھی۔ ہاں، زینت محل کی کچھ نہ پوچھو، عجب قبول صورت پائی تھی۔ شہر بھر میں ایک تھیں، ان کی جامہ زیبی اور حسن کی تعریف ہی سن کر بادشاہ نے ان سے شادی کی تھی، رنگت ایسی سرخ و سفید تھی جیسے گلاب کی پتی، یا شہاب اور میدہ، کتابی چہرہ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبی ستواں ناک، ہاں بھویں بالکل نہ تھیں۔ اس کی کمی کو سرمے کی بھویں بنا کر پورا کیا جاتا، ہاتھوں میں دھانی چوڑیاں، سر پر تاروں بھرا گلنار دوپٹا، جسم پر سرخ انگیا کرتی، باون کلی کا سبز زر بفت کا پائجامہ، موتیوں جڑی گھیتلی جوتی۔ آنکھوں میں گہرا گہرا سرمہ، دانتوں میں مسی، ہونٹوں پر لاکھا۔ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ پرستان کی پری امریوں میں اتر آئی ہے۔
زینت محل نے تاج محل کو ناک بھوں چڑھا کر دیکھا۔ تاج محل نے زینت محل کو برے برے دیدوں سے گھورا۔ حکم سے لاچار تھیں۔ بادشاہ سلامت کے سامنے جو جھولا تھا، اس کے لال سبز ریشم کے رسے اور گنگا جمنی پٹریاں تھیں۔ دونوں اٹھ اس میں جا بیٹھیں۔ زینت محل نے پاؤں جوڑے، تاج محل نے جھونٹے لینے شروع کئے۔ بادشاہ سلامت نے فرمایا، ’’واہ جی واہ، ایسا سوتا جھولا ہم کو تو پسند نہیں، بی ٹرمنھہی 40 خانم اور دلدار 41 کو بلواؤ۔ بھلا بیگمات جھولیں اور یہ دونوں جھرنے میں گھسی رہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی دو اردابیگنیاں جا، دونوں کو جھرنے میں سے پکڑ لائیں۔ دونوں بچاریاں جھرنے میں نہا رہی تھیں، سارے کپڑے شور بور تھے۔ پہلے تو سامنے آتے ذرا جھجکیں مگر جب بادشاہ سلامت نے خود فرمایا، آؤ اماں آؤ، قطب کی بہار یہی ہے۔‘‘ تو اس وقت ذرا ہمت بڑھی، کپڑے نچوڑتی ہوئی دونوں جھولے کے ادھر ادھر کھڑی ہو گئیں اور شہزادیاں بھی آواز ملانے آ گئیں۔
ادھر انہوں نے ملار شروع کیا اور ادھر کڑھائی میں گلگلا پڑا۔ ٹرمنہئی خانم اور دلدار تو خیر رنڈیاں تھیں، تاج محل ڈومنی تھیں۔ مگر شہزادیوں کی آوازیں بھی رس میں کچھ کم نہ تھیں۔ محمد شاہ بادشاہ کے زمانے سے شاید ہی کوئی محل والی ہوگی جو گانا نہ جانتی ہو۔ تان رس خاں اسی لئے نوکر تھے، تاج محل اسی لئے محل میں آئیں۔ بی ٹرمنھئی خانم اور دلدار کی اسی گانے سے بادشاہ کے حضور میں رسائی ہوئی۔ اب جھولے کے ساتھ گانا شروع ہوا۔
جھولا کن ڈارو، رے، امریاں
جھولا کن ڈارو، رے، امریاں
رین اندھیری، تال کنارے، مرلا جھنگارے
بادل کارے، بوندیا پڑیں، پھنیاں پھنیاں
جھولا کن ڈارو سے امریاں
دو سکھی جھولیں، دو ہی جھولائیں
چار مل گئیاں، بھول بھلیاں
جھولا کن ڈارو، رے امریاں
وہ نور کے گلے، وہ رسیلی آوازیں وہ اونچی تانیں، وہ وقت کی راگنی، وہ سہانا وقت، پتے پتے اور ٹہنی ٹہنی سے جھولا کن ڈارو، رے امریاں کی آواز آ رہی تھی۔ مور درختوں سے اتر جوش میں آ سامنے ناچنے لگے۔ درختوں کے جانور چہکنے لگے۔ پپیہے کی پیہو پیہو اور کوئل کی کو کو سے سارا جنگل گونج اٹھا۔ غرض ایسا سماں باندھا کہ ایک دفعہ ہی فراٹے سے مینہ کا چھینٹا آیا۔ لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ بادشاہ سلامت نے فرمایا، ’’واہ اماں واہ، قطب میں مینہ سے بھاگتے ہو، بھادوں کا چھینٹا ہے، ابھی برسا ابھی نکل گیا۔ ہاں بی دلدار کوئی اور چیز ہو جائے اور ہاں تم سب ایک ہی جھولے کوکیوں گھیرے کھڑے ہو، دوسرے جھولوں پر جاو، گاؤ بجاؤ، کھاؤ پیو، کچھ لطف اٹھاؤ۔‘‘
یہ سننا تھا کہ جھولوں کی طرف سب دوڑ پڑے۔ دو چار جھولوں پر تو بچوں نے قبضہ کر لیا، جو باقی رہ گئے، ان پر شہزادیاں ہو بیٹھیں۔ جب ذرا یہاں چھیڑ ہوئی تو دلدار نے دوسری چیز شروع کی،
سنو سکھی سیاں جو گیا ہو گئے، سنو سکھی سیاں جو گیا ہو گئے
میں جو گن تیرے ساتھ، سنو سکھی سیاں جوگیا ہو گئے
جو گیا بجائے بین بانسری، جو گیا بجائے بین بانسری
جوگن گائے ہے ملار، سنو سکھی سیاں جو گیا ہو گئے
جو گیا نے چھائی، جنگل جھونپڑی، جوگیا نے چھائی جنگل جھونپڑی
جوگن نے چھایا ہے بدیس، سنو سکھی سیاں جو گیا ہو گئے
جو گیا نے پہنے لال لال کپڑے، جوگیا نے پہنے لال لال کپڑے
جو گن کے لمبے لمبے کیس، سنو سکھی سیاں جوگیا ہو گئے
اب کیا پوچھتے ہو گرم گرم پکوان آ رہا ہے، کھا رہے ہیں، جھولا جھول رہے ہیں۔ کوئی اندر سے کی گولیاں منہ میں دبائے ہیں کسی کے منہ میں سہال کا ٹکڑا ہے کسی کے حلق میں بیسن کی پھلکی پھنس گئی ہے۔ سانس رکا جاتا ہے مگر ملار ہے کہ چل رہا ہے۔ مینہ برس کر نکل گیا تھا پھر بھی پانی کی بوندیں درختوں میں سے ٹپ ٹپ گر رہی تھیں۔ ادھر بوند کڑاہی میں گری، تیل اڑا، اور ادھر کسی نہ کسی کے منہ سے ’’اوئی‘‘ کی آواز نکلی۔ کسی کے ہاتھ پر چھینٹا پڑا، تو کسی کے منہ پر۔ کوئی تو ’’اوئی توبہ ہے‘‘ کہہ کر رہ گئی، کوئی کلہ سہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ دوسروں نے پھر پکڑ یہ کہہ، بٹھا لیا کہ ’’واہ بوا! نوج کوئی ایسا نازک بن جائے۔ چھینٹا پڑتا ہی ہے، یوں کڑھائی چھوڑ کر کوئی نہیں اٹھ کھڑا ہوتا۔‘‘
بچوں کے جھولے پر کچھ اور ہی مزا تھا۔ پکوان کی سب سے زیادہ کھپت یہیں تھی۔ دو جھولے تو لڑکوں کے قبضے میں تھے، باقی پر لڑکیاں جھول رہی تھیں۔ لڑکے تو جھولے میں کھڑے ہو وہ لمبے لمبے پینگ بڑھا رہے تھے کہ خدا کی پناہ۔ ہاں لڑکیاں جھولوں میں چھوٹی چھوٹی لال سبز پٹڑیاں ڈالے، پاؤں جوڑے، جھول رہی تھیں۔ وہ بے سرا ملا ر چل رہا تھا کہ واہ جی واہ، کسی کی تان کدھر جاتی تھی، کسی کی کدھر۔ لڑائی بھی ہوتی جاتی تھی کہ ’’لو، بوا بس اترو بہت جھول چکیں، اب ہماری باری ہے۔‘‘ لیکن گانے کا سلسلہ نہ ٹوٹتا تھا۔ گیت بھی بڑے مزے کا تھا۔ ذرا سنیئے۔
اماں، آڑو جامن گھلے دہرے
اماں، میں نہیں کھاتی میری ماں
اماں، تتا پانی بھرا دھرا
اماں، میں نہیں نہاتی میری ماں
اماں، دھانی جوڑا سلا دھرا
اماں، میں نہیں پہنتی میری ماں
اماں، بھائی بھاوج ملن کھڑے
اماں، میں نہیں ملتی میری ماں
غرض پھوپھا، پھوپھی سے لگا ماماؤں اور اناؤں تک سب ملنے کو کھڑے ہیں، مگر لڑکی کسی سے ملنے کا نام نہیں لیتی۔ آکر تان اس پر ٹوٹی تھی کہ،
اماں، ساجن ڈولا لئے کھڑا
اماں، میں نہیں جاتی میری ماں
یہاں تو یہ ہو رہا تھا اور وہاں جھرنے پر کچھ اور ہی بہار تھی۔ ادھر بادشاہ سلامت جھرنے سے نکل، امریوں میں آئے اور ادھر شہزادیوں نے کواڑ بند کر، ڈھیلے پائجامے اتار، تنگ پائجامے پہن، دھم سے جھرنے میں غوطہ مارا۔ کوئی ڈبکیاں لگا رہی ہے، کوئی تیر رہی ہے، کوئی کمر کمر پانی میں کھڑی چھینٹے لڑ رہی ہے۔ بچے اتھل نہروں میں کھڑے اودھم مچا رہے ہیں۔ کچھ حوض کے سہ درے دالان میں کھڑی نہا رہی ہیں، کچھ پھلسواں پتھر سے پھسل رہی ہیں، نیچے گھر کر قلابازیاں کھاتی ہیں، کیچڑ میں لت پت ہوتی ہیں۔ حوض میں آ کر کود پڑتی ہیں۔ نہانے والیاں غل مچاتی ہیں کہ’’نکلو، سارا پانی گدلا کر دیا۔‘‘ غرض ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں ایسا مست تھا کہ دنیا و ما فیہا کی خبر نہ تھی۔ اتنے میں پرچہ لگا کہ حضرت جہاں پناہ ناظر کے باغ تشریف لے جا رہے ہیں۔
اب کیا تھا، سب نے پانی میں سے نکل، جھٹ پٹ کپڑے بدلے، بچوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر نہروں میں سے نکالا۔ یہ ادھر ان کے کپڑے لینے گئیں اور ادھر وہ دھم سے پھر نہروں میں کود گئے۔ بڑی مشکل سے بچوں کو پونچھ پانچھ کپڑے بدلوائے، جھرنے کے دروازے کھل گئے، سب کے سب وہاں سے نکل امریوں میں آئے، تھوڑ ابہت جھولا جھولا، پکوان کھایا اور ناظر کے باغ کا راستہ لیا۔
ناظر کا باغ جھرنے سے قریب ہی ہے۔ محمد شاہ بادشاہ کے ناظر روز افزوں نے بنوایا تھا۔ امریوں کےسامنے ہی اس کا بڑا دروازہ ہے، دروازے پر یہ تاریخ کندہ ہے،
پے تاریخ سالش گفت ہاتف
خدا یارے بود باللہ مبارک
باغ کے گرد پختہ چار دیواری ہے۔ اندر چاروں طرف سنگ سرخ کی چار بارہ دریاں ہیں۔ بیچ میں ایک بڑی خوبصورت عالی شان بارہ دری ہے۔ بیچ کی بارہ دری کے چاروں طرف چار حوض ہیں۔ ان حوضوں میں کئی کئی فوارے ہیں۔ جھرنے کا پانی اس باغ میں آتا ہے۔ ان چاروں حوضوں سے چار نہریں نکالی ہیں۔ تھوڑی دور نہر گئی اور دوسرے حوض میں گر گئی۔ اس سے نکلی تیسرے حوض میں جا گری، اسی طرح حوضوں میں سے یہ نہریں ہوتی ہوئی اور سامنے کی بارہ دریوں کے گرد گھوم کر باہر نکل جاتی ہیں۔ ان نہروں کی وجہ سے باغ کے چار حصے ہو گئے ہیں۔ نہروں کے دونوں کناروں پر چلنے پھرنے کے لئے پختہ روشیں ہیں۔ اس کے بعد گھاس کے تختے ہیں اور ان تختوں سے ملی ہوئی پھولوں کی کیاریاں اور کیاریوں کے بعد گھنے سایہ دار درخت۔
شروع بھادوں تھا، آم کے درختوں پر بہار تھی۔ گوندنی کی طرح لدے ہوئے تھے۔ بھلا بغیر اجازت کے کون ہاتھ لگا سکتا تھا۔ ڈرتے ڈرتے بادشاہ سلامت سے اجازت چاہی، اجازت ملنی تھی کہ سب کے سب درختوں پر ٹوٹ پڑے۔ آدھے کھائے، آدھے پھینکے، گٹھلیاں چلیں۔ چھلکے چلے، تھوڑی دیر میں نئے کپڑے عجیب شان کے ہو گئے۔ بارہ دری کے حوضوں میں پھر سب جا کر نہائے، کپڑے بدلے، خاصے پر آ کر بیٹھے، مگر کیسا کھانا اور کہاں کا کھانا۔ پکوان اور آموں سے پیٹ بھر چکے تھے۔ منہ جھوٹا لئے کو بیٹھ گئے تھے۔ ذرا سی دیر میں دستر خوان بڑھ گیا۔ اس کے بعد سب ہیں اور وہی آموں کے درخت، شام تک کئی کئی جوڑے بدل گئے۔ غرض کہ سارے کا سارا دن اسی جھرنے، امریوں اور باغ کے پھیر میں گزر گیا۔ شام کو جنگل محل میں آن کر، وہ لمبی تانی کہ صبح کی خبر لائے۔
دوسرے دن قطب صاحب کی لاٹھ، علائی دروازے، 42 امام ضامن کے مقبرے، بھیم کی چھٹنکی، 43 کڑوے میٹھے 44 نیم اور بارہ بادشاہوں 45 کی قبروں کا چکر رہا۔ تیسرے روز چہل تن چہل من، 46 بکاولی کے قلعے 47 جمالی کمالی کے مزار اور اندھیر یا 48 باغ کی سیر کی۔ غرض تین دن میں سارا قطب چھان مارا، تھک کر چور ہو گئے، پھرتے پھرتے پاؤں میں چھالے پڑ گئے، جب کہیں جا کر تھل سے بیٹھے۔ چودھویں تاریخ بھی آ گئی۔ صرف جنگلی محل اور مرزا بابر کی کوٹھی قلعے والوں کے پاس رہی، باقی سارے قطب پر دلی والوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
دلی والے سیر کا انتظام تو پورے سال کرتے رہتے ہیں، ہاں تاریخ مقرر ہونے کے بعد اس میں ذرا تیزی آ جاتی ہے۔ ادھر تاریخ مقرر ہوئی اور ادھر کار خنداروں (کارخانہ داروں) کے ہاں پتی پڑی۔ حسب مقدور سب نے اس میں چندہ دیا۔ یہ تو قطب میں کھانے پینے کا خرچ ہو گیا۔ اب رہے دوسرے خرچ، تو وہ تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ جی چاہے اٹھاؤ، جی چاہے نہ اٹھاؤ۔ تیرہ تاریخ سے دلی خالی ہونی شروع ہوئی۔ اجمیری دروازے سے لگا قطب تک دکانیں لگ گئیں۔ امیروں کی پالکیاں جا رہی ہیں۔ رنڈیوں کی رتھیں نکل رہی ہیں۔ ایک ایک رتھ ایسی کہ نظر لگے۔ مخمل کی برجی، اس پر زردوزی کے پھول، اوپر سنہری کلس، اطلس کے پھندنے، کلابتوں کی ڈوریاں، سفید براق پہئے، ان پر رنگین بیل بوٹے، ناگوری بیل، ان پر زردوزی کام کی جھولیں۔ گلے میں چاندی کے گھنگرو، سینگوں پر سنگوٹیاں، ریشم کی ناتھیں۔ اندر بناؤ سنگار کئے رنڈیاں بیٹھی ہیں۔
ایک رتھ آئی نکل گئی۔ دوسری آئی نکل گئی۔ دلی کے شرفا گھوڑوں پر سوار۔ مخمل کے کار چوبی زین پوش، لیسیں ٹکی ہوئی لگا میں۔ گنگا جمنی گہنا پہنے ہوئے گھوڑے، رنگی اور گندھی ہوئی ایالیں، ریشمی باگ ڈور تھامے سائیس، ان کے صاف شفاف کپڑے، چھوٹی چھوٹی سرخ پگڑیاں۔ ایک ہاتھ میں باگ ڈور، دوسرے میں چندری، سوار ہیں کہ شہ سواری کے انداز دکھاتے چلے جا رہے۔ غریبوں کا کچھ عجیب رنگ ہے۔ صرف ایک تہمت 49 بندھی ہے، نہ جسم پر کرتا ہے نہ سر پر ٹوپی، نہ پاؤں میں جوتی، ہاں ایک چھوٹا سا مٹکا سر پر اوندھائے سر پٹ اڑے جا رہے۔ اب یہ نہ پوچھو کہ اس مٹکے میں کیا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ سیر کا سارا ذخیرہ اسی مٹکے میں ہے۔ تحفہ تحفہ کپڑے ہیں۔ لیس دار کار چوبی ٹوپی ہے، لپواں سلیم شاہی جوتی ہے، روپے ہیں، پیسے ہیں، بچھونا ہے، غرض سب ہی کچھ بھرا ہے۔ مٹکے میں اس لئے رکھا ہے کہ بھیگ نہ جائے۔ ترکیب اچھی نکالی ہے۔ سامان کا سامان بچا اور مٹکا قطب میں کام آیا۔
تیرہویں کی صبح سے جو لین لگی تو کہیں چودہویں کی شام کو جا کر ختم ہوئی۔ ساری دلی خالی ہو گئی۔ شاید ہی کوئی گھر ہوگا جس میں مرد یا بچہ رہ گیا ہو۔ اب رہی عورتیں تو انہوں نے دلی میں سیر منائی۔ سبزی منڈی نکل گئیں، باغوں کی سیر کی، جھولے ڈالے، کڑھائیاں چڑھائیں، آم کھائے، حوضوں میں نہائیں، غرض دل کے پوے ارمان نکا ل لئے۔ شاہی حکم تھا کہ جس سرکاری باغ میں دلی والیاں جانا چاہیں، تو جانے دو۔ پردہ کرا دو، باہر پہرے لگا دو کہ کوئی مرد اندر نہ جا سکے۔ آگے یہ جانیں اور باغ جانے، انہوں نے بھی دو روز میں سارے باغوں کو لنڈورا کر دیا۔ آموں کی گھٹلیوں اور چھلکوں کے ڈھیر لگا دیے۔ دن میں کئی کئی دفعہ اٹھائے جاتے اور پھر وہی پہاڑ کے پہاڑ لگ جاتے۔
سیلانیوں نے پہلے قطب میں اپنے لئے کونے تلاش کیے۔ بھلا قطب میں ٹھہرنے کے لئے جگہ کی کیا کمی تھی۔ سرکاری ڈیرے تھے، شاہی مکانات تھے، پرانے کھنڈر تھے۔ امرا تو اپنے مکانوں میں جا ٹھہرے، روپے پیسے والوں نے سڑک کے دونوں طرف جو کوٹھے تھے وہ کرائے پر لے لیے۔ غربا کچھ تو ڈیروں اور سرکاری مکانات میں جا پڑے، کچھ جھرنے میں جا ٹھہرے کچھ ناظر کے باغ میں اتر گئے، لیکن جن کو قطب کا لطف اٹھانا تھا انہوں نے آسمان کے نیچے ڈیرا کیا۔ مینہ برستا ہے برسنے دو، یہی قطب کی بہار ہے۔ مہرولی کے بازار کی کچھ نہ پوچھ، اس سرے سے اس سرے تک سارا آئینہ بند تھا۔ دنیا بھر کے سودے والوں کی دکانیں لگ گئی تھیں۔ میوے مٹھائیوں اور کھلونوں سے بازار پٹا پڑا تھا۔ ایک طرف حلوائیوں کے ہاں پوریاں، کچوریاں، بیوڑیاں، سہال اور اندرسے تلے جا رہے تھے تو دوسری طرف کبابوں، پراٹھوں، بریانی، مزعفر اور متنجن کی خوشبو سے سارا بازار پڑا مہک رہا تھا۔ گاہک ہیں کہ ٹوٹے پڑتے ہیں۔ لیا، کھایا، پتے وہیں پھینک، آگے بڑھے۔
پنواڑن کی دکان پہنچے۔ بی پنواڑن ہیں کہ بالوں میں تیل ڈالے، کنگھی کئے، آنکھوں میں سرمہ لگائے، دانتوں میں مسی ملے، بڑے ٹھاٹھ سے بیٹھی پان بنا رہی ہیں۔ دیسی پان لال لال صافیوں میں لپٹے، سامنے دھرے ہیں۔ پان بن رہے ہیں، مذاق ہو رہا ہے، یار لوگوں نے پان لئے، خود کھائے، دوسروں کو کھلائے، پیک تھوکی، آگے بڑھے، پھول والوں کی دکانوں سے گجرے لئے، گلے میں ڈالے، ساقی کے پاس ٹھہر دو دم حقے کے مارے، ایک دو پیسے دیے۔
آگے قدم بڑھایا۔ ساقی کے پاس ٹھہر دو دم حقے کے مارے، ایک دو پیسے دیے، آگے قدم بڑھایا۔ ساقی کا رنگ بھی آج کچھ نیا ہے۔ حقہ کیا ہے ایک تماشا ہے۔ کوئی گز بھر اونچا نیچا، اس پر اتنی بڑی چلم کی ڈیڑھ پاؤ تمباکو آئے۔ نے ہے کہ یہاں سے وہاں تک چلی گئی ہے۔ نے کو سنبھالنے کے لئے کئی کئی گھوڑیاں دے رکھی ہیں۔ نے پر خس چڑھا ہے۔ اوپر موتیا، چنبیلی کی لڑیاں لپٹی ہیں۔ گھوڑیوں کے اوپر روشنی کے چھوٹے چھوٹے گلاس لگے ہیں۔ ساقی خود بھی سفید کپڑے پہنے سبز بنارسی سیلہ باندھے، لال پٹکا لپیٹے، کھڑے حقہ پلا رہے ہیں۔ کوٹھے والوں کو پلاناہو تو ’’نے‘‘ سیدھی کردی۔ انہوں نے بھی دو کش کھینچ لیے۔ ادھر کسی نے مہنال پر ہونٹ رکھے اور انہوں نے شعر پڑھنے شروع کیے۔
حقہ جو ہے حضور معلی کے ہاتھ میں
گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں
شام ہوتے ہوتے بازار اتنا بھرا کہ تل رکھنے کو جگہ نہ رہی۔ تھالی پھینکو تو سروں پر جائے۔ مغرب کی نماز کے بعد ہی جھرنے سے نفیری کی آواز آئی، لیجئے پنکھا اٹھا۔ اب ہر شخص ہے کہ جھرنے کی طرف جا رہا ہے کچھ جا رہے ہیں، کچھ واپس آ رہے ہیں۔ ریلے پر ریلا پڑ رہا ہے جو ذرا دم خم والے ہیں، وہ ان کو جھٹکوں کو سینے اور پشت پر سہ رہے ہیں، جو ذرا کم زور ہیں وہ یہ کہہ کر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں کہ ’’ارے بھئی، جانے بھی دو، کون اس بلا میں پڑے، آگے چل کر پنکھا دیکھ لیں گے۔‘‘
پنکھا جھرنے سے اٹھا۔ شمسی تالاب سے ہوتا ہوا مہرولی کی سڑک پر آیا۔ یہاں پہلے ہی سے مشعلیں، لال ٹینیں، گلاس، ہانڈیاں، فانوس اور دیوار گیریاں جل چکی تھیں۔ روشنی ایسی تھی گویا دن نکلا ہوا ہے۔ اب پنکھے کا جلوس بازار میں سے گزرنا شروع ہوا۔ آگے آگے ڈھول تاشے والے، رو پہلی ٹھپا ٹکے ہوئے سبز کرتے، لیس لگی ہوئی گول لال ٹوپیاں، کسی کے گلے میں ڈھول، کسی کے گلے میں تاشا، ہاتھ میں چوبیں۔ دھوں دھوں کرتا اس طرح گزرا کہ سب کے کان گنگ کر دیے۔ ان کے پیچھے دو جھنڈے۔ زربفت کے پھریرے، مقیش کے پھندے، کلابتون کی ڈوریاں، جھنڈوں کے سروں پر رنگ برنگ کے شیشوں کی ہشت پہل لال ٹینیں، ایک لال ٹین کے سرے پر سنہرا ہلال۔ دوسرے پر روپہلی چکر۔ ان کے بعد شرف الحق کوتوال کا گھوڑا۔
اردلی میں پولیس والی کا پرا۔ ان کے پیچھے نوبت خانے کا تخت، تخت کیا ہے خاصی بارہ دری ہے۔ تخت کے اوپر بانسوں کی بارہ دری کھڑی کر، اوپر کھیچیوں کا گنبد بنا، کپڑا منڈھ، پنی لگا، کاغذوں کے پھولوں سے سجا، دروں میں گیندئی پردے ڈال، ڈوریوں سے کس دیے۔ نوبت والے اندر جا بیٹھے۔ تخت کو کہاروں نے اٹھایا اور یہ خاصہ مکان کا مکان جلوس کے ساتھ چلنے لگا۔ نوبت خانے کے پیچھے دلی کے اکھاڑے۔ ہر اکھاڑے کے ساتھ ایک ایک استاد، بیس بیس پچیس پچیس شاگرد بنے ہوئے تیار جسم، چوڑے چوڑے سینے، بھرے بھرے ڈنڈ، پھری ہوئی مچھلیاں، پتلی پتلی کمریں، جسم پر چست جانگئے، گلے میں سونے کے چھوڑے چھوٹے تعویز۔ کوئی بنیٹی کا چکر باندھ رہا ہے، کوئی لیزم ہلا رہا ہے، کوئی تلوار کے ہاتھ نکال رہا ہے۔ کہیں پھری گتکے سے مقابلہ ہو رہا ہے۔ کہیں بانک اور بنوٹ کے کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔
غرض دو ر تک اکھاڑے ہی اکھاڑے پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے نفیری والے، اور ان کے ساتھ دلی کے سقے، سفید براق کپڑے پہنے، لال کھاروے کی لنگیاں کمر سے لپیٹے، سبز سیلے سروں پر باندھے، ہاتھوں میں منجھے منجھائے پیتل کے کٹورے لئے، نفیری اور جوڑی کے ساتھ کٹوروں کی آواز ملاتے چلے آ رہے تھے۔ نفیری والوں کے بعد ڈنڈے والوں کی سنگتیں تھیں۔ ہاتھوں میں لال سبز ڈنڈے، 15-20 کا حلقہ، بیچ میں طبلہ سارنگی والے، تال سر پر ڈنڈوںکی کھٹا کھٹ عجیب مزا دے رہی تھی۔ ان کے پیچھے تخت رواں، تختوں پر رنڈیاں، بھاری بھاری پشوازیں پہنے، کار چوبی دوپٹے اوڑھے، پاؤں میں گھنگرو باندھے چھم چھم ناچ رہی ہیں۔
ان کے بعد انگریزی باجا اور ترک سواروں کا رسالہ، سرخ بانات کی وردیاں، ان میں سفید بانات کے کف اور کالر، شانوں پر فولادی جال، پاؤں میں کالی برجیس، لک 50 کے چمڑے کے اونچے بوٹ۔ سر پر سرخ منڈا سے، ہاتھ میں لمبے لمبے برچھے لئے، گھوڑوں کی کنوتیاں ملائے آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں۔ سواروں کے پیچھے شاہی روشن چوکی اور سیلانیوں کا ازدحام۔ سب کے صاف ستھرے کپڑے، کار چوبی ٹوپیاں، مداخل ٹکے ہوئے، نیچے چولی کے انگرکھے، ایک برے پائجامے ، سلیم شاہی جوتیاں، ان کے بعد بچھیرا پلٹن کی چار قطاریں۔ کم عمر گورے گورے لڑکے 51 سر پر دھانی منڈا سے، منڈاسوں پر چھوٹی چھوٹی کلغیاں۔ سبز اطلس 52 کے کوٹ، سفید اطلس کی کسی ہوئی برجیس، سیاہ چمڑے کے انگریزی جوتے۔ ہاتھوں میں سبز پھریروں کے چھوٹے چھوٹے نیزے، بڑی آن بان سے قدم ملاتے چل رہے ہیں۔
ان کے پیچھے دلی کے شرفا اور عمائد کا ہجوم، نیچی نیچی قبائیں اور چغے ہندوؤں کے سروں پر چھوٹی چھوٹی گیندئی پگڑیاں، مسلمانوں کے سروں پر زعفرانی عمامے اور چوگوشیا ٹوپیاں، ہاتھوں میں رنگ برنگ کی جریبیں، ہشاش بشاش چہرے، گلے میں پھولوں کے کنٹھے، ہاتھوں میں مولسری کی لڑیاں، موسم کا لطف اٹھاتے، میلے کی رونق بڑھاتے خراماں خراماں چلے آ رہے ہیں۔ ان کے بعد شاہی شہنائی نوازوں کا گروہ، نفیری کے کمال دکھاتا، موسم کی چیزیں بجاتا، خود بھی اپنے کمال کے مزے اٹھاتا، پنکھے کے ساتھ ساتھ ہے۔ سب سے آخر میں پنکھا اور پنکھے کے پیچھے پھول والوں کا غول۔
بھلا اس جلوس کو دیکھو اور پنکھے کو دیکھو۔ بانس کی کھپچیوں کا بڑا سا پنکھا بنا، پنی چڑھا، آئینے لگا، پھولوں سے سجا، ایک لمبے رنگین بانس پر لٹکا دیا تھا۔ یہ پنکھا نہ تھا بلکہ جوش محبت اور یگانگت کا نشان تھا۔ جس نے چھوٹے بڑوں، ہندو مسلمانوں، غربا امرا، غرض ہر قوم و ملت اور ہر طبقے کی رعایا کو ایک جگہ جمع کر دیا تھا اور خود بادشاہ کو قلعے سے نکال مہرولی میں لے آیا تھا۔ یہ پنکھا نہ تھا بلکہ عقیدت اورمحبت کے مظاہروں کا مرکز تھا اور یہ مہرولی نہ تھی بلکہ لگن تھا جس میں خود بادشاہ شمع تھے اور رعایا ان کے پروانے۔
غرض، خلقت کا یہ ہجوم پھوار میں بھیگتا، خس کے پنکھے جھلتا، آہستہ آہستہ مہرولی کی سڑک پر سے گزرا۔ باجے والے اور نفیری والے ہر کمرے کے سامنے ٹھہرتے، ایک آدھ چیز سناتے، انعام لیتے اور آگے بڑھتے۔ ہوتے ہوتے یہ جلوس شاہی دروازے کے سامنے پہنچ گیا۔ بادشاہ سلامت اوپر کی بارہ دری میں بر آمد ہوئے۔ بیگمات کے لئے چلمنیں پڑ گئیں۔ اب ساری بھیڑ سمٹ سمٹا کر باب ظفر کے سامنے آ گئی۔ پھاٹک کے سامنے بڑا کھلا میدان تھا، یہاں باجے والوں نے اپنے کمال دکھائے۔ اکھاڑے والوں نے اپنے کرتب دکھائے۔ سقوں نے کٹورے بجائے۔ ڈنڈے والوں نے اپنے ہاتھ دکھائے۔ رنڈیوں نے اپنا ناچ دکھایا، سب کو حسب مراتب انعام ملا۔ کسی کو سیلا ملا، کسی کو دوشالا ملا، کسی کو مندیل ملی، کسی کو کڑے ملے، اتنے میں پنکھا بھی سامنے آ گیا۔ شہر کے شرفا اور امر امجرا بجا لائے، اوپر سے سارے مجمع پر گلاب پاشوں سے گلاب اور کیوڑا چھڑکا گیا۔ عطر اور پان سے تواضع کی گئی۔ بادشاہ کے اشارہ کرتے ہی، ولی عہد بہادر نیچے اتر آئے۔ لوگوں کے گلے میں پھولوں کے کنٹھے ڈال کر سب کو رخصت کیا۔ یہاں سلاطین زادے اور شہزادے بھی جلوس کے ساتھ ہو گئے۔ کوئی بارہ بجے ہوں گے کہ پنکھا جوگ مایا جی پہنچ گیا۔
یہ مندر قطب صاحب کے لاٹھ سے کوئی دو ڈھائی سو قدم پر ہے۔ بڑی لمبی چار دیواری ہے۔ کونوں پر برجیاں ہیں۔ احاطے کے اندر20، 22 عمارتیں اور بیچ میں دیوی کا استھان ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ دیوی کشن جی کی بہن تھیں۔ بجلی بن کر الوپ ہو گئیں اور یہاں آن پڑیں، راجا یدھسٹر نے مندر بنوا دیا۔ مندر زمین کے برابر ہو گیا تھا۔ پھول والوں کی سیر شروع ہوئی تو اکبر شاہ ثانی کے ایما سے لالہ سیڈول نے نیا مندر بنوایا۔ رفتہ رفتہ اور عمارتیں بھی اندر بن گئیں۔ اب یہ خاصی آباد جگہ ہو گئی ہے۔ اس مندر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر پلنگ یا چارپائی نہیں جا سکتی۔ کوئی ایک بجے لوگ پنکھا چڑھا کر واپس ہوئے۔ دوسرے دن درگاہ شریف کا پنکھا بھی اسی دھوم دھام سے اٹھا۔ باب ظفر کے سامنے آ کر ٹھہرا۔ بعض مصاحبوں نے کوشش کی کہ بادشاہ سلامت کو بھی پنکھے کے ساتھ درگاہ شریف میں کسی نہ کسی طرح لے چلیں مگر بادشاہ کسی طرح اس پر راضی نہیں ہوئے۔ ’’اماں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جب میں جوگ مایا جی کے پنکھے کے ساتھ نہیں گیا تو اب اس پنکھے کے ساتھ کیسے جاؤں۔ تمہارے ہندو بھائی کیا خیال کریں گے۔ مسلمان تھا، مسلمانوں کے پنکھے میں شریک ہو گیا، ہم کو غیر سمجھا اس لیے جھروکوں سے نیچے بھی نہیں آیا۔ نا اماں، نا، جیسا ایک کے ساتھ کرنا ویسا دوسرے کے ساتھ کرنا، شہزادے پہلے بھی گئے تھے اب بھی جائیں گے۔ آتش بازی (53) میں ہندو مسلمان سب شریک ہوتے ہیں، وہاں ہم بھی چلیں گے۔‘‘
خیر درگاہ شریف 53 تو قریب ہی تھی۔ لوگ دس بجے پنکھا چڑھا کر فارغ ہو گئے اور یہاں سے نکل سیدھے شمسی تالاب پہنچے۔ تھوڑی دیر میں بادشاہ سلامت کی سواری بھی آ گئی۔ بیگمات کے لئے جہاز پر چلمنیں پڑ گئیں۔ وہ اندر جا بیٹھیں، بادشاہ سلامت نے مہتابی پر جلوس کیا، مصاحبوں اور دلی کے اکثر امرا و شرفا کو اوپر بلا لیا گیا۔ سارے سیلانی تالاب کے کنارے جم گئے۔ تالاب میں سیکڑوں کشتیاں، بجرے اور نواڑے پہلے ہی سے پڑ گئے تھے۔ آدھوں میں شاہی آتش باز سوار ہو کر ایک طرف چلے گئے، باقی میں دلی کے آتش باز اور شوقین بیٹھ کر دوسری طرف گئے۔ بادشاہ سلامت کا آنا تھا کہ دونوں پارٹیاں مقابلے کو تیار ہو گئیں۔
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ جہاز پر مہتابی چھٹی۔ مہتابی کا چھٹنا تھا کہ میدان کار زار گرم ہو گیا۔ سب سے پہلے غبارے چھوڑے گئے اور ذرا سی دیر میں آسمان میں ہزاروں چاند اور سورج نکل آئے۔ ان سے فراغت ہوئی تو جنگی آتش بازی 54 کا نمبر آیا۔ ہوائیاں 55 چھکے، 56 لٹو 57 اور ختنگے 58 چلے۔ ہوائیوں کی شائیں شائیں، چھکوں کی غائیں گائیں، لٹووں کی دھائیں دھائیں، ختنگوں کی زائیں زائیں اور قلمون کی سائیں سائیں سے بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑی جنگ ہو رہی ہے۔ ادھر آسمان پر مقابلہ ہو رہا تھا ادھر پانی پر آتش بازی کے بجرے چھوٹے، بجرے کیا تھے چھوٹے چھوٹے جہاز تھے۔ توپوں کی جگہ مہتابیاں اور چھچوندریں، گولوں کی جگر چکر اور ختنگے۔ مستولوں کی جگہ انار، آدمیوں کی جگہ مٹی کے سپاہی، پیٹ میں بارود، ناف میں چھچوندر 59 اس سرے سے اس سرے تک شتابے کا سلسلہ۔
ادھر سے دلی والوں کے بجرے چلے، ادھر سے قلعے والوں کے بجرے آئے۔ بیچ تالاب میں پہنچ کر دھواں دھوں ہونے لگی۔ سمندر کی لڑائی کا مزہ آ گیا۔ آتش بازی کی چمک سے سارا تالاب اور کنارے روشن ہو جاتے تھے اور پانی مین روشنی کے عکس، کشتیوں کےسائے۔ آتش بازوں کے ننگے ننگے جسم، کناروں پر خلقت کے ہجوم، ان کے غل، آتش بازی کے عکس سے ان کے زرد زرد چہروں اور اوپر دھوؤں کے بادلوں نے ایک عجیب خوفناک منظر پیدا کر دیا تھا۔
یہ سلسلہ ختم ہوتے ہی مہتابیوں، آفتابیوں، اناروں، سہروں، جائی جوئیوں، ہت پھولوں اور چرخیوں کا مقابلہ شروع ہوا اور پھر آہستہ آہستہ دونوں طرف کی کشتیاں سمٹ کر جہاز کے بالکل سامنے آ گئیں۔ یہاں استادوں نے اپنے ہنر کے کمال دکھائے۔ نسری چھوڑی تو ایسی کہ لوٹ کر سو سو دفعہ اٹھے اور رہ رہ کر سانس لے۔ بتاشا انار ایسے کہ کئی کئی گز اونچے جائیں اور پچ رنگی پھول دیں اور پھر یہ مزا کہ ہتھیلی پر چھوڑ لو۔ کیا مجال جو چرکا لگے۔ بڑے انار جو اٹھے تو جہاز سے اونچے نکل گئے۔ بس معلوم ہوتا تھا کہ سرو کے درختوں کو آگ لگا کر کشتیوں میں کھڑا کر دیا ہے اور ان میں سے رنگ برنگی پھول جھڑ رہے ہیں۔ دم اتنا کہ ختم ہونا ہی نہ جانیں۔ کمال یہ کہ کپڑے پر دھبا نہ دیں۔ آتش بازی کی روشنی سے تو یہ نظر آتا تھا کہ سارے کا سارا پانی سونے کا ہو گیاہے اور اس کے عکس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے تالاب میں آتشیں باغ لگا دیا ہے۔
غرض دو بجے کے قریب آتش بازی ختم ہوئی۔ بادشاہ سلامت کی طرف سے شال دو شالے، مندیلیں اور سیلے تقسیم ہوئے، کہیں تین بجے جا کر لوگوں کو فرصت ہوئی۔ سب اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا پڑے۔ بادشاہ سلامت کی سواری رات ہی کو قطب سے نکل گئی اور روشن چراغ دہلی 60 ہوتی ہوئی تیسرے پہر تک دلی آ گئی۔ دوسرے روز لوگوں نے صبح ہی صبح اٹھ، میوے مٹھائیاں، پراٹھے، 61 چھلے 62 اور کھلونے خریدے۔ ٹھنڈے ٹھنڈے نکل، اپنے گھروں کا راستہ لیا۔ شام تک مہرولی سنسان اور دلی آباد ہو گئی۔
دیکھ لیا آپ نے پھول والوں کی سیر کا مزا اور اب کی کیا پوچھتے ہو۔ غدر ہوا، دلی تباہ ہوئی، بادشاہ رنگون پہنچے، بندھن ٹوٹ گیا، تیلیاں بکھر گئیں۔ بندھن اب بھی ہے مگروہ محبت کا بندھن تھا، یہ قانون کا بندھن ہے۔ ذرا کچھ بات ہوئی اور چل بھیا، عدالت میں۔ بات یہ ہے کہ پھول والوں کی سیر، رعایا کی عقیدت اور بادشاہ کی محبت کا مظاہرہ تھی۔ بادشاہ کے بعد بھی چلی، مگر مرکز اور یکجہتی نہ ہونے سے زور گھٹتا گیا۔ اب پانچ چھے برس سے بالکل بند ہے۔ اگر یہی لیل و نہار ہیں اور دلوں کی کدورت کا یہی حال رہا تو ہمیشہ کے لیے اس کو بند ہی سمجھو۔
اب ہم نشیں! میں روؤں کیا اگلی صحبتوں کو
بن بن کے کھیل ایسے لاکھوں بگڑ گئے ہیں۔
مضمون ختم ہو گیا۔ پڑھنے کے بعد ہر شخص کے دل میں خیال پیدا ہوگا کہ یہ واقعات ہیں یا کوئی من گڑھت قصہ؟ اس کے متعلق میں بعض باتوں کی وضاحت کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ اس مضمون میں جس قدر تاریخی واقعات یا مکانات کے نقشے ہیں ان کی صحت میں تو کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا، البتہ بقیہ واقعات کے متعلق دل میں دگدا پیدا ہو سکتا ہے۔ اس کی یہ کیفت ہے کہ جھرنے اور امریوں کے واقعات کا حال میں نے ان بوڑھیوں سے سنا ہے جو ان جلوسوں میں شریک تھیں۔ اس زمانے کی سیر دیکھنے والے اب بھی دلی میں موجود ہیں وہ میرے ایک ایک حرف کی تائید کریں گے۔
جلوس کی تصویر خود میں نے اپنے مصوری کے استاد کے ہاں دیکھی ہے۔ میں نے صرف یہ کیا ہے کہ ان واقعات کو ملا کر رنگ بھر دیا ہے۔ اب رہی گفتگو تو وہ البتہ میرے خیال کا نتیجہ ہے لیکن جو تعلقات اور محبت رعایا اور بادشاہ میں تھی اس کا لحاظ کرتے ہوئے اس گفتگو کو بھی مبالغہ آمیز نہیں کہا جا سکتا۔ مسٹر سی ایف اینڈروز کی کتاب ’’ذکاء اللہ دہلوی‘‘ اٹھا کر دیکھ لو، معلوم ہو جائے گا کہ جو کچھ میں نے اس بارے میں لکھا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ مسٹر اینڈ روز میرے استاد تھے۔ مجھ کو معلوم ہے کہ کس طرح بڈھے بڈھوں سے مل کر انہوں نے غدر سے پہلے کے حالات دریافت کئے ہیں اور خود ان پر اس تحقیقات کا کیا اثر ہوا ہے۔
اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ 1264ھ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے 1264ھ تک بہادر شاہ کی زندگی بہت چین چان اور امن امان سے گزری۔ اس کے سال بھر بعد ہی سے اس بچارے پر پے درپے مصیبتیں آنی شروع ہوئیں۔ دارا بخت ولی عہد کا انتقال ہوا۔ مرزا شاہ رخ مرے۔ مرزا فخرو چل بسے۔ خود بادشاہ کو زہر دیا گیا۔ جوان بخت کی ولی عہدی کے جھگڑے پڑے۔ قصہ مختصر یہ کہ غدر تک ان مصیبتوں نے بچارے بڈھے بادشاہ کو بٹھا دیا۔ اسی خیال سے میں نے وہ آخری سال لیا ہے جب بادشاہ ان تمام فکروں اور مصیبتوں سے آزاد تھے۔
بہر حال یہ بڈھوں کی ودیعت تھی جو میں نے آپ تک پہنچا دی، اب چاہیں آپ اس کو قبول کریں یا نہ کریں۔
حواشی و تعلیقات
(1) جمنا کی ریتی کے برابر جھاؤ کا جو جنگل ہے اس کو بیلہ کہتے ہیں۔
(2) قلعے میں تسبیح خانے سے ملا ہوا یہ ایک ہشت پہل برج ہے۔ نام تو اس کا مثمن برج (ہے) لیکن دلی والے اس کو ثمن برج کہتے ہیں۔
(3) مقبرے سے مراد ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ یہ عمارت دلی سے کوئی تین میل کے فاصلے پر ہے۔
(4) دلی کے قلعے کو لال حویلی یا صرف حویلی بھی کہتے تھے۔ حافظ عبد الرحمان خاں احسان کا شعر ہے،
میری تنخواہ لوٹی ان لٹیروں نے حویلی میں
دہائی ہے، بہادر شاہ غازی کی دہائی ہے
(5) آخر زمانے میں شاہان دلی انہی معنوں میں’’اماں‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے جن معنی میں ہم آج کل ’’بھئی‘‘ کا لفظ بولتے ہیں۔ مولوی عبد الحق صاحب سکریٹری اردو کا یہ خیال تھا کہ یہ لفظ شاید ’’اے میاں‘‘ کا مخفف ہے چنانچہ اب بھی دلی میں اے میاں کو مختصر امیاں بولا جاتا ہے۔ ان کے اس خیال کو پیش نظر رکھ کر میں نے دلی کے شہزادوں سے اس کی مکرر تحقیق کی۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ سلامت اس لفظ کو اپنے اصلی یعنی ’’ماں‘‘ کے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ اس لفظ کا استعمال حیدر آباد دکن میں اب بھی عام طور سے ہوتا ہے۔
(6) مرزا دارا بخت ولی عہد سلطنت تھے۔
(7) احترام الدولہ ’عمدۃ الحکما، معتمد الملک، حاذق الزماں حکیم محمد احسن اللہ خاں ثابت جنگ بہادر وزیر اعظم تھے۔ ان ہی کی شہادت نے بچارے بادشاہ کو رنگون دکھایا۔
(8) اونٹ گاڑی کو پہلے شکرم کہتے تھے، پھر یہ لفظ بند گھوڑا گاڑی کے لئے بھی بولا جانے لگا۔
(9) اس زمانے میں بیگمات اور شہزادیوں کی مصاحبوں کو خواص کہتے تھے۔ درجے میں یہ مغلانیوں سے بڑی ہوتی تھیں۔
(10) زرخرید لونڈیا سریتیں کہلاتی تھیں۔ سریہ عربی میں لونڈی کو کہتے ہیں۔
(11، 12) بھارکسوں اوربہیلوں کے سامنے بانس باندھ کر اور سوت کا جال بنا کر جو جگہ نکال لیتے ہیں اس کو سانگی اور اسی طرح پیچھے گھانس وغیرہ بھرنے کو جو جھولی سی بنا لیتے ہیں اس کو ماچی کہتے ہیں۔
(13، 14، 15، 16) آدھی پالکی کو نیمہ کہتے ہیں، اس میں صرف ایک آدمی بیٹھ سکتا ہے اس سے بڑی میانہ ہے۔ جو پہلے بھی پالکی کی وضع کے ہوتے ہیں، مگر ان کی شکل بجائے مستطیل کے چوکور ہوتی ہے۔
(17) نواب زینت محل خاندان شاہی سے نہ تھیں۔ نواب علی قلی خاں کے خاندان میں نواب شمشیر الدولہ کی لڑکی سے بادشاہ نے بڑھاپے میں شادی کی تھی۔ خدا کی قدت سے اولاد ہوئی، جوان بخت نام رکھا گیا۔ انہی کی ولی عہدی کے جھگڑوں نے قلعے میں تفرقہ ڈالا۔ بیگم کی محبت میں بادشاہ ایسے گرفتار تھے کہ جو وہ چاہتیں بلا چوں و چرا کرتے، آخر انہی مخالفتوں نے رنگون پہنچا دیا۔ یہ بیگم جب نکلتیں، ڈنکا ان کے ساتھ ہوتا، اسی لئے ان کو ڈنکے والی کہا جاتا تھا۔ قلعے میں کم رہتی تھیں، لال کنویں پر نیا محل بنوایا تھا۔ غدر کے بعد وہ محل پٹیالہ والوں کو ملا۔ اب وہ بھی ٹھکانے لگ گیا۔
(18) بہادر شاہ مرحوم کا دستور تھا کہ صبح اٹھتے ہی گڑ کا شربت پی کر جوں کا توں نکال دیتے تھے۔ اس طرح کل رطوبات فاسدہ خارج ہو کر معدہ صاف ہو جاتا۔
(19) قلعہ میں تزک کا بڑا درجہ تھا۔ دربار اور جلوس کا انتظام اور لوگوں کو باریاب کرنے کی خدمت انہی کے سپرد تھی۔ ایک ہی شخص تھے جن کو دربار میں جریب لے کر کھڑے ہونے کی اجازت تھی۔ ذرا کسی نے آداب شاہی میں اونچ نیچ کی اور انہوں نے کھٹ سے جریب پاؤں پر ماری۔ یہ خدمت سعادت خان رنگین کے خاندان میں مدت تک رہی۔
(20) دلی کی جو فوج انگریزی لباس او ر انگریزی ہتھیاروں سے آراستہ تھی، اس کو ترک سوار کہتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ترکوں کا بھی یہی فوجی لباس تھا۔
(21) دور باش ایک خوبصورت رنگین شہتیر ہوتا تھا جس پر برچھیاں لگی ہوتی تھیں۔ سواری کے آگے آگے رہتا تھا کہ کوئی بادشاہ پر حملہ نہ کر بیٹھے۔
(22) قلعے کے دو دروازے ہیں۔ لاہوری دروازہ اور دلی دروازہ۔ شہر پناہ کے دروازوں کے بھی یہی نام ہیں۔ لاہوری دروازہ کھاری باولی کے کنارے پر تھا، وہ زمین کے برابر کر دیا گیا۔ ہاں دلی دروازہ موجود ہے، فیض بازار کے سرے پر ہے اور اسی میں سے ہو کر پرانے قلعے کو سڑک گئی ہے۔
(23) حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کو دلی والے سلطان جی کہتے ہیں۔ ان کا مزار مبارک دلی دروازے سے 3 میل پر، ہمایوں کے مقبرے کے بالکل سامنے ہے۔
(24) آخر میں بہادر شاہ مرحوم کا دل ایسا رقیق ہو گیا تھا کہ بات بات پر آنسو نکل آتے تھے۔
(25) مرزا جہانگیر شہزادے وہی ہیں جن کی وجہ سے پھول والوں کی سیر قائم ہوئی۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے پھر بے اعتدالیاں کیں۔ پھر الہ آباد بھیج دیے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا۔ نواب ممتاز محل نے ان کی لاش الہ آباد سے دلی منگوالی اور سلطان جی میں ایک نہایت خوبصورت سنگ مرمر کا محجر بنوا دفن کر دیا۔
(26) مرزا نیلی، شاہ عالم ثانی کے منجھلے بیٹے تھے۔ انتقال کے بعد ان کو بھی مرزا جہانگیر کے محجر میں دفن کیا گیا۔
(27) جہاں آرا بیگم، شاہ جہاں بادشاہ غازی کی بیٹی تھیں۔ حضرت سلطان المشائخ سے بڑی عقیدت تھی۔ ان کا مزار درگاہ کے پائنتی ایک سنگ مرمر کے محجر میں ہے۔ سرہانے کتبہ لگا ہوا ہے۔ کتبے کا یہ شعر بڑا دردناک ہے۔
بغیر سبزہ نپوشد کسے مزار مرا
کہ قبر پوش غریباں ہمیں گیاہ بس است
(28) مرزا بابر، اکبر شاہ ثانی کے بیٹے تھے۔ ان کی ایک بڑی کوٹھی انگریزی وضع کی اب تک قطب میں موجود ہے۔ اس کا ایک دروازہ تو درگاہ شریف میں ہے، دوسرا جنگلی محل میں اور تیسرا جنگل میں جھرنے کی طرف نکلتا ہے۔
(29) آخر زمانے میں ترکستان، حبش اور گرجستان سے عورتوں کی آمد ہو گئی تھی۔ پہلے سے جو خاندان دلی میں بس گئے تھے انہیں میں سے یہ پلٹنیں بھری جاتیں۔ لباس ان سب کا مردوں کا سا ہوتا تھا۔ یہ سب مردانہ کرتب جانتی تھیں، ان کا کام زمانے میں پہرا دینا تھا۔
(30) قلما قنیاں پہرا دینے اور حکم احکام پہنچانے پر مقرر تھیں۔ ان کے لباس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ ان عورتوں کو شادی کرنا ممنوع تھا۔
(31) اردابیگنیاں بھی محل کا انتظام کرتیں اور شاہی حکم احکام پہنچاتی تھیں۔ ان کا صرف مردانہ لباس ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ نام بھی مردوں کے سے ہوتے تھے۔ گفتگو بھی مردوں کی طرح کھڑی کھڑی زبان میں کرتی تھیں۔ تھیں تو عورتیں مگر شکل، صورت، وضع قطع، چال ڈھال سے بالکل مرد معلوم ہوتی تھیں۔ دلی میں ان کا بڑوابیگنیاں کہتے تھے۔ پھر یہ لفظ اردو میں ایسی لڑکیوں کے لئے استعمال ہونے لگا جو بڑی شریر اور دنگئی ہو اور جن پر سودا کا یہ شعر صادق آتا ہو،
لڑکی وہ لڑکیوں میں جو کھیلے
نہ کہ لونڈوں میں جاکے ڈنڈ پیلے
(32) شمسی تالاب کے کنارے جہاز کی شکل کی ایک بہت بڑی اور خوبصورت عمارت قدیم زمانے کی بنی ہوئی ہے اس عمارت کو جہاز کہتے ہیں۔
(33) اسی تالاب کے بیچ میں ایک چھوٹا سا کھلا ہوا برج ہے اور برج کے نیچے ایک سنگ خارا پر گھوڑے کے سم کا نشان ہے۔ اس سم کے متعلق عجیب روایتیں مشہور ہیں۔ عام طور سے اس کو براق کا سم کہتے ہیں۔ کنارے سے برجی اتنی دور ہے کہ وہاں تک جاتے جاتے اچھے اچھے تیراکوں کے دم ٹوٹ جاتے ہیں۔
(34) یہ ایک چھوٹی سی مسجد شمسی تالاب کے کنارے پر ہے۔ صحن میں دو مصلے ہیں۔ کہتے ہیںکہ ان مصلوں پر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ارو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہما نماز پڑھا کرتے تھے۔
(35) مہرولی ہی کو قطب کہتے ہیں یہ دلی سے گیارہ میل پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں یہاں خاصی رونق ہو گئی تھی۔ وہ قطب کے عاشق تھے۔ جہاں ذرا ابر آیا اور ان کی سواری قطب چلی۔ کہا کرتے تھے کہ ابر ہمارے قطب جانے کا نقیب ہے۔
(36) نواب غازی الدین فیروز جنگ، شاہان دلی کے وزیر اور آصف جاہ اول کے فرزند تھے۔ یہ وہ غازی الدین فیروز جنگ نہیں ہیں جنہوں نے عالمگیر شاہ ثانی کو کوٹلے میں شہید کرایا تھا۔
(37) اس بارہ دری کی چھت نہیں ہے بلکہ ٹٹیاں لگا کر پھولوں کی بیلیں چڑھا دی ہیں۔ پھول کھلنے سے ساری چھت ڈھک جاتی ہے۔
(38) قلعے میں شہزادے اور شہزادیاں دونوں کو مردانہ فن سکھائے جاتے تھے۔ شاید ہی کوئی ہوگا جس کو تیر، تلوار، بندوق چلانا، سوار ہونا اور تیرنا نہ آتا ہو۔ بابر بادشاہ کے زمانے سے یہ خاندان پانی کا عاشق ہے۔ قلعے ہی کو دیکھ لو، آدھا قلعہ نہروں اور حوضوں نے گھیر لیا ہے۔
(39) نواب تاج محل کا قلعے میں بڑا زور تھا۔ تھی تو ڈومنی مگر جب سے بادشاہ نے اس کومحل میں داخل کیا تھا س وقت سے بادشاہ اس کی مٹھی میں آ گئے تھے۔ بغیر اس کے حکم کے قلعے میں پتا تک نہیں ہل سکتا تھا۔ آخر نواب زینت محل نے اس کا کفر توڑا، قلعے سے نکالی گئی اور ایسی نکالی گئی کہ پھر قلعے کی صورت دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔
(40۔ 41) میں نہیں جانتا کہ اس لفظ کی کیا املا ہے۔ ٹرمنھئی کے معنی ’’ٹیڑھے منہ والی‘‘ ہے۔ لقوے سے اس کا منہ ذرا پھر گیا تھا۔ جو املا میری سمجھ میں آیا ہے میں نے لکھ دی ہے جو آپ کی سمجھ میں آئے وہ پڑھ لیجئے۔ ٹرمنھئی خانم غضب کی گانے والی تھی۔ تان رس خاں بھی اس سے ذرا کنیاتے تھے آخر اسی سے لڑ کر نکل گئے۔ بادشاہ کی غزلیں حضوری میں یہ ہی گاتی تھی۔ دلدار اس کی چھوٹی بہن تھی، دونوں ڈیرہ دار رنڈیاں تھیں۔ بڑی بہن کی نواسی دونی جان اور چھوٹی بہن کی نواسی کالی جان دلی کی مشہور طوائفیں گزری ہیں۔
(42) ۔ یہ دروازہ سلطان علاء الدین کا بنوایا ہوا ہے۔ لاٹھ کے بالکل پاس ہے اور خوبصورتی میں لا جواب سمجھا جاتا ہے۔
(43) ۔ مہرولی میں شمال کی طرف، کوئی میل بھر کے فاصلے پر ایک بہت بڑا پتھر، پہاڑ کی چٹان پر رکھا ہوا ہے۔ بچہ بھی ہلائے تو اس طرح ہلتا ہے کہ اب نیچے جا پڑے۔
(44) ۔ چھٹنکی کے قریب ہی ایک بزرگ کے مزار پر یہ درخت ہے۔ کہتے ہیں رائے پتھورا کی بیٹی ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئی تھی۔ اس کی قبر پر بھی اس کا نیم سایہ ہے۔ نیم کے درخت کا جو حصہ ان بزرگ کے مزار پر ہے اس کے پتے میٹھے اور جو حصہ راجا کی لڑکی کی قبر پر ہے اس کے پتے کڑوے ہیں۔
(45) یہ پٹھان بادشاہوں کی قبریں ایک کھلے چبوترے پر بنی ہوئی ہیں۔
(46) اولیا مسجد کے سامنے چالیس شہیدوں کے مزار ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کسی طرح گنتی میں نہیں آتے، بے ترتیبی کی وجہ سے بھول چوک ہو جاتی ہے۔
(47) چہل تن چہل من کے پاس ہی ایک ویران عمارت ہے۔ سنتے ہیں رات کے وقت اس میں سے گانے کی آوازیں آتی ہیں۔
(48) اندھیر یا باغ، قطب کی جان ہے۔ شمسی تالاب کے جنوبی کنارے پر اس خوبصورتی سے لگایا ہے کہ دور سے گہرے ابر کا دھوکا ہوتا ہے، گھنا ایسا ہے کہ دن کی دھوپ بھی مشکل سے اس کے پتوں میں سے چھنتی ہے۔ محمد شاہ بادشاہ نےا س باغ میں دنیا کے جومزے اٹھائے ہیں وہ کسی بادشاہ کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتے۔ اب اس سے زیادہ کیا لکھوں۔ خیر جو تھا سو تھا، اچھی گزار گئے۔ بہادر شاہ کے بیٹے مرزا شاہ رخ کا مزار باغ سے بیچ میں ایک چبوترے پر بنا ہوا ہے۔ اب یہ باغ کسی قدر چھدرا ہو گیا ہے۔
(49) لفظ تو ’’تہ بند‘‘ ہے اس سے تہمد ہوا۔ پھر تہمت بن گیا۔ شاہ مبارک آبرو کا شعر ہے،
آبرو کے قتل کو حضر ہوئے کس کے کمر
خون کرنے کو چلے عاشق پہ تہمت باندھ کر
(50) Patent Leather کو دہلی میں لک کہتے ہیں۔
(51) شرفائے دلی کے لڑکوں اور کم عمر شہزادوں اور سلاطین زادوں کی یہ فوج بادشاہ نے بنائی تھی۔ تھے تو لڑکے مگر غدر میں باوٹے کے نیچے سب ڈھیر ہو گئے۔ ان کے قصے دلی کے بڈھے بیان کرتے تھے اور روتے تھے۔ تاریخ میں ان کے کارناموں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ خدا معلوم کیا بات ہے۔ ہاری ہوئی فوج تھی، شاید اس لئے ان کا ذکر بے ضرورت سمجھا گیا۔
(52) دلی کا شاہی رنگ سبز تھا۔
(53) میں نے بزرگوں کی زبانی سنا تھا کہ بادشاہ کو آتش بازی کا بڑا شوق تھا۔ آتش باز نو کر تھے۔ کوئی میلہ نہ تھا جس میں قلعے سے آتش بازی نہ جاتی ہو۔ دلی والوں سے مقابلے ہوتے تھے۔ ان مقابلوں کے دو بڑے میدان تھے۔ ایک شمسی تالاب، دوسرے سید حسن رسول نما کا حوض۔ پھول والوں کی سیر میں تو اب آتش بازی نہیں چھٹتی، ہاں سید حسن رسول نما میں اب بھی خوب مقابلے ہوتے ہیں۔ ان بزرگوں کے بیان کی تائید اب ایک کتاب سے بھی ہو گئی۔ ابھی حال میں مسٹر اینڈ روز نے شمس العلماء منشی ذکاء اللہ خاں دہلوی کی سوانح عمری لکھی ہے اور دلی کے بڈھوں بڈھوں سے پوچھ پوچھ کر غدر سے پہلے کے حالات جمع کئے ہیں۔ اس میں بادشاہ کے اس شوق کا بھی ذکر ہے، اس کتاب کے دیکھنے سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ بادشاہ اور دلی والوں میں کیا تعلقات تھے اور کس طرح یہ ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔ صاحب لکھتے ہیں کہ جس بڈھےسے بادشاہ کا حال پوچھا، خواہ ہندو ہو یا مسلمان، اس کے آنسو نکل آئے۔ یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی غیر کا قصہ بیان کر رہا ہے۔ بلکہ یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی بپتا سنا رہا ہے۔ یہ کتاب ابھی 1929ء میں ڈبلیو ہیفر اینڈ سنز لمیٹیڈ کیمبرج نے چھاپی ہے اور ساڑھے سات روپے قیمت ہے۔
(54) یہ درگاہ قطب الدین بختیار کاکی کی ہے۔ آپ حضرت سلطان الہند غریب نواز خواجہ معین الدین چشتی کے خلیفہ تھے۔ سلطان شمس الدین التمش کو آپ سے بڑی عقیدت تھی۔ آپ کا وصال قوالی میں اس شعر پر ہوا،
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
دلی کے بادشاہوں نے آپ کے مزار کے گرد سنگ مرمر کی جالیاں، فرش اور دروازے بنوائے۔ دیواروں پر کاشانی اینٹوں کا کام کرایا اور آس پاس مسجدیں اور حجرے تعمیر کرائے۔ خود مزار شریف تو کچی مٹی کا ہے۔ ہاں آس پاس دوسروں کی قبروں کے بڑے عمدہ عمدہ سنگ مرمر کی تعویز ہیں۔ ایک طرف سنگ مرمر کی چھوٹی سی مسجد ہے اور اس کے پہلو میں آخری بادشاہان دہلی کے مزار بیچ میں شاہ عالم ثانی کا مزار ہے اور اس کے ایک طرف اکبر شاہ ثانی کی قبر۔ ایک پہلو خالی تھا اس میں بہادر شاہ نے اپنا سردابہ بنوایا تھا۔ خیال تھا کہ مرنے کے بعد باپ داد اکے پہلو میں جا پڑیں گے۔ یہ کیا معلوم تھا کہ وہاں قبر بنے گی جہاں بزرگوں کا پہلو تو کجا کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہ ہوگا۔
(55) دلی والوں نے آتش بازی کو دو قسموں میں بانٹا ہے۔ ایک جنگی، دوسرے گل کاری، ان دونوں کا مطلب آگے خود سمجھ جائیں گے۔
(56) بڑے اڑن اناروں کو دلی میں ہوائی کہتے ہیں۔
(57) موٹے مضبوط بانسوں کی لمبی لمبی پوریوں پر آنتیں لپیٹ، اوپر سے جھلی چڑھا اور اندر خوب ٹھونس ٹھونس کے بارود بھر کر چھکا بنایا جاتا ہے۔ اس کا چلانا واقعی بڑا کمال ہے۔ بارود کو آگ دے، اس کو ہلانا شروع کیا۔ جب زور پکڑ گیا تو جھلا کر اور کئی چکر دے کر اوپر چھوڑ دیا۔ اب بانس کی یہ آدھ گز لمبی پوری، غائیں گائیں کرتی اس زور سے جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اگر چھوڑنے میں کہیں ہاتھ نیچا رہ گیا اور یہ پوری تماشائیوں میں گھس گئی تو سمجھ لو کہ قیامت آ گئی۔ کسی کی ہڈی ٹوٹی کسی کا منہ جھلس گیا، کسی کے کپڑوں میں آگ لگ گئی، غرض یہ آتش بازی کیا ہے ایک بلا ہے۔
(58) مٹی کے چھوٹے چھوٹے اور ہلکے گولے بناتے ہیں۔ یہ اندر سے خالی ہوتے ہیں۔ ایک طرف چھید کیا اور بارود بھر دی۔ چھید میں چھوٹی سی چھچوندر لگا دی۔ چلاتے وقت چھچھوندر کو آگ لگا، لٹو کو اوپر پھینکا، اندر کی بارود نے آگ لی اور لٹو پھٹا۔ اس زور کی آواز ہوتی ہے جیسے توپ چل گئی۔
(59) خدنگاہ کو دلی والے ختنگا کہتے ہیں۔ یہ چیز ایسی عام ہے کہ کسی نوٹ کی ضرورت نہیں۔
(60) بڑی چھچھوندر کو قلم کہتے ہیں۔ اس کی بارود اتنی تیز ہوتی ہے کہ زمین پر لوٹنا جانتی ہی نہیں۔ پانی کی چوٹ کھا کر بھی اٹھتی ہے تو 25-30 گز اونچی اڑ جاتی ہے۔
(61) حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار پرانی دہلی میں ہے۔ قطب سے 5 میل اور دلی سے کوئی سات میل۔ آپ حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا کے خلیفہ ہیں اور وہیں سے آپ کو چراغ دہلی کا خطاب ملا تھا۔ جہاں آپ کامزار ہے اس بستی کو اسی خطاب کی وجہ سے چراغ دہلی یا روشن چراغ دہلی کہنے لگے ہیں۔
(62-63) پھول والوں کی سیر کی بس دو ہی سوغاتیں تھیں۔ ایک پراٹھے، دوسرے چھلے۔ آتے اور گھر گھر بٹتے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |