بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں
Appearance
بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں
سنے ہے کون مصیبت کہوں تو کس سے کہوں
جو تو ہو صاف تو کچھ میں بھی صاف تجھ سے کہوں
ترے ہے دل میں کدورت کہوں تو کس سے کہوں
نہ کوہ کن ہے نہ مجنوں کہ تھے مرے ہمدرد
میں اپنا درد محبت کہوں تو کس سے کہوں
دل اس کو آپ دیا آپ ہی پشیماں ہوں
کہ سچ ہے اپنی ندامت کہوں تو کس سے کہوں
کہوں میں جس سے اسے ہووے سنتے ہی وحشت
پھر اپنا قصۂ وحشت کہوں تو کس سے کہوں
رہا ہے تو ہی تو غم خوار اے دل غمگیں
ترے سوا غم فرقت کہوں تو کس سے کہوں
جو دوست ہو تو کہوں تجھ سے دوستی کی بات
تجھے تو مجھ سے عداوت کہوں تو کس سے کہوں
نہ مجھ کو کہنے کی طاقت کہوں تو کیا احوال
نہ اس کو سننے کی فرصت کہوں تو کس سے کہوں
کسی کو دیکھتا اتنا نہیں حقیقت میں
ظفرؔ میں اپنی حقیقت کہوں تو کس سے کہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |