بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی
Appearance
بڑھ گئی مے پینے سے دل کی تمنا اور بھی
صدقہ اپنا ساقیا یک جام صہبا اور بھی
ایک تو میں آپ ناصح ہوں پریشاں خستہ جاں
دل دکھا دیتی ہے تیری پند بے جا اور بھی
داستان شوق دل ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے میں کہتا اور بھی
کچھ تو پہلے سے دل بے تاب تھا وحشی مزاج
بے ترے دن رات گھبراتا ہے تنہا اور بھی
دیکھتے ہی دیکھتے تسلیمؔ وہ چھپنے لگے
بڑھ گیا بے پردگی میں مجھ سے پردہ اور بھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |