بڑھا یہ شک کہ غیروں کہ تن میں آگ لگی
Appearance
بڑھا یہ شک کہ غیروں کہ تن میں آگ لگی
ہم آئے کیا کہ تری انجمن میں آگ لگی
ذرا جو اس نے ہٹائی نقاب چہرے سے
گری وہ برق کی سب انجمن میں آگ لگی
برابر آج خبر اشک گرم لاتے ہیں
غضب کی قصر دل پر محن میں آگ لگی
یہ تیرا وحشیٔ آتش نفس جہاں پہنچا
پہاڑ جل کے ہوئے خاک بن میں آگ لگی
جلا رہا ہے یہ کہہ کہہ کے دم بہ دم صیاد
تجھے خبر بھی ہے بلبل چمن میں آگ لگی
کمال حسن کی گرمی سے مجھ کو حیرت ہے
کہ آج تک نہ مرے پیرہن میں آگ لگی
جب آہ گرم چلی دل سے ساتھ دوڑے اشک
ہوا یقین کہ کام و دہن میں آگ لگی
چہار سمت سے لے لے کے پانی ابر آیا
کھلے جو پھول تو جانا چمن میں آگ لگی
جہاں پڑھے گئے اشعار تیرے گرما گرم
رشیدؔ محفل اہل سخن میں آگ لگی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |