بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
اک تیر تھا کہ صاف جگر سے نکل گیا
خود رفتگی ہی چشم حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا
محو جمال رہ گئے ہم کچھ خبر نہیں
آیا کدھر سے یار کدھر سے نکل گیا
کیسا ہوا ہوا مرے رونے کو دیکھ کر
دامان ابر دیدۂ تر سے نکل گیا
رونے سے ہجر یار میں تسکین ہو گئی
دل کا بخار دیدۂ تر سے نکل گیا
آخر کیا اخیر شب وصل نے مجھے
دم پہلی بانگ مرغ سحر سے نکل گیا
آہوں نے مجھ کو آتش غم سے نجات دی
مانند دود نار سقر سے نکل گیا
دکھلایا ناتوانی نے گھر یار کا مجھے
مثل نگاہ روزن در سے نکل گیا
ساقی کی چشم مست نے ایسے دھوئیں اڑائے
شعلہ سا ایک آتش تر سے نکل گیا
جوبن سے ڈھل چلی ہیں کہاں اب لٹک کی چال
وہ پیچ ان کے موئے کمر سے نکل گیا
اس گل کے داغ عشق نے ایسا کیا گداز
گھل گھل کے مغز شمع کے سر سے نکل گیا
مشکل ہے اے صباؔ پہ کرو جبر اختیار
ہے خیر دل جو عشق کے شر سے نکل گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |