بچوں کی باتیں
آئے ہیں آسمان پر بادل
چھائے ہیں آسمان پر بادل
ابر ہی ابر دیکھتے ہیں ہم
ہے برسنے کو جو ابھی چھم چھم
اور معلوم ایسا ہوتا ہے
چھپ کے خورشید جیسے سوتا ہے
گھر کے کوٹھے پہ ایک دو بچے
چارپائی پہ ہیں ڈٹے بیٹھے
بولیاں بھانت بھانت ہیں ان کی
میٹھی میٹھی ہیں بھولی بھالی سی
ایک بولا کہ جانتے ہو کیا
کیا ہے یہ آسمان پر چھایا
روئی کے گالے نام ہے ان کا
آنا اور جانا کام ہے ان کا
جب پہاڑوں سے لوگ آتے ہیں
روئی کے گالے ساتھ لاتے ہیں
کر کے اچھی طرح سے ان کو صاف
لمبے چوڑے بناتے ہیں وہ لحاف
بات سچ یہ ہے دوسرا بولا
آسمان پر لگا ہے اک خیمہ
ہے غلط یہ بھی تیسرے نے کہا
اصل میں ہے یہ دودھ کا دریا
آسماں والے اس کو پیتے ہیں
اس کو پی کر فرشتے جیتے ہیں
مل کے یوں سب نے ایسی باتیں کیں
ننھے ننھوں نے ننھی باتیں کیں
دیکھتے دیکھتے ہوا پھر کیا
موسلا دھار مینہ برسنے لگا
پیارے بچے یہ لاڈلے بچے
اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |