Jump to content

بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا

From Wikisource
بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
by غلام علی ہمدانی مصحفی
316211بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے ماراغلام علی ہمدانی مصحفی

بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا

کسی کو گرمیٔ تقریر سے اپنی لگا رکھا
کسی کو منہ چھپا کر نرمیٔ آواز سے مارا

ہمارا مرغ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے
گہے شاہین پھینکے اس پہ گاہے باز سے مارا

غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت
کہ اس نے ساز مارا سر سے اور سر ساز سے مارا

نکالی رسم تیغ و طشت دلی میں جزاک اللہ
کہ مارا تو ہمیں تو نے پر اک اعزاز سے مارا

نہ اڑتا مرغ دل تو چنگل شاہیں میں کیوں پھنستا
گیا یہ خستہ اپنی خوبیٔ پرواز سے مارا

جہاں تک ساز داری ہے لکھی دشمن کے طالع میں
ہمیں بد نام کر کے طالع نا ساز سے مارا

ہزاروں رنگ اس کے خون نے یاروں کو دکھلائے
جب اس نے مصحفیؔ کو اپنی تیغ ناز سے مارا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.