بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
Appearance
بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
زلفیں چھوئیں بلا میں گرفتار ہو گئے
سکتہ ہے بیٹھے سامنے تکتے ہیں ان کی شکل
کیا ہم بھی عکس آئینۂ یار ہو گئے
بیٹھے تمہارے در پہ تو جنبش تلک نہ کی
ایسے جمے کہ سایۂ دیوار ہو گئے
ہم کو تو ان کے خنجر ابرو کے عشق میں
دن زندگی کے کاٹنے دشوار ہو گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |