بوسہ دیتے ہو اگر تم مجھ کو دو دو سب کے دو
بوسہ دیتے ہو اگر تم مجھ کو دو دو سب کے دو
جیبھ کے دو سر کے دو رخسار کے دو سب کے دو
لے کے دو رخسار کے بوسہ جو مانگے سب کے دو
اور تو دے دیں گے بولے پر یہ ہیں بے ڈھب کے دو
مانگتے تجھ سے نہیں اے گل بدن کچھ اور ہم
ہے اگر توفیق تم بوسہ دو نام رب کے دو
روزوں میں گر پاس اپنے آئے وہ رشک قمر
بوسہ ہم افطار کو مانگیں لب اطیب کے دو
مثل یوسف ہو رہا ہوں میں اسیر چاہ غم
بوسہ اے رشک زلیخا دو مجھے عبعب کے دو
میں نہیں ہوں مانگتا دس بیس تم سے یا پچاس
صرف دو بوسہ لب شیریں کے ہنس کر اب کے دو
ہے خوشی یہ آپ کی اے ماہ رو دو یا نہ دو
کون کہتا ہے کہ تم بوسے کسی سے دب کے دو
دو دو کر کے بوسۂ موعود جب میں نے گنے
ہنس کے پوچھا ہیں اکٹھے یہ کیے کب کب کے دو
تب کہا میں نے کہ سن لو شعر میں کیا شرم ہے
صبح کے دو شام کے دو دن کے دو اور شب کے دو
دونوں رخساروں کے بوسہ لیں گے ہم اے سیم تن
دو ہمیں اس ڈھب کے دو تم اور دو اس ڈھب کے دو
مشرقیؔ معشوق دو پچھم کے محفل میں ہو گر
دو دکن کے چاہئیں اتر کے دو پورب کے دو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |