Jump to content

بن بلائے مہمان

From Wikisource
بن بلائے مہمان (1942)
by سعادت حسن منٹو
319929بن بلائے مہمان1942سعادت حسن منٹو

غالب کہتا ہے،
میں بلاتا تو ہوں ان کو مگر اے جذبہ دل
ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے

یعنی اگر اسے بن بلائے مہمانوں سے کد ہوتی تو یہ شعر ہمیں اس کے دیوان میں ہرگز نہ ملتا۔ غالب کہتا ہے میں بلاتا تو ہوں ان کو، مگر میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسی بات ہو جائے کہ وہ بن بلائے چلے آئیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بلا کر کسی کے آ جانے میں وہ مزا کہاں ہے، جو بن بلائے آ جانے میں ہے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کیوں لوگوں کو بن بلائے مہمانوں سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ آپ کہیں گے کہ صاحب غالب نے تو معشوقوں کے متعلق کہا تھا کہ ان کا بن بلائے آ جانا عاشقوں کے لئے ایک بہت ہی بڑی بات ہے۔ آپ نے زبردستی یہ شعر مہمانوں کے ساتھ چپکا دیا۔ اچھا صاحب یوں ہی سہی، لیکن نفسیات کی روشنی تو موجود ہے۔ چلیئے اسی میں بن بلائے مہمانوں کو دیکھ لیتے ہیں۔

یہ نفسیات کا زمانہ ہے۔ ہر چیز آج کل اسی ترازو میں تولی اور اسی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے لیکن بن بلائے مہمانوں کا نفسیاتی تجزیہ کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ آیا ہر مہمان کو بلانا ضروری ہے، یعنی کیا وہی آدمی قابل برداشت مہمان ہوتا ہے جس کو مدعو کیا جائے، خط لکھ کر، دعوتی کارڈ بھیج کر، تار دے کر یا ٹیلیفون کر کے اپنے گھر بلایا جائے۔ اس کا جواب منطق کی رو سے یہی ہوگا کہ ایسے بلائے ہوئے مہمان ضروری نہیں کہ سو فیصدی قابل برداشت ثابت ہوں۔ اسی طرح ہم اس نتیجے پر بھی آسانی کے ساتھ پہنچ جائیں گے کہ بن بلائے مہمان ضروری نہیں کہ سو فیصدی ناقابل برداشت ثابت ہوں۔۔۔ واضح یہ ہوا کہ ہر بن بلائے مہمان پر ناقابل برداشت اور ناقابل قبول کا لیبل لگا دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔

اور یہ بھی زیادتی ہے یعنی آپ ساری عمر نہیں بلائیں گے تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آپ کے ہاں کوئی آئے ہی نہیں۔ اسی انتظار میں آدمی سوکھتا رہے کہ آپ کب بلاتے ہیں اور بفرض محال مہربان ہو کے آپ نے ایک دفعہ بلا لیا تو اس کے بعد آس لگائے بیٹھے ہیں کہ دیکھئے آپ پھر کب مہربان ہو کے بلاتے ہیں۔۔۔ ناصاحب، بلانا ولانا کوئی ضروری نہیں، جب بھی کسی کا جی چاہے چلا آئے۔ دوستوں میں ایسی بھی کیا غیریت۔

عربوں کی مہمان نوازی مشہور ہے، لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سنا کہ انہوں نے اونٹ روانہ کر کے مہمانوں کو بلایا ہو۔ اصل میں وہ مہمان نوازی ہی کیا جو بلا کر کسی آدمی پر عائد کی جائے۔ ہم تو عربوں کے متعلق یہی سنتے آئے ہیں کہ ان کے مہمان اکثر بن بلائے ہی ہوتے تھے۔۔۔ دن کو یا رات کو کسی وقت بھی آ نکلتے، دروازے کھلے پاتے۔ حاتم طائی کبھی پیدا نہ ہوتا اگر وہاں مہمانوں کو بلا کر ان کا میزبان بننے کا دستور ہوتا۔

انگریزوں کی روزہ مرہ کی زندگی بڑی نپی تلی ہے۔ منٹوں اور سیکنڈوں کا حساب کیا جاتا ہے بن بلائے کسی کے یہاں جانا ان کے نزدیک بہت بڑی بدتمیزی ہے، یہی وجہ ہے کہ حاتم طائی کے قدو قامت کی ایک بھی شخصیت ان کی تاریخ میں نظر نہیں آتی، لیکن یہاں حاتم طائی کے قدوقامت کی شخصیتیں پیدا کرنے کا سوال نہیں۔ ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ بن بلائے مہمان کو سوسائٹی کیوں ایسی بری نظروں سے دیکھتی ہے اور معاشرے میں اس کی حیثیت کیوں ایک خارش زدہ کتے سے بھی بدتر ہے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔۔۔ یہ بالکل اور چیز ہے لیکن بن بلایا مہمان ہر گز ہر گز ملعون و مطعون نہیں ہونا چا ہیئے، بلکہ میزبانوں کو الٹا ان کا شکرگزار ہونا چاہیئے کہ یہ ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور خود اعتمادی جیساکہ آپ جانتے ہیں، انسان کے کردار میں بہت ہی ضروری ہے۔

ذرا غور فرمایئے۔۔۔ اگر آپ کسی بن بلائے مہمان کو برداشت نہیں کر سکتے، جو زیادہ سے زیادہ چار پانچ روز آپ کے پاس ٹھہر کر اپنی راہ لے گا، تو آپ ایک ایسے بڑے ناگہانی حادثے کو کیونکر برداشت کر سکیں گے جس کا ردعمل برسوں جاری رہتا ہے۔ ملک کی سیاست میں کسی اچانک تبدیلی کو آپ کا ذہن کیسے برداشت کرے گا اور آپ کیوں کراس تبدیلی کے ساتھ خود کو سمو سکیں گے۔۔۔ اگر آپ بن بلائے مہمان کو برداشت نہیں کر سکتے تو معاف کیجئے، موت کے فرشتے کا کیا کیجئے گا جو ہمیشہ بن بلائے آتا ہے۔ دنیا کچھ بھی کہے لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ ہر بن بلائے مہمان کی آمد نہ بلانے والے میزبان میں خوداعتمادی پیدا کرتی ہے۔ دعوت کا اعلان کر کے اور خوردونوش کا جملہ سامان تیار کر کے ایک، دس یا بیس آدمیوں کو مہمان بنا لینا کوئی بڑی بات تو نہیں، بڑی بات تو اس وقت ہوگی جب آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی اور تین چار دوست بیک وقت یا یکے بعد دیگرے آپ کے گھر آ دھمکیں گے اور آپ کو افراتفری میں ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرنا پڑے گا۔

صاحب خانہ یا میزبان کے سلیقے کا اندازہ اعلان کر کے دی ہوئی دعوتوں اور بلا کر بنائے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارت سے بطریق احسن کبھی نہیں ہو سکتا۔ آپ کے، آپ کی بیگم صاحبہ کے، آپ کے نوکروں کے حسن انتظام، خوش سلیقگی اور رکھ رکھاؤ کا صحیح اندازہ صرف اسی وقت ہوگا جب آپ امتحان کے لئے تیار نہ ہوں گے۔ انسپکٹر صاحب بتا کرا سکولوں کا دورہ کرتے ہیں کہ وہ فلاں دن، فلاں ا سکول کا معائنہ کریں گے تو اس دن اس اسکول کا غلیظ ترین کونہ بھی صاف ہوتا ہے۔ صحیح معائنہ تو اصل میں اس وقت ہوگا جب انسپکٹر SURPRISE VISIT پر آ نکلے گا۔ انسپکٹر تو محض اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کے لئے معائنے پر آتے ہیں لیکن بن بلائے مہمان غیر شعوری طور پر میزبانوں کو اپنے فرائض سے سبکدوش ہونے کا موقعہ بہم پہنچاتے ہیں۔ سوسائٹی انہیں ملعون و مطعون گردانتی ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اس لئے کہ ان کا وجود سوسائٹی کے حق میں بے حد مفید ہے۔

یہاں تک کہہ چکنے کے بعد میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اور بے جھجک بتانا چاہتا ہوں کہ میں بلانے پر کسی کے یہاں آج تک نہیں گیا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے اکثر و بیشتر میزبان مجھ سے نالاں ہیں کہ میں بن بلائے آ دھمکتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں نے اپنی عادت نہیں بدلی۔ اس لئے کہ مجھے اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ میں شاعر مزاج ہوں، ٹھس واقعات اور سپاٹ چیزوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں، شادی، بیاہ اور سالگرہ وغیرہ کی دعوتیں میرے لئے بالکل بے کیف ہیں۔ وہ کھیل اور تماشے بھی میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتے جن کو دیکھنے کے لئے آدمی کو وقت کا پابند ہونا پڑے۔ مجھے اس بستر پر کبھی نیند نہیں آ سکتی جو میرے لئے خاص طور پر تیار کیا گیا ہو۔ وہ مہمان نوازی مجھے کھٹکتی ہے جس میں پہلے کی تیاری کی ہلکی سی جھلک بھی ہو۔

وہ لوگ جو مجھے یا میرے مزاج کے آدمیوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں ان کے متعلق مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ وہ شعریت سے یکسر خالی ہیں۔ ڈرامے کو سمجھنے اور اس سے حظ اٹھانے کی صلاحیت ان میں ذرا بھر نہیں۔ حادثات کا مقابلہ کرنے کی تاب تو معاف کیجئے ان میں سرے سے ہوتی ہی نہیں۔

اونچی سوسائٹی کی ایک خاتون تھیں جن کے متعلق اونچی سوسائٹی ہی میں یہ مشہور تھا کہ وہ پرلے درجے کی مہمان نواز ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ وہ ہر ہفتے بلاناغہ ایک پارٹی دیا کرتی تھیں۔ جس میں شہر کی تمام اونچی شخصیتوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ میں ان کے یہاں جب بھی گیا بن بلائے گیا۔ وہ مجھے بہت اونچے درجے کا بدتمیز سمجھتی تھیں اور میں سمجھتا تھا کہ وہ بہت ہی اونچے درجے کی خاتون ہیں لیکن ان کے دل کا نچلا حصہ جہاں درد، منت کش دوا نہیں ہوتا، جہاں تیر تمام کش پر تیر نیم کش کو ترجیح دی جاتی ہے، سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک رات وہ ایک بن بلائی چوہیا کو دیکھ کر بے ہوش ہو گئیں اور یہ صدمہ انہیں تا دم آخر رہا کہ ان کے گھر میں جہاں ایک مچھر نکال دینے پر وہ دس ہزار روپے ہار دینے کے لئے تیار تھیں، ایک چوہیا نکل آئی۔

میں عرض کر چکا ہوں کہ ایسے لوگوں میں حادثات کا مقابلہ کرنے کی تاب بالکل نہیں ہوتی۔ اس خاتون کی جگہ جن کا ذکر میں نے ابھی ابھی کیا ہے اگر کوئی ایسی عورت ہوتی، جس کے دل کے نچلے حصے میں ’’اگر خواہی حیات اندر خطرزی‘‘ کا جذبہ موجزن ہوتا تو میں سمجھتا ہوں اس رات محفل درہم برہم ہونے کے بجائے اور جم جاتی اور ایسے لطیفے ہوتے جو سب کو تا دم آخر فرحان و شاداں رکھتے۔ آپ یقین نہیں کریں گے، مگر آپ کبھی ایسے میزبان کو جسے بن بلائے مہمانوں سے چڑ ہو، شیکسپیئر کے ڈرامے پڑھنے کے لئے دیجئے۔ دوسرے پڑھ پڑھ کر سر دھنیں گے مگر اس پر ذرہ برابر اثر نہیں ہوگا۔ اسی طرح فنون لطیفہ سے بھی ایسے شخص لطف اندوز نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں شئے لطیف کی کمی ہوتی ہے، اگر یہ کمی نہ ہوتی تو وہ ان تمام لطافتوں کو سمجھ سکتے جو بن بلائے مہمانوں کی آمد کے ساتھ ان کے گھر میں داخل ہوتی ہیں۔

آپ کی اپنی بیوی کے ساتھ زبردست چخ ہوئی ہے۔ وہ مصر تھی کہ میکے جائے گی اور ضرور جائے گی۔ آپ اس کے خلاف تھے، نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ آپ نے پورا ڈنر سیٹ غصے میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تھا اور آپ کی بیوی نئی ساڑھی کی چندی چندی کر کے بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ تین بار طلاق کہنے والے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی یا زور سے گھنٹی بجی۔ آپ نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور کیا دیکھا کہ میں اپنی بیوی بچوں سمیت کھڑا ہوں۔ آپ چلائے، ’’ارے، تم کہاں۔۔۔ ؟‘‘ آپ نے پھر میری بیوی کی طرف دیکھا اور اپنے چہرے پر سے کدورت کے تمام آثار دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کو آداب عرض کیا۔۔۔ تھوڑی دیر ٹھٹکے پھر زور سے میرے کندھے پر ہاتھ مارا اور کہا، ’’چلو بھئی اندر، باہر سردی میں کیا کھڑے ہو۔‘‘

چلیئے صاحب، ہم اندر داخل ہو گئے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور پوچھا، ’’بیگم صاحبہ کہاں ہیں۔۔۔ سو رہی ہیں؟‘‘ آپ نے کھٹ سے جھوٹ بولا، ’’نہیں اندر ہیں۔ ذرا طبیعت خراب ہے۔‘‘ میری بیوی نے جھٹ سے برقعہ اتارتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں کہا، ’’ہائیں۔۔۔ کیا ہوا دشمنوں کو؟‘‘ آپ کی بیگم صاحبہ نے اندر کمرے میں یہ باتیں سنیں تو جلدی جلدی نچی ہوئی ساڑھی کی چندیاں بکس میں ڈالیں اور آنسو پونچھتی ہوئی باہر نکل آئیں اور جھٹ سے میری بیوی کو اپنے گلے لگا لیا اور کچھ اس خوبصورتی سے اپنے بچے ہوئے آنسو نکالے کہ اس غریب کو بھی رونا پڑا۔

رات بہت دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے ٹوٹے ہوئے ڈنر سیٹ کے متعلق پوچھا تو آپ کو ایک نہایت ہی دردناک داستان گڑھ کے سنانا پڑی کہ نوکر نے لاکھ منع کرنے پر بھی سارے برتن ایک ہی طشت میں اٹھائے اور اندھا دھند میز کے ساتھ ٹکرا کر سب کے سب فرش پر گرا دیئے۔ غریب نوکر کو میں بھی آپ کے ساتھ گالیاں دیتا رہا۔ حالانکہ صاف دیکھ رہا تھا کہ سیٹ شکنی آپ ہی کا کام ہے کیونکہ فرش پر گر کر پلیٹوں کے ٹکڑے الماری تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ پھر سونے کے وقت آپ کی بیگم صاحبہ نے غلطی سے اپنا بکس کھولا اور میری بیوی دھنی ہوئی ساڑھی دیکھ کر چلائی، ’’ہائیں، بہن یہ کیا؟‘‘ تو آپ کی بیگم صاحبہ کو ایک فرضی کہانی سنانا پڑی، ’’ان کم بخت چوہوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ پچھلے مہینے میرا ساٹن کا سوٹ غارت ہوا۔ آج یہ نئی ساڑھی! گولیاں ڈالیں، توسوں پر زہر لگا کر رکھا، مگر ان سے نجات ہی نہیں ہوتی۔‘‘ میری بیوی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ساڑھی کو غارت کرنے والی خود آپ کی بیگم ہیں کیونکہ چوہے پھاڑتے نہیں بوٹیاں نوچتے ہیں، لیکن وہ بیچاری آپ کی بیگم کو چوہے مارنے کی کئی ترکیبیں سمجھاتی رہی۔

ہم دس دن آپ کے یہاں رہے، آپ کو بہت کوفت ہوئی، اس لئے کہ ہم بن بلائے مہمان تھے۔ کئی دفعہ ہم نے آپ میاں بیوی کو آپس میں ہمارے متعلق کھسر پھسر کرتے سنا کہ یہ کم بخت ٹلتے کیوں نہیں، لیکن افسوس ہے کہ آپ نے ہماری بروقت آمد کے فوائد پر غور نہ کیا۔ میں ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر سکتا ہوں۔

ایک صاحب کے یہاں ہم دس روز ٹھہرے۔ ان کی بیوی، ان کی دو سالیاں، ان کے تین بچے سب بلا کے چٹورے تھے۔ بلڈنگ کے پاس سے کوئی بھی خوانچہ والا گزرے ٹھہرا لیا جاتا تھا اور سیکڑوں روپے ماہوار ہر ماہ یوں برباد کر دیے جاتے تھے۔ صاحب خانہ کو سخت شکایت تھی کہ کھانا کوئی نہیں کھاتا، لیکن الم غلم چیزیں دن بھر کھائی جاتی ہیں، ہم صرف دس روز ان کے یہاں ٹھہرے، آپ یقین مانئے چوتھے روز ان سب کا چٹوراپن غائب ہو گیا اور وہ باقاعدہ گھر کا پکا ہوا کھانا کھانے لگے، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری آمد کے اس افادی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ہم پر بن بلائے مہمان کا لیبل چسپاں ہو گیا۔

بن بلائے مہمانوں کے متعلق میرا روّیہ بہت ہی اچھا ہے، جو آتا ہے بڑے شوق سے آئے، جب جی چاہے آئے، ایک روز رہے، دس روز رہے، دس مہینے رہے، مجال ہے جو میرے ماتھے پر ہلکی سی شکن بھی آ جائے۔۔۔ زیادہ آ جائیں گے تو میں ان سے کہوں گا، دیکھئے جناب ہمارے پاس دو پلنگ ہیں، آپ انہیں اپنی عقل کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں۔ ہماری فکر نہ کیجئے، صوفہ ہے، اس پر میں سو جاؤں گا۔ گدا ہے، اس پر میری بیوی آرام سے سو سکتی ہے، بچے ہیں ان کا بھی انتظام ہو جائے گا۔ وہ کہیں گے، نہیں نہیں، اس قدر تکلف کی کیا ضرورت ہے۔ تو میں کہوں گا، بہتر۔۔۔ آپ صوفہ اور گدا سنبھال لیجئے، لیکن دیکھئے، یہ ریڈیو میں اپنے کمرے میں لئے جاتا ہوں، اس لئے کہ رات کو اگر آپ میں سے کوئی بجائے تو ممکن ہے باقیوں کو ناگوار معلوم ہو۔۔۔ جس چیز کی ضرورت ہو آپ باہر سے خود لا سکتے ہیں۔ سگریٹ والے کی دکان گلی کے نکڑ پر ہے، دودھ کا شوق ہے تو دس قدم اور آگے چلے جایئے گا، بڑا اچھا حلوائی ہے۔

جب تک جیب اجازت دے گی میں اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتا رہوں گا، لیکن جب وہ جواب دے جائے گی تو میں ان سے ایک روز اچانک کہوں گا، ’’لیجئے جناب! آج سے تصویر کا دوسرا رخ شروع ہوگا۔ ہم آپ کے مہمان، آپ ہمارے میزبان۔۔۔‘‘ اور اگر معاملہ بہت ہی نازک صورت اختیار کر گیا تو ہم اپنے مہمانوں کو وہیں گھر میں چھوڑ کر کسی دوسرے کے یہاں بن بلائے چلے جائیں گے۔ اللہ اللہ، خیر صلا! آخر میں ان لوگوں سے جو کہ بن بلائے مہمانوں سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں، میری درخواست ہے کہ وہ اور کچھ نہیں تو محض تفریح کے طور پر ہی مہینے میں ایک بار کسی بن بلائے مہمان کو اپنے ہاں ضرور بلوایا کریں۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.