بنک کی جلوہ گری پر غش ہوں
Appearance
بنک کی جلوہ گری پر غش ہوں
یعنی اس سبز پری پر غش ہوں
گرچہ دنیا کے ہنر ہیں لیکن
اپنے میں بے ہنری پر غش ہوں
برق کی طرح نہ تڑپوں کیوں کر
تیری پوشاک زری پر غش ہوں
اس کی پشواز کی سے لائی باس
اس کی میں گود بھری پر غش ہوں
غش نسیم سحری ہے مجھ پر
میں نسیم سحری پر غش ہوں
اسے کچھ ہو نہ سکا انشاؔ میں
آہ کی بے اثری پر غش ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |