Jump to content

بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں

From Wikisource
بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں (1866)
by شاہ آثم
304422بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں1866شاہ آثم

بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں
خواہش ننگ نہیں کچھ ہوس نام نہیں

مذہب عشق کا یہ ڈھنگ نرالا دیکھا
کچھ وہاں تذکرۂ کفر اور اسلام نہیں

عشق کو جانتا ہوں دین و ایمان اپنا
غیر معشوق پرستی مجھے کچھ کام نہیں

کعبۂ جاں ہے مرا کوچۂ جاناں یارو
سجدۂ دیر و حرم سے مجھے کچھ کام نہیں

صید مرغ دل عاشق لیے اے دلبر
خال ہے دانہ اور یہ زلف کم از دام نہیں

درد دل نے ہمیں کیا کیا ہے چکھائی لذت
اس لیے دل کو مرے خواہش آرام نہیں

مذہب عشق میں آ کر کے ہمیں اے آثمؔ
شاہ خادم کے سوا اور سے کچھ کام نہیں


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.