Jump to content

بنت بہادر شاہ

From Wikisource
بنت بہادر شاہ
by حسن نظامی
319520بنت بہادر شاہحسن نظامی

یہ ایک بے چاری درویشنی کی سچی کہانی ہے، جوزمانہ کی گردش سے ان پر گذری۔ ان کا نام کلثوم زمانی بیگم تھا۔ یہ دہلی کے آخری مغل بادشاہ ابو ظفر بہادر شاہ کی لاڈلی بیٹی تھیں۔ چند سال ہوئے ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے بارہا شہزادی صاحبہ سے خود ان کی زبانی ان کے حالات سنے ہیں کیونکہ ان کو ہمارے حضور خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ؒ کی خانقاہ سے خاص عقیدت تھی، اسی لیے اکثر حاضر ہوتی تھیں اور مجھ کو ان کی دردناک باتیں سننے کا موقع ملتا تھا۔ نیچے جس قدر واقعات لکھے گئے ہیں وہ یا تو خود ان کے بیان کردہ ہیں یا ان کی صاحبزادی زینب زمانی بیگم کے، جواب تک زندہ ہیں اور پنڈت کے کوچہ میں رہتی ہیں اور وہ حالات یہ ہیں،

جس رات میرے بابا جان کی بادشاہت ختم ہوئی اور تاج و تخت لٹنے کا وقت قریب آیا، تو دلی کے لال قلعہ میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ درودیوار پر حسرت برستی تھی۔ اجلے اجلے سنگ مرمر کے مکان کالے سیاہ نظر آتے تھے۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نہ کھایا تھا۔ زینب میری گود میں ڈیڑھ برس کا بچہ تھی اور دودھ کے لیے بلکتی تھی۔ فکر اور پریشانی کے مارے نہ میرے دودھ رہا تھا نہ کسی انا کے۔ ہم سب اس یاس و ہر اس کے عالم میں بیٹھے تھے کہ حضرت ظل سبحانی کا خاص خواجہ سرا ہم کو بلانے آیا۔

آدھی رات کا وقت، سناٹے کا عالم، لوگوں کی گرج سے دل سہمے جاتے تھے لیکن حکم سلطانی ملتے ہی حاضری کے لیے روانہ ہوگئے۔ حضور مصلے پر تشریف رکھتے تھے۔ تسبیح ہاتھ میں تھی۔ جب میں سامنے پہنچی، جھک کر تین مجرے بجا لائی۔ حضور نے نہایت شفقت سے قریب بلایا اور فرمانے لگے، ’’کلثوم! لو اب تم کو خدا کو سونپا۔ قسمت میں ہے تو پھر دیکھ لیں گے۔ تم اپنے خاوند کو لے کر فوراً کہیں چلی جاؤ، میں بھی جاتا ہوں۔ جی تو نہیں چاہتا کہ اس آخری وقت میں تم بچوں کو آنکھ سے اوجھل ہونے دوں، پر کیا کروں، ساتھ رکھنے میں تمہاری بربادی کا اندیشہ ہے۔ الگ رہوگی تو شاید خدا کوئی بہتری کا سامان پیدا کر دے۔‘‘

اتنا فرما کر حضور نے دست مبارک دعا کے لیے بلند کیے جو رعشہ کے سبب کانپ رہے تھے۔ دیر تک آواز سے بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے رہے، ’’خداوندا! یہ بے وارث بچے تیرے حوالے کرتا ہوں۔ یہ محلوں کے رہنے والے جنگل ویرانوں میں جاتے ہیں۔ دنیا میں ان کا کوئی یار و مددگار نہیں۔ تیمور کے نام کی عزت رکھیو اور ان بے کس عورتوں کی آبرو بچائیو۔ پروردگار یہی نہیں بلکہ تمام ہندوستان کے ہندو مسلمان میری اولاد ہیں اور آج کل سب پر مصیبت چھائی ہے۔ میرے اعمال کی شامت سے ان کو رسوا نہ کر اور سب پریشانیوں سے نجات دے۔‘‘ اس کے بعد میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ زینب کو پیار کیا اور میرے خاوند میرزا ضیاء الدین کو کچھ جواہرات عنایت کر کے نور محل صاحبہ کو بھی ہمراہ کر دیا، جو حضور کی بیگم تھیں۔

پچھلی رات کو ہمارا قافلہ قلعہ سے نکلا، جس میں دو مرد اور تین عورتیں تھیں۔ مردوں میں ایک میرے خاوند میرزا ضیاء الدین اور دوسرے مرزا عمر سلطان بادشاہ کے بہنوئی تھے۔ عورتوں میں ایک میں، دوسری نواب نو ر محل، تیسری حافظہ سلطان بادشاہ کی سمدھن تھیں۔ جس وقت ہم لوگ رتھ میں سوار ہونے لگے، صبح صادق کا وقت تھا۔ تارے سب چھپ گئے تھے مگر فجر کا تارا جھلملا رہا تھا۔ ہم نے اپنے بھرے پرے گھر پر اور سلطانی محلوں پر آخری نظر ڈالی تو دل بھر آیا اور آنسو امڈنے لگے۔ نواب نور محل کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور پلکیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی تھیں۔ گویا صبح کے ستارے کا جھلملانا نور محل کی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔

آخر لال قلعہ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر کورالی گاؤں میں پہنچے اور وہاں اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ باجرے کی روٹی اور چھاچھ کھانے کو میسر آئی۔ اس وقت بھوک میں یہ چیزیں بریانی متنجن سے زیادہ مزیدار معلوم ہوئیں۔ ایک دن رات تو امن سے بسر ہوا مگر دوسرے دن گرد و نواح کے جاٹ گوجر جمع ہو کر کو رالی کو لوٹنے چڑھ آئے۔ سینکڑوں عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں جو چڑیلوں کی طرح ہم لوگوں کو چمٹ گئیں۔ تمام زیور اور کپڑے ان لوگوں نے اتار لیے۔ جس وقت یہ سڑی بسی عورتیں اپنے موٹے موٹے میلے ہاتھوں سے ہمارے گلے کو نوچتی تھیں تو ان کے لہنگوں سے ایسی بو آتی تھی کہ دم گھٹنے لگتا تھا۔

اس لوٹ کے بعد ہمارے پاس اتنا بھی باقی نہ رہا جو ایک وقت کی روٹی کو کافی ہوسکتا۔ حیران تھے کہ دیکھئے اب کیا پیش آئے گا۔ زینب پیاس کے مارے رو رہی تھی۔ سامنے سے ایک زمیندار نکلا۔ میں نے بے اختیار ہو کر آواز دی۔ بھائی تھوڑا پانی اس بچی کو لا دے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لایا اور بولا، ’’آج تو میری بہن اور میں تیرا بھائی۔‘‘ یہ زمیندار کورالی کا کھاتا پیتا آدمی تھا۔ اس کا نام بستی تھا۔ اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کر کے ہم کو سوار کیا اور پوچھا کہ جہاں تم کہو پہنچا دوں۔ ہم نے کہا کہ اجاڑہ ضلع میرٹھ میں میر فیض علی شاہی حکیم رہتے ہیں جن سے ہمارے خاندا ن کے خاص مراسم ہیں۔ وہاں لے چل۔ بستی ہم کو اجاڑہ لے گیا مگر میر فیض علی نے ایسی بے مروتی کا برتاؤ کیا جس کی کوئی حد نہیں۔ صاف کانوں پر ہاتھ رکھ لیے کہ تم لوگوں کو ٹھہرا کر اپنا گھر بار تباہ کرنا نہیں چاہتا۔

وہ وقت بڑی مایوسی کا تھا۔ زمین آسمان میں کہیں ٹھکانا نظر نہ آتا تھا۔ ایک تو یہ خطرہ کہ پیچھے سے انگریزی فوج آتی ہوگی۔ اس پر بے سروسامانی کا یہ عالم۔ ہر شخص کی نگاہ پھری ہوئی تھی۔ وہ لوگ جو ہماری آنکھوں کے اشاروں پر چلتے اور ہر وقت دیکھتے رہتے تھے کہ ہم جو کچھ حکم دیں، فوراً پورا کیا جائے، وہی آج ہماری صورت سے بیزار تھے۔ شاباش ہے بستی زمیندار کو کہ اس نے زبانی بہن کہنے کو آخر تک نباہا اور ہمارا ساتھ نہ چھوڑا۔ لاچار اجاڑہ سے روانہ ہوئے۔ حیدرآباد کا رخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رہے تھے۔ تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پہنچے، جہاں کوئل کے نواب کی فوج پڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے سنا کہ شاہی خاندان کے آدمی ہیں تو بڑی خاطر کی اور ہاتھی پر سوار کر کے ندی سے پار اتارا۔ ابھی ہم ندی کے پار اترے ہی تھے کہ سامنے سے انگریزی فوج آگئی اور نواب کی فوج سے لڑائی ہونے لگی۔

میرے خاوند اور مرزا عمر سلطان نے چاہا کہ نواب کی فوج میں شامل ہوکر لڑیں مگر رسالدار نے کہلا بھیجا کہ آپ عورتوں کو لے کر جلدی چلے جائیے۔ ہم جیسا موقع ہوگا بھگت لیں گے۔ سامنے کھیت تھے جن میں پکی ہوئی تیار کھیتی کھڑی تھی۔ ہم لوگ اس کے اندر چھپ گئے۔ ظالموں نے خبر نہیں دیکھ لیا تھا یا نہ گہانی طور پر گولی لگی۔ جو کچھ بھی ہو، ایک گولی کھیت میں آئی، جس سے آگ بھڑک اٹھی اور تمام کھیت جلنے لگا۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر بھاگے۔ پر ہائے کیسی مصیبت تھی۔ ہم کو بھاگنا بھی نہ آتا تھا۔ گھاس میں الجھ الجھ کر گرتے تھے۔ سر کی چادریں وہیں رہ گئیں۔ برہنہ سر، حواس باختہ ہزار دقت سے کھیت کے باہر آئے۔ میرے اور نور محل کے پاؤں خونم خون ہو گئے۔ پیاس کے مارے زبانیں باہر نکل آئیں۔ زینب پر غشی کا عالم تھا۔ مرد ہم کو سنبھالتے تھے مگر ہمارا سنبھلنا مشکل تھا۔

نواب نور محل تو کھیت سے نکلتے ہی چکرا کر گر پڑیں اور بے ہوش ہوگئیں۔ میں زینب کو چھاتی سے لگائے اپنے خاوند کا منہ تک رہی تھی اور دل میں کہتی تھی کہ الٰہی ہم کہاں جائیں۔ کہیں سہارا نظر نہیں آتا۔ قسمت ایسی پلٹی کہ شاہی سے گدائی ہوگئی، لیکن فقیروں کو چین اور اطمینان ہوتا ہے۔ یہاں وہ بھی نصیب نہیں۔

فوج لڑتی ہوئی دور نکل گئی تھی۔ بستی ندی سے پانی لایا۔ ہم نے پیا اور نواب نور محل کے چہرہ پر چھڑکا۔ نور محل رونے لگیں اور بولیں، ’’ابھی خواب میں تمہارے بابا جان حضرت ظل سبحانی کو دیکھا ہے کہ طوق و زنجیر پہنے ہوئے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج ہم غریبوں کے لیے یہ کانٹوں بھرا خاک کا بچھونا فرش مخمل سے بڑھ کر ہے۔ نور محل گھبرانا نہیں۔ ہمت سے کام لینا۔ تقدیر میں لکھا تھا کہ بڑھاپے میں یہ سختیاں برداشت کروں۔ ذرا میری کلثوم کو دکھا دو۔ میں جیل خانہ جانے سے پہلے اس کو دیکھوں گا۔‘‘

بادشاہ کی یہ باتیں سن کر میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور آنکھ کھل گئی۔ کلثوم کیا سچ مچ ہمارے بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا ہوگا۔ کیا واقعی وہ قیدیوں کی طرح جیل خانے بھیجے گئے ہوں گے۔ مرزا عمر سلطان نے اس کا جواب دیا کہ یہ خواب و خیا ل ہے۔ بادشاہ لوگ بادشاہوں کے ساتھ ایسی بدسلوکیاں نہیں کیا کرتے۔ تم گھبراؤ نہیں۔ وہ اچھے حال میں ہوں گے۔ حافظ سلطان بادشاہ کی سمدھن بولیں، یہ موئے فرنگی بادشاہوں کی قدر کیا خاک جانیں گے۔ خود اپنے بادشاہ کا سر کاٹ کر سولہ آنے کو بیچتے ہیں۔ بوا نور محل تم نے طوق اور زنجیر پہنے دیکھا ہے۔ میں کہتی ہوں کہ بنیوں سے تو اس سے زیادہ بدسلوکی دور نہیں ہے، مگر میرے شوہر میرزا ضیاء الدین نے تسکین و دلا سے کی باتیں کر کے سب کو مطمئن کر دیا۔

اتنے میں بستی ناؤ میں گاڑی کو اس پار لے آیا اور ہم سوار ہوکر روانہ ہوئے۔ تھوڑی دورجاکرشام ہوگئی اور ہماری گاڑی ایک گاؤں میں جاکر ٹھہری، جس میں مسلمان راجپوتوں کی آباد تھی۔ گاؤں کے نمبردار نے ایک چھپر ہمارے واسطے خالی کرا دیا، جس میں سوکھی گھاس اور پھوس کا بچھونا تھا۔ وہ لوگ اسی گھاس پر جس کو پیال یا پرال کہتے ہیں، سوتے ہیں۔ ہم کو بھی بڑی خاطر داری سے (جوان کے خیال میں بڑی خاطر تھی) یہ نرم بچھونا دیا گیا۔ میرا تو اس کوڑے سے جی الجھنے لگا، پر کیا کرتے۔ اس وقت سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا تھا۔ ناچار اسی میں پڑ رہے۔ دن بھر کی تکلیف اور تکان کے بعد اطمینان اور بے فکری میسر آئی تھی۔ نیند آگئی۔

آدھی رات کو ایکا ایکی ہم سب کی آنکھ کھل گئی۔ گھاس کے تنکےسوئیوں کی طرح بدن میں چبھ رہے تھے اور پسو جگہ جگہ کاٹ رہے تھے۔ اس وقت کی بے کلی بھی خدا کی پناہ۔ پسوؤں نے تمام بدن میں آگ لگادی تھی۔ مخملی تکیوں، ریشمی نرم نرم بچھونوں کی عادت تھی، اس لیے تکلیف ہوئی، ورنہ ہم ہی جیسے وہ گاؤں کے نرم آدمی تھے جو بے غل و غش اسی گھاس پر پڑے سوتے تھے۔ اندھیری رات میں چاروں طرف گیدڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں اور میرا دل سہما جاتا تھا۔ قسمت کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن شہنشاہ ہند کے بال بچے یوں خاک پر بسیر ے لیتے پھریں گے۔

قصہ مختصر اسی طرح منزل بمنزل تقدیر کی گردشوں کا تماشہ دیکھتے ہوئے حیدرآباد پہنچے اور سیتارام پیٹھ میں ایک مکان کرایہ کو لے کر ٹھہرے۔ جبل پور میں میرے شوہر نے ایک جڑاؤ انگوٹھی جو لوٹ کھسوٹ سے بچ گئی تھی، فروخت کی۔ اسی میں راستہ کا خرچ چلا اور چند روز یہاں بھی بسر ہوئے۔ آخر تابہ کے۔ جو کچھ تھا ختم ہوگیا۔ اب فکر ہوئی کہ پیٹ بھرنے کا کیا حیلہ کیا جائے۔ میرے شوہر اعلیٰ درجہ کے خوش نویس تھے۔ انہوں نے درود شریف خط حیران میں لکھا اور چار سنار پر ہدیہ کرنے لے گئے۔ لوگ اس خط کو دیکھتے تھے اور حیرت میں رہتے تھے۔ اول روز پانچ روپیہ کو درود شریف ہدیہ ہوا۔ اس کے بعد یہ قاعدہ ہوا کہ جو کچھ لکھتے، کمتی بڑھتی فوراً بک جاتا۔ اس طرح ہماری گذر اوقات بہت عمدگی سے ہونے لگی، لیکن موسیٰ ندی کے چڑھاؤ سے ڈر کر شہر میں داروغہ احمد کے مکان میں اٹھ آئے۔ یہ شخص حضور نظام کا خاص ملازم تھا۔ اس کے بہت سے مکان کرایہ پر چلتے تھے۔

چند روز بعد خبر اڑی کہ نواب لشکر جنگ جس نے شہزادوں کو اپنے پاس پناہ دی تھی، انگریزوں کے عتاب میں آ گیا ہے اور اب کوئی شخص دہلی کے شہزادوں کو پناہ نہیں دے گا، بلکہ جس کو کسی شہزادہ کی خبر ملے گی اس کو گرفتار کرانے کی کوشش کرے گا۔ ہم سب اس خبر سے گھبرا گئے اور میں نے شوہر کو باہر نکلنے سے منع کر دیا کہ کہیں کوئی دشمن پکڑوا نہ دے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے فاقوں کی نوبت آگئی تو ناچار ایک نواب کے لڑکے کو قرآن پڑھانے کی نوکری میرے شوہر نے بارہ روپیہ ماہوار پر کر لی۔ چپ چاپ اس کے گھر چلے جاتے اور پڑھا کر آجاتے، مگر وہ نواب اس قدر بد مزاج تھا کہ ہمیشہ معمولی نوکروں کی طرح میرے شوہر کے ساتھ برتاؤ کرتا تھا، جس کی برداشت وہ نہ کر سکتے تھے اور گھر میں آکر رو رو کر دعا مانگتے کہ الٰہی اس ذلت کی نوکری سے تو موت لاکھ درجہ بڑھ کر ہے۔ تو نے اتنا محتاج بنا دیا کہ کل تو اس نواب جیسے سینکڑوں ہمارے غلام تھے اور آج ہم اس کے غلام ہیں۔

اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب سے ہماری خبر کر دی۔ میاں کی حیدرآباد میں بڑی عزت تھی، کیوں کہ میاں حضرت کالے میاں صاحب چشتی نظام فخری کے صاحبزادے تھے جن کو بادشاہ دہلی اور نظام اپنا پیر تصور کرتے تھے۔ میاں رات کے وقت میانہ میں سوار ہو کر ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم کو دیکھ کر بہت روئے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ قلعہ میں تشریف لاتے تھے تو مسند زرنگا پر بٹھائے جاتے تھے۔ بادشاہ بیگم اپنے ہاتھ سے لونڈیوں کی طرح مگس رانی کرتی تھیں۔ آج وہ گھر میں آئے تو ثابوت بوریہ بھی نہ تھا جس پروہ آرام سے بیٹھ جاتے۔ پچھلا زمانہ آنکھوں میں پھر نے لگا۔ خداکی شان! کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ میاں بہت دیر تک حالات دریافت فرماتے رہے۔ اس کے بعد تشریف لے گئے۔

صبح پیام آیا کہ ہم نے خرچ کا انتطام کروا دیا ہے۔ اب تم حج کا ارادہ کر لو۔ یہ سن کر جی باغ باغ ہو گیا اور مکہ معظمہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ القصہ حیدرآباد سے روانہ ہو کر بمبئی آئے اور یہاں اپنے سچے رفیق بستی کو خرچ دے کر اس کے گھر رخصت کر دیا۔ جہاز میں سوار ہوئے۔ جو مسافر یہ سنتا تھا کہ ہم شاہ ہند کے گھرانے کے ہیں تو ہمارے دیکھنے کا شوق ظاہر کرتا تھا۔ اس وقت ہم سب درویشانہ رنگین لباس میں تھے۔ ایک ہندو نے جس کی شاید عدن میں دکان تھی اور جو ہمارے حال سے بے خبر تھا، پوچھا کہ تم لو گ کس پنتھ کے فقیر ہو۔ اس کے اس سوال نے زخمی دل کو چھیڑ دیا۔ میں بولی ہم مظلوم شاہ گرو کے چیلے ہیں۔ وہی ہمارا باپ تھا اور وہی ہمارا گرو۔ پاپی لوگوں نے اس کا گھر بار چھین لیا اور ہم کو اس سے جدا کر کے جنگلوں میں نکال دیا۔ اب وہ ہماری صورت کو ترستا ہے اور ہم اس کے درشنوں بغیر بے چین ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا اپنی فقیری کی حقیقت بیان کریں۔

جب اس نے ہماری اصلی کیفیت لوگوں سے سنی تو بچارا رونے لگا اور بولا بہادر شاہ ہم سب کا باپ اور گرو تھا۔ کیا کریں رام جی کی یہی مرضی تھی کہ وہ بے گناہ برباد ہو گیا۔ مکہ پہنچے تو اللہ میاں نے ٹھہرنے کا ایک عجیب ٹھکانا پیدا کردیا۔ عبد القادر نامی میرا ایک غلام تھا جس کو میں نے آزاد کر کے مکہ بھیج دیا تھا۔ یہاں آکر اس نے بڑی دولت کمائی اور زمزم کا داروغہ ہوگیا۔ اس کو جو ہمارے آنے کی خبر ملی، دوڑ ہوا آیا اور قدموں میں گر کر خوب رویا۔ اس کا مکان بہت اچھا اور آرام کا تھا۔ ہم سب وہیں ٹھہرے۔ چند روز کے بعد سلطان روم کے نائب کو جو مکہ میں رہتا ہے، ہماری خبر ہوئی تو وہ بھی ہم سے ملنے آیا۔ کسی نے اس سے کہا تھا کہ شاہ دہلی کی لڑکی آئی ہے، جو بے حجابانہ باتیں کرتی ہے۔

نائب سلطان نے عبد القادر کے ذریعہ سے ملاقات کا پیام دیا، جو میں نے منظور کیا۔ دوسرے دن وہ ہمارے گھر پر آیا اور نہایت ادب قاعدہ سے بات چیت کی۔ آخر میں اس نے خواہش کی کہ میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینی چاہتا ہوں۔ میں نے اس کا جواب بہت بے پروائی سے دیا کہ اب ہم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آگئے ہیں۔ اب ہمیں کسی دوسرے سلطان کی پرواہ نہیں ہے۔ نائب نے ایک معقول رقم ہمارے اخراجات کے لیے مقرر کردی اور ہم نوبرس وہاں مقیم رہے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف، ایک سال نجف و کربلائے معلیٰ میں بسر ہوا۔

اتنی مدت کے بعد دہلی کی یاد نے بے چین کیا اور روانہ ہوکر دہلی آگئے۔ یہاں انگریزوں کی سرکار نے بہت بڑا ترس کھا کردس روپے ماہوار پنشن مقرر کر دی۔ اس پنشن کی رقم کو سن کر اول مجھے ہنسی آئی کہ میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر دس روپے معاوضہ دیتے ہیں، مگر پھر خیال آیا کہ ملک تو خدا کا ہے کسی کے باوا کا نہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ انسان کو دم مارنے کی مجال ہیں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.