بشر روز ازل سے شیفتہ ہے شان و شوکت کا
بشر روز ازل سے شیفتہ ہے شان و شوکت کا
عناصر کے مرقع میں بھرا ہے نقش دولت کا
ازل کے دن سے غم مشتاق تھا جو میری خلقت کا
بنایا آنسوؤں سے گوندھ کر پتلا کدورت کا
مقدر نے دیا ہے ہاتھ میں کاسہ ہلاکت کا
گدا ہوں اس پری پیکر کا جو ٹکڑا ہے آفت کا
رہے سینہ سپر ہر دم یہ جوہر ہے محبت کا
کبھی لوہا نہ مانا یار کی تیغ عداوت
دکھایا اس نے بن ٹھن کر وہ جلوہ اپنی صورت کا
کہ پانی پھر گیا آئینے پر دریاے حیرت کا
خدا آباد رکھے لکھنؤ کے خوش مزاجوں کو
ہر اک گھر خانۂ شادی ہے ہر کوچہ ہے عشرت کا
شب وصلت تو جاتے جاتے اندھا کر گئی مجھ کو
تم اب بہرا کرو صاحب سنا کر نام رخصت کا
مرے جس پر نہ چار آنسو بہائے اس نے مردے پر
ہوا ثابت کہ پانی بہہ گیا چشم مروت کا
جلائے دوست یا ٹھنڈا کرے دل جو رضا اس کی
نہ دوزخ سے مجھے نفرت نہ میں مشتاق جنت کا
نہ ہوگا فرق نقطے کا ملا کر دیکھ لے کوئی
مرے اعمال نامے سے نوشتہ میری قسمت کا
جو شامل ہے کرم اس کا تو کیا غم کشت عقبیٰ کا
سیہ نامی سے اپنے کام لوں گا ابر رحمت کا
خدا نے دی ہے لذت غم خوری کی خوش مذاقوں کو
لہو کی گھونٹ پینے میں مزا ملتا ہے شربت کا
ہر اک تصویر ہے ثانیٔ یوسف اپنے عالم میں
ذرا یعقوب دیکھے تو مرقع اس کی قدرت کا
ید بیضا کے دستے آگے آگے لے چلے موسیٰ
شب معراج کو روشن ہوا حال اس کی عظمت کا
زیادہ چاند سورج سے ترا نور آشکارا ہے
نہ دیکھیں تیرا جلوہ ہم قصور اپنی بصارت کا
وہ عالم ہے نہ غم سے غم نہ شادی سے مجھے شادی
برابر میرے میزاں میں ہے پلہ رنج و راحت کا
تمہاری فتنۂ قامت نے ایسا رعب باندھا ہے
قدم بھر بھی قدم آ کے نہیں بڑھتا قیامت کا
شہیدان خدا مجھ کو بھی تھوڑی سے جگہ دینا
نہ ہو برباد میری خاک صدقہ اپنی تربت کا
شب وصل صنم کا خاتمہ بالخیر ہو یا رب
نہ آنکھوں پر کہیں پھر جائے چونا صبح فرقت کا
حلاوت زندگی کی ہے ملاقات احبا میں
مزا مردے کو تنہائی کا ہے زندے کو صحبت کا
مزا عشق حقیقی میں نہ کچھ عشق مجازی میں
خدا سے غم دوئی کا ہے صنم سے رنج فرقت کا
چھری نا قدردانوں کی رواں ہے اہل جوہر پر
کفن کو یاد کرنا بحرؔ دھیان آئے جو خلقت کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |