Jump to content

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی

From Wikisource
بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
by مختار صدیقی
330628بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کیمختار صدیقی

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لائے ہیں ویرانوں کی

کل گنے جائیں گے زمرے میں ستم رانوں کے
خیر مانگیں گے اگر آج ستم رانوں کی

خواب باطل بھی تو ہوتے ہیں تن آسانوں کے
سعیٔ مشکور بھی ہوتی ہے گراں جانوں کی

زخم شاکی ہیں ازل سے نمک افشانوں کے
بات رکھی گئی ہر دور میں پیکانوں کی

وہ بنا ساز بھی ہوتے ہیں گلستانوں کے
خاک جو چھانتے پھرتے ہیں بیابانوں کی

ٹکڑے جو گنتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
جان بن جاتے ہیں آخر وہی مے خانوں کی

تیور آتے ہیں حقیقت میں بھی افسانوں کے
کچھ حقیقت بھی ہوا کرتی ہے افسانوں کی

ہو بھی جاتے ہیں رفو چاک گریبانوں کے
تنگ بھی ہوتی ہے پہنائیاں دامانوں کی

عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خوں شدہ ارمانوں کی

ذرے زندان ملامت بھی ہیں ویرانوں کے
در بنا کرتی ہیں دیواریں ہی زندانوں کی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.