Jump to content

برہم کن دل یوں کبھی برہم نہ ہوا تھا

From Wikisource
برہم کن دل یوں کبھی برہم نہ ہوا تھا (1940)
by علی منظور حیدرآبادی
324678برہم کن دل یوں کبھی برہم نہ ہوا تھا1940علی منظور حیدرآبادی

برہم کن دل یوں کبھی برہم نہ ہوا تھا
حیرت اثر ایسا مرا عالم نہ ہوا تھا

ان شوخ نگاہوں نے تڑپ اور بڑھا دی
اللہ ابھی درد جگر کم نہ ہوا تھا

اب بھی مجھے خودداریٔ جاناں میں نہیں شک
پہلے بھی مرا دل متوہم نہ ہوا تھا

اے پیر مغاں اس کی بقا میں مجھے شک ہے
واقف اثر جام سے کیا جم نہ ہوا تھا

وہ شوخ مجھے دیکھ کے یوں شرم سے جھک جائے
جس کا سر مغرور کبھی خم نہ ہوا تھا

اس کم نگہی نے تو مجھے مار ہی ڈالا
ایسا اثر اے پرسش پیہم نہ ہوا تھا

مشہور وہ منظورؔ ہے جس کے لیے کل تک
سرمایۂ شہرت ہی فراہم نہ ہوا تھا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).