برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
Appearance
برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
واہ کیا بات ہے اس چہرۂ نورانی کی
شوق دیکھے تجھے کس آنکھ سے اے مہر جمال
کچھ نہایت ہی نہیں تیری درخشانی کی
مجھ سے وہ سگ بھی ہے افضل جسے عزت ہو نصیب
آستان حرم یار پہ دربانی کی
جب سنا یاد کیا کرتے ہو تم بھی تو مجھے
کیا کہوں حد نہ رہی کچھ مری حیرانی کی
سعئ احباب کو ناحق ہے رہائی کا خیال
اور ہی کچھ ہے تمنا ترے زندانی کی
وہ تبسم بھی قیامت ہے ترا بعد جفا
تو نے دی ہو جسے خدمت نمک افشانی کی
مشکلوں سے جو مقابل ہوئی ہمت میری
قدر باقی نہ رہی عیش تن آسانی کی
رہ گیا جل کے تری بزم میں پروانہ جو رات
کھینچ گئی شکل مری سوختہ سامانی کی
رشک شاہی ہو نہ کیوں اپنی فقیری حسرتؔ
کب سے کرتے ہیں غلامی شہ جیلانیؔ کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |