بدن یار کی بو باس اڑا لائے ہوا
Appearance
بدن یار کی بو باس اڑا لائے ہوا
جان آئے جو وہاں ہو کے یہاں آئے ہوا
بدن یار کو بس چھو کے نہ اترائے ہوا
عطر کی بن کے لپٹ مجھ سے لپٹ جائے ہوا
ان کے کوچہ میں غبار اپنا اڑا کر لے جائے
مجھ پہ احسان کرے میرے بھی کام آئے ہوا
ہو ہوا دار سواری کا مرے دوش صبا
ناتواں وہ ہوں کہ اس تک مجھے پہنچائے ہوا
بندھ گئی باغ میں تیری تو ہوا باد صبا
ان کے کوچہ میں مری آہ کی بندھ جائے ہوا
اک نگہ باد ہوائی بھی تمہاری ہے ستم
جان اس تیر ہوائی سے نہ ہو جائے ہوا
کیوں نہ ہو باد بہاری مجھے یہ فرمائش
کیوں نہ باندھوں میں ہوا یار جو بندھوائے ہوا
کتنی نازک وہ پری ہے کہ ہوا دار اس کا
صورت تخت سلیماں رہا بالائے ہوا
تو ملے مہرؔ سے ایما یہی تاریخ ہو سچ
گلشن و بادہ و گل میں تجھے گرمائے ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |