بدل لذت آزار کہاں سے لاؤں
Appearance
بدل لذت آزار کہاں سے لاؤں
اب تجھے اے ستم یار کہاں سے لاؤں
پرسش حال پہ ہے خاطر جاناں مائل
جرأت کوشش اظہار کہاں سے لاؤں
ہے وہاں شان تغافل کو جفا سے بھی گریز
التفات نگہ یار کہاں سے لاؤں
نور عنقا ہے شب ہجر کی تاریکی میں
جلوۂ صبح کے آثار کہاں سے لاؤں
صحبت اہل صفا خوب ہے مانا لیکن
رونق خانۂ خمار کہاں سے لاؤں
شعر میرے بھی ہیں پر درد ولیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لاؤں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |