بحث اس کی میری وقت ملاقات بڑھ گئی
Appearance
بحث اس کی میری وقت ملاقات بڑھ گئی
باتیں ہوئیں کچھ ایسی کہ بس بات بڑھ گئی
بولا نہ مرغ صبح نہ آئی صدائے آہ
یارب شب فراق کی کیا رات بڑھ گئی
اصلاح بھی ضروری ہے اب اس کی شیخ جی
داڑھی تمہاری قبلۂ حاجات بڑھ گئی
پہنچے تھا اپنا دست ہوس جس پہ گاہ گاہ
وہ شاخ میوہ دار بھی ہیہات بڑھ گئی
شملہ رکھا جو دوش پہ لنگور کی سی دم
کیا اس میں شیخ جی کی کرامات بڑھ گئی
جس دن سے ان پہ پردۂ پوشیدگی پڑا
اس دن سے قدر عالم جنات بڑھ گئی
دیں گالیاں جو تو نے صنم اک غریب کو
کیا گالیاں دیے سے تری ذات بڑھ گئی
دے مصحفیؔ کو نعمت و دولت تو اے کریم
تا سب کہیں کہ اس کی اب اوقات بڑھ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |