بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے
بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے
مری صورت کو محفل میں وہ نقش بوریا سمجھے
ہم اس کو اپنے حق میں آفت جاں اور بلا سمجھے
بتان بے وفا ہیں جن کو اک اپنی ادا سمجھے
کوئی کیا خاک راز مشکل ذات خدا سمجھے
اگر نور خدا کو ذات انساں سے جدا سمجھے
وہاں جا کر کرے گر قتل تو بیمار ہجراں کو
ترے کوچہ کو اپنے حق میں وہ دار الشفا سمجھے
سیہ بختی پہ سایہ گر ہو تیری زلف شب گوں کا
اسے وہ اپنے سر پہ سایۂ بال ہما سمجھے
وہی کرتا ہے انساں کام جو قسمت کراتی ہے
کوئی چاہے اسے سمجھے روا یا ناروا سمجھے
لٹکتے دیکھا سینہ پر جو تیرے تار گیسو کو
اسے دیوانے وحشت میں ترا بند قبا سمجھے
نہ ہرگز خوں رلائے بلبلوں کو باغ میں اے گل
جو اپنے حسن کو تو طائر رنگ حنا سمجھے
ترے آئینۂ رخ کو سکندر دیکھنے آیا
تری محفل میں ہم اس کو گدائے بے نوا سمجھے
کوئی کیا جانتا ہے کس قدر بوسے لیے ہم نے
سمجھتے ہیں ہم اس کو یا ہمارا دل ربا سمجھے
بتوں سے ہم نے جوڑا رشتۂ دل کو وہ کافر ہے
اگر اس رشتہ کو کوئی ہمارے ناروا سمجھے
تو جا کر چھیڑ گل کو یا کسی کی زلف پیچاں کو
چل اے باد صبا تو کیا مری ناز و ادا سمجھے
کبھی بیٹھا بھی گر دیکھا انہوں نے اپنے کوچہ میں
تن لاغر کو میرے وہ کسی کا نقش پا سمجھے
بیاباں میں جو آیا کوئی جھونکا باد صرصر کا
تری ہم سرد مہری سے نسیم جاں فزا سمجھے
وہی ہیں ہم بنایا جو ہمیں حق نے نہیں پروا
کوئی ہم کو برا سمجھے کوئی ہم کو بھلا سمجھے
بھلے کو گر برا سمجھے نہ ہرگز وہ برا ہوگا
بھلا اس میں برا کیا ہے برے کو گر برا سمجھے
ہے انساں کے لیے لازم جہاں میں دیکھ کر چلنا
وہ ہے حیواں نہ دل میں جو زمانے کی ہوا سمجھے
اگر اس نے کبھی توڑا ہمارے گوہر دل کو
ہم اس کے حق میں اس کے ٹوٹنے کو مومیا سمجھے
پگھل کر شمع خود پروانہ کو پہلے جلاتی ہے
کسی کے موم ہونے کو نہ کوئی مومیا سمجھے
گریباں ہم نے دکھلایا انہوں نے زلف دکھلائی
ہمارا سمجھے وہ مطلب ہم ان کا مدعا سمجھے
خدا کو سمجھے تم پتھر جو پتھر کو خدا سمجھے
اگر سمجھے اسے پتھر تو پھر تم اس کو کیا سمجھے
طریق خاکساری سلم بام بزرگی ہے
اسی کو مشرقیؔ انساں جہاں میں کیمیا سمجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |