Jump to content

بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے

From Wikisource
بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے
by سردار گینڈا سنگھ مشرقی
304215بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھےسردار گینڈا سنگھ مشرقی

بجز سایہ تن لاغر کو میرے کوئی کیا سمجھے
مری صورت کو محفل میں وہ نقش بوریا سمجھے

ہم اس کو اپنے حق میں آفت جاں اور بلا سمجھے
بتان بے وفا ہیں جن کو اک اپنی ادا سمجھے

کوئی کیا خاک راز مشکل ذات خدا سمجھے
اگر نور خدا کو ذات انساں سے جدا سمجھے

وہاں جا کر کرے گر قتل تو بیمار ہجراں کو
ترے کوچہ کو اپنے حق میں وہ دار الشفا سمجھے

سیہ بختی پہ سایہ گر ہو تیری زلف شب گوں کا
اسے وہ اپنے سر پہ سایۂ بال ہما سمجھے

وہی کرتا ہے انساں کام جو قسمت کراتی ہے
کوئی چاہے اسے سمجھے روا یا ناروا سمجھے

لٹکتے دیکھا سینہ پر جو تیرے تار گیسو کو
اسے دیوانے وحشت میں ترا بند قبا سمجھے

نہ ہرگز خوں رلائے بلبلوں کو باغ میں اے گل
جو اپنے حسن کو تو طائر رنگ حنا سمجھے

ترے آئینۂ رخ کو سکندر دیکھنے آیا
تری محفل میں ہم اس کو گدائے بے نوا سمجھے

کوئی کیا جانتا ہے کس قدر بوسے لیے ہم نے
سمجھتے ہیں ہم اس کو یا ہمارا دل ربا سمجھے

بتوں سے ہم نے جوڑا رشتۂ دل کو وہ کافر ہے
اگر اس رشتہ کو کوئی ہمارے ناروا سمجھے

تو جا کر چھیڑ گل کو یا کسی کی زلف پیچاں کو
چل اے باد صبا تو کیا مری ناز و ادا سمجھے

کبھی بیٹھا بھی گر دیکھا انہوں نے اپنے کوچہ میں
تن لاغر کو میرے وہ کسی کا نقش پا سمجھے

بیاباں میں جو آیا کوئی جھونکا باد‌ صر‌صر کا
تری ہم سرد مہری سے نسیم جاں فزا سمجھے

وہی ہیں ہم بنایا جو ہمیں حق نے نہیں پروا
کوئی ہم کو برا سمجھے کوئی ہم کو بھلا سمجھے

بھلے کو گر برا سمجھے نہ ہرگز وہ برا ہوگا
بھلا اس میں برا کیا ہے برے کو گر برا سمجھے

ہے انساں کے لیے لازم جہاں میں دیکھ کر چلنا
وہ ہے حیواں نہ دل میں جو زمانے کی ہوا سمجھے

اگر اس نے کبھی توڑا ہمارے گوہر دل کو
ہم اس کے حق میں اس کے ٹوٹنے کو مومیا سمجھے

پگھل کر شمع خود پروانہ کو پہلے جلاتی ہے
کسی کے موم ہونے کو نہ کوئی مومیا سمجھے

گریباں ہم نے دکھلایا انہوں نے زلف دکھلائی
ہمارا سمجھے وہ مطلب ہم ان کا مدعا سمجھے

خدا کو سمجھے تم پتھر جو پتھر کو خدا سمجھے
اگر سمجھے اسے پتھر تو پھر تم اس کو کیا سمجھے

طریق خاکساری سلم بام بزرگی ہے
اسی کو مشرقیؔ انساں جہاں میں کیمیا سمجھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.