بتو یہ شیشۂ دل توڑ دو خدا کے لیے
Appearance
بتو یہ شیشۂ دل توڑ دو خدا کے لیے
جو سنگ دل ہو تو کیا چاہیئے جفا کے لیے
سوال یار سے کیسا کمال الفت کا
کہ ابتدا بھی تو ہے شرط انتہا کے لیے
خدا سے تجھ کو صنم مانگتے تو مل جاتا
مگر ادب نے اجازت نہ دی دعا کے لیے
عذاب آتش فرقت سے کانپتا تھا دل
ہزار شکر جہنم ملا سزا کے لیے
نہ دل لگا کے ہوا مجھ سے عشق میں پرہیز
بگڑ گیا جو کسی نے کہا دوا کے لیے
ملا انہیں بھی تلون مجھے بھی یک رنگی
خصوصیت نہ رہی صرصر و صبا کے لیے
خدا نے کام دئے ہیں جدا جدا سب کو
صنم جفا کے لیے ہیں تو ہم وفا کے لیے
جہاں نورد رہے ہم تلاش مطلب میں
چلے نہ ایک قدم غیر مدعا کے لیے
مشاعرہ میں پڑھو شوق سے غزل بیمارؔ
کہ مستعد ہیں سخن سنج مرحبا کے لیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |