Jump to content

بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں

From Wikisource
بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں (1914)
by پروین ام مشتاق
308308بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں1914پروین ام مشتاق

بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں
یہ بھی ہے کوئی بات کبھی ہاں کبھی نہیں

جس نے کچھ احتیاط جوانی میں کی نہیں
عقل سلیم کہتی ہے وہ آدمی نہیں

دل مانگو تو جواب ہے ان کا ابھی نہیں
گویا ابھی نہیں کا ہے مطلب کبھی نہیں

واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح
پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی نہیں

عاشق پر ان کا ایک ذرا سا ہے التفات
اور وہ بھی اس طرح کہ کبھی ہے کبھی نہیں

جیسا کہ آپ چاہتے ہیں شخص پاک و صاف
ایسا تو شہر بھر میں کوئی متقی نہیں

تنہا جیے تو خاک جیے لطف کیا لیا
اے خضر یہ تو زندگی میں زندگی نہیں

ہم سب ہیں راہگیر تصادم کا کیا سبب
دنیا ہے شاہراہ کچھ ایسی گلی نہیں

دل میں نشاط آئے تو چہرہ ہو تابناک
جب تک جناب چاند نہیں چاندنی نہیں

پرویںؔ جلاؤ شمع عمل گور کے لئے
سورج کا نور چاند کے وہاں چاندنی نہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%B2%DB%8C_%D9%BE%DB%81_%D8%AF%D9%84_%D9%84%DA%AF%D8%A7_%DB%81%DB%92_%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C_%D8%AF%D9%84_%D9%84%DA%AF%DB%8C_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA