بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
Appearance
بادام دو جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر
ایماں یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر
دل سینے میں کہاں ہے نہ تو دیکھ بھال کر
اے آہ کہہ دے تیر کا نامہ نکال کر
اترے گا ایک جام بھی پورا نہ چاک سے
خاک دل شکستہ نہ صرف کلال کر
لے کر بتوں نے جان جب ایماں پہ ڈالا ہاتھ
دل کیا کنارے ہو گیا سب کو سنبھال کر
تصویر ان کی حضرت دل کھینچ لیجے گر
رکھ دیں گے ہم بھی پاؤں پہ آنکھیں نکال کر
قاتل ہے کس مزے سے نمک پاش زخم دل
بسمل ذرا تڑپ کے نمک تو حلال کر
دل کو رفیق عشق میں اپنا سمجھ نہ ذوقؔ
ٹل جائے گا یہ اپنی بلا تجھ پہ ٹال کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |