بائیسویں رجب کے کونڈے
صحبت گل ہے فقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی
آج کل سارے چمن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی
۱۷؍ فروری ۱۹۲۵ء منگل کے دن صبح کی نماز پڑھ کر میں اپنے جھونپڑے سے نکلا اور میر تفضل حسین کی کھڑکی سے گزر کر ملک معظم ایڈورڈ ہفتم کے گلشن یادگار میں پہنچا تھا۔ بنارس کی صبح تو واقعی دلکش ہوتی ہے۔ مگر اہل نظر جانتے ہیں کہ ہماری دلی کی صبح اس سے کچھ کم نورانی، دل فریب، دلکش نہیں ہوتی۔ جب شاہدرہ کی طرف سے پو پھٹتی ہے اور تڑکا ہونے لگتا ہے تو اس کا نور جمنا جی، لال قلعہ اور جامع مسجد کے اوپر ایسی آبداری پیدا کرتا ہے جس کا لطف آنکھوں سے دل اور دل سے روح میں شامل ہو جاتا ہے اور سیر کرنے والا تھوڑی دیر اس تصور میں ڈوب جاتا ہے کہ میں اس وقت جنت کی بہار دیکھ رہا ہوں۔
جب میں پھاٹک سے گزر کر یادگار میں داخل ہوا تو سامنے ایک چوڑی چکلی روش تھی۔ روش پر دورو یہ انگریزی ناریل کے درخت اپنے سر اٹھائے عالم تحیر میں کھڑے تھے۔ اور ان درختوں کے نیچے مربع، مثلث اٹھوانس کیاریاں بنی ہوئی تھیں، او رکیاریوں میں پھلواری لگی ہوئی تھی۔ داہنے، بائیں ہرے ہرے گھانس کے تختے تھے، مگر موسم کی سردی نے بہار و گلزار کو ٹھٹرا دیا تھا۔ پھول، پتے، کلیاں، غنچہ اول تو بہت ہی کم اور خال خال تھیں، اور جو کچھ تھیں، سردی کی شدت سے ان کے منہ پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، بے رونقی چھا رہی تھی۔ مگر پھر بھی چمن تھا۔ بربینیا، فلوک، نکسٹائن کے پھول اپنی زردی، سرخی اور رنگا رنگی اور اپنی شادابی میں بے نظیر تھے۔
ان پھولوں کے بیچوں بیچ میں ایک زمین دوز نل کی ٹونٹی لگی ہوئی تھی، جس میں سے موتی جیسا سفید پانی ابل ابل کر چمنستان کو ترائی پہنچا رہا تھا۔ اسے دیکھ کر میرے دل نے کہا، یہ زمین دوز ٹونٹی سے پانی نہیں ابلتا ہے، بلکہ آج صبح صادق نے فرش زمین سے طلوع کیا ہے۔ میں نے چاہا کہ ان خوش رنگ پھولوں میں سے دو چار توڑ کر ایک گلدستہ لے جاؤں اور اپنے گھر لے جاکر اور گلدان میں رکھ کر ان کے دیدار کا مزہ اٹھاؤں۔ مگر سامنے ایک بورڈ پر انگریزی اور اردو میں نوٹس لکھا ہوا تھا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جو شخص اس باغ کے کسی گل یا ٹہنی پتہ کو توڑےگا یا نوچے کھسوٹے گا تو مستوجب سزا ہوگا۔ نوٹس پڑھ کر مجھے ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ سبحان اللہ۔
بہر زمین کہ رسیدیم آسماں پیدا ست۔
ہم عاشقوں کی جان کھکیٹریں جھیلنے کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔ صبح صبح چمن کی سیر کے لئے آئیے اور خدانخواستہ بھولے سے بھی کسی پنکھڑی یا پھول کو ہاتھ لگائیے تو پکڑے جائیے۔ مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہوجئے، سزا پائیے اور رات کو تخلیہ میں بیٹھ کر کسی گلعذار سے دل بہلانا چاہئے تو گھر کیاں کھائیے۔ جھڑکیاں سنئے۔ دیکھئے میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ ذرا پرے بیٹھئے۔ آج میرا جی اچھا نہیں ہے۔ مجھے چکر آرہے ہیں۔ میں نے کل جڑاؤ سونے کی بالیاں کانوں میں ڈال لی تھیں، کان کم بخت سوج سوج کر گردہ ہو گئے ہیں۔ اوئی نوج پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان۔ خدا کو مان کے کہیں ٹھیس نہ لگ جائے۔ تمہارے بار بار دیکھنے سے میری نرگسی آنکھیں دکھنے آ گئی ہیں۔ غرض ہمارے لئے بہارستانِ حسن کے سیبِ زنخدان، انار، غنچہ لب، گل رخسار، سنبل زلف اور اس کے سارے پھل پھولوں کو کو چھیڑنا ممنوع ہے۔
چار نا چار دلِ مجروح کو بہلاتا ہوا یادگار کے دوسرے پھاٹک سے نکلا۔ اجڑے ہوئے اوربے نشان خاص بازار کی سڑک لانگ کر پریڈ کے میدان کی طرف بڑھتا کہ قطب شاہجہاں آباد حضرت شیخ کلیم اللہ جہان آبادی قدس سرہٗ العزیز کے آستانۂ کرامت نشان پر پہنچ کر جبیں سائی کروں، جو ٹھنڈی سڑک پر سے کسی شخص نے کہا، آج رجب کی بائیسویں ہے۔ اس صدا کو سن کر میری نظروں میں مسلمانوں کی دولت مندی کا عہد پھر گیا۔ کون سا عہد، جس میں اکبر ثانی اور ابو ظفر بہادر شاہ کے نام کے بادشاہ تھے۔ یہ سچا سچا اور صحیح صحیح ہمارے بزرگوں کا دیکھا ہوا نقشہ ہے کہ لال قلعہ میں حضرت بادشاہ اوربیگمات بادشاہ زادوں، مرشد زادوں، سلاطین کے دولت خانوں میں فاتحہ اور نیاز اور ایصال ثواب کے لئے عید۔ بقرعید، شب برات، رجب، محرم کے موقعہ پر اتنے لذیذ کھانے اور نعمتیں پکائی جاتی تھیں کہ اگرا ن کی فہرست لکھی جائے تو ان کے ناموں سے ایک بڑی کتاب تیار ہوجائے۔
پھر وہ نعمتیں اور کھانے سیکڑوں من کی تعداد میں پکتے تھے اور طالب علم، ملا، درویش، حاجت مند تلاش کئے جاتے تھے کہ یہ کھانے انہیں کھلائے جائیں، مگر اس قسم کے لوگ ان تاریخوں میں گھس لگانے کو بھی نہیں ملتے تھے، کیونکہ انہیں ایک ہی سرکار، ایک ہی محل سے اتنی نعمت ملتی تھی کہ دوسری جگہ اگر سونے کا نوالہ انہیں کھلایا جاتا، تو وہ کھانے سے مجبور ہوتے تھے۔ اللہ ہو بس باقی ہوس۔ اس دور میں طالب علم جو دلی کی مسجدوں میں پڑے رہتے تھے، وہ اپنے حجرہ میں برتن کے نام کا مٹی کا پیالہ بھی نہ رکھتے تھے۔ کیونکہ بادشاہ، وزیر، امیر کبیر جس کسی دولت مند کے گھر سے ان لوگوں کے لئے کھانا آتا تھا، سچی چینی اور تانبے کے قلعی دار رکابیاں، پیالے، اور قسم قسم کے ظروف خوانوں میں رکھے ہوئے آتے تھے۔
طالب علموں کے سامنے دسترخوان بچھایا جاتا تھا۔ انہیں کھانا کھلایا جاتا تھا۔ کھانا کھا کر طالب علم دسترخوان پر سے اٹھ کھڑے ہوتے تھے، جو لوگ لائے تھے، وہ جھوٹے برتن اٹھاکر لے جاتے تھے۔ خصوصاً اس بائیسویں رجب کو قلعہ معلیٰ میں بڑی دھوم ہوتی تھی۔ کیونکہ ایک تو اس تاریخ پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی نیاز ہوتی تھی۔ دوسری ۲۷؍ رجب کو رسول خدا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فاتحہ کی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ حضور کی معراج کی تاریخ اور مسلمانوں کی خوشی منانے کا دن ہے۔ بائیسویں کو کھیر پکا کر مٹی کے کونڈوں میں جمائی جاتی تھی۔ پھر وہ کھیر صرف دودھ چاولوں کی نہ ہوتی تھی بلکہ پستہ بادام کی کھیر، قلاقند کی کھیر اور رنگا رنگ فیرنیاں اور کھیریں ہوتی تھیں۔ خوشبو میں بسی ہوئیں۔ سونے روپے کے ورقوں اور ورقیوں سے آراستہ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے والے پیٹ بھر کے کھالیتے تھے، تو چلتے وقت ایک ایک کونڈا کھیر کا اچھوتا اور ہر کونڈے کے ساتھ نقدی کی ایک پوڑیہ بھی دی جاتی تھی۔
قلعہ معلیٰ کے باہر اردو بازار میں بعض لوگ شوقین ان قلعہ سے واپس ہونے والوں کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے اور ان سے پانچ پانچ آنہ کو ایک ایک کونڈہ کھیر کا مول لے جاتے تھے، اور اپنے بال بچوں کو کھلاتے تھے۔ ہر کونڈہ میں کم سے کم بارہ سیر کھیر ہوتی تھی۔ ایک بزرگ معتمد اور ثقہ بیان فرماتے ہیں کہ فلاں مسجد میں ایک رات کو طالب علموں کے لئے ایک دیگ مطنجن کی آئی۔ چوبدار جو دیگ کے ساتھ آیا تھا، اس نے طالب علموں سے کہا، مطنجن لے لیجئے اور دیگ خالی کر دیجئے۔ طالب علم سٹ پٹائے کہ ہمارے پاس مٹی کی ایک رکابی تو ہے نہیں، یہ ایک دیگ کا مطنجن کس چیز میں بھریں۔ آخر انہوں نے یہ ترکیب کی کہ مسجد کے کنویں کے پاس چھوٹا سا حوض بنا ہوا تھا۔ اسے اور کنویں کی من کو دھوکر پاک کیا اور کنوئیں کی من پر چاروں طرف مطنجن بھر لیا۔ دیگ خالی کر کے حوالہ کردی۔
کنوئیں کی من سے حوض میں پانی جانے کے لئے ننھی سی موری بنی ہوئی تھی۔ اس میں سے کھانے کا گھی گزر کر حوض میں بھر گیا اور طالب علموں کے اشارہ سے محلہ والے علاوہ مطنجن کے پتیلیاں اور دیگچے بھر بھر کے اپنے گھر لے گئے۔ یہ تو دوسری بات ہے کہ اس قسم کی نیازیں بدعت حسنہ ہیں یا بدعت سیئہ۔ مگر اس میں شک نہیں ہے کہ ان حیلہ بہانوں سے غریب غربا جیتے تھے اور ان صورتوں سے خیر خیرات بہت کچھ ہو جاتی تھی۔ مگر ذکر جوانی در پیری و ذکر امیری در فقیری دروغ می نماید۔ جب مسلمانوں کے اقبال کا ورق الٹ گیا اور لال قلعہ اجڑ گیا تو یہ سچی باتیں قصے کہانیوں میں گنی جانے لگیں۔ اور سچ پوچھئے تو ایک لال قلعہ ہی انہیں اجڑا، بلکہ مسلمانوں کی بداقبالی نے لال قلعہ جیسے بہت سے قلعہ اور قصر اور حصار اور ارک ویران کردیے ہیں۔
فیروز شاہ کا کوٹلہ، پرانا قلعہ، غیاث پور، اندر پرست، پرتھی راج کے محلات، تغلق آباد، یہ سب دلی کے شاہنشاہوں اور چکرورتی راج بابوؤں کے زر نگار قلعہ ہی تھے اور ان میں اس قدر جاہ و حشم اور طبل و علم تھے جو سکندر اور افریدوں کی آنکھوں نے خواب میں بھی نہ دیکھے تھے۔ مگر اس جہان کی بنا ایسے چار رکنوں سے ہے جو بالکل بودے ہیں۔ اور اس کی ہستی میں خاک کا پلہ غالب اور خاک کا جو بھوجو جو پانی میں گھل کر ناپید ہو جائے۔ جسے ہوا اڑا لے جائے۔ پھر جن چیزوں کے مٹنے پر میں افسوس کر رہا ہوں، یہ باقی کیونکر رہ سکتے تھے۔ مگر اس سے زیادہ حسرت اور افسوس کا یہ مقام ہے کہ ہمارے اس تن بدن کے اندر بھی ایک لال قلعہ ہے۔ جس کے اندر کبھی شاہجہاں تخت طاؤس پر بیٹھ کر دربار کیا کرتا تھا اور اس شاہجہاں کی حکومت اس ہستی کے چار دانگ ہند میں پھیلی ہوئی تھی۔
مگر شاہجہاں کی غفلت نے اسے تخت سے اتار دیا۔ وہ لال قلعہ اجڑ گیا۔ اس میں نہ باغ حیات بخش رہا، نہ مہتاب باغ۔ نہ دیوان خاص نہ دیوان عام۔ مورکھ کیا اب تک نہ سمجھا کہ تیرے تن بدن میں لال قلعہ کون سا تھا اور ا س میں شاہجہاں کون سا حکومت کرتا تھا۔ سمجھ لے کہ میری مراد تیرا دل ہے اور یاد الٰہی اس میں شاہجہاں ہے۔ غفلت کی باغی فوج نے شاہجہاں کو معطل کر دیا ہے۔ اگر تو ہمت سے کام لے تو تیرے دل کا اجڑا ہوا لال قلعہ پھر آباد ہو جائے۔ اور اگلی سب بہاریں پیدا ہوجائیں۔ میاں نظیر اکبرآبادی نے گویا اسی موقع کے لئے یہ شعر کہا تھا،
اللہ کو ہر دم یاد کر اس نام سے دل شاد کر
اجڑا وطن آباد کر جو عاقبت درکار ہے
اجڑا وطن تیرا دل ہے۔ اس کی آبادی اور چہل پہل خدا کی یاد سے تھی۔ تونے خدا کا نام لینا چھوڑا، وہ اجڑ گیا۔ اگر عاقبت کی درستی مطلوب ہے تو یاد الٰہی کر۔ جس طرح کہ قرآن پاک میں آیا ہے۔ یا ایھا الذین آمنوا ذکرو اللہ ذکراً کثیراً۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |