اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں
by واجد علی شاہ
304190اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیںواجد علی شاہ

اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں
دم جو گھٹتا ہے محبت میں خفا ہوتے ہیں

ہم فقیرانہ غزل کہتے ہیں اے شاہ جہاں
خیر ہو خیر ہو مصروف دعا ہوتے ہیں

بحر عالم میں یہ انسان ہیں مانند حباب
دم میں بنتے ہیں یہ دم بھر میں فنا ہوتے ہیں

ہم غریبوں کو نہ اس بزم سے اٹھوا اے بت
صحبت عام میں خاصان خدا ہوتے ہیں

ہم میں اور ان میں بڑھا رابطہ اخترؔ اتنا
ہم پہ وہ صدقے ہیں ہم ان پہ فدا ہوتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse