Jump to content

اے صنم سب ہیں ترے ہاتھوں سے نالاں آج کل

From Wikisource
اے صنم سب ہیں ترے ہاتھوں سے نالاں آج کل
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303397اے صنم سب ہیں ترے ہاتھوں سے نالاں آج کلوزیر علی صبا لکھنؤی

اے صنم سب ہیں ترے ہاتھوں سے نالاں آج کل
صورت ناقوس ہیں گبر و مسلماں آج کل

باغ میں کہتے ہیں وہ لالے کا تختہ دیکھ کر
گل کھلاتی ہے عجب خاک شہیداں آج کل

حرف مطلب اپنے دیوانے کا بھی سن جا ذرا
ہو تجھے چھٹی جو اے طفل‌ دبستاں آج کل

موسم جوش جنوں ہے جامۂ گل کی طرح
خودبخود ہوتے ہیں ٹکڑے جیب و داماں آج کل

پیشتر خط سے مزا تھا حسن کا اے نونہال
ہو گیا داغی ترا سیب زنخداں آج کل

یاد کرتے ہیں کسی کے مصحف رخسار کو
طاق نسیاں پر رکھا ہے ہم نے قرآں آج کل

زلفیں چھوڑی ہیں جو اس صیاد گل رخسار نے
دام میں پھنستے ہیں مرغان‌ گلستاں آج کل

ہائے وہ خوش قد پئے گلگشت اب آتا نہیں
نخل ماتم ہے ہر اک سرو گلستاں آج کل

ضعف کے ہاتھوں ہوئے فصل جنوں میں تنگ ہم
ہو گیا پھانسی ہمیں اپنا گریباں آج کل

ان دنوں میں زور ہوتا ہے ہمیں جوش جنوں
بھاگتا ہے چھوڑ کر مجنوں بیاباں آج کل

جو حسیں ہے گرد ہے اس بادشاہ حسن کی
رہتا ہے پریوں کی جھومر میں سلیماں آج کل

اینڈتے ہیں کج ادائی کرتے ہیں عشاق سے
بل کی لیتے ہیں بہت گیسوئے جاناں آج کل

گلشن عالم مری نظروں میں باغ سبز ہے
دیکھتا ہوں سبزۂ‌ گور غریباں آج کل

سامنا ہر روز کا ہے اس بت سفاک سے
اے صباؔ اللہ ہے اپنا نگہباں آج کل


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.