اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا
اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا
اپنی آغوش میں اڑ کر وہ پری زاد آیا
محو ابرو کے لئے خنجر فولاد آیا
ذبح کرنا بھی نہ تجھ کو مرے جلاد آیا
سرکشی پر جو وہ سرو ستم ایجاد آیا
پاس آرے کے گھسٹتا ہوا شمشاد آیا
چشم موسیٰ ہمہ تن بن گیا میں حیرت سے
دیکھا اک بت کا وہ عالم کہ خدا یاد آیا
دم آغاز جنوں طوق گلو گیر ہوا
غل مچانے بھی نہ پائے تھی کہ حداد آیا
کٹ گئے مارے خجالت کے جوانان چمن
باڑھ پر قد جو ترا او ستم ایجاد آیا
عاشقوں سے نہ رہا کوئی زمانہ خالی
کبھی وامق کبھی مجنوں کبھی فرہاد آیا
دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا
روئے غربت میں ہجوم گل صحرائی پر
چمن مجمع یاران وطن یاد آیا
مژۂ یار کے نشتر کے ہوئے سودائی
خون فاسد کی طرح جوش میں فصاد آیا
بن گیا خال جبین کوکب بخت یوسف
کس ترقی پہ ترا حسن خداداد آیا
عارض صاف کا کھینچا نہ گیا جب نقشہ
آئنہ لے کے ترے سامنے بہزاد آیا
بیت ہستی کے صباؔ ہو گئے معنی روشن
خواجہ آتشؔ سا زمانے میں جو استاد آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |