Jump to content

اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے

From Wikisource
اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
by میر تقی میر
314967اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچےمیر تقی میر

اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
اے جان مرتضےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
اے حکم کش قضا کے تجھ کو سلام پہنچے
اے غمزدہ سدا کے تجھ کو سلام پہنچے

بابا شہ ولایت نانا کی خلق امت
دریا کنارے اترے سارے وہ بے مروت
تو تشنہ کام تنہا یہ رنج یہ مصیبت
اے مبتلا بلا کے تجھ کو سلام پہنچے

بیٹے بھتیجے بھائی یار و رفیق سارے
ساقی کوثر آگے کیا تشنہ لب سدھارے
پانی جو تونے مانگا سو تیر تجھ کو مارے
اے خستہ دل جفا کے تجھ کو سلام پہنچے

اللہ ری تیری عزت مرنا جو تونے ٹھانا
زنہار منھ نہ پھیرا گو پھر گیا زمانہ
آتا ہے کس سے ایسا بیکس ہو مارے جانا
اے دل زدہ رضا کے تجھ کو سلام پہنچے

برسا کی تیغ لیکن تونے سپر نہ رکھی
دریا بہا کیا پر تونے نظر نہ رکھی
کیا کہیے جب توجہ ٹک جان پر نہ رکھی
کشتہ ہیں اس وفا کے تجھ کو سلام پہنچے

تسلیم کا رضا کا دیکھا ترا عجب ڈھب
وقت بریدن سر سجدے میں تھا مودب
یہ بندگی الٰہی یہ انکسار یارب
اے شوق کش خدا کے تجھ کو سلام پہنچے

مجلس میں گر پڑا تھا گرم آش کا پیالہ
چھینٹیں پڑیں جو تجھ پر سہما وہ لانے والا
غصے کو کھا گیا تو منھ سے نہ کچھ نکالا
اے صاحب اس حیا کے تجھ کو سلام پہنچے

تعریف سے ہے باہر سید ترا یہ ساکا
شائستہ معرکے میں تو ہی تھا اپنی جا کا
اب نقش ہے دلوں پر تیرے ثبات پا کا
اے باب صد ثنا کے تجھ کو سلام پہنچے

درویش بے بضاعت ہے میرؔ دست کوتہ
غیر از سلام تحفہ رکھتا نہیں ہے کچھ وہ
ہر لحظہ اور ہر دم ہر گاہ اور بے گہ
اے شاہ دوسرا کے تجھ کو سلام پہنچے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.