Jump to content

اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے

From Wikisource
اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
by جوشش عظیم آبادی
303107اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہےجوشش عظیم آبادی

اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
گیسو کو کاٹیو مت وہ آپ کٹ رہی ہے

ہو کس طرح میسر اس بحر حسن کی سیر
ابرو کی ایک کشتی سو بھی الٹ رہی ہے

دل دینے کی حقیقت ہم خوب جانتے ہیں
ہے غم کسی کا اس کو جو زلف لٹ رہی ہے

محروم ہم ہی ہیں اس مہماں سرا میں ورنہ
کس کس طرح کی نعمت خلقت کو بٹ رہی ہے

خالی نہیں خلل سے ؔجوشش یہ خیبر دل
دن رات موج غم کی اس سے چمٹ رہی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.