اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
Appearance
اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
گیسو کو کاٹیو مت وہ آپ کٹ رہی ہے
ہو کس طرح میسر اس بحر حسن کی سیر
ابرو کی ایک کشتی سو بھی الٹ رہی ہے
دل دینے کی حقیقت ہم خوب جانتے ہیں
ہے غم کسی کا اس کو جو زلف لٹ رہی ہے
محروم ہم ہی ہیں اس مہماں سرا میں ورنہ
کس کس طرح کی نعمت خلقت کو بٹ رہی ہے
خالی نہیں خلل سے ؔجوشش یہ خیبر دل
دن رات موج غم کی اس سے چمٹ رہی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |