ایک وصیت کی تعمیل
خدا بخشے، مولوی وحید الدین سلیم بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھئے کہ برسوں نا تراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا، پھل نکلے، چمک بڑھی، اہل نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔شہرت بھی غالب کے قصیدے کی طرح آج کل کسی کو راس نہیں آتی۔ ادھر نام بڑھا اور ادھر مرا۔ صف سے آگے نکلا اور تیر قضا کا نشانہ ہوا۔ چل چلاؤ کا زور ہے۔ آج یہ گیا، کل وہ گیا۔ مولوی نذیر احمد گئے، شبلی گئے، حالی گئے، وحید الدین گئے۔ اب بڑوں میں مولوی عبد الحق رہ گئے ہیں، ان کو بھی شہرت کی ریہ لگ گئی ہے۔ سوکھے چلے جا رہے ہیں، کسی دن بھی خشک ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ تو جو کچھ تھا سو تھا، ایک نئی بات یہ ہے کہ آج کل کا مرنا بھی کچھ عجیب مرنا ہوگیا ہے۔ پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہ دیتے تھے، بتی جلتی، تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا، ٹمٹماتا، لو بیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ اب چراغ کی جگہ زندگی، بجلی کا لیمپ ہو گئی ہے۔ ادھر بٹن دبا، ادھر اندھیرا گھپ۔ عظمت اللہ خاں اسی طرح مرے، مولوی وحید الدین اسی طرح رخصت ہوئے۔ اب دیکھیں کس کی باری ہے۔ اردو کی مجلس میں دو چار لیمپ جل رہے ہیں، وہ بھی کسی وقت کھٹ سے گل ہو جائیں گے، اس کے بعد بس اللہ ہی اللہ ہے۔میں مدت سے حیدرآباد میں ہوں۔ مولوی وحید الدین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انہیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔ گذشتہ سال کالج کے جلسے میں مولوی عبد الحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ طالب علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بے ضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل ابھی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پر کھڑے غپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑ اباتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفیدپائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے مجھے گلے لگا لیا۔ حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجر اہے۔ کیا امیر حبیب اللہ خاں اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں اس وقت انہوں نے فرمایا، ’’میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آ کر ملوں، مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔‘‘میں پریشان تھا کہ یا اللہ یہ کون اور کیا کہہ رہےہیں۔ مگر میری زبان کب رکتی ہے میں نے کہا، ’’مولوی صاحب! گھبراتے کیوں ہیں، بسم للہ کیجئے، مر جائیے، مضمون لکھ دوں گا۔‘‘کیا خبر تھی کہ سال بھر کے اندر ہی اندر مولوی صاحب مر جائیں گے اور مجھے ان کی وصیت کو پورا کرنا پڑے گا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مولوی وحید الدین سلیم ہیں تو واقعی مجھے بہت پشیمانی ہوئی، میں نے معذرت کی۔ وہ خود شگفتہ طبیعت لے کر آئے تھے رنج تو کجا، بڑی دیر تک ہنستے اور اس جملے کے مزے لیتے رہے۔ سر ہو گئے کہ جس گاڑی میں تو ہے، میں بھی اسی میں بیٹھوں گا۔ شاگردوں کی طرف دیکھا، انہوں نے ان کا سامان لا میرے درجے میں رکھ دیا۔ ادھر ریل چلی اور ادھر ان کی زبان چلی۔ رات کے بارہ بجے، ایک بجا، دو بج گئے، مولوی صاحب نہ خود سوتے ہیں اور نہ سونے دیتے ہیں۔ درج اول میں ہم تین آدمی تھے۔ مولوی صاحب اور رفیق بیگ، رفیق بیگ تو سو گئے ہم دونوں نے باتوں میں صبح کر دی۔ اپنی زندگی کے حالات بیان کئے، اپنے علمی کارناموں کا ذکر چھیڑا، اصطلاحات زبان اردو پر بحث ہوتی رہی، شعر و شاعری ہوئی، دوسروں کی خوب برائیاں ہوئیں، اپنی تعریفیں ہوئیں، مولوی عبد الحق کو برا بھلا کہا کہ اس بیماری میں مجھے زبردستی کھینچ بلایا۔غرض چند گھنٹے بڑے مزے سے گزر گئے۔ صبح ہوتے ہوتے کہیں جا کر آنکھ لگی۔ شاید ہی گھنٹا بھر سوئے ہوں گے کہ ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے گاڑی پر یورش کر دی۔ پھر اٹھ بیٹھے اور پھر وہی علمی مباحث شروع ہوئے، پھبتیاں اڑیں، اس کوبے وقوف بنایا، اس کی تعریف کی، ہنسی اور قہقہوں کا وہ زور تھا کہ درجے کی چھت ا ڑی جاتی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ کو نواب مسعود جنگ اپنے پاس لے گئے اور یہاں اورنگ آباد تک وہی غل غپاڑا رہا۔میں شاعر نہیں ہوں، ہاں بعض دوستوں کی فرمائش سے زبر دستی شعر کہتا ہوں۔ مجھے بڑا تعجب ہوا، جب مولوی صاحب نے کہا، ’’فرحت تو شاعر ہے کیوں اس جوہر کو خاک میں ملا رہا ہے، ہوسکے تو کچھ کہہ لیا کر۔‘‘ میرے ایک قطعہ تاریخ سے ایسے خوش ہوئے کہ اسی وقت اٹھ، قلم دوات نکال، وہ قطعہ لکھ لیا۔ آپ بھی سن لیجئے، کہتے ہیں نئی طرز کی تاریخ ہے، ہوگی۔ ہم کو تو نہ اس کے لکھنے میں دماغ سوزی کرنی پڑی اور نہ اس کی کوئی قدر ہے، ہاِ قطعے سے پہلے اس کی شان نزول سن لیجئے۔واقعہ یہ ہے کہ میرے ایک نہایت عزیز دوست کے دماغ میں یورپ جانے کے خیالات ہمیشہ چکر لگاتے تھے۔ پیسا پاس نہیں تھا مگر چاہتے تھے کہ ساری دنیا میں پھریں اور وہ بھی اس طرح نہیں جس طرح امریکہ والے پھرتے ہیں، بلکہ اس طرح جیسے پہلے زمانے کے سیاح پھرتے تھے۔ ادھر کوشش کی ادھر کوشش کی، آخر سرکار سے منظوری ہو ہی گئی۔ ڈھائی تین برس میں سارا یورپ چھا ن مارا، شمالی افریقہ کے سب ملک دیکھ لیے۔ عراق، عرب، شام، ترکی غرض سیکڑوں ملکوں کی سیر کی۔ آئے اور بڑی دھوم دھام سے آئے۔ وہ نام پیدا کیا کہ خدا سب کو نصیب کرے۔ دوستوں نے مجھ سے تاریخ کہنے کا تقاضا کیا۔ مار مار کر شاعر بنایا، تاریخ ہوئی ہے، پھر پھرا کر مرے اک دوست سفر سے آئےہار تاریخ کا ڈالا گیا میرے سر پردوستوں کا یہ تقاضا کہ لکھو جلد لکھومیں بھی شاعر ہوا، اللہ کی قدرت ہے مگرمیرے انکار سے احباب نہ رنجیدہ ہوںاس لیے لکھتا ہوں تاریخ بہت ڈر ڈر کرایک طائر کو قفس میں تھا خیال گلشنپر سمیٹے ہوئے بیٹھا تھا جھکائے ہوئے سررحم کچھ آ گیا صیاد کے دل میں شایدہٹ گیا سامنے سے ایک طرف کھول کے دردر کھلا پایا تو آہستہ سے طائر نکلاپھر چلا تیر سا گلشن کی طرف مار کے پرخوب دل بھر کے مزے زمزمہ سنجی کے لئےخوب دل کھول کے باغوں میں لگائے چکربچتا وہ گردش افلاک سے آخر کب تکہوتا کب تک نہ زمانے کے تغیر کا اثرآب و دانہ اسے پھر کھینچ کے لایا سوئے دامباندھے صیاد نے پھر طائر آزاد کے پرلکھی’’فرحت‘‘ نے ہے کس زور سے فصلی تاریخپھر وہی کنج قفس پھر 1 وہی صیاد (213) کا گھرمیں نے باتوں باتوں میں یہ بھی کوشش کی کہ مولوی صاحب کی طبیعت کا اندازہ لگاؤں۔ پہلے تو ذرا بند بند رہے، لیکن آخر میں بالکل کھل گئے۔ میں نے جو رائے ان کے متعلق قائم کی ہے وہ سن لیجئے۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ ان میں ظرافت کا مادہ بہت تھا۔ لیکن یہ ظرافت اکثر رکاکت کی صورت اختیار کر لیتی تھی۔ کسی کوبرا بھی کہتے تو ایسے الفاظ میں کہتے کہ سننے سے تکلیف ہوتی، اور جب کہنے پر آتے تو پھر یہ نہ دیکھتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کس کے سامنے کہہ رہا ہوں۔ نتیجہ اکثر یہ ہوتا کہ لوگ ادھر سے ادھر لگا دیتے اور مولوی صاحب کی کسی نہ کسی سے بگڑ جاتی۔ شاید ہی کوئی بھلا آدمی ہوگا جو سچے دل سے ان کو چاہتا ہو۔ ان کے علم، ان کی سمجھ، ان کی زود فہمی اور ان کی طبع رسا کی سب تعریف کرتے ہیں لیکن ان کی طبیعت کے سب شاکی ہیں اور وہ خود بھی اس سے بیزار تھے۔بات یہ ہے کہ انہوں نے زمانے کی وہ ٹھوکریں اٹھائی تھیں کہ خدا کی پناہ۔ خاصا بھلا چنگا آدمی دیوانہ ہو جائے۔ اگر مولوی صاحب کی طبیعت پر ان مصیبتوں نے اتنا اثر کیا تو کیا تعجب ہے۔ جب کسی نا اہل کوبڑی خدمت پر دیکھتے تو ان کے آگ لگ جاتی۔ ریل میں دو ایک بڑے شخصوں کا ذکر آیا، انہوں نے ہر دفعہ یہی کہا، ’’ارے میاں! گدھا ہے، ایک سطر صحیح نہیں لکھتا اور دیکھو تو کون ہیں کہ نواب صاحب، ہم کو دیکھو تمام عمر علم حاصل کرنے میں گزار دی۔ اس اخبار کی ایڈیٹری کی، اس رسالے کے منیجر ہوئے، سر سید کی خدمت کی، سرگاڑی پاؤں پہیہ کیا اب جو چند روپلی مل رہے ہیں، تو فلاں صاحب جلے جاتےہیں، خبر نہیں کچھ ہوتے تو گلا ہی گھونٹ دیتے۔‘‘میں نے کہا، ’’مولوی صاحب! یہ دنیا ہے آخرت نہیں ہے کہ جیسا بوؤگے ویسا پھل ملے گا۔ یہاں اہل کمال ہمیشہ آشفتہ حال رہے ہیں۔ آپ کیوں خواہ مخواہ اپنا دل جلاتے ہیں۔ جو اللہ نے دیا ہے، بہت ہے۔‘‘ آگے ناتھ نہ پیچھے پگا۔ مزے کیجئے۔ بہت گئی ہے، تھوڑی رہی ہے، ہنسی خوشی یہ بھی گزار دیجئے۔‘‘وہ بھلا میری باتوں کو کیا سننے والے تھے۔ ان کے تو دل میں زخم تھے۔ تمام عمر مصیبت اٹھائی تھی، نا اہلوں کو آرام و آسائش میں دیکھ کر وہ زخم ہرے ہو جاتے تھے۔ زبان اپنی تھی، کسی کا دینا نہیں آتا تھا۔ بے نقط سنا کر دل ٹھنڈا کر لیتے تھے۔زمانے کے ہاتھوں ان کی طبیعت میں ایک دوسرا انقلاب یہ بھی ہوگیا تھا کہ جتنی ان کی نگاہ وسیع ہوئی، اتنا ہی ان کا دل تنگ ہوا۔ جتنی ان کے قلم میں روانی پیدا ہوئی اتنی ہی ان کی مٹھی بند ہوئی۔ میں ان کی پیٹھ پیچھے نہیں کہتا جب ان کے منہ پر کہہ چکا ہوں کہ مولوی صاحب، آپ کی کفایت شعاری نے بڑھتے بڑھتے کنجوسی کی شکل اختیار کر لی ہے تو اب لکھتے کیوں ڈروں۔ واقعی بڑے ہی کنجوس تھے۔ ہزار روپے کے گریڈ میں تھے۔ دارالترجمہ سے بہت کچھ مل جاتا تھا مگر خرچ کی پوچھو تو صفر سے کچھ ہی زیادہ ہوگا۔ اس کی صراحت میں آگے چل کر کروں گا۔ ہاں، ان کا یہ عذر سب کو ماننا پڑے گا کہ مفلسی کے پے در پے حملوں نے ان کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ اس خدمت پر کب تک ہیں اور کب نکال دیے جائیں گے۔ خشک سالی کے اندیشے سے ارزانی کے زمانے میں کھتے بھرنے کی فکر میں رہے۔ خود چل بسے اور جمع پونجی دوسروں کے لیے چھوڑ گئے۔ اور چھوڑ بھی اتنی گئے کہ بعض لوگوں کو افسوس ہوا کہ ہم ان کے بیٹے کیوں نہ ہوئے۔بہر حال یونہی ہنستے، بولتے دو بجے اورنگ آباد پہنچ گئے۔ بڑے زور کا استقبال ہوا۔ موٹروں میں لد کر اورنگ آباد کالج پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک خیمے ہی خیمے لگے ہیں۔ خیموں کے سامنے جلسے کا منڈوا ہے۔ منڈوے کے سامنے جو خیمہ تھا اس میں مجھے اور مولوی صاحب کو جگہ ملی۔ مولوی صاحب کی طبیعت پہلے سے بد مزہ تھی۔ راستے کی تکان اور رات بھر کے جاگنے سے اور خراب ہو گئی، بخار چڑھ آیا۔ دو وقت کھانا نہیں کھایا، تیسرے وقت بڑے کہنے سننے سے تھوڑا سا دودھ پیا۔دوسرے روز کا ان کا لکچر تھا۔ طبیعت صاف نہیں تھی۔ پھر بھی بڑے میاں کو جوش آ گیا۔ ٹرنک میں سے جوڑا نکالا، ریشمی شیروانی نکالی، نئی ترکی ٹوپی نکالی، اپنا میلا کچیلا جوڑا پھینک نیا پہن اس ٹھاٹھ سے جلسے میں آئے کہ واہ واہ واہ۔ کھڑے ہو کر لکچر دینے کا دم نہ تھا، اسٹیج پر کرسی بچھا دی گئی۔ انہوں نے جیب میں سے چھوٹے چھوٹے نیلے کاغذ کے پرچوں کی ایک گڈی نکالی اور لکچر پڑھنا شروع کیا۔میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا تھا کہ اسپیچ کے پڑھنے میں الفاظ کا زور کم ہو جاتا ہے مگر مولوی صاحب کے طرز ادا نے میرا خیال بالکل بدل دیا۔ ان کے پڑھنے میں بھی وہی بلکہ اس سے زیادہ زور تھا جتنا بولنے میں ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ شیر گرج رہا ہے۔ تقریباً دو ہزار آدمی کا مجمع تھا مگر سناٹے کا یہ عالم تھا کہ سوئی گرے تو آواز سن لو۔ لفظوں کی نشست، زبان کی روانی، آواز کے اتار چڑھاؤ سے معلوم ہوتا تھا کہ ایک دریا ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے۔ یا ایک برقی رو ہے کہ کانوں سے گزر کر دل و دماغ پر اثر کر رہی ہے۔ برس روز ہو چکا ہے مگر اب تک وہ آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ میں نے بڑے بڑے لکچر دینے والوں کو سنا ہے مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ لکچر پڑھ کرایسا اثر پیدا کرنے والا، میری نظر سے کوئی نہیں گزرا۔ کچھ تو بات تھی کہ آخر آخر زمانے میں سر سید مرحوم اپنے اکثر لکچر انہیں سے پڑھوایا کرتے تھے۔ یا تو یہ لکچر پڑھتے پڑھتے یہ خود منجھ گئے تھے یا یہ ان کی خداداد قابلیت تھی، جس کو دیکھ کر سر سید مرحوم نے اس کام کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا۔ غرض کچھ ہی ہو، اس میں ان کا مد مقابل نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔اسی روز ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ اس کا خیال کر کے اب تک مجھے ہنسی آتی ہے۔ ’’1261 میں دہلی کا ایک مشاعرہ‘‘ اس جلسے میں زندہ کیا گیا تھا۔ وہی ساز و سامان، وہی کپڑے اور وہی لوگ، سو برس کے بعد پھر سامنے لائے گئے تھے۔ اسٹیج کے انتظام ہی کے لیے مولوی عبد الحق صاحب نے مجھے پکڑ بلایا تھا۔ پہلے بہروپ اور نقلیں ہوتی رہیں، آخر پردہ گرا اور مشاعرے کا نمبر آیا۔ تھوڑی دیر میں اسٹیج کا رنگ بدلنا کچھ آسان کام نہ تھا۔دریاں، چاندنیاں، قالین بچھانا، گاؤ تکیے لگانا، سامان جمانا، مشعلیں جلانا، غرض اتنا کام تھا کہ پردہ گرے گرے بڑی دیر ہو گئی اور لوگوں میں ذرا ہل چل ہونے لگی۔ مجھے اس وقت سوا اس کے اور کچھ نہ سوجھا کہ ایک چھوٹی سی تقریر کر کے اس بے چینی کو کم کروں۔ میں نے کہا، ’’یارو! ذرا جلدی کرو، دیر ہو رہی ہے، مزا کر کرا ہو جائے گا۔ میں باہر جا کر کچھ بولنا شروع کرتا ہوں، تمہارا کام جب ختم ہو جائے تو سیٹی بجا دینا، میں اپنی اسپیچ ختم کردوں گا۔‘‘ اتنا کہہ میں چٹ باہر پردے کے سامنے آ گیا۔ مضمون سوچنے کا موقع نہیں ملا تھا، اس وقت یہی سمجھ میں آیا کہ اپنے مضمون کی تمہید کو ذرا مذاق میں ادا کر دوں۔جن صاحبوں نے وہ مضمون پڑھا ہے وہ واقف ہیں کہ میں نے اس مضمون کو مولوی کریم الدین صاحب مولف ’’طبقات الشعرائے ہند‘‘ سےمنسوب کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ مشاعرہ انہی کے مکان پر نواب زین العابدین خاں کی مدد سے ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے لکچر میں ابتداءً اس زمانے کی دہلی کا نقشہ کھینچا اور پھر مولوی کریم الدین صاحب کا پانی پت سے دہلی آنا مذاقیہ پیرائے میں بیان کیا۔ ان کی پھٹی ہوئی جوتیوں، ان کے خاک آلودہ کپڑوں، ان کی وحشت زدہ شکل اور ان کی مفلسی کا نقشہ خدا جانے کن کن الفاظ میں کھینچ گیا۔ پھر ان کے دلی میں آ کر تعلیم پانے، مسجد کی روٹیوں پر پڑے رہنے، دوسروں کی مدد سے مطبع کھولنے کا ذکر کر کے یہ بتایا کہ آخر کس طرح اس مشاعرے کی اجازت ہوئی اور کس طرح دہلی کے تمام شعرا اس میں جمع ہوئے۔میں اسپیچ دینے میں سیدھا کھڑا نہیں رہتا، کچھ ہاتھ پاؤں ہلاتا ہوں۔ خدا معلوم مولوی کریم الدین کاحال بیان کرنے میں کیوں میرے ہاتھ کا اشارہ کئی دفعہ مولوی وحید الدین سلیم کی طرف ہو گیا۔ مجھے تو معلوم نہیں مگرجلسے میں اس نے کچھ اور ہی معنی پیدا کر لیے۔ مولوی صاحب کے والد بھی پانی پت سے دہلی آئے تھے۔ کتابوں کا بیوپار کرتے تھے۔ لوگ سمجھے کہ مولوی کریم الدین ہی مولوی وحید الدین کے والد تھے۔ ناموں کے یکساں ہونے نے اس خیال کو اور تقویت دی۔ اب جو ہے وہ مولوی صاحب سے پوچھتا ہے، ’’مولوی صاحب! کیا مولوی کریم الدین صاحب آپ کے والد تھے؟‘‘مولوی صاحب کے تاؤ کچھ نہ پوچھو، دل ہی دل میں اونٹتے رہے۔ خدا خدا کر کے ڈیڑھ بجے مشاعرہ ختم ہوا۔ اسٹیج کے دروازے سے جو نکلتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ مولوی صاحب دیوار سے چپکے کھڑے ہیں، مجھے دیکھتے ہی بپھر گئے۔ کہنے لگے، ’’فرحت! یہ سب تیری شرارت ہے۔ کریم الدین کو میرا باپ بنا دیا۔‘‘ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر یہ کہہ کیا رہے ہیں۔ بڑی مشکل سےمولوی صاحب کو ٹھنڈا کیا۔ وہاں سے لے جا کر خیمے میں بٹھایا، پان بنا کر دیا، سگریٹ پیش کیا، جب جا کر ذرا نرم پڑے اور واقعہ بیان کیا۔میں نے کہا، ’’ مولوی صاحب! بھلا مجھ سے ایسی گستاخی ہو سکتی تھی۔ اول تو اس مذاق کا یہ موقع ہی کیا تھا، دوسرے مجھے کیا معلوم کہ آپ کے والد کون تھے، کہاں تھے، دہلی آئے بھی تھے یا نہیں، کتابیں بیچتے تھے یا کیا کرتے تھے۔‘‘کہنے لگے، ’’تو گھڑی گھڑی ہاتھ سے میری طرف کیوں اشارہ کرتا تھا۔‘‘ میں نے کہا، ’’مولوی صاحب! اسپیچ دینے میں ہاتھ کا اشارہ خود بہ خود اسی طرح ہو جاتا ہے۔ اب اگر اگلی صف میں بیٹھ کر آپ اس اشارے کو اپنے سے متعلق کر لیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘بہر حال یہ بات لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی جم گئی کہ مٹائے نہ مٹی۔ جب تک اورنگ آباد میں رہے، ہر شخص مولوی صاحب سے یہی سوال کرتا تھا، ’’مولوی صاحب! کیا مولوی کریم الدین صاحب آپ کے والد تھے؟‘‘ یہ کبھی تو ہنس کر چپ ہو جاتے، کبھی صرف جھڑک دیتے، کبھی جل کر کہتے، ’’جی ہاں، میرے والد تھے کچھ آپ کا دینا آتا ہے۔‘‘اورنگ آباد سے واپس آنے کے بعد میرا ان کے ہاں آنا جانا بہت ہو گیا تھا۔ جب کچھ لکھتا پہلے ان کوجا کر سناتا۔ بڑے خوش ہوتے، تعریفیں کرتے، دل بڑھاتے، ہائے ان کے گھر کا نقشہ اس وقت آنکھوں میں پھر گیا۔ گھر بہت بڑا تھا، مگر خالی ڈھنڈار، ساٹھ روپے مہینا کرایہ دیتے اور اپنی اکیلی جان سے رہتے۔ نہ بال نہ بچہ، نہ نوکر، نہ ماما۔ میں گیا۔ باہر کا دروازہ کھٹکھٹایا، آواز آتی، ’’کون؟‘‘میں نے کہا، ’’فرحت۔‘‘ اسی وقت کرتا پہنتے ہوئے آئے، دروازہ کھولا اندر لے گئے۔ بر آمدے میں ایک بان کی چارپائی پڑی ہے، دو تین تختے جڑی ٹوٹی پھوٹی کرسیاں ہیں۔ اندر ایک ذرا سی دری بچھی ہے، اس پر میلی چاندنی ہے۔ دو چار چوہا چکٹ تکئے اور ایک سڑی ہوئی رضائی رکھی ہے۔ دیواروں پر ایک دو سگریٹ کے اشتہاروں کی تصویریں اور تین چار پرانے کیلنڈر لٹکے ہیں۔ سامنے دیوار کی الماری میں پانچ چھ کنڈا ٹوٹی چائے کی پیالیاں، کنارے جھڑی رکابیاں، ایک دو چائے کے ڈبے رکھے ہیں۔ سامنے کے کمرے میں کھونٹیوں پر دو تین شیروانیاں، دو تین ٹوپیاں لٹک رہی ہیں۔ نیچے دو تین پرانے کھڑنک جوتوں کے جوڑے پڑے ہیں۔ لیجئے مولوی صاحب کے گھر بار کا یہ خلاصہ ہے۔مولوی صاحب بیٹھے ہیں۔ سامنے دو انگیٹھیاں رکھی ہیں۔ ایک پر پانی، دوسری پر دودھ جوش ہو رہا ہے۔ چائے بن رہی ہے۔ خود پی رہے ہیں، دوسروں کو پلا رہے ہیں۔ ایک نمک کا ڈلا پاس رکھا ہے، چائے بنائی، نمک کے ڈلے کو ڈال دو ایک چکر دے نکال لیا۔ بس سارے دن ان کا یہی شغل تھا۔ گھر میں برتن ہی نہیں تھے، کھانا کیسے پکتا اور کون پکاتا۔ خبر نہیں کہاں جا کر کھا پی آتے تھے۔کبھی میں گیا، دیکھا کہ دروازے میں یہ بڑا قفل لٹک رہا ہے، سمجھ گیا کہ مولوی صاحب کہیں چرنے چگنے تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے کئی دفعہ پوچھا بھی کہ مولوی صاحب! آپ کے ہاں کچھ پکتا پکاتا نہیں، کہنے لگے، ’’نہیں بھئی، میں نے تو مدتوں سے کھانا چھوڑ دیا ہے، صرف چائے پر گزران ہے۔‘‘تم مان لو میں تو نہیں مانتا، میں نے خود اپنی آنکھوں سے ان کو کھاتے اور خوب کھاتے دیکھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے گھر کا پکا نہیں کھاتے تھے اور کھاتے تو کیوں کر کھاتے۔ پکانے کاانتظام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ماما رکھنی پڑتی، سامان منگوانا ہوتا، لکڑی کاخرچ، تیل کا خرچ، نون کا خرچ، غرض اتنے خرچ کون اپنے سر باندھے اور اپنی بھلی چنگی جان کو بیٹھے بٹھائے روگ لگائے۔ چائے بنائی، پی لی۔ ادھر ادھر گئے، پیٹ بھر لیا، گھر آئے، بان کی کھری چار پائی پر لوٹ ماری، چلو زندگی کا ایک دن کٹ گیا۔ان کی بان کی چارپائی بھی نمائش میں رکھنے کے قابل تھی۔ ننگی پیٹھ اس پر اتنا لوٹے تھے کہ بان صاف اور چمکدار ہو کر کالی اطلس ہو گیا تھا۔ ادوان خود کھینچتے تھے اور ایسی کھینچتے تھے کہ ہاتھ مارو تو طبلے کی آواز دے۔ خدا معلوم اب یہ چارپائی کس کے قبضے میں ہے۔ کسی کے پاس بھی ہو، سونے میں بڑا آرام دے گی۔مولوی صاحب کو مٹھاس کا بڑا شوق تھا۔ خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے۔ ان کے بھی یار، دوست شاگرد غرض کوئی نہ کوئی ان کو مٹھائی پہنچا ہی دیتا تھا۔ یہ کچھ کھاتے کچھ رکھ چھوڑتے۔ مٹھائی کی ٹوکریوں میں جو کاغذ آتے ان کو پونچھ پونچھ صاف کر جمع کرتے جاتے، انہی کاغذوں پر خط لکھتے، غزلیں لکھتے، غرض جو کچھ لکھنا پڑھنا ہوتا بس انہیں کاغذوں پر ہوتا، خدا معلوم ایسے جھر جھرے کاغذ پر یہ لکھتے کیوں کر تھے۔مولوی صاحب دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتے تھے، ہاں ڈرتے تھے تو مولوی عبد الحق صاحب سے۔ میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ مولوی عبد الحق صاحب کے متعلق ان کی رائے معلوم کروں مگر وہ کسی نہ کسی طرح ٹال گئے۔ تھوڑے دن اور جیتے تو پوچھ ہی لیتا۔ دوسروں کے متعلق مجھے ان کی رائے معلوم ہے۔ اگر ان ہی کے الفاظ میں لکھوں تو ابھی فوج داری ہو جائے۔مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ ایسے ایسے الفاظ دماغ سے اتارتے کہ باید و شاید۔ جہاں ثبوت طلب کیا اور انہوں نے شعر پڑھا، اور کسی نہ کسی بڑے شاعر سے منسوب کر دیا۔ اب خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ خود ان کا شعر ہوتا تھا یا واقعی اس شاعر کا۔ بھلا ایک ایک لفظ کے لیے کون دیوان ڈھونڈتا بیٹھے۔ اگر کوئی تلاش بھی کرتا اور وہ شعر دیوان میں نہ ملتا تو یہ کہہ دینا کیا مشکل تھا کہ یہ غیر مطبوعہ کلام ہے۔ انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر پورے حاوی تھے۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں، ان ٹکڑوں کی اصل کیا ہے، اور اس اصل کے کیا معنے ہیں۔ اس بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے کہ ایک دفعہ کوئی لفظ سنا اور یاد ہو گیا۔الفاظ کے ساتھ انہوں نے اس پر بھی بہت غور کیا تھ اکہ انگریزی میں اصطلاحات بنانے میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، انہیں اصولوں کو اردو کی اصطلاحات وضع کرنے میں کام میں لاتے اور ہمیشہ کامیاب ہوتے۔ میری کیا اس وقت سب کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات بنانے کے کام میں مولوی وحید الدین سلیم اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور اب ان کے بعد ان کا بدل ملنا دشوار تو کیا نا ممکن ہے۔ عربی اور فارسی میں اچھی دسترس تھی، مگر وہ اردو کے لئے بنے تھے۔ اور اردو ان کے لیے۔ خوب سمجھتے تھے اور خوب سمجھاتے تھے۔ زبان کے جو نکات وہ اپنے شاگردوں کو بتا گئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ کالج کے لونڈے وہ مضمون لکھ جاتے ہیں، جو بڑے بڑے اہل قلم کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتے۔مولوی صاحب کیا مرے، زبان اردو کا ایک ستون گر گیا اور ایک ایسا ستون گرا کہ اس جیسا بننا تو کجا، اس حصے میں اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے۔ اس کی جگہ بھرنے کے لیے دوسرے پروفیسر کی تلاش ہو رہی ہے مگر عثمانیہ یونیورسٹی کےا رباب حل و عقد لکھ رکھیں کہ چاہے اس سرے سے اس سرے تک ہندوستان چھان مارو، مولوی وحید الدین سلیم جیسا پروفیسر ملنا تو بڑی بات ہے، ان کا پاسنگ بھی مل جائے تو غنیمت اور بہت غنیمت سمجھو۔
حاشیہ
(۱) ’’پھر‘‘ کی جگہ اگر ’’اور‘‘ رکھا جائے تو مادۂ تاریخ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |